Tuesday, May 31, 2016

اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے


اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے

@@@@@@@@@@@@@@@@@

Sahih Bukhari Hadees # 4326

حدثنا محمد بن بشار ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا غندر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عاصم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت أبا عثمان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت سعدا ـ وهو أول من رمى بسهم في سبيل الله ـ وأبا بكرة ـ وكان تسور حصن الطائف في أناس ـ فجاء إلى النبي صلى الله  وسلم فقالا سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏  ‏ من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام ‏  ‏‏.

میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے جو طائف کے قلعے پر چند مسلمانوں کے ساتھ چڑھے تھے اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ اور ہشام نے بیان کیا اور انہیں معمر نے خبر دی، انہیں عاصم نے، انہیں ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی نے، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عاصم نے بیان کیا کہ میں نے (ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ سے یہ روایت ایسے دو اصحاب (سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما) نے بیان کی ہے کہ یقین کے لیے ان کے نام کافی ہیں۔ انہوں نے کہا یقیناً ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا اور دوسرے (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں جو تیسویں آدمی تھے ان لوگوں میں جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔

لونڈی سے مباشرت

لونڈی سے مباشرت
============
لونڈی کی وضاحت کریں اور بغیر نکاح لونڈی سے مباشرت کر سکتے ہیں

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

لونڈی اس غیر مسلم عورت کو کہاجاتا ہے جو جنگ میں قید ہوکر آئے۔ قید ہو نے کے بعد اگر وہ اسلام بھی قبول کر لے تو لونڈی ہی رہے گی, جب تک اسے آزاد نہ کر دیا جائے۔جس طرح باقی مال غنیمت تقسیم ہوتا ہے اسی طرح غنیمت میں حاصل ہونے والے غلام اور لونڈیاں بھی غازیوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لونڈیوں , غلاموں سمیت ہمہ قسم مال غنیمت مسلمان حاکم کے پاس جمع کیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ چاہے تو انہیں حکومتی میں قید میں رکھے, چاہے تو ان قیدیوں کے بدلے مسلمان قیدی کفارسے آزاد کروائے, یا ان سے فدیہ (تاوان) لے کر انہیں چھوڑ دے, اور چاہے تو احسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کر دے۔ اور اگر مناسب سمجھے تو غازیوں میں باقی مال غنیمت کی طرح تقسیم کر دے۔ یعنی اسکے فیصلہ کا اختیار اللہ تعالى نے حاکم وقت کو دیا ہے۔ جس کے حصہ میں کوئی لونڈی آئےاسکے لیے اپنی لونڈی سے جماع کرنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ اگر وہ اس سے نکاح کر لے تو یہ اسکی بیوی بن جائے گی۔ اور اگر نکاح نہ کرے تو لونڈی کی حیثیت سے ہی اسکے ساتھ ہمبستری کر سکتا ہے۔ اللہ ﷯ کا فرمان ہے: إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (مؤمن اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ) مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے, تو وہ ملامت زدہ نہیں ہیں۔ [المؤمنون : 6] اس لونڈی سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ آزاد ہوگی, اور اپنے باپ کی وارث بنے گی۔ اور اگر لونڈی جب قید ہو اس وقت وہ حاملہ ہو, تو سابقہ حمل کے دوران اس لونڈی سے جماع کرنا منع ہے, اور وہ سابقہ حمل سے پیدا ہونے والا بچہ بھی اسکا غلام بنے گا, اسکی وراثت کا حقدار نہیں ہوگا۔ [سنن أبي داود: 2156]

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-790.html

طلاق کے کچھ اسباب -

طلاق کے کچھ اسباب -
➖➖➖➖➖➖➖➖

👇طلاق کے اسباب بہت ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

✅خاوند اوربیوی کے درمیان عدم موافقت ، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت نہ ہو ، یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت نہ کریں ۔

✅عورت کا بداخلاق ہونا ، یا پھرنیکی اوربھلائی کے کاموں میں خاوند کی سمع واطاعت نہ کرنا ۔

✅خاوند کا بداخلاق ہونا اور عورت پرظلم وزیادتی اور ناانصافی کرنا ، اوربیوی کے حقوق کی ادائيگی نہ کرسکنا ۔

✅بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرسکتی ہو ۔

✅دونوں میں سے کسی ایک کا معصیت وگناہ میں مبتلا ہونا یا پھر دونوں ہی گناہ میں ملوث ہوں ، جس کی بنا پر ان کے حالات بگڑ جائيں ، جس کے نتیجے میں طلاق ہوجاۓ ۔
مثلا خاوند نشہ کا عادی ہویا پھر سگرٹ نوش ، یا بیوی نشہ کرتی ہواورسگرٹ نوش ہو ۔

✅بیوی اورساس سسر یا پھر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بہو کے معاملات خراب ہوں ، اوروہ ان کے معاملہ میں کوئی حکمت بھری سیاست نہ کرسکے ۔
✅بیوی کا خاوند کے لیے صاف ستھرااور بن سنور کرنہ رہنا اوراچھا لباس اورخوشبواستعمال نہ کرنا ، اسی طرح اچھی اور محبت بھری کلام نہ کرنا ، ہشاش بشاش چہرے سے نہ ملنا وغیرہ ۔
واللہ اعلم  .دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 666 ) للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ۔
〰〰〰〰〰〰〰〰

طلاق کے کچھ اسباب -

طلاق کے کچھ اسباب -
➖➖➖➖➖➖➖➖

👇طلاق کے اسباب بہت ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

✅خاوند اوربیوی کے درمیان عدم موافقت ، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت نہ ہو ، یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت نہ کریں ۔

✅عورت کا بداخلاق ہونا ، یا پھرنیکی اوربھلائی کے کاموں میں خاوند کی سمع واطاعت نہ کرنا ۔

✅خاوند کا بداخلاق ہونا اور عورت پرظلم وزیادتی اور ناانصافی کرنا ، اوربیوی کے حقوق کی ادائيگی نہ کرسکنا ۔

✅بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرسکتی ہو ۔

✅دونوں میں سے کسی ایک کا معصیت وگناہ میں مبتلا ہونا یا پھر دونوں ہی گناہ میں ملوث ہوں ، جس کی بنا پر ان کے حالات بگڑ جائيں ، جس کے نتیجے میں طلاق ہوجاۓ ۔
مثلا خاوند نشہ کا عادی ہویا پھر سگرٹ نوش ، یا بیوی نشہ کرتی ہواورسگرٹ نوش ہو ۔

✅بیوی اورساس سسر یا پھر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بہو کے معاملات خراب ہوں ، اوروہ ان کے معاملہ میں کوئی حکمت بھری سیاست نہ کرسکے ۔
✅بیوی کا خاوند کے لیے صاف ستھرااور بن سنور کرنہ رہنا اوراچھا لباس اورخوشبواستعمال نہ کرنا ، اسی طرح اچھی اور محبت بھری کلام نہ کرنا ، ہشاش بشاش چہرے سے نہ ملنا وغیرہ ۔
واللہ اعلم  .دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 666 ) للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ۔
〰〰〰〰〰〰〰〰

طلاق کے کچھ اسباب -

طلاق کے کچھ اسباب -
➖➖➖➖➖➖➖➖

👇طلاق کے اسباب بہت ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

✅خاوند اوربیوی کے درمیان عدم موافقت ، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت نہ ہو ، یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت نہ کریں ۔

✅عورت کا بداخلاق ہونا ، یا پھرنیکی اوربھلائی کے کاموں میں خاوند کی سمع واطاعت نہ کرنا ۔

✅خاوند کا بداخلاق ہونا اور عورت پرظلم وزیادتی اور ناانصافی کرنا ، اوربیوی کے حقوق کی ادائيگی نہ کرسکنا ۔

✅بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرسکتی ہو ۔

✅دونوں میں سے کسی ایک کا معصیت وگناہ میں مبتلا ہونا یا پھر دونوں ہی گناہ میں ملوث ہوں ، جس کی بنا پر ان کے حالات بگڑ جائيں ، جس کے نتیجے میں طلاق ہوجاۓ ۔
مثلا خاوند نشہ کا عادی ہویا پھر سگرٹ نوش ، یا بیوی نشہ کرتی ہواورسگرٹ نوش ہو ۔

✅بیوی اورساس سسر یا پھر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بہو کے معاملات خراب ہوں ، اوروہ ان کے معاملہ میں کوئی حکمت بھری سیاست نہ کرسکے ۔
✅بیوی کا خاوند کے لیے صاف ستھرااور بن سنور کرنہ رہنا اوراچھا لباس اورخوشبواستعمال نہ کرنا ، اسی طرح اچھی اور محبت بھری کلام نہ کرنا ، ہشاش بشاش چہرے سے نہ ملنا وغیرہ ۔
واللہ اعلم  .دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 666 ) للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ۔
〰〰〰〰〰〰〰〰

طلاق کے کچھ اسباب -

طلاق کے کچھ اسباب -
➖➖➖➖➖➖➖➖

👇طلاق کے اسباب بہت ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

✅خاوند اوربیوی کے درمیان عدم موافقت ، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت نہ ہو ، یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت نہ کریں ۔

✅عورت کا بداخلاق ہونا ، یا پھرنیکی اوربھلائی کے کاموں میں خاوند کی سمع واطاعت نہ کرنا ۔

✅خاوند کا بداخلاق ہونا اور عورت پرظلم وزیادتی اور ناانصافی کرنا ، اوربیوی کے حقوق کی ادائيگی نہ کرسکنا ۔

✅بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرسکتی ہو ۔

✅دونوں میں سے کسی ایک کا معصیت وگناہ میں مبتلا ہونا یا پھر دونوں ہی گناہ میں ملوث ہوں ، جس کی بنا پر ان کے حالات بگڑ جائيں ، جس کے نتیجے میں طلاق ہوجاۓ ۔
مثلا خاوند نشہ کا عادی ہویا پھر سگرٹ نوش ، یا بیوی نشہ کرتی ہواورسگرٹ نوش ہو ۔

✅بیوی اورساس سسر یا پھر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بہو کے معاملات خراب ہوں ، اوروہ ان کے معاملہ میں کوئی حکمت بھری سیاست نہ کرسکے ۔
✅بیوی کا خاوند کے لیے صاف ستھرااور بن سنور کرنہ رہنا اوراچھا لباس اورخوشبواستعمال نہ کرنا ، اسی طرح اچھی اور محبت بھری کلام نہ کرنا ، ہشاش بشاش چہرے سے نہ ملنا وغیرہ ۔
واللہ اعلم  .دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 666 ) للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ۔
〰〰〰〰〰〰〰〰

طلاق کے کچھ اسباب -

طلاق کے کچھ اسباب -
➖➖➖➖➖➖➖➖

👇طلاق کے اسباب بہت ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

✅خاوند اوربیوی کے درمیان عدم موافقت ، وہ اس طرح کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت نہ ہو ، یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت نہ کریں ۔

✅عورت کا بداخلاق ہونا ، یا پھرنیکی اوربھلائی کے کاموں میں خاوند کی سمع واطاعت نہ کرنا ۔

✅خاوند کا بداخلاق ہونا اور عورت پرظلم وزیادتی اور ناانصافی کرنا ، اوربیوی کے حقوق کی ادائيگی نہ کرسکنا ۔

✅بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرسکتی ہو ۔

✅دونوں میں سے کسی ایک کا معصیت وگناہ میں مبتلا ہونا یا پھر دونوں ہی گناہ میں ملوث ہوں ، جس کی بنا پر ان کے حالات بگڑ جائيں ، جس کے نتیجے میں طلاق ہوجاۓ ۔
مثلا خاوند نشہ کا عادی ہویا پھر سگرٹ نوش ، یا بیوی نشہ کرتی ہواورسگرٹ نوش ہو ۔

✅بیوی اورساس سسر یا پھر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بہو کے معاملات خراب ہوں ، اوروہ ان کے معاملہ میں کوئی حکمت بھری سیاست نہ کرسکے ۔
✅بیوی کا خاوند کے لیے صاف ستھرااور بن سنور کرنہ رہنا اوراچھا لباس اورخوشبواستعمال نہ کرنا ، اسی طرح اچھی اور محبت بھری کلام نہ کرنا ، ہشاش بشاش چہرے سے نہ ملنا وغیرہ ۔
واللہ اعلم  .دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 666 ) للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ۔
〰〰〰〰〰〰〰〰

میت کے لئے تیجا چالیسواں وغیرہ کرنا -

میت کے لئے تیجا چالیسواں وغیرہ کرنا -
======================
دن, تاریخ اور رسموں کی پابندی کے بغیر جائز ہے۔اور صرف فقراء مساکین کا حق ہے وگرنہ ناجائز ہے۔۔اب ان کا  مفصل جواب سنیئے۔

1۔شاہ ولی اللہ دہلوی  ؒوصیت نامہ میں لکھتے ہیں۔ از بدعات شنعیہ ما مردم اسراچ است۔در ماتم یا درسوم وچہلم و ششماہی۔فاتحہ سالینہ وایں ہمہ اور قرون اولی وجود نہ بود مصلحت آنست۔کہ غیر تعزیہ وارثان میت تاسہ روز وطعام ایشاں یک شبان وروز زر سے نہ باشد یعنی ''جو بد  ترین بدعتیں ہم میں جاری ہیں۔ان میں ماتم کی فضول خرچی اور تیجہ چالیسواں ششماہی۔و فاتحہ برسی ہ۔خیر القرون میں ان تمام بدعتوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ صرف تین روز تک میت کے وارثوں کے تسلی وتسکین و ہمدرری اور  غم  خواری اور ایک دن رات تک انہیں کھانا بھیجنے کے سوا سب رسموں کو ترک کر دینا چاہیے۔

2۔امام سندھی مدنی حاشیہ ابن ماجہ میں لکھتے ہیں۔
قد زكر كثير من الفقهاء ان الضيافة من اهل النيت قلب المعقول لان الضيافة  حقها للسرور لا للحزن
یعنی اکثر فقہاء نے یہ لکھا ہے ۔کہ میت والے دعوت کریں یہ تو بالکل الٹی بات ہے اور خلاف عقل ہے۔ضیافت خوشی  کے موقع پر ہوتی ہے نہ کم غم کے موقع پر۔

3۔حنفیہ کے سر تاج امام ابن الہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔''اہل میت کی طرف سے دعوتوںکا ہونا مکروہ ہے۔کیونکہ مشروع تو یہ ہے کہ  خوشی کے وقت دعوتیں کی جائیں۔نہ کے غمی کے وقت  پس مصیبت کے وقت یعنی میت کے بعد یہ دعوتیں سب کی سب بدترین بدعت ہیں۔

4۔مولانا عبد الحئ حنفی لکھنوی مجموعہ فتاویٰ میں فاتحہ مروجہ کے طریقہ کی نسبت لکھتے ہیں۔اس کی اصل شرع میں نہیں ہے۔اور سوائے ہندوستان کے کسی ملک میں مروج نہیں۔

5۔مجموعہ فتاویٰ جلد سوم میں مروجہ فاتحہ کی نسبت لکھتے ہیں۔
''ای طور مخصوص نہ ورزمان آپﷺ بود ونہ در زمان خلفاء بلکہ وجود آں اور قرون ثلاثہ کے مشہود لہا بالخیرات منقول نہ شدہ یعنی مروجہ فاتحہ رسول اللہﷺ یا خلفاء اربعہ کے یا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے اور تابعین کے زمانے میں نہ تھی تیجے کی نسبت اسی کو کتاب میں لکھتے ہیں۔''درشریعت محمدیہ ثابت نیست  ''۔اسلام  میں یہ ثابت نہیں۔

6۔خلاصہ میں ہے۔ لا يباح اتخاذ الطعام في اليوم الاول والثاني والثالث وبعد الاسبوع (یعنی تیجہ کرنا ددرست نہیں)
7۔فتاویٰ بزازیہ میں ہے۔يكره اتخاذ الطعام في اليوم الاول والثاني والثالث وبعد الاسبوع  (یعنی میت کے بعد پہلے دوسرے تیسرے دن اور ہفتہ کے بعد دعوت کرنی مکروہ ہے۔

8۔ملا افندی حنفی رسالہ رد بدعات میں لکھتے  ہیں۔''جو خلاف شرع باتیں ہمارے زمانہ میں ہورہی ہیں۔ان میں یہ بھی ہے کہ قبر پر تیسرے روز جمع ہونا اور خوشبوپھل وغیرہ تقسیم کرنا اور خاص خاص دنوں میں کھانا کھلانا جیسے تیسرے  پانچویں نویں دسویں بی

روزے کے احکام و مسائل​

- روزے کے احکام و مسائل​
===============

ماہِ رمضان کا دخول ۹۲شعبان کو چاند نظر آنے یا شعبان کے تیس دن مکمل ہونے سے ثابت ہو جاتا ہے۔
(شیخ ابنِ عثیمین رحمہ اﷲ فتاوی فی احکام الصیام ص۶۶)

ماہِ رمضان کے شروع میں (پورے رمضان کے لےئے) ایک مرتبہ نیت کر لینا کافی ہے۔ مگر بیچ رمضان میں سفر یا مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھا تو ازسرِ نو نیت کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس نے پہلی نیت توڑ دی ہے۔
(فتاوی ارکان الاسلام شیخ ابنِ عثیمین رحمہ اﷲ ص ۶۶۴)

اگر کوئی شخص بڑھاپے کے سبب یا ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے صحت کی امید نہیں ، روزہ نہ رکھ سکے تو وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا اگر وہ اس کی طاقت رکھے۔
(مجموع فتاوی ابنِ باز رحمہ اﷲ ج ۵ ص۳۳۲)

نماز ترک کرنے والے کا نہ روزہ صحیح ہے اور نہ ہی اس کا روزہ مقبول ہو گا ، کیونکہ نماز چھوڑنے والا کافر ومرتد ہے اﷲ تعالیٰ کے اس قول کی بنا پر (اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة دیتے رہیں تو تمارے دینی بھائی ہیں) [سورہ توبہ:۱۱] نیز نبی کریمﷺ فرماتے ہیں (مسلمان اور شرک وکفر کے درمیان حدِ فاصل ترکِ نماز ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
(شیخ ابنِ عثیمین رحمہ اﷲ فتاوی فی احکام الصیام ص۷۸)

جب یہ معلوم ہو کہ مؤذن طلوع فجر سے پہلے اذان نہیں دیتا تو اس کے اذان شروع کرنے کے ساتھ ہی کھانے پینے اور دیگر تمام روزہ توڑنے والی چیزوں سے رک جانا ضروری ہے ، ہاں اگر وہ اذان ظن و تخمین اور جنتری کی بنیاد پر دیتا ہو تو اذان کے وقت کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔
(مجموع فتاوی ابنِ باز رحمہ اﷲ ج ۵ ص۹۵۲)

روزہ دار کا تھوک نگلنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔میرے علم کے مطابق اہلِ علم کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ رینٹ اور بلغم جب منہ تک پہنچ جائے تو اس کو اگل دینا ضروری ہے، کیونکہ روزہ دار کے لےئے اس کو نگلنا اس وجہ سے جائز نہیں کہ اس کا اس سے بچنا آسان اور ممکن ہے۔
(مجموع فتاوی ابنِ باز رحمہ اﷲ ج ۵ ص۱۵۲)

روزہ دار سے نکسیر ، استحاضہ اور اس جیسا دوسرا کوئی خون نکلنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، صرف حیض، نفاس اور پچھنا لگوانے کے خون ہی سے روزہ فاسد ہوتا ہے، البتہ ضرورت کے وقت خون کا ٹیسٹ کروانے کے لےئے روزہ دار کا خون نکلوانے میں کوئی حرج نہیں۔
(مجموع فتاوی ابنِ باز رحمہ اﷲ ج ۵ ص۱۵۲)

اگر کسی نے عمداً قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ اگر کسی کو بلاقصد خودبخود قے آ جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(مجموع فتاوی ابنِ باز رحمہ اﷲ ج ۵ ص۱۵۲)

غرغرہ کی دوا استعمال کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، بشرطیکہ دوا پیٹ میں نہ جائے ، لیکن بلا ضرورت غرغرہ نہ کرے۔
(فتاوی ابنِ عثیمین رحمہ اﷲ ج۱ ص۰۰۵)

آنکھ یا کان میں دوا ڈالنے نیز آنکھ میں سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(فتاوی ابنِ ع

Monday, May 30, 2016

مکان گروی رکھنا

مکان گروی رکھنا
============
؟ گروی مکان لینا کیسا ہے؟ کیا اس میں سود ہوتا ہے؟


جواب : سوال کچھ غیر واضح ہے ۔
آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی آدمی آپ کے پاس اپنا مکان گروی رکھتا ہے اور آپ اسے کچھ پیسہ وغیرہ عوض میں دیتے ہیں ۔
اگر یہی بات ہے تو آپ نے عوض میں جو کچھ دیا وہ قرض ہے اور قرض میں کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے جسے عربی میں رہن کہا جاتا ہے ۔
قرآن سے دلیل :
وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۔( بقرۃ: 283)
ترجمہ: اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے واﻻ نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔

حدیث سے دلیل :
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم اشتَرَى طعامًا من يهوديٍّ إلى أجلٍ، ورَهَنه درعًا من حديدٍ .(صحيح البخاري:2386)
ترجمہ: نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔

گویا قرض لیتے ہوئے ضمانت کے طور پہ کوئی چیز یا مکان گروی رکھنا جائز ہے اور یہ مکان گروی رکھنا سود نہیں کہلائے گا ۔
ہاں اگر آپ نے مکان سے فائدہ اٹھایا تو یہ سود شمار کیا جائے گا۔
اگر مکان استعمال کرنے کے بدلے کرایہ ادا کیا جائے تو پھر یہ صورت بھی جائز ہے ۔


واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی

سینے پر ہاته باندهنے کی دلیل بخاری شریف سے -

سینے پر ہاته باندهنے کی دلیل بخاری شریف سے -
➖➖➖➖➖➖➖➖
جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ’’ذراع‘‘ پر رکھے
📔(صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۰۲ ح ۷۴۰) ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔

▪اگر آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنی ذراع پر رکھیں گے تو خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔
ذراع ، ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ :آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔
(سنن نسائی مع حاشیہ السندھی ج ۱ ص ۱۴۱، ابوداوٗد ج ۱ ص ۱۱۲، ح ۷۲۷، اسے ابن خزیمہ ج ۱ ص۲۴۳ ح ۴۸۰ اورابن حبان موارد ح ۴۸۵ نے صحیح کہا ہے)

اس استدلال کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :’’یضع ھذہ علی صدرہ‘‘ الخ ۔ آپ ﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینہ پر رکھتے تھے … الخ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ واللفظ ، التحقیق لابن حبان الجوزی ج ۱ ص۲۸۳ ح ۴۷۷۔ وفی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸) ۔

اس کی تائید بہت سی روایات میں آئی ہے .

〰〰〰〰〰〰

تراویح آٹھ رکعت

 تراویح آٹھ رکعت
===================
سے زیادہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہیں
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا(متفق علیہ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1887)
ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوسلمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔
جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو رمضان میں کے مہینے میں (تراویح ) آٹھ نماز پڑھائی اِس کے بعد وتر پڑھا دوسرے روز جب رات ہوئی تو ہم لوگ پھر مسجد میں جمع ہوگئے امید کہ آپ نکلیں گے اور نماز پڑھائیں گے مگر آپ نہ نکلے ہم صبح تک مسجد میں رہ گئے پھر ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بات بیان کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہو ا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہوجائے (اس لئے میں گھر سے نہیں نکلا) (ابنِ حبان ،ابنِ خزیمہ،طبرانی فی الصغیر،محمد بن نصر مروزی فی قیام اللیل ص ۹۰)
ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسو ل ﷺ رات کو میں نے ایک کام کیا (یہ رمضان کے مہینے کا واقعہ ہے) رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم عورتوں کو قرآن یاد نہیں ،لہذا تراویح کی نماز آپ (ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ )گھر ہی پڑھئیے ہم عورتیں بھی آپ (ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ)کے پیچھے پڑھ لیں گی چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر کی نماز پڑھادی آپ خاموش رہ گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ نے ان کو پسند فرمایا(ابو یعلی ،طبرانی ،محمد بن نصر مروزی فی قیام اللیل،ہیثمی فی مجمع الزوائد)
نبی ﷺکی صحیح مرفوع غیر متکلم فیہ حدیثوں سے صرف آٹھ رکعت تراویح ثابت ہے بیس یا اس سے زیادہ سنتِ رسول سے ثابت نہیں ہے۔
جن تین راتوں میں نبی ﷺ نے با جماعت نمازِ تراویح پڑھائی تھی اس سلسلہ میں علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح بخ�

پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا

- پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا
==================
اقامت کہنا تو بالکل ثابت نہیں ہے کیونکہ جس حدیث میں اس کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہے۔جیسا کہ حضرت حسین بن علی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
(من ولدله ولدفأذن في اذنه اليمني وأقام في اذنه اليسري لم تضره ام الصبيان) (موضوع:الضعیفۃ 320/1)ارواہ الغلیل 1174)شعب الایمان للبیہقی 8620)
’’جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا اور وہ اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہے تو اسے ام صبیان کی بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی۔
اس سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی روایت بھی مستند نہیں ہے (تلخیص الحبیر273/4)
علاوہ ازیں آذان کہنے کے متعلق روایت بھی ضعیف ہے اس کی سندمیں عاصم بن عبیداللہ راوی کی صحت میں اختلاف ہے (تقریب التہذیب 384/1،میزان الاعتدال 353/2)
البتہ دیگر شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن درجہ تک پہنج جاتی ہے
حضرت ابورافع سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ
(أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة)۔(حسن:صحیح ترمذی 1224)صحیح ابوداؤد 4258)اراوہ الغلیل 1173)
’’جس وقت حضرت فاطمۃ نے حضرت حسین بن علی کو جنا تو آپﷺ نے ان کے کان میں نماز کے لیے (کہی جانےوالی )آذان کی طرح آذان کہی ۔‘‘
عبدالرحمن مبارکپوری:یہ حدیث ضعیف ہے لیکن حضرت حسین بن علی نےکی اس روایت سے کہ جسے امام ابویعلی موصلیؒ اور امام ابن سنیؒ نے روایت کیا ہے مضبوط وقوی ہوجاتی ہے (تحفۃ الاحوذی91/1)
امام ترمذی :یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے (ترمذی 1516) امت کا متواتر ومتوارث عمل بھی اسے قابل احتجاج بنادیتا ہے۔
ابن قیمؒ:انہوں نے اپنی کتاب زادالمعاد میں حضرت ابورافع کی حدیث نقل فرمائی ہے (زادالمعاد333/2)

حیض و نفاس والی سے مباشرت -

حیض و نفاس والی سے مباشرت -
=========================
حیض اورنفاس کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور لذت وتفریح کی تین قسمیں ہیں :
پہلی قسم :
بیوی سے جماع کے ساتھ مباشرت کی جائے ، یہ قسم تو قرآنی نص اورمسلمانوں کے اجماع کے مطابق حرام ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو } البقرۃ ( 222 ) ۔
دوسری قسم :
ناف سے اوپر اورگھٹنے سے نيچے مباشرت کرنا یعنی بوس وکنار ، اورمعانقہ وغیرہ ، اس کے حلال ہونے پر سب علماء کرام کا اتفاق ہے ۔
دیکھیں شرح مسلم للنووی ۔ اورالمغنی ابن قدامہ ( 1 / 414 ) ۔
تیسری قسم :
ناف اورگھٹنوں کے مابین قبل اوردبر کے علاوہ مباشرت کرنا ۔
اس قسم کے جواز میں علماء کرام کا اختلاف ہے ، امام مالک ، امام شافعی ، امام ابوحنیفہ ، رحمہم اللہ اس کی تحریم کے قائل ہیں ، اورامام احمدرحمہ اللہ تعالی اس کے جواز کےقائل ہے اوربعض مالکیہ ، شافعیہ ، اوراحناف بھی اس کے قائل ہیں ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ، دلائل کے اعتبار سے قوی قول یہی اوراختیاربھی یہی کیا گيا ہے ۔ ا ھـ ۔
جائز قرار دینے والوں نےمندرجہ مندرجہ ذيل دلائل دیے ہیں :
قرآنی دلائل :
فرمان باری تعالی ہے :
{ حالت حيض میں عورتوں سے الگ رہو ، پاک ہونے سے قبل ان کے قریب نہ جاؤ } البقرۃ ( 222 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی شرح الممتع میں کہتے ہیں :
محیض سے مراد حیض والی جگہ اورمدت مراد ہے ، اوراس کی جگہ شرمگاہ ہے لھذا جب تک وہ حالت حیض میں ہے جماع کرنا حرام ہوگا ۔ ا ھـ دیکھیں شرح الممتع ( 1 / 413 ) ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
خون والی جگہ سے علیدہ رہنے کی تخصیص اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے علاوہ جائز ہے ۔ ا ھـ ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 1 / 415 )
سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دلائل :
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یھودیوں میں سے کوئي عورت حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے بھی نہیں تھے اورنہ ہی انہيں اپنے گھروں میں رکھتے تھے توصحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آيت نازل فرمائی :
{ آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۔۔۔ آیت کے آخر تک } ۔
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کرو ۔
جب یہودیوں کواس کا پتہ چلا تووہ کہنے لگے اس شخص کوہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کرنی ہوتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 302 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
حدیث میں جویہ لفظ آئے ہیں کہ ( لم یجامعوھن فی البیوت ) کا معنی یہ ہے کہ وہ گھروں میں ان سےملتے جلتےاورایک ہی گھرمیں نہیں رکھتے تھے ۔
عکرمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کس�

نفاس اور اس کے اَحکام - نفاس اور اس کے اَحکام

نفاس اور اس کے اَحکام - نفاس اور اس کے اَحکام
===========
نفاس سے مراد وہ خون ہے جو ولادت کے وقت رحم مادر سے جاری ہوتا ہے اور عموماً چالیس دن تک تھوڑاتھوڑا بہتا رہتا ہے۔ بسااوقات یہ خون ولادت سے پہلے بھی جاری ہوجاتا ہے۔ جس کی مدت فقہاء نے دو تین دن تک محدود کردی ہے۔ غالباً ولادت کے وقت ہی جاری ہوتا ہے۔ اور معتبر ولادت اس وقت ہوتی ہے جب انسان کی خلقت واضح ہوجائے، اور انسان کی خلقت واضح ہونے کی کم از کم مدت ۸۱ دن یا غالب مدت تین ماہ ہے۔ اگر کسی عورت سے اس مدت سے پہلے کوئی شئ ساقط ہوگئی اور اس کے ساتھ خون جاری ہوگیا تو اس کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی اس خون کی وجہ سے عورت نماز روزہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ یہ فاسد خون ہے اور ا س کا حکم مستحاضہ کا ہوگا۔
عموماً مدت نفاس ولادت یاولادت سے دو تین دن پہلے سے لے کر چالیس دن تک ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت اُم سلمہؓ کی حدیث ہے:
’’کَانَتِ النُّفَسَائُ تَجْلِسُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ أرْبَعِیْنَ یَوْمًا‘‘ [جامع الترمذي:۱۳۹]’’نبی کریمﷺکے زمانہ میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک (نماز روزہ ادا کرنے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔‘‘
اور اس امر پر اہل علم کا اجماع ہے جیساکہ ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
اگر کوئی عورت چالیس دن سے پہلے ہی طاہرہ (پاکیزہ) ہوجاتی ہے اور اس کا خون منقطع ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ کیونکہ نفاس کے خون کی کم از کم کوئی حد متعین نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی سے اس کی تحدید ثابت ہے اور اگر چالیس دن مکمل ہوجانے کے بعد بھی خون جاری ہے اور منقطع نہیں ہوا تو اگر وہ عادت حیض کے موافق ہے تو اس کو حیض شمار کیا جائے گا اور اگر عادت حیض کے موافق نہیں ہے تو استحاضہ ہوگا اور عورت چالیس دن گذر جانے کے بعد اپنی عبادات کو ترک نہیں کرے گی۔

177 قراء کرام کی آواز میں آپ قرآن مجید کی تلاوت سماعت فرما سکتے ہیں



اور اس میں 177 قراء کرام کی آواز میں آپ قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت سماعت فرما سکتے ہیں اور ایم پی تھری میں ڈاؤنلوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

ربط :

http://www.mp3quraan.ahlulhdeeth.net/

قرآن سمجھ کر پڑھنا کیوں ضروری ہے ؟

 قرآن سمجھ کر پڑھنا کیوں ضروری ہے ؟
📼📼📼📼➰📼📼📼📼
🍭مقبول احمد سلفی

1⃣تلاوت کے معنی میں پڑھنے کے ساتھ ''عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا'' بھی شامل ہے۔یعنی تلاوت کا معنی ہوا'' پڑھنا ،عمل کرنے کی نیت سے''۔

[تہذیب اللغۃ:ج٥ص٢١،لسان العرب ج١٤ص١٠٢،قاموس القرآن ص١٦٩]

اس کا یہ مطلب ہوا کہ بغیرسمجھے قرآن کی تلاوت کرنے سے قرآن پر عمل کرنامحال ہے ۔

2⃣قرآن سمجھنے کی کتاب ہے ، اللہ کا فرمان ہے : لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ  (الانبیاء)

ترجمہ: تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میںتمہارا ہی ذکر ہے کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔

اس لئے سمجھ کر قرآن پڑھنا نہایت ہی ضروری ہے۔

3⃣قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا  :كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ  ( ابراھیم)

ترجمہ : یہ کتاب (قرآن) ہے جس کو ہم نے آپؐ پرنازل کیاتاکہ اس کی روشنی میں آپؐ انسانوں کو گمراہیوں کی تاریکی سے نکال کر ایمان و عمل کی روشنی کی طرف لائیں ، ان کے پروردگار کے حکم سے۔

اور یہ مقصد بغیر قرآن سمجھے پورا نہیں ہوسکتا۔

4⃣قرآن ہدایت کی کتاب ہے ، فرمان رب ہے :  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ : ۱۸۵)

ترجمہ : (ماہ رمضان ہی میں قرآن کے نزول کی ابتداء ہوئی جو انسانوں کے لئjے کھلی کھلی ہدایت ہے اور حق و باطل معلوم کرنے کی کسوٹی بھی ہے)

اس آیت میں اللہ کی طرف سے  انسانوں کو ہدایت حاصل کرنے کا امر ہے اور یہ امر متحقق ہے کہ بغیرسمجھے قرآن سے ہم ہدایت نہیں حاصل کرسکتے ۔

5⃣نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے قرآن کو آسان و سہل بنایا گیا ہے، اللہ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۷  (القمر)

ترجمہ : ( اور ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے نصیحت کیلئے پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا)

6⃣قرآن اختلافات دور کرنے والی کتاب ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (البقرہ۔۲۱۳)

ترجمہ : (تمام انسان ابتداً بلحاظ عقائد و اعمال بالکل ایک ہی اُمّت کی طرح تھے پس جب اختلافات پیدا کر کے فرقے و جماعتیں بنا لئے تو ان کی رہبری کے لئے اللہ تعالیٰ نے بشارت دینے والے اور عذاب سے خبردار کرنے والے پیغمبر

Sunday, May 29, 2016

شائد کل تم جان سکو ❗ ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

❗ شائد کل تم جان سکو ❗
ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

میرے بچو...❗
اگر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو!
🌴صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پر چکھنا
"اُف" نہ کہنا، غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 ہاتھ مرے گر کمزوری سے کانپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا، لہجے کو بیزار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر، اور مجھے بیمار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم، تیز اپنی رفتار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا، میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 جب میں باتیں کرتے کرتے رُک جاؤں، خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں، یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں!
🌴 مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،
اکتا کر، گھبرا کر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے
کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنایا کرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے، میں دھرایا کرتی تھی.
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا، یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے!
🌴 بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں، وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا، اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا
شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا❗
🌴 میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی، آگے بڑھنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھو تو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا، جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں!
🌴 بھول نہ جانا میں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر
ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا، اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے
بحث نہ کرنا❗
🌴 آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں اک دن کہہ دوں، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں، کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
🌴 تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے!
شائد کل تم جان سکو گے، اس ماں کو پہچان سکو گے
گرچہ جیون کی اس دوڑ میں، میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن، میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
📌 جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب
چپکے سے سرکا دینا
اور، دعا کی خاطر
ہاتھ اُٹھا دینا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌴 میرے پیارے رب سے کہنا،
رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں
ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
بھول نہ جانا، میرے بچو❗
جب تک مجھ میں جان تھی باقی❗
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا❗
دل سینے میں دھڑک رہا تھا❗
خیر تمہاری مانگی میں نے❗
میرا ہر اک سانس دعا تھا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌹 قالَ اللهُ تعالی 🌹
📖 اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا • اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ "اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"
📚 الإسراء: 23-24
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
✔ شيئر کريں "صدقہ جاریہ" ہے

شائد کل تم جان سکو ❗ ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

❗ شائد کل تم جان سکو ❗
ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

میرے بچو...❗
اگر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو!
🌴صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پر چکھنا
"اُف" نہ کہنا، غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 ہاتھ مرے گر کمزوری سے کانپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا، لہجے کو بیزار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر، اور مجھے بیمار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم، تیز اپنی رفتار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا، میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 جب میں باتیں کرتے کرتے رُک جاؤں، خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں، یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں!
🌴 مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،
اکتا کر، گھبرا کر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے
کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنایا کرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے، میں دھرایا کرتی تھی.
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا، یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے!
🌴 بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں، وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا، اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا
شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا❗
🌴 میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی، آگے بڑھنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھو تو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا، جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں!
🌴 بھول نہ جانا میں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر
ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا، اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے
بحث نہ کرنا❗
🌴 آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں اک دن کہہ دوں، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں، کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
🌴 تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے!
شائد کل تم جان سکو گے، اس ماں کو پہچان سکو گے
گرچہ جیون کی اس دوڑ میں، میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن، میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
📌 جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب
چپکے سے سرکا دینا
اور، دعا کی خاطر
ہاتھ اُٹھا دینا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌴 میرے پیارے رب سے کہنا،
رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں
ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
بھول نہ جانا، میرے بچو❗
جب تک مجھ میں جان تھی باقی❗
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا❗
دل سینے میں دھڑک رہا تھا❗
خیر تمہاری مانگی میں نے❗
میرا ہر اک سانس دعا تھا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌹 قالَ اللهُ تعالی 🌹
📖 اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا • اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ "اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"
📚 الإسراء: 23-24
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
✔ شيئر کريں "صدقہ جاریہ" ہے

شائد کل تم جان سکو ❗ ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

❗ شائد کل تم جان سکو ❗
ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

میرے بچو...❗
اگر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو!
🌴صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پر چکھنا
"اُف" نہ کہنا، غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 ہاتھ مرے گر کمزوری سے کانپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا، لہجے کو بیزار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر، اور مجھے بیمار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم، تیز اپنی رفتار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا، میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 جب میں باتیں کرتے کرتے رُک جاؤں، خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں، یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں!
🌴 مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،
اکتا کر، گھبرا کر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے
کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنایا کرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے، میں دھرایا کرتی تھی.
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا، یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے!
🌴 بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں، وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا، اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا
شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا❗
🌴 میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی، آگے بڑھنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھو تو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا، جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں!
🌴 بھول نہ جانا میں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر
ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا، اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے
بحث نہ کرنا❗
🌴 آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں اک دن کہہ دوں، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں، کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
🌴 تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے!
شائد کل تم جان سکو گے، اس ماں کو پہچان سکو گے
گرچہ جیون کی اس دوڑ میں، میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن، میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
📌 جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب
چپکے سے سرکا دینا
اور، دعا کی خاطر
ہاتھ اُٹھا دینا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌴 میرے پیارے رب سے کہنا،
رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں
ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
بھول نہ جانا، میرے بچو❗
جب تک مجھ میں جان تھی باقی❗
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا❗
دل سینے میں دھڑک رہا تھا❗
خیر تمہاری مانگی میں نے❗
میرا ہر اک سانس دعا تھا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌹 قالَ اللهُ تعالی 🌹
📖 اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا • اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ "اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"
📚 الإسراء: 23-24
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
✔ شيئر کريں "صدقہ جاریہ" ہے

شائد کل تم جان سکو ❗ ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

❗ شائد کل تم جان سکو ❗
ایک ❤ ماں ❤ كی فرياد

میرے بچو...❗
اگر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو!
🌴صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پر چکھنا
"اُف" نہ کہنا، غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 ہاتھ مرے گر کمزوری سے کانپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا، لہجے کو بیزار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر، اور مجھے بیمار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم، تیز اپنی رفتار نہ کرنا!
🌴 بھول نہ جانا، میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 جب میں باتیں کرتے کرتے رُک جاؤں، خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں، یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں!
🌴 مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،
اکتا کر، گھبرا کر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے
کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنایا کرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے، میں دھرایا کرتی تھی.
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا، یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے!
🌴 بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں، وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا، اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا
شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا❗
🌴 میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی، آگے بڑھنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھو تو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا، جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں!
🌴 بھول نہ جانا میں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر
ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا، اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے
بحث نہ کرنا❗
🌴 آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا!
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌺 گر میں اک دن کہہ دوں، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں، کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
🌴 تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے!
شائد کل تم جان سکو گے، اس ماں کو پہچان سکو گے
گرچہ جیون کی اس دوڑ میں، میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن، میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
📌 جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب
چپکے سے سرکا دینا
اور، دعا کی خاطر
ہاتھ اُٹھا دینا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌴 میرے پیارے رب سے کہنا،
رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں
ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
بھول نہ جانا، میرے بچو❗
جب تک مجھ میں جان تھی باقی❗
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا❗
دل سینے میں دھڑک رہا تھا❗
خیر تمہاری مانگی میں نے❗
میرا ہر اک سانس دعا تھا❗
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
🌹 قالَ اللهُ تعالی 🌹
📖 اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا • اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ "اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"
📚 الإسراء: 23-24
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
✔ شيئر کريں "صدقہ جاریہ" ہے

لفظ خدا کا استعمال

 - لفظ خدا کا استعمال
=================
مقبول احمد سلفی

لفظ خدا نہ تو اللہ کا ذاتی نام ہے اور نہ ہی صفاتی ، یہ لفظ شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں ۔برصغیر اور فارس میں اکثر لوگ اور علماء طبقہ اللہ تعالی کے لئے اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ فارسی لفظ ہے اور فارسی میں یہ لفظ غیراللہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مثلا بیوی اپنے شوہر کو مجازی خدا کہتی ہے، کشتی کے ملاح کو ناخدا کہتے ہیں ، شعراء و ادباء کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔
اور خرابی کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ مجوسیوں کے عقیدہ کے مطابق دو خدا ہیں ایک ہزداں(اچھائی کا خدا) اور دوسرا اہرمن (برائی کا خدا) ۔ اور اللہ تعالی ان تما م عبوب و نقائص اور کسی کی ادنی شرکت سے بھی پاک و بری ہے ۔
لفظ خدا موجودہ دور میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اگر لوگوں کو لفظ خدا کی نفی کے بارے میں کہا جائے تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے علماء بھی تو خدا کہتے ہیں اور کتابوں میں لکھتے ہیں تو کیا یہ غلط ہیں  .....؟
لفظ خدا نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں ہے تو ہم مسلمانوں کو کیا مجبوری ہے کہ ہم آتش پرستوں والا نام خدا اپنے اللہ کے لئے بولیں اور لکھیں اور یہ دین میں اضافہ بھی ہے،بھلے لفظ خدا کئی سالوں سے بولا جاتا رہا ہو، کیونکہ لفظ خدا نہ قرآن میں ہے نہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے،نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استعمال کیا،نہ تابعین نے اور نہ سلف صالحین نے لفظ خدا استعمال کیا،اس لئے دین میں اضافہ ہے، اور اللہ کے ذاتی نام کو چھوڑ کر غیر اللہ کے نام کا استعمال ہے، جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
 کئی لوگ کہتے ہیں کہ خدا پہچان کے طور پر بولا جاتا ہے جیسے: گوڈ وغیرہ .
تو عرض ہے کہ جو مسلمان ہے اس کو لفظ۔ اللہ۔ کی پہچان بہت خوب ہو تی ہے کیونکہ نماز اور تلاوت قرآن کے دوران کتنی دفعہ اللہ کو یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمان بھلے ملک فارس کا ہو یا انگریز، ہر زبان اور نسل کا مسلمان خوب جانتا ہے،کہ ہمارے خالق حقیقی کا نام اللہ ہے۔ بس یہ کچھ لوگوں کی بناوٹی باتیں اور حیلے بہانے ہوتے ہیں کہ قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل ہو تے ہوئے بھی صحیح بات کو نہیں مانتےاور پھر غلط بات پر غلط دلائل دے کر اڑے رہتے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالی نے ہدایت اور سمجھ دی ہو ان کے لئے قرآن کی صرف ایک آیت ہی دلیل کے لئے کافی ہے۔
آئیے اس کو مزید سمجھنے کے لئے قرآن کریم کی آیت دیکھتے ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
٭"اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں،پس ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو،اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کیے کی ضرور سزا ملے گی"۔ (اعراف: 180)
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
٭"کہہ دیجئے کہ اللہ کو

آسمان و زمین کوچھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو


آسمان و زمین کوچھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو

***********************


: سورة السجدة 4

اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِؕ مَا لَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا شَفِيۡعٍؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ

اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔



ہر ایک کی نکیل اللہ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے ۔ اس نے چھ دن میں زمین وآسمان بنائے پھر عرش پر قرار پکڑا ۔ اس کی تفسیر گذرچکی ہے۔ مالک وخالق وہی ہے ہر چیز کی نکیل اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ تدبیریں سب کاموں کی وہی کرتا ہے ہر چیز پر غلبہ اسی کا ہے۔ اس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی والی نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی۔ اے وہ لوگو جو اس کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہو ۔ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہو کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ اتنی بڑی قدرتوں والا کیوں کسی کو اپنا شریک کاربنانے لگا ؟ وہ برابری سے، وزیر ومشیر سے شریک وسہیم سے پاک منزہ اور مبرا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اسکے علاوہ کوئی پالنہار ہے۔ نسائی میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ہیں میرا ہاتھ تھام کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی تمام چزیں پیدا کرکے ساتویں دن عرش پر قیام کیا ۔ مٹی ہفتے کے دن بنی۔ پہاڑ اتوار کے دن درخت سوموار کے دن برائیاں منگل کے دن نور بدھ کے دن جانور جمعرات کے دن آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں اسے تمام روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا جس میں سفید وسیاہ اچھی بری ہر طرح کی تھی اسی باعث اولاد آدم بھی بھلی بری ہوئی۔ امام بخاری اسے معلل بتلاتے ہیں فرماتے ہیں اور سند سے مروری ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے اسے کعب احبار سے بیان کیا ہے اور حضرات محدثین نے بھی اسے معلل بتلایاہے۔ واللہ اعلم ۔ اس کا حکم ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اترتا ہے اور ساتوں زمینوں کے نیچے تک پہنچتا ہے جسے اور آیت میں ہے ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا 12۝ۧ) 65- الطلاق:12) اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمان بنائے اور انہی کے مثل زمینیں اس کا حکم ان سب کے درمیان اترتا ہے۔ اعمال اپنے دیوان کی طرف اٹھائے اور چڑھائے جاتے ہیں جو آسمان دنیا کے اوپر ہے۔ زمین سے آسمان اول پانچ سو سال کے فاصلہ پر ہے اور اتناہی اس کا گھیراؤ ہے۔ اتنا اترنا چڑھنا اللہ کی قدرت سے فرشتہ ایک آنکھ جھپکنے میں کرلیتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے۔ ان امور کا مدبر اللہ ہے وہ اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے۔ سب چھوٹے بڑے عمل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس نے ہر چیز کو اپنے ماتحت کر رکھا ہے کل بندے اور کل گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں وہ اپنے مومن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے عزیز ہے اپنی رحمت میں اور رحیم ہے اپنی عزت میں ۔

www.theislam360.com

noor awor gaeb

6 : سورة الأنعام 50



قُلْ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ خَزَآٮِٕنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ اِنِّىۡ مَلَكٌۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰٓى اِلَىَّ ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوۡنَ

آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے سو کیا تم غور نہیں کرتے؟

www.theislam360.com

تفسیر

مسلمانو ! طبقاتی عصبیت سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہو جاتی ہے ، میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، میں تو انسان ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا ۔ کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو نابینا ہے؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں، حساب کا کھٹکار رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہو گا، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ۔ یہ تیرا ڈرانا اس لئے ہے کہ شاید وہ تقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اور ثابت کے مستحق بن جائیں ، پھر فرماتا ہے یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ) 18۔ الکہف:28) یعنی انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں ، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے آیت (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ) 40۔ غافر:60) تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے ، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں ، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر ، جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا ۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا ، مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ کی مجلس مبارک میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ تو آیت (و انذر بہ سے بالشاکرین تک اتری ۔ ابن جریر میں ہے کہ ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ پے در پے سہارا لوگ بھی ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں دیکھئے حضرت اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو وہ آپ کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں اس پر آیت (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ) 6۔ الانعام:52) شاکرین تک اتری ۔ ابن ابی حاتم میں قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی، عینیہ بن حصن فزاری ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بےحیثیت لوگوں کے ساتھ ہمیں بیٹھتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے ، آپ کی مجلس میں عرب کا وفد آیا کرتے ہیں وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو آپ کم سے کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائین، ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیے آپ نے کاغذ منگوایا اور حضرت علی کو لکھنے کیلئے بلوایا، مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل اترے اور یہ آیت نازل ہوئی حضور نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا ، لیکن یہ حدیث غریب ہے آیت مکی ہے اور اقرع اور عینیہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی میں جاتے اور آپ کے اردگرد بیٹھتے تاکہ پور طرح اور شروع سے آخر تک آپ کی حدیثیں سنیں ۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی اس کے برخلاف یہ آیت اتری (مستدرک حاکم) پھر فرماتا ہے اسی طرح ہم ایک دورے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امرا ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں سے اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بےمایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا (وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ) 11۔ ہود:27) یعنی ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بےوقوف لوگوں نے ہی کی ہے ، شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے حضور کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے ، الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مزاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت (لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ) 46۔ الاحقاف:11) اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے اور آیت میں ہے جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے؟ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت (وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا) 19۔ مریم:74) یعنی ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ، چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ، جیسے فرمان ہے آیت (وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ) 29۔ العنکبوت:69) جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیھکتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کرلیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ، ابو طالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اللہ عزوجل نے وانذو سے بالشاکرین تک آیتیں اتریں ۔ یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال، عمار، سالم صبیح ، ابن مسعود، مقداد، مسعود، واقد ، عمرو ذوالشمالین، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت (وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ) 6۔ الانعام:53) بھی نازل ہوئی ۔ حضرت عمر ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت (وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ ۙ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 6۔ الانعام:54) نازل ہوئی ، آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رح پر واجب کر لیا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں دنیا ساری جہالت ہے ، غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کر لے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کر لے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضا و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ ابن مردویہ میں حضور کا فرمان ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لئے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے، یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں آیت (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) 7۔ الاعراف:156) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضور نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوجھا جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر فرمایا جانتے ہو بندے جب یہ کرلیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے، مسند احمد میں یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے ۔





قبولیت دعا کا وقت

قبولیت دعا کا وقت
=============
وہ کون سے اوقات ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے۔نیز ان شخصیات کی بھی نشاندہی کریں جن کی دعا اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف پذیرائی سے نواز ی جاتی ہے؟

دعا ایک عباد ت ہے ،رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ‘‘دعا عبادت ہے۔’’پھر آپ نے تائید کےطور پر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
‘‘تمہارےرب نے فرمایا ہے مجھے پکارو ،میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عباد ت سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے۔’’(۴۰/المؤمن:۶۰)
اس سے معلوم ہوا کہ دعا ہی تو اصل عبادت ہے۔ (ابن ماجہ،الدعا:۳۸۲۹)
اگر دعا کرنے کےبعد ہمیں مطلوبہ چیز حاصل نہ ہوتو عبادت تو کسی صورت میں ضائع نہیں ہوگی ،لیکن اس کےکچھ آداب  اور شرائط ہیں۔
پہلا ادب یہ ہےکہ خلوص دل سے دعا کی جائے ۔ اس کامطلب یہ ہےکہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کیا جائے،نیز دعا کرنے میں جلد بازی کا مظاہر ہ نہ کیا جائے۔ وہ اس طرح کہ اگر دعا کا نتیجہ سامنے نہ آئے تو انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہی ترک کردے۔(صحیح مسلم،الذکر:۶۹۳۶)
پھر دعا کرتے وقت خیرو برکت کا سوال کرنا چاہیے،کوئی گناہ یا قطع رحمی  کی دعا نہ کی جائے۔ (صحیح مسلم،الدعاء:۶۹۳۶)
چوتھی شرط یہ ہے کہ حضور قلب سے دعا کی جائے کیونکہ غفلت شعار دل کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسند امام احمد،ص:۱۷۷،ج۲)
پانچواں ادب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کےلئے رزق حلال کا اہتمام کیا جائے۔(صحیح مسلم ،الزکوٰۃ:۲۳۴۶)
 پھر جن اوقات میں دعا قبول ہوتی ہے ،ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭رات کے آخری حصہ میں کیونکہ اس وقت بندہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین:۱۷۷۵)
٭اذان اور اقامت کے درمیان بھی دعا قبول ہوتی ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،ص:۲۲۲،ج۱)
٭سجدہ کی حالت میں بھی بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور دعا قبول ہوتی ہے۔(صحیح مسلم ،الصلوٰۃ:۱۰۸۳)
٭فرض نماز سےفراغت کےبعد قبولیت کا وقت ہے،جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو وصیت کی تھی۔ (مسند امام احمد،ص:۲۴،ج۵)
٭بارش کے نزول اور مرغ کے اذان دیتے وقت ۔ (ترمذی ،الدعوات :۳۴۵۹)
٭اذان اور معرکہ حق و باطل کےوقت بھی دعا مسترد نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد،الجہاد:۱۴۱۱)
٭عرفہ کے دن اور قدر کی رات بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتے ہیں۔ (مسند امام احمد،ص:۴۱۹،ج۱)
جن شخصیات کی دعا کو مسترد نہیں کیا جاتا ان میں سے مظلوم ،مسافر ،والد ،حج اور عمرہ کرنیوالا ،غازی اور کسی کےلئے غائبانہ دعا کرنے والے سرفہرست ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ان کے حوالہ جات ذکر نہیں کئے گئے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص182

کیا شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکے حکم سے مردہ زندہ ہوتے تھے

کیا شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکے حکم سے مردہ زندہ ہوتے تھے؟
=================
مقبول احمد سلفی

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ایک متقی اور صاحب علم انسان تھے ، آپ اپنی تصنیفات کی روشنی میں صحیح العقیدہ مسلمان ہیں مگر صوفیوں اور پیٹ کے پجاری ملاؤں نے آپ کی طرف غلط باتیں منسوب کردیں بلکہ  آپ کو ان خرافیوں نے مرتب انسانیت سے اٹھاکر درجہ الوہیت پہ فائز کردیا۔
جیلانی ؒ کی طرف منسوب عقائد میں ایک عقیدہ یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے مردہ کو زندہ کردیتے تھے ۔
جیلانی صاحب کے متعلق صوفیوں میں بہت مشہور واقعہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سےمردہ کو زندہ کرتے تھے جبکہ غوث پاک اپنے حکم سے مردہ کوزندہ کرتے تھے ۔لاحول ولاقوۃ

ایک گوئیے کی قبر پر پیران پیر نے قم باذنی کہا قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا- (تفریح الخاطر ص:19)

تعجب کی بات ہے کہ حنفی مذہب کے مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے " قم باذنی" یعنی اے مردہ جیلانی ؒ کے حکم سے زندہ ہوجاؤ کی تائید کرتے ہیں اور اس کی توجیہ پیش کرتے ہیں ۔
 مولانا اشرف علی ؒ اپنی تالیف امداد المشتاق صفحہ 71 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ یہ جو مشہور ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مردوں کو کہتے ’’قُمْ بِاِذْنِیْ‘‘ ’’میرے حکم سے زندہ ہوجا‘‘، تو آپ کے حکم سے مردے زندہ ہوجاتے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے؟
اپنی کتاب میں تھانوی صاحب بحوالہ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب لکھتے ہیں اور پھر اس کو رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ میں اس کی تائید کرتے ہیں۔
جواب لکھتے ہیں : ہاں یہ درست ہے اس لئے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ قربِ نوافل کے درجے میں تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا) کہہ کر مردہ زندہ کرتے اور آپ قربِ فرائض کے درجے میں تھے، آپ کا مرتبہ اونچا تھا۔ قربِ فرائض کے درجے میں قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه کہے تومردے زندہ ہوتے ہیں اور قربِ نوافل کے درجے میں ولی قُمْ بِاِذْنِیْ کہے تو مردے زندہ ہوتے ہیں۔ لہذا اس عقیدے کو کفر اور شرک کہنا جہالت ہے۔(بحوالہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی 2009 ء دورہ صحیح مسلم شریف نشست چہارم۔ II)
الحفظ والاماں
صوفیت کے اس عقیدے نے جیلانی ؒ کو درجہ الوہیت پہ فائز کردیا کیونکہ مردہ کو زندہ کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے ۔ جیساکہ اسی ذات کا فرمان ہے :
تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ(سورہ آل عمران : 27)
ترجمہ :تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے، تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے، تو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے۔

اور اب قرآن کی چند آیات کی روشنی میں مردے کی حقیقت بھی دیکھیئے ۔

(1) اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔(الاعراف: 194)
ترجمہ : جن لوگوں كو تم الله كے سوا پكارتے هو وه تمهارى هى طرح كے بندے هيں- اگر تم سچے هو تو ضرورى هے كه تم انهيں پكارو تو وه جواب ديں-

(2) اللہ کا فرمان :وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ،أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ۔ (النحل20-21:)
ترجمہ : اور الله كے سوا جنهيں يه لوگ پكارتے هيں وه كوئى چيز پيدا نهيں كرسكتے بلكه وه خود پيدا كئے گئے هيں- وه مرده هيں زنده نهيں- انهيں تو يه بهى معلوم نهيں كه كب اٹهائے جائيں گے۔

(3) اللہ کا فرمان : وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ، إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۔(فاطر:14-13)
ترجمہ : اور الله كے سوا جنهيں تم پكارتے هو وه تو كجھور كى گٹھلى كى جهلى كے بهى مالك نهيں اور اگر تم ان كو پكارو گے تو وه تمهارى پكار نهيں سنيں گے اور اگر بالفرض سن بهى ليں تو تمهارے كچھ كام نه آهيں گے اور قيامت كے دن تمهارے اس شرك كا انكار كر ديں گے-


اللہ تعالی سب کو دین کی صحیح سمجھ دے ۔ آمین یارب

خودكشى كا حكم

70363: خودكشى كا حكم اور خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ اور اس كے ليے دعا كرنا
ميرى خالہ كى بيٹى فوت ہو چكى ہے، اور زيادہ احتمال اور واضح يہى ہوتا ہے كہ اس نے خود كشى كى ہے، اس ليے خود كشى كرنے والے كا حكم كيا ہے؟
اور اللہ تعالى كے ہاں اس كى حالت كيا ہے ؟
اور اس سے كمى كرنے كے ليے والدين كو كيا كرنا چاہيے ؟
الحمد للہ :

خود كشى كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ خود كشى كرنے والے شخص كو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5442 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 109 ).

اور ثابت بن ضحاك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كيا اسے قيامت كے روز اسى كا عذاب ديا جائيگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5700 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 110 ).

اور جندب بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سے پہلے لوگوں ميں ايك شخص زخمى تھا جس اور وہ اسے برداشت نہ كر سكا تو اس نے چھرى ليكر اپنا ہاتھ كاٹ ليا اور خون بہنے كى وجہ سے مر گيا، تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميرے بندے نے اپنى جان كے ساتھ جلدى كى ہے، ميں نے اس پر جنت حرام كر دى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3276 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 113 ).

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور دوسروں كو اس سے دور ركھنے اور روكنے كے ليے كہ وہ ايسا كام مت كريں، خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ بھى نہيں پڑھائى، اور دوسرے لوگوں كو اس كى نماز جنازہ پڑھنے كى اجازت دى، اس ليے اہل علم اور فضل و مرتبہ والے لوگوں كے ليے مسنون يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كى پيروى اور اتباع كرتے ہوئے خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كريں.

جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص لايا گيا جس نے اپنے آپ كو تير كے ساتھ قتل كر ليا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 978 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

المشاقص: چوڑے تير كو كہتے ہيں.

اس حديث ميں يہ دليل ہے كہ خودكشى جيسى نافرمانى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ نہيں ادا كى جائيگى.

عمر بن عبد العزيز، اوزاعى رحمہما اللہ تعالى كا يہى مذہب ہے، اور حسن، نخعى، قتادہ، مالك، ابو حنيفہ، شافعى، اور جمہور علماء كرام رحمہم اللہ تعالى كا مسلك ہے كہ اس ك نماز جنازہ ادا كى جائيگى.

اور اس حديث كا انہوں نے جواب ديتے ہوئے كہا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور سزا اور لوگوں كو اس طرح كے كام سے منع كرتے ہوئے خود تو نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى، تاہم صحابہ كرام كو اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كا حكم ديا تھا. انتہى

ديكھيں: شرح المسلم للنووى ( 7 / 47 ).

اس كا معنى يہ نہيں كہ ـ اگر اس لڑكى كى خود كشى ثابت ہو جائے تو ـ اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعاء نہ كى جائے، بلكہ تمہارے ليے تو يہ حتمى چيز ہے كہ اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، كيونكہ وہ اس كى محتاج اور ضرورتمند ہے.

اور پھر خود كشى كوئى كفر تو نہيں جو دائرہ اسلام سے خارج كر دے جيسا كہ بعض لوگوں كا خيال اور گمان ہے، بلكہ يہ تو كبيرہ گناہ ہے جو اللہ تعالى كى مشئيت پر ہے قيامت كے روز اگر اللہ تعالى چاہے تو اسے معاف كر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اس ليے آپ اس كے ليے دعا كرنے ميں سستى اور كاہلى سے كام مت ليں، بلكہ اس كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، ہو سكتا ہے يہ اس كى مغفرت اور بخشش كا سبب بن جائے.

واللہ اعلم .

Saturday, May 28, 2016

رسول ﷺ کے جونافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں ہے

رسول ﷺ کے جونافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں ہے

@@@@@@@@@@@@@@@@@

33 : سورة الأحزاب 36

وَ مَا کَانَ  لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ  اِذَا قَضَی اللّٰہُ  وَ رَسُوۡلُہٗۤ  اَمۡرًا اَنۡ  یَّکُوۡنَ  لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ  مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ  فَقَدۡ  ضَلَّ  ضَلٰلًا  مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾

اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یاد رکھو) اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی بھی جونافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو ۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری۔ اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔ یا رسول اللہ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں ۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابو معیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے۔ پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝) 33- الأحزاب:6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں ۔ پس آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ) 33- الأحزاب:36) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں ۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے، یہ ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟ آپ نے فرمایا! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں ۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے، چنانچہ نکاح ہو گیا۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو بردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں ۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں ۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو ۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ انکار نہ کرو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ) 33- الأحزاب:36) نازل ہوئی تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق، نہ کسی اور بات کا۔ جیسے فرمایا ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀) 4- النسآء:65)، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں ۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے۔ جیسے فرمان ہے (فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀) 24- النور:63) یعنی جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو ۔

رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے

رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے

Sura noor aaet 63

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْم

 ترجمہٌ

تم اللہ تعالٰی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے   ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں  سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ آپکرے

تفسیرٌ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب
لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بلاتے تو آپ کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یارسول اللہ کہہ کر پکارو ۔ تاکہ آپ کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے ۔ اسی کے مثل آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ١٠٤؁) 2- البقرة:104) ہے اور اسی جیسی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝) 49- الحجرات:2) ہے یعنی ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو ۔ آپ کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بےتکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہوجائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے ۔ یہاں تک کہ فرمایا جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ سے خطاب کس طرح کریں ، آپ سے بات چیت کس طرح کریں ، آپ کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ سے سرگوشیاں کرنے کے لئے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو، آپ کی دعا مقبول ومستجاب ہے ۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہوجاؤ ۔ اس سے اگلے جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن خطبے می

ناخن کاٹنے کا مسنون طریقہ

ناخن کاٹنے کا مسنون طریقہ
==============
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سنت کے حساب سے ناخن کاٹنے کا طریقہ کیا ہے؟حدیث کا حوالہ دے دیں۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ناخن کاٹنے (تراشنے) سنت ہیں۔ اور ان کو کاٹنے کے لئے کوئی دن یا مخصوص طریقہ نبی کریم سے ثابت نہیں ہے۔ جس طرح آسانی ہو آپ تراش سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس دن مدت ہے۔ اس سے زیادہ دن گزرنے پر ناخن نہ تراشنا گناہ ہے۔
ہاں البتہ یہ یاد رہے کہ نبی کریم صفائی ستھرائی کے معاملات میں دائیں جانب سے شروع کرتے تھے۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ) صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب التیمن فی دخول المسجد وغیرہ ح ۴۲۶)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہر کام میں حتى الوسع دائیں جانب سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے ۔
اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی خنصر (چھوٹی انگلی ) سے ناخن کاٹنے کا آغاز کیا جائے کیونکہ یہ انتہائی دائیں طرف ہے ،اور اسی طرح بائیں جانب چلتے چلے جائیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی
محدث فتوی

Thursday, May 26, 2016

quraan samjhna aasan hae

. √ कुछ आलिम कयूँ कहते हैं कि क़ुरान समझना सब के बस की बात नहीँ।

1🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है की अल्लाह के सिवाए कोई ग़ैब जानने वाला नहीँ (6:59)

2🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है कि गैरुल्लाह के नाम की नज़रो नियाज़ हरम है (2:173, 5:3)

3🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है कि दुआओं में खालिस अल्लाह को पुकार जाये (10:106)

4🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है की रसूल को ख़ुदा समझना कुफ़्र है (3:80)

5🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है की क़ब्र में दफ़न शुदा लोग नफ़ा नुक्सान पहुचने का इख़्तियार नहीं रखते(16:20, 21)

6🔻अल्लाह फरमाता है कि हमने क़ुरान को समझनेे के लिए आसान कर दिया तो है कोई नसीहत कबूल करने वाला? (54:17)

7🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है की अल्लाह तुम्हारे करीब है और जब तुम उसे पुकारते हो तो वोह पुकार सुनता भी और दुआ कबूल भी करता है (2:186)

8🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है कि अल्लाह बिलकुल तुम्हारे करीब है उस तक पहुँचने के लिए किसी भी इंसान के ज़रिये की ज़रूरत नहीं (39:3)

9🔻 क्यूंकि क़ुरान कहता है की जो क़ब्रों के अंदर हैं वो नहीं सुन सकते (35:22)

दोस्तो अल्लाह ने क़ुरान को नाज़िल ही इस लिए किया है कि इसे समझा जाये और समझ कर अमल किया जाय।

लेकिन कुछ मफाद परसत लोगों की बजह से आज दीन को ढ़ाल बनाकर मुसलमानो को गुमराह कर के इन की जेब पर ये कहकर डांका डाला जा रहा है की फुंला दूध वाला अपने दूध में पानी मिलाकर बेचता है।

कोई पोखर का पानी मिलाता है कोई यमुना,नल और तालाब का पानी मिलाता है । लेकिन मैं अपने दूध में आवेज़मज़म मिलाता हूँ।

मेरा दूध एकदम शुद्ध है अब बताईये इस दूध में मिलाबट हुई या नहीं।

इसी तरह भोले भाले मुसलमानो को धोका दिया जाता है कहा जाता है कि अल्लाह ने क़ुरान को शिफ़ा कहा है इसलिए इसे ताबीज बना कर गले में लटकाने से शिफ़ा मिलती है।

लेकिन अगर हम मुसलमानो ने क़ुरान को बाकई समझ कर पढ़ा होता तो मालूम पड़ता की अल्लाह ने शहद को भी शिफ़ा कहा है तो हमने शहद की बोतल को अपने गले में क्यूं नहीं लटकाया क्यु

پیشاب کے چھینٹوں سے غسل اور عذاب قبر

 - پیشاب کے چھینٹوں سے غسل اور عذاب قبر
=====================
پیشاب کے چھینٹے اگر سستی اور غفلت کی وجہ سے جسم یا کپڑوں پر پڑیں تو اس کے لیے عذاب قبر کی وعید ہے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ يا مكہ كے باغوں ميں سے ايك باغ كے پاس سے گزرے تو دو انسانوں كو ان كى قبر ميں عذاب ديے جانے كى آواز سنى تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور انہيں عذاب كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں ہو رہا، پھر فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك شخص تو اپنے پيشاب سے بچتا نہيں تھا، اور دوسرا چغلى اور غيب كرتا تھا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھجور كى ايك سبز ٹہنى منگوائى اور اسے دو ٹكڑے كر كے ہر قبر پر ايك ٹكڑا ركھ ديا.
كسى نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے ايسا كيوں كيا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہ ہو گى يا ان كے خشك ہونے تك ان پر تخفيف كى جائيگى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 216 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 292 )
اور مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" لا يستنزہ عن البول او من البول "
اور نسائى كى روايت ميں ہے:
" لا يستبرء من بوله "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح كہا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " لا يستتر من بوله " اس ميں تين روايات ہيں: " يستتر " دو تاء كے ساتھ اور " يستنزہ " زاء اور ہاء كے ساتھ اور " يستبرء " باء اور ہمزہ كے ساتھ، يہ سب روايات صحيح ہيں اور ان كا معنى يہ ہے كہ وہ پيشاب كے چھينٹوں سے اجتناب اور احتراز نہيں كرتا تھا.
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 201 ) اختصار كے ساتھ.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " لا يستتر " اكثر روايات ميں ايسا ہى ہے، اور ابن عساكر كى روايت ميں " يستبرء " كے لفظ ہيں، اور مسلم اور ابو داود كى اعمش سے مروى روايت ميں " يستنزہ "كے لفظ ہيں.
اكثر روايات كى بنا پر " يستتر " كا معنى يہ ہو گا كہ: وہ اپنے اور پيشاب كے درميان آڑ نہيں كرتا تھا يعنى وہ اس كے چھينٹوں حفاظت نہيں كرتا تھا، تو لا يستنزہ والى روايت كے موافق ہو جائيگا كيونكہ تنزہ ابعاد كو كہا جاتا ہے.
اور ابو نعيم كى المستخرج ميں وكيع عن الاعمش كے طريق سے روايت ميں ہے كہ: " لا يتوقع " اور يہ تفسير ہے كہ اس سے كيا مراد ہے، اور بعض علماء نے اسے اپنے ظاہر پر ہى ركھتے ہوئے كہا ہے كہ اس كا معنى ہے كہ: وہ اپنى شرمگاہ نہيں چھپاتا تھا ....
اور " الاستبراء " والى روايت تو بچاؤ كے اعتبار سے زيادہ بليغ ہے.
ابن دقيق العيد ك

قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے

قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے

???????????????????

Book Name
صحیح مسلم

Kitab Name
جنازوں کا بیان

Baab
قبور میں داخل ہوتے وقت اہل قبور کے لئے کیا دعا پڑھی جائے ۔


Hadees Number
2155

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَی الْمَقَابِرِ فَکَانَ قَائِلُهُمْ يَقُولُ فِي رِوَايَةِ أَبِي بَکْرٍ السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِيَة

ترجمہ
َ
ابوبکر بن ابوشیبہ، زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ اسدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا سکھاتے تھے جب صحابہ قبر ستان کی طرف جاتے تھے پس ان میں سے کہنے والے کہتے ابوبکر کی روایت میں ( السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ) اور زہیر کی روایت میں (أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِيَةَ) تم پر سلامتی ہو اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھروں والے اور ہم تم سے إِنْ شَاءَ اللَّهُ ملنے والے ہیں ہم اپنے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔

Ajmat ali

آگ کی لگام

آگ کی لگام

-----------------------

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَکَمِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَهُ أَلْجَمَهُ اللَّهُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ يَوْمَ الْقِيَامَة

ترجمہ
ِ
موسی بن اسماعیل، حماد علی بن حکم، عطاء، ابوہریرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایات کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جس شخص سے کسی علم کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس نے باوجود علم کے اسے چھپایا اللہ تعالیٰ قیامت میں آگ کی لگام ڈالیں گے۔

ِ
Book Name
سنن ابوداؤد
Kitab Name
علم کا بیان
Baab
علم سے روکنے کی کراہت کا بیان
Hadees Number
3642

شادی کے بعد شوہر کا نام اپنے نام کیساتھ لگانا کیسا ہے؟

شادی کے بعد شوہر کا نام اپنے نام کیساتھ لگانا کیسا ہے؟
=======================
حدیث میں جس کام سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اصل والد کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کرے۔ سیدنا واثلہ بن الاَسْقَع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ بڑے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور (کا بیٹا ہونے) کا دعوى کرے۔ صحیح بخاری:3509 اسی طرح سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ» جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کا دعوى کیا‘ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اسکا باپ نہیں ہے‘ تو اس پر جنت حرام ہے۔ صحیح البخاری:6766 اسی بات سے قرآن مجید میں اللہ تعالى نے بھی بایں طور منع فرمایا ہے: ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ان (منہ بولے بیٹوں ) کو انکے (اصل) باپوں کے نام سے پکارو ‘ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں انکے آباء کا علم نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست(یا غلام) ہیں۔ [الأحزاب : 5] البتہ اپنے نام کے ساتھ والد کے سوا کسی کا نام لگانا یا اسکی طرف نسبت کرنا اس انداز سے ہو جس سے ولدیت تبدیل نہ ہو ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے داد کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ» میں نبی ہوں‘ اس میں کوئی جھوٹ نہیں.. . میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں صحیح البخاری: 2864 اسی طرح سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ الاسود بن عبد یغوث الزہری کے زیر پرورش تھے‘ جس بناء پر وہ مقداد بن الاسود مشہور ہوگئے حالانکہ انکے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ بن مالک البہرانی الکندی تھا۔ چونکہ انکی ولدیت معروف تھی کہ یہ کس کے بیٹے ہیں ‘ سو اسلام نے مقداد بن الاسود کہنے یا کہلانے پر کوئی نکیر نہیں کی۔ یاد رہے کہ یہ بدری صحابی ہیں‘ اور چھٹے مسلمان ہیں۔ انکی وفات مدینہ سے قریب جرف نامی جگہ پر 33 ہجری کو ہوئی۔ اسی طرح اسلام میں خواتین کی نسبت خاوند کی طرف کرنا بھی ممنوع نہیں ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا جب زکاۃ کے بارہ میں مسئلہ پوچھنے کے لیے آئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ زینب مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی ہے اور وہ اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کونسی زینب ہے؟ تو جواب دیا گیا « امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ » ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔ صحیح البخاری: 1462 یہاں بھی زینب رضی اللہ عنہا کی نسبت انکے خاوند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی۔اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ عورت کی نسبت اسکے خاوند کی طرف دور نبوی میں بھی کی جاتی تھی ۔ بالخصوص رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا تذکرہ ہوتا تو انکے نام کے ساتھ والد کا نام ذکر کرنے کی بجائے زوجہ رسول کہہ کر تذکرہ کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کانام اپنے نام کے ساتھ لگانا کوئی عیب نہیں‘ اصل عیب اور ممنوع اور حرام کام اپنے والد کے سوا کسی اور کو اپنا باپ قرار دے لینا ہے۔ اور پھر ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے نام عموما باپ کے نام سے خالی ہوتے ہیں مثلا " مریم بی بی‘ ثمینہ کوثر‘ زبیدہ خاتون" وغیرہ اور شادی کے بعد اپنے نام کا دوسرا حصہ ختم کرکے وہ اسکی جگہ خاوند کانام لگا لیتی ہیں جیسے " مریم رشید‘ ثمینہ طالب‘ زبیدہ ارشد" وغیرہ۔ تو اس سے کسی قسم کا اشتباہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ عورت کو جاننے والے سبھی جانتے ہیں کہ اسکے نام کا دوسرا حصہ اسکے خاوند کانام ہے جو کہ اس نے خاوند کی محبت میں اپنے نام کے ساتھ ملا لیا ہے۔ بعض لڑکیوں کے نام ابتداء میں والد کے نام کے لاحقہ پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے " حمنہ اسلم‘ عائشہ اختر‘ آمنہ آصف" ان ناموں میں اسلم ‘ اختر‘ آصف انکے والد کانام ہوتا ہے اور شادی کے بعد وہ اس کی جگہ اپنے خاوند کا نام لگا لیتی ہیں جیسے "حمنہ اشرف‘ عائشہ افضل‘ آمنہ اکرم" وغیرہ۔ تو یہ بھی انکے جاننے والوں سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکے خاوندوں کے نام ہیں۔ اور اس طرح کرنا ولدیت تبدیل کرنا نہیں بلکہ نام تبدیل کرنا کہلاتا ہے۔ اور نام عمر کے کسی بھی حصہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس بارہ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مناسب موقعوں پر مختلف لوگوں کے نام تبدیل فرمائے ہیں۔ اور اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانے کو مغربی معاشرہ کی روایت قرار دینا سراسر نا انصافی ہے۔ کیونکہ اہل مغرب کی روایت میاں بیوی والی نہیں بلکہ انکی روایت تو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ والی ہے۔ جنکی دوستیاں صرف شہوت رانی کے لیے ہوتی ہیں یا کسی اور مطلب کی حدتک۔ فتدبر!

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-ahkam-o-msael-665.html

حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی

( حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی)

*************************

Book Name
صحیح بخاری شریف
Kitab Name
کتاب غزوات کے بیان میں
Baab
واقعہ افک کا بیان
Hadees Number
4146

حدثني بشر بن خالد ،‏‏‏‏ أخبرنا محمد بن جعفر ،‏‏‏‏ عن شعبة ،‏‏‏‏ عن سليمان ،‏‏‏‏ عن أبي الضحى ،‏‏‏‏ عن مسروق ،‏‏‏‏ قال دخلنا على عائشة ـ رضى الله عنها ـ وعندها حسان بن ثابت ينشدها شعرا ،‏‏‏‏ يشبب بأبيات له وقال حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل فقالت له عائشة لكنك لست كذلك‏.‏ قال مسروق فقلت لها لم تأذنين له أن يدخل عليك‏.‏ وقد قال الله تعالى ‏ {‏ والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم‏}‏‏.‏ فقالت وأى عذاب أشد من العمى‏.‏ قالت له إنه كان ينافح ـ أو يهاجي ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.

ترجمہ

مجھ سے بشر بنخالد نے بیان کیا ‘ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں سلیمان نے ‘ انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے یہاں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود تھے اور امالمؤمنین رضی اللہ عنہا کو اپنے اشعار سنا رہے تھے ۔ ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ وہ سنجیدہ اور پاک دامن ہیں جس پر کبھی تہمت نہیں لگائی گئی ‘ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر نادان بہنوں کا گوشت نہیں کھاتی ۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے ۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرما چکا ہے ” اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہدار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہو گا “ اس پر امالمؤمنین نے فرمایا کہ نابینا ہو جانے سے سخت عذاب اور کیا ہو گا ( حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیا کرتے تھے ۔

نبی ﷺ کو پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی




Sahih Bukhari Hadees # 335


حدثنا محمد بن سنان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا هشيم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ح قال وحدثني سعيد بن النضر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا هشيم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا سيار ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا يزيد ـ هو ابن صهيب الفقير ـ قال أخبرنا جابر بن عبد الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏  ‏ أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي نصرت بالرعب مسيرة شهر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأعطيت الشفاعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبعثت إلى الناس عامة ‏  ‏‏.‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو (جہاں بھی) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

جوتے پہن کر نماز پڑھنا

جوتے پہن کر نماز پڑھنا
===============
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ :
{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً }الأحزاب21
یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے

1- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سوال کیا گیا ؟
أكان النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ يصلي في نعليه؟ قال: (( نعم )) [ رواه البخاري: 386 ]
’’کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔‘‘

2- سیدنا ابوسعیدالخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بأصحابه إذ خلع نعليه فوضعهما عن يساره فلما رأى ذلك القوم ألقوا نعالهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته قال ما حملكم على إلقاء نعالكم قالوا رأيناك ألقيت نعليك فألقينا نعالنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن جبريل صلى الله عليه وسلم أتاني فأخبرني أن فيهما قذرا أو قال أذى وقال إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذرا أو أذى فليمسحه وليصل فيهما
ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ علیھم اجمعین کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نعلین مبارک اتار کر بائیں طرف رکھ دیں ـ یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے ـنماز ختم ہونے پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :''آپ کو کون سی چیز نے جوتے اتارنے پر آمادہ کیا ہے ؟'' عرض کرنے لگے ـ'' ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھا ، آپ نے اپنےجوتے مبارک اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیے ''تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :'' کہ مجھے جبریل نے آکر بتایا ہے کہ آپ کے جوتوں کے نیچے گندگی لگی ہے ـ''(تو میں نے جوتے اتار دیے )پھرفرمایا :'' جب بھی تم میں سے کوئی مسجد کو آئے ، تو اپنے جوتے دیکھ لے ـ اگر کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو صاف کرلے! اور جوتوں کے ساتھ نماز پڑھ لے ـ ''
صحيح سنن أبي داود

اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ اگر جوتے صاف ہوں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم مسجد میں جوتے پہن کر جماعت کرایا کرتے تھے ـ

3-سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
(خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلاَخِفَافِهِم)
یہودیوں کی مخالفت کرو ! وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے "
صحيح سنن أبي داود

4-عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ـ
رأيت رسول ﷲ يصلي حافيا منتعلاً
’’ میں نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
صحيح سنن أبي داود

ان احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ جوتوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں ـ صاف جوتوں میں نماز جائز ہے تو طواف اور صفا مروہ کی سعی بھی کر سکتے ہیں‌۔ بعض مذاہب میں ہے کہ حالت جنگ اور ایمرجنسی میں جوتے پہن کرنمازپڑھ سکتے ہیں ورنہ نہیں ـ یہ شرط صحیح نہیں ـ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ـ
اللہ اعلم ـ