Monday, May 30, 2016

نفاس اور اس کے اَحکام - نفاس اور اس کے اَحکام

نفاس اور اس کے اَحکام - نفاس اور اس کے اَحکام
===========
نفاس سے مراد وہ خون ہے جو ولادت کے وقت رحم مادر سے جاری ہوتا ہے اور عموماً چالیس دن تک تھوڑاتھوڑا بہتا رہتا ہے۔ بسااوقات یہ خون ولادت سے پہلے بھی جاری ہوجاتا ہے۔ جس کی مدت فقہاء نے دو تین دن تک محدود کردی ہے۔ غالباً ولادت کے وقت ہی جاری ہوتا ہے۔ اور معتبر ولادت اس وقت ہوتی ہے جب انسان کی خلقت واضح ہوجائے، اور انسان کی خلقت واضح ہونے کی کم از کم مدت ۸۱ دن یا غالب مدت تین ماہ ہے۔ اگر کسی عورت سے اس مدت سے پہلے کوئی شئ ساقط ہوگئی اور اس کے ساتھ خون جاری ہوگیا تو اس کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی اس خون کی وجہ سے عورت نماز روزہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ یہ فاسد خون ہے اور ا س کا حکم مستحاضہ کا ہوگا۔
عموماً مدت نفاس ولادت یاولادت سے دو تین دن پہلے سے لے کر چالیس دن تک ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت اُم سلمہؓ کی حدیث ہے:
’’کَانَتِ النُّفَسَائُ تَجْلِسُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ أرْبَعِیْنَ یَوْمًا‘‘ [جامع الترمذي:۱۳۹]’’نبی کریمﷺکے زمانہ میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔‘‘
اور اس امر پر اہل علم کا اجماع ہے جیساکہ ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
اگر کوئی عورت چالیس دن سے پہلے ہی طاہرہ (پاکیزہ) ہوجاتی ہے اور اس کا خون منقطع ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ کیونکہ نفاس کے خون کی کم از کم کوئی حد متعین نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی سے اس کی تحدید ثابت ہے اور اگر چالیس دن مکمل ہوجانے کے بعد بھی خون جاری ہے اور منقطع نہیں ہوا تو اگر وہ عادت حیض کے موافق ہے تو اس کو حیض شمار کیا جائے گا اور اگر عادت حیض کے موافق نہیں ہے تو استحاضہ ہوگا اور عورت چالیس دن گذر جانے کے بعد اپنی عبادات کو ترک نہیں کرے گی۔

No comments:

Post a Comment