【منافقین کی طرف سےجماعت اہلِ حدیث پر لگائےگئےجھوٹے بےبنیاد الزامات کا جائزہ اوراسکارد
======================
[ 1 ] پہلی غلط فہمی :اوراسکا ازالہ
======================
(سوال) کیا جماعت اہلِ حدیث ایک نیا فرقہ ہے جو انگریزوں کی ایجاد ہے نعُوذُ باللہ :
======================
(جواب) اہلِ حدیث کے سلسلہ میں پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ ایک نیا فرقہ ہے ، ماضی میں اس فرقہ کا وجود نہیں تھا ہندوستان میں انگریزوں نے اس فرقہ کی بنیاد ڈالی ہے :
☜ یہ محض تاریخی حقائق سے لاعلمی کا نتیجہ ہے ، کیا جماعت اہلِ حدیث ماضی میں نہیں تھے ؟ آئیے دیکھتے ہیں حقیقت کیا ہے ،
1⃣ جماعت اہلِ حدیث کے امام حضرت محمد رسُول اللہ ﷺ ہیں :
ابن کثیر اللہ تعالیٰ کے فرمان :
【يَومَ نَدعُو كُلُّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِم : (ترجمہ : اُس دن ہم تمام لوگوں کو اُن کے امام کے ساتھ بلائیں گے) الاسراء : 71】کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں :
"سلف میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یہ اصحاب الحدیث کا سب سے بڑا شرف ہے کیونکہ ان کے امام اللہ کے نبی محمد رسُول اللہ ﷺ ہیں" (تفسیر ابن کثیر : سورۃ الاسراء ۷۱)
☜ تفسیر ابن کثیر تمام علمی حلقوں میں ایک قابل اعتماد تفسیر ہے ، ابن کثیر رحمه اللہ 701 ہجری میں پیدا ہوئے اور 774 ہجری میں اُن کی وفات ہوئی ، وہ نہ ہندوستان کے تھے نہ اُس زمانہ میں انگریزوں کا کوئی وجود تھا ، پھر ابن کثیر رحمه اللہ اہلِ حدیث کے سلسلہ میں یہاں اپنا قول نہیں بلکہ اپنے سے پہلے کے اہلِ علم کا قول ذکر کیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سلف میں اصحاب الحدیث نام سے پائے جانے والے اہلِ علم اللہ کے نبی محمد رسُول اللہ ﷺ کو اپنا امام مانتے تھے :
☜ کیا صرف اتنی بات ہی اس مفروضہ کی تردید کے لیئے کافی نہیں کہ آج سے سات سو سال سے بھی زیادہ پرانی کتاب میں ایک قابل اعتماد مفسر ، محدث اور مورخ نے اہلِ حدیث کے سلسلہ میں قرآن کی آیت اور سلف کے قول سے استدلال کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ حدیث کا وجود ابن کثیر سے بھی قدیم ہے ،
2⃣ امام ابُو حنیفہ رحمه اللہ کے اصحاب کے دور میں اہلِ حدیث کا وجود :
☜ حنفی مذہب کی کتاب درمختار کی شرح ردالمختار میں ابن عابدین لکھتے ہیں :
"ایک حکایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ ابُوبکر الجوزجانی کے زمانہ میں ابُو حنیفہ رحمه اللہ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے اصحاب الحدیث میں سے کسی کے ہاں بیٹی اسکی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس {اہلِ حدیث} نے انکار کردیا ، ہاں مگر اس شرط پر کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دے اور امام کے پیچھے قرآت کرے اور رکوع کے وقت رفع یدین کرے وغیرہ ، اُس شخص نے یہ شرط قبول کرلی لہٰذا اس (اہلِ حدیث) نے اپنی بیٹی کا نکاح اُس سے کردیا : (ردالمختار : کتاب الحدود)
ابوبکر جوزجانی امام محمد بن حسن الشیبانی کے شاگرد ابو سلیمان جوزجانی کے شاگرد ہیں ، امام محمد خود امام ابو حنیفہ رحمه اللہ کے شاگرد ہیں ،
☜ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کے اصحاب کے زمانہ میں بھی اہلِ حدیث کا وجود تھا ، اتنا ہی نہیں بلکہ اہلِحدیث اس زمانہ میں بھی بعض فقہی مسائل جنہیں فروعی کہہ کر بےوزن قرار دیا جاتا ہے ، مثلاً قراءۃ خلف الامام ، رفع یدین وغیرہ کا خاص طور سے اہتمام کرتے تھے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہلِحدیث حضرات دین کے معاملہ میں بہت سنجیدہ اور پختہ تھے ، اُن کے نزدیک دین رشتہ داری سے زیادہ اہم تھا ، اپنی بچّیوں کا نکاح کرنے سے قبل وہ رشتہ بھیجنے والے کو نبی کریم ﷺ کے فرمان اور سُنّت کے اہتمام پر آمادہ کرلیا کرتے تھے ، اس حکایت سے اہلِ حدیث کا نہ صرف قدیم ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ اُن کا شروع ہی سے دین کے سلسلہ میں بے لچک ہونا معلوم ہوتا ہے جو خود دینی پختگی اور ثابت قدمی کی دلیل ہے ، بلکہ ہم اس سے بھی پہلے کے دور کا جائزہ لیں تو بھی اہلِ حدیث کا وجود مل جاتا ہے :
3⃣ امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کے شاگرد ابو یُوسُف رحمه اللہ کا اہلِ حدیث کی طرف میلان :
"ابو یُوسُف القاضی اصحاب الحدیث سے بہت محبت کرتے اور انہیں کی طرف مائل تھے : {تاریخ بغداد : من اسمہ یعقوب}
☜ لیجئیے اہلِ حدیث کا وجود نہ صرف امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کے شاگردِ خاص امام ابو یُوسُف القاضی کے دور میں ثابت ہوگیا بلکہ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اہلِ حدیث سے خود امام ابو یُوسُف متاثر تھے بلکہ ان کی طرف مائل بھی تھے ،
☜ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کوئی قابل قدر شخصیت اہلِ حدیث میں شمار کی گئی ہے جس کا علمی مقام اہلِ علم کے نزدیک بھی مسلّم ہو اور جسے عام آدمی بھی پہچانتا ہو ؟ آئیے یہ بات بھی حنفی مذہب ہی کی ایک مشہور کتاب سے معلوم کرتے ہیں :
4⃣ امام بخاری رحمه اللہ اہلِ حدیث میں سے تھے :
عین الہدایہ میں لکھا ہے :
"ہم نے اجماع کیا کہ شافعی و مالکی و حنبلی بلکہ تمام اہلِ حدیث مثل امام بخاری وغیرہ و ابن جریر طبری حتّٰی کہ علمائے ظاہریہ سب اہلِ سُنّتہ والجماعتہ برحق ہیں اور سب کا تمسک قرآن و احادیث اہلِ السُنّتہ پر عقائد حقہ کے ساتھ ہے ، {عین الہدایہ ، ج 1 ص 538}
(1) حنفی حضرات کا اجماع ہے کہ تمام اہلِ حدیث اہلِ السُنّتہ والجماعتہ ہیں اور برحق ہیں ،
(2) اہلِ حدیث ظاہریہ نہیں ہیں بلکہ دونوں الگ ہیں ،
(3) مفسر امام ابن جریر الطبری اور محدث امام بخاری دونوں اہلِ حدیث تھے :
☜ امام بخاری رحمه اللہ جیسی جلیل القدر شخصیت کا نام شافعی ، مالکی و حنبلی کی بجائے اہلِ حدیث کی مثال میں ذکر کرنا نہ صرف اہلِ حدیث کی قدامت کی دلیل ہے بلکہ شرف بھی ہے :
☜ یہاں یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اہلِ حدیث کے سلسلہ میں خود امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کی کیا رائے ہے :
5⃣ امام احمد و بخاری و ابن مبارک کے نزدیک اہلِ حدیث الطائفہ المنصورہ ہیں :
مختلف الفاظ و طرق سے ایک حدیث بخاری و مسلم و دیگر کتب احادیث میں آئی ہے ،
"رسُول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : "میری اُمّت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (یعنی دین) پر قائم رہے گا ، اُن کا ساتھ چھوڑنے والے یا اُن کی مخالفت کرنے والے اُنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ (یعنی قیامت) آجائے اور وہ لوگوں پر غالب ہی رہیں گے ، {صحیح مسلم / کتاب الامارات / 3548}
☜ یہ طائفہ (جماعت) کون ہیں ؟ اس کے جواب کے لیئے آئیے دیکھتے ہیں اُمّت کے جلیل القدر آئمّہ کا کیا کہنا ہے ؟
✅ فضل بن زیاد کہتے ہیں : میئں نے امام احمد بن حنبل کو سُنا ، انہوں نے یہ حدیث بیان کی {میری اُمّت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی} تو احمد بن حنبل نے فرمایا : اگر یہ اصحاب الحدیث نہیں تو میئں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں ؟ {شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی 42
یعنی امام احمد بن حنبل کے زدیک یہ جماعت اہلِ حدیث کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی ،
✅ امام بخاری رحمه اللہ فرماتے ہیں : "(حدیث میں مذکورہ طائفہ سے) مراد اصحاب الحدیث ہیں" {شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی 45}
✅ عبدُاللہ بن مبارک تبع تابعین میں سے ہیں ، اُن کی شخصیت اُمّت میں کتنی مسلّم ہے یہ بات امام ذہبی رحمه اللہ کے قول سے معلوم ہوتی ہے : امام ذہبی فرماتے ہیں : "عبدُاللہ بن مبارک کی بیان کی ہوئی حدیثوں کے حُجّت (یعنی قابلِ قبول) ہونے پر اجماع ہے ، {سیر اعلام النبلاء ایڈیشن الرسالہ : 380/8}
☜ اس جماعت کے بارے میں عبدُاللہ بن مبارک رحمه اللہ فرماتے ہیں : "وہ (یعنی حق پر قائم رہنے والی جماعت) میرے نزدیک اصحاب الحدیث ہیں ، {شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی 41}
☜ یہاں کوئی یہ نہ کہے کہ ان عبارات میں لفظ اصحاب الحدیث آیا ہے اہلِ حدیث نہیں ، یاد رکھئیے اہلِ حدیث اور اصحاب الحدیث دونوں ایک ہی معنی ہیں ، خود محدثین دونوں کا استعمال کرتے تھے :
☜ مثلا اسی حدیث کے سلسلہ میں محدث علی بن مدینی فرماتے ہیں : "وہ (یعنی حق پر قائم رہنے والی جماعت) اہلُ الحدیث ہیں" {سنن ترمذی 2229 ، شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی 9}
☜ یہاں علی بن مدینی نے اصحاب الحدیث کے بجائے اہلِ حدیث کا لفظ استعمال کیا ہے ، علی بن مدینی کون ہیں ؟ علی بن مدینی کا مقام بتانے کے لیئے امام بخاری رحمه اللہ کا قول کافی ہے ،
☜ امام بخاری رحمه اللہ فرماتے ہیں : "علی بن مدینی کے سوا مجھے کسی اور کے سامنے چھوٹے ہونے کا احساس نہیں ہوا" {سیر اعلام النبلاء ایڈیشن الرسالتہ 420/12}
☜ ان تمام اقوال سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سلف میں لفظ اہلِ حدیث معروف تھا اور یہ اُس جماعت پر بولا جاتا تھا جو قیامت تک حق پر قائم رہے گی ،
✅ ایک شُبہہ کا ازالہ :
☜ یہاں ایک غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے ، وہ یہ کہ بعض لوگوں کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ ان اقوال میں اہلِ حدیث کا لفظ محدثین کے لیئے استعمال ہوا ہے نہ کہ کسی فرقہ یا جماعت کے لیئے ، وہ کہتے ہیں کہ جیسے تفسیر کے ماہر کو مفسر یا اہلِ تفسیر کہتے ہیں اسی طرح حدیث کے میدان میں ماہرین کو محدثین یا اہلِ حدیث کہتے ہیں ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، اس کے غلط ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر واقعی اہلِ حدیث سے مراد محض محدثین ہیں تو پھر حدیث میں قیامت تک حق پر قائم رہنے والی جس جماعت کا ذکر کیا گیا ہے اُس میں سے مفسرین اور فقہاء کو خارج کرنا پڑے گا ، حدیث کے الفاظ میں غور و فکر کرنے سے اس خیال کی غلطی اور بھی واضح ہوجاتی ہے کیونکہ حدیث میں اہلِ حدیث کا تذکرہ اہلِ باطل کے بالمقابل کیا گیا ہے نہ کہ اہلِ فقہ و اہلِ تفسیر کے بالمقابل ،
☜ اپنی اس بات کی مزید وضاحت کے لیئے ہم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ کا قول پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو انہیں کی کتاب غُنیَةُ الطّالِبِینَ میں موجود ہے ،
6⃣اصحاب الحدیث ہی اہلِ السُنّت ہیں :
☜ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ فرماتے ہیں : "اور یہ جان لو کہ اہلِ بدعت کی کچھ علامات ہیں جن سے وہ پہچان لیئے جاتے ہیں ، ان کی ایک علامت اہلِ اثر کی عیب جوئی کرنا ہے ، لہٰذا زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر کو حشویہ کہتے ہیں ، اور اس سے ان کا مقصد محض آثار کو رد کرنا ہوتا ہے ، قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر کو مجبرہ کہتے ہیں ، جہمیہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہلِ سُنّت کو مشبہ کہتے ہیں ، رافضہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر کو ناصبہ کہتے ہیں ، اور (اہلِ بدعت کی یہ ساری باتیں) اہلِ سُنّت سے ان کے تعصب اور بھڑاس کا نتیجہ ہیں ، اور ان کا (یعنی اہلِ سُنّت کا) تو بس ایک ہی نام ہے اور وہ ہے اصحاب الحدیث ، بدعتیوں کے دیئے ہوئے ان تمام بُرے القاب کا اُن سے کوئی تعلق نہیں ، یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کفّارِ مکّہ رسُول اللہ ﷺ کو ساحر ، شاعر ، مجنون ، مفتون اور کاہن جیسے القاب دیئے تھے حالانکہ آپ ﷺ ، اس کے فرشتوں ، انسانوں ، جنوں اور تمام مخلوق کے نزدیک اُن تمام بُرائیوں سے پاک ایک رسُول اور نبی تھے ، {غنیة الطالبین ، ج ، 1 ص ، 166}
☜ درج بالا عبارت میں بعض باتیں قابلِ غور ہیں :
(1) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ نے اہلِ حدیث کا تذکرہ باطل فرقوں کے بالمقابل کیا ہے ،
(2) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ کے نزدیک اہلِ حدیث کے خلاف بے بنیاد باتیں گھڑنا باطل فرقوں کی علامت ہے ،
(3) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ کے نزدیک اہلِ حدیث اور اہلِ سُنّت ایک ہی ہیں ،
(4) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمه اللہ کے نزدیک اہلِ سُنّت کا ایک ہی نام ہے : اصحاب الحدیث ،
☜ اس پوری گفتگو کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی اہلِ حدیث کو ایک نیا فرقہ کہہ کر مشکوک بنانا صحیح ہے ؟ ہم اس کا جواب قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں ،
وآخرُ دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ترتیب ۔ ۔ابوزیدظمیرپونہ ھند تصحیح۔۔ابوالمكرم سلفی
No comments:
Post a Comment