Saturday, July 30, 2016

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں کو رب بنایا ہے


ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں   کو رب بنایا ہے 

Ii@@@@@@@@@@@@@@@@

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ 

اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

 

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے  اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔


  sura tawvba9  aaet31

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولہ (درانتی) سے اپنا ختنہ خود کیا

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولہ (درانتی) سے اپنا ختنہ خود کیا


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيَّ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُوم

ِ
قتیبہ بن سعید، مغیرہ ابن عبدالرحمن خزامی ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولہ (درانتی) سے اپنا ختنہ خود کیا

ِ
Book Name
صحیح مسلم
Kitab Name
فضائل کا بیان
Baab
حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے فضائل کے بیان میں
Hadees Number
6036

پیٹه پیچهے قرآن مجید تلاوت کرنا

پیٹه پیچهے قرآن مجید تلاوت کرنا
==================
مقبول احمد سلفی


قرآنِ مجید شعائر اللہ میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ط [الحج:۳۲]}
[ ’’ اور جو اللہ کی نشانیوں کی عزت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے۔ ‘‘ ]
اوردوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰہِ ط }[المآئدۃ:۲]
’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی بے حرمتی نہ کرو۔

اس لئے جس پہلو سے بھی قرآن کریم کی تنقیص ہوتی ہے ہر اس پہلو سے ہمیں پرہیز کرناہے لیکن جن پہلوؤں سے قرآن کی بے ادبی نہیں ہوتی تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ۔

اپنے سماج میں ایک بات مشہور ہے کہ پیٹھ کے پیچھے قرآن کی تلاوت کرنا قرآن کی بے ادبی ہے ۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ کہیں بھی قرآن کی تلاوت کی جائے چاہے مسجد ہو، مدرسہ ہو، یا دیگر جگہیں ۔ جہاں لوگوں کی کثرت ہوگی وہاں لوگوں کو ایک دوسرے کے پیچھے تلاوت کرنی پڑے گی ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اس میں بے ادبی ہے ۔ بعض طبقہ میں مسجد میں ایسا کرنے کو بے ادبی تصور کیاجاتا ہے جبکہ انہی کے یہاں مدرسوں میں صف بندی کے ساتھ قرآن کی تعلیم ہوتی ہے ۔ اور اگر یہ بات بے ادبی سمجھی جائے تو حرم شریف میں پہلی صف کے علاوہ کوئی تلاوت نہیں کرسکتا ۔ گویا چند لوگ وہاں تلاوت کرنے کے مجاز ہیں جبکہ ہزاروں لوگوں کو تلاوت سے محروم ہونا پڑے گا۔

خلاصہ کلام یہ کہ تلاوت کرتے وقت اگر آگے جگہ خالی نظر آئے تو تلاوت کے لئے آگے چلاجائے اور اگر پیچھے بیٹھ کر تلاوت کررہاہوتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب
شائع کردہ بذریعہ MAQUBOOL AHMAD پر 21:23

نماز کی زبانی نیت کرنا

- 💫نماز کی زبانی نیت کرنا
〰〰〰〰〰〰〰〰
​بے شمار نمازیوں کی یہ بڑی مشہور بدعت ہے کہ وہ نماز سے پہلے مختلف الفاظ کے ساتھ زبانی نیت کرنا شروع کر دیتے ہیں مثلاََ

❌((نویت ان اصلی کذا رکعۃ فرضاََ للظھرائو۔۔۔۔و نحوہ))
''میں نیت کرتا ہوں اتنی رکعت نماز پڑھوں گا۔یا ظہر کی۔۔۔۔

اس جیسے الفاظ ہوتے ہیں۔
''یہ پرانی بدعت ہے۔شریعت اسلامیہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں حتی کہ کوئی ضعیف حدیث بھی اس کی موید نہیں ہے۔بلکہ نیت کا مقام دل ہے جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اور اسی پر عقل والوں کا اجماع ہے۔زبان کے ساتھ نماز یا دوسری عبادات میں نیت کرنا نہ تو نبی کریم ۖ سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی سے اور نہ کسی معتبر امام سے۔
اس مسئلہ پر نہ کوئی صحیح سند ہے اور نہ ضعیف'آپ ۖ کا افتتاح نماز میں صرف یہی طریقہ ہوتا تھا کہ ''اللہ اکبر''کہتے تھے۔
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔''رسول اللہ ۖ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ کہتے 'اس (تکبیر) سے پہلے آپ کچھ بھی نہیں کہتے اور نہ زبانی نیت کرتے۔ نہ یہ فرماتے کہ:میں ایسے،چار رکعتیں،قبلہ رخ ہو کر پڑھتا ہوں، امام یا مقتدی کی حثیت سے،اور نہ یہ فرماتے کہ اداء ہے یا قضاء ہے یا (میری یہ نماز)فرض وقت(میں) ہے۔ 👆یہ سب بدعات ہیں۔

آپ ۖ سے اس کا ثبوت نہ صحیح سند سے ہے اور نہ ضعیف سند سے۔ان میں سے ایک لفظ بھی با سند (متصل)یا مرسل(یعنی منقطع) مروی نہیں ہے۔اور نہ کسی صحابی سے یہ (عمل) منقول ہے۔تابعین کرام اور آئمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اسے (مستحب و) مستحسن قرار نہیں دیا۔

(زاد المعاد ج١ص٢٠١فصل فی ھدیہ ۖ فی الصلاۃ)
➰➰➰➰➰➰

نماز میں ٹخنہ سے نیچے شلوار

نماز میں ٹخنہ سے نیچے شلوار
==================
مقبول احمد سلفی

شلوار کا ٹخنے سے نیچے لٹکانا حرام ہے اور شدید گناہ کا باعث ہے ، اس سے متعلق بہت ساری روایات ہیں ۔ایک روایت میں ہے ۔
مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ مِنْ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ ۔(رواه البخاري :5787)
"یعنی کپڑے کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہے وہ آگ میں ہے ۔''

ایک دوسری روایت میں ہے ۔
لا ينظر الله إلى من جر إزاره بطراً" (رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه عن أبي سعيد )
'' جو شخص اپنا کپڑا غرور و تکبر سے لٹکائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کرے گا ''۔

گویا ٹخنہ سے نیچے شلوار لٹکانا سخت گناہ ہے چاہے نماز کی حالت ہو یا غیر نماز کی ۔

اگر کسی نے ٹخنہ سے نیچے شلوار کرکے نماز پڑھ لی تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ شیخ ابن عثیمین ؒ اور شیخ ابن باز ؒ کا بھی یہی رجحان ہے ۔
بعض علماء نے ٹخنہ سے نیچے شلوار ہونے کو ناقض وضو بتلایا اور نماز بھی درست نہ ہونے کا فتوی دیا ۔ حالانکہ یہ موقف احادیث کی روشنی میں صحیح نظر نہیں آتا۔
کیونکہ کسی بھی فقیہ یا محدث نے اسبال کو نواقض وضو میں نہیں شمار کیا۔ جس روایت سے ناقض وضو اور نماز کی عدم صحت کی دلیل پکڑتے ہیں وہ روایت یہ ہے ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ
(سنن أبی داود کتاب الصلاۃ باب الإصبال فی الصلاۃ)

آپ ﷺ نے ایک آدمی کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا (اذھب فتو ضا)جااور وضو کر، تو وہ گیا اور وضو کیا، پھر وہ آیا ، تو آپ نے پھر کہا جاؤ اور وضو کرو، تو وہ گیا اور وضو کیا ۔ پھر وہ آیا۔ تو آپ سے ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! آپ نے اسے کیوں وضو کرنے کا حکم دیا ۔ پس خاموش ہوگئے ۔ پھر فرمائے : وہ ازار (شلوار) لٹکاکر نماز پڑھ رہا تھا۔ اور اللہ تعالی ازار لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا۔

اس روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اِ س کی سند میں ابو جعفر غیر معروف راوی ہے۔ امام منذری نے مختصر سنن ا بی دا

جس کا شوہر گم ہوجائے

جس کا شوہر گم ہوجائے
➖➖➖➖➖➖➖
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کے زندہ ہونے یا  فوت ہونے کا پتہ نہ چل سکے۔نہ اس کے  ددھیال کے کسی مرد  اور عورت کو اس کی زندگی میں یاموت کا علم ہو اور اس کے سسرال دوستوں اور جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مشہورقول کے مطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کا انتظار کرے ۔چار برس اس کے انتظار کے لئے ہیں۔اس مدت کے گزر جانے پر اس کو فوت شدہ قرار دیا جائےگا۔ اور پھر چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت منظو ر ہوگی ازاں بعد وہ بی بی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آذاد ہوگی جیسا کہ سبل السلام میں ہے:
''حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا جس عورت کا شوہر گم ہوجائے دو چار برس تک انتظار کرے۔جب چار برس پورے ہوجائیں( تو گویا وہ  فوت ہوچکا ہے اور اسکی بیوی بیوہ قرار پائی)
لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے اس کے  بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کرسکتی ہے۔''
(سبل السلام ج2)
''جناب سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمرفاروق   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ جونہی عورت کاشوہر گم ہوجائے اور اسکےبارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ  ہے یا مرچکا ہے۔کہ جس روز سے اس کی خبر بندہوئی چار برس عورت اس کا انتظار کرے۔اور چار برس پورنے ہونے کے بعد چار ماہ دس دن اپنی بیوگی کی عدت گزاار کرچاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔''
(موطا  امام مالک)
صحیح بخاری میں  جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ وہ عورت  گمشدگی کے ایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔اور حضرت عبدا للہ بن  مسعود   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسی مدت کے قائل ہیں۔'' کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان دغا میں گم ہوجائے تو اس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتطار کرے۔''
(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 23)''
 کہ حضرت عبدا للہ بن مسعود   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی  پھر لونڈی کا مالک ہوگیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس کا ایک برس انتظا رکیا۔
(صحیح بخاری  الطلاق باب نمبر 22)
امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ   کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔اور موجودہ ظروف احوال کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے۔اب چونکہ زرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہوچکا ہے کہ اس  ترقی یافتہ دور میں ایک برس کاانتطار بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کافتویٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔جس میں آج کی  طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات یعنی اخبار ریڈیو ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتی�

GAIB KA ILM

GAIB KA ILM 🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴
gaib ka ilm sirf Allah hi janta h🔹
dalil dalil
1 surah bakra ayt 33
2 surah maeda ayt 109
3 surah maeda ayt 116
4 surah anaam 50,,59,,73
5 surah aaraf ayt 188
6 surah touba ayt 78,,94,,105
7 surah younus ayt 20
8 surah hud ayt 31,,123
9 surah raad ayt 9
10 surah nahal ayt 77
11 surah kahaf ayt 26
12 surah momenun ayt 92
13 surah nahal ayt 77
14 surah sajda ayt 6
15 surah saba 3,,48
16 surah faatir ayt 38
17 surah zumar ayt 46
18 surah hujrat ayt 18
19 surah tur ayt 41
20 surah najam ayt 35
21 surah hashr ayt 22
22 surah juma ayt 8
23 surah tagabin ayt 18
24 surah jin ayt 26
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے



ارشاد باری تعالیٰ ہے


کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ، ( ٥٧ العنکبوت )
ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے پھر تم سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے

پہلے تمام انبیاء بھی وفات پاچکے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے انبیاء کی وضاحت فرمائی کہ وہ سب اپنے مقاصد پورے کر کے دنیا سے وفات پا کر اپنی منزل کی طرف لوٹ گئے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدً ا لَّا یَاْ کُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِ یْنَ (٨:انبیاء )
اور ہم نے ان (رسولوں)کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہوںاور نہ تھے وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں فرمان رب العالمین۔
کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک نہ رہے اسلئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی وفات کی خبر دے دی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
ِانَّکَ مَیِِّت وَاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ (الزمر)
(اے پیغمبر) بے شک (ایک دن) آپ کو مرنا ہے اور وہ سب بھی (ایک دن) مریں گے۔

ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
و َمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍمِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ، اَ فَائِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَلِدُوْنَ َ (انبیاء)
اور (اے پیغمبر) ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کیلئے ہمیشہ کی زندگی نہیں رکھی اگر آپ فوت ہو جائیں تو یہ لوگ کیا ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ۔ (الا نعام)
(اے رسول) فرمادیجئے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اﷲ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا فرمایا کرتے تھے!۔
اے اﷲ میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر تیری قدرت کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے اور مجھے موت عطا کر جب میرے لئے موت بہتر ہو(سنن نسائی باب الدعا)

جنگ احد اور وفات رسول ۖکی افواہ
جنگ احد کے موقعے پر کفار نے یہ افواہ پھیلادی تھی کہ محمدۖکو شہید کر دیا گیا ہے یہ خبر سن کر صحابہ اکرام رضوان اﷲعلیہم کے حوصلے پست ہو گئے اور میدان جنگ سے ان کے قدم اکھڑنے لگے تو اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کا نزول فرمایا:

وَمَا مُحَمَّد اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُولُ، اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ اَنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ،وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّاﷲَ شَئْیًا، وَسَیَجْزِی اﷲُ الشّٰکِرِیْنَ (ال عمران)
اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں اگر یہ فوت ہوجائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم الٹے پائوں پ�

ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا

Jo log ye samajh te hae ki fala saks  alah ke paas hamara sifaris hoga ya nabi ﷺ tak pahucha dega

Unke liye ye aaet samajh na jaruri hae

وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَاۗىِٕهِمْ شُفَعٰۗـــؤُا وَكَانُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ كٰفِرِيْنَ

اور ان  کےتمام تر شریکوں میں سے ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا  اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں کے منکر ہوجائیں گے۔

Surah room 13

اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے

اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::
No. 1

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

بیشک جو لوگ اللہ تعالٰی کی اُتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گانہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

Surah baqra 174

:::::':'::::::::::::::::::::::::::::
No. 2

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْن

ترجمہَ

جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

Surah baqra159

"""""""""""""""""""""""""""

تپسر

حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے
 اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں، اہل کتاب نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں ۔ جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے، صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے کسی شرعی عمر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپ نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے۔ پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی حضرت عطاء فرماتے ہیں آیت (لاعنون) سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے۔ حضرت مجاھد فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے

Friday, July 29, 2016

قرآن و حدیث كا باہمی ربط

قرآن و حدیث كا باہمی ربط
================
مقبول احمد سلفی

قرآن اور حدیث دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، قرآن کو حدیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا اس لئے تو  قرآن کو بغیر حدیث کے سمجھا ہی نہیں جاسکتا ہے ۔ بنابریں اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی بھی اطاعت کا ایک ہی ساتھ حکم دیا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے :
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ . (آل عمران :32)
ترجمہ:آپ فرما دیں کہ ﷲ اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو ﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ کی اطاعت قرآن کی صورت میں ضروری ہے ،اسی طرح نبی ﷺ کی اطاعت حدیث(قول ، فعل، تقریر اور صفت) کی صورت میں ضروری ہے بلکہ یہ دونوں اطاعتیں در اصل ایک ہی ہیں۔
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۔ (النساء:80)
ترجمہ : جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ گویااللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔
قرآن و حدیث کا باہمی ربط اس بات سے اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کی تشریح و بیان نبی ﷺ کے ذمہ لگائی ہے ۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔(النحل :44 )
ترجمہ:اورہم نے آپ کی طرف ذکرِ(قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے (قرآن کا پیغام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
اور پھر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پہ قرآن کو حدیث کہہ کر اور بھی واضح کردیا کہ قرآن حدیث ہے ۔
چنانچہ ایک جگہ فرمان رب ہے :
فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون(سورۃالجاثیۃ:6)
ترجمہ : پس اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث (قرآن)پر ایمان لائيں گے۔
ایک دوسری جگہ فرمان الہی ہے :
فبای حدیث بعدہ یومنون(المرسلات:50)
ترجمہ : اب اس قرآن کے بعد کس حدیث (قرآن) پر ایمان لائيں گے-
ان کے علاوہ اور دیگر آیتیں ہیں جن میں لفظ حدیث سے مراد قرآن ہے ، اسی طرح ایک مشہور حدیث میں ہے :فان خیر الحدیث کتاب اللہ(مسلم)
ترجمہ : بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے۔
 اور ایک حدیث میں نبی ﷺ کے اقوال و افعال اور تقاریر کو حدیث کہا گیا ہے- (مشکوۃ ص:3)

مذکورہ بالا تمام دلائل وبراہین سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید اور نبی ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریر حدیث ہیں۔ اور اسی طرح ان چند سطروں میں قرآن کا حدیث سے کتنا گہرا ربط ہے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ بہت عام اور سادہ سی بات ہے جس کا انکار کوئی ضدی ہی کرسکتا ہے ۔ ان باتوں سے ایک اور بات کا علم ہوتا ہے کہ اہل الحدیث کا مطلب قرآن اور حدیث والے ۔

اللہ تعالی نہ سمجھنے والوں کو سمجھ عطا فرما۔ آمین

مقلدین کا وسوسہ" اہل حدیث انگریز کی پیداوار" اور اس کا علاج

مقلدین کا وسوسہ" اہل حدیث انگریز کی پیداوار" اور اس کا علاج
======================
مقبول احمد سلفی

کئی سالوں سے مقلدین کی طرف سے اہل حدیث کے وجود کو ہندوستان میں انگریز کی آمد سے جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے تاکہ اپنے نئےوجود کو لوگوں کی نظروں سے بچا سکے۔ یہ کام وہی کرتا ہے جسے اپنے وجود پہ بھروسہ نہیں ہوتا۔
درحقیقت اہل حدیث ہندوستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں اس وقت سے ہیں جب سے اسلام ہے ، یہ الگ بات ہے ہم حق پرستوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے ، اس کی وجہ اللہ رب العزت نے خود بتلادی ہے ۔ وقلیل من عبادی الشکور(القرآن) شکر گذار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
اہل حدیث کو انگریز کی آمد سے جوڑنے کے واسطے مقلدوں کی عقل کا جنازہ نکل گیا ۔ ایک طرف تو اہل حدیث کو انگریز کی پیداوار کہتے ہیں دوسری طرف اہل الحدیث محدثین کی جماعت کہہ کر شروع اسلام سے اس کا وجود بھی مانتے ہیں ۔ ان کی عقل پہ ماتم کیا جائے اور کیا کیا جائے؟ ۔
اہل حدیث کا صحیح معنی اور اس کی صحیح تاریخ سمجھ لیں ۔
جیسے اہل السنہ سے سنت والے یعنی تمام مسلمان خواہ پڑھا ہو یا جاہل مراد ہیں اسی طرح اہل الحدیث سے حدیث پہ عمل کرنے والے تمام مسلمان خواہ پڑھا لکھا ہو ،غیرپڑھا لکھا مراد ہیں ۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
"صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث" ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔
(مناقب الامام احمد بن حنبل لابن الجوزی ص۲۰۹ و سندہ صحیح)
میں دیوبندی یا بریلوی کو انگریزکی اولاد یا اس کی پیداوار نہیں کہہ سکتااللہ تعالی کے سامنے میری پوچھ ہوگی مگر ان دونوں کا وجود انگریزی دور سے ہے یہ بالیقن کہہ سکتا ہوں۔ مجھے تعجب اس بات پہ ہے اہل حدیث کو کیسے انگریز کی پیداوار کہا جاتا ہے؟ ، ذرہ برابر اللہ کا خوف نہیں ہوتا۔ ہند پہ راج کرنے والا انگریز تو سراپا کافر تھا ، مسلمان ان کافر کی پیداوار کیسے ہوسکتے ہیں ؟ شرم نہیں آتی یہ بات کہتے ہوئے ۔
؎یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود
اہل حدیث کے مختلف نام ہیں ،ان میں سلفی، محمدی ، اہل السنہ اوراثری وغیرہ ہیں ۔ یہ سب اہل حدیث کے صفاتی نام ہیں جس کی پہچان حدیث میں طائفہ منصورہ بتلائی گئی ہے۔ طائفہ منصورہ بھی ایک وصفی نام ہے یعنی نجات پانے والی جماعت ۔ اس نام کا بھی یہ مطلب نہیں کہ اسلام سے ہٹ کر یہ ایک الگ فرقہ ہے ۔
گویا اہل الحدیث میں بشمول عوام وخواص صحابہ ، تابعین، تبع تابعین،ائمہ اور قیامت تک آنے والے حامل کتاب وسنت شامل ہیں۔ اس کا دوٹوک مطلب یہ ہوا کہ اہل حدیث سدا سے ہیں ۔ ائمہ و محدثین نے انگریز کی آمد سے سیکڑوں سال پہلے طائفہ منصورہ کو اہل حدیث بتلایا ہے ۔امام احمد بن حنبل، امام بخاری , امام علی بن المدینی اور بہت سے اہل علم نے طائفہ منصورہ اہل حدیث ہی کو ق

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ حقوق العباد سے متعلق سب سے پہلے خون ناحق کے متعلق سوال ہوگا

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ حقوق العباد سے متعلق سب سے پہلے خون ناحق کے متعلق سوال ہوگا

@@@@@@@@@@@@@@@@@

جیساکہ بخاری کی روایت ہے ۔
عن عَبْدَ اللَّهِ بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ (6533)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون ناحق کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا.
اور حقوق اللہ میں سے سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ متعدد احادیث اس پہ دلالت کرتی ہیں  مثلا
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ : انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنْ الْفَرِيضَةِ ؟ ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ (صحيح الترمذي:413)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : قیامت کے دن سب سے پہلے انسانی اعمال میں سے نماز کا حساب ہوگا،اگر وہ صحیح ہوئی تو اسے کامیاب وکامران قراردیا جائے گا اور اگر اس کامعاملہ خراب ہواتو انسان خسارے میں رہے گا۔اگر اس فریضہ میں کچھ کوتاہی ہوئی تو سنن و نوافل سے اس کی تلافی کردی جائے گی۔ اسی طرح دیگر اعمال کا محاسبہ ہوگا۔
اب اس کے بعد یہ سمجھیں کہ کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے تین شرائط ہیں :
(1)نیت کا خالص ہونا:دلیل
 إنما الأعمال بالنيّات" (صحیح بخاری، کتاب الایمان)
ترجمہ : نبی ﷺنے فرمایا : "بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے "
2- عقیدہ توحید ہونا:دليل
اللہ تعالی کا فرمان: : وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: ٨٨ )
ترجمہ : ہم شرک کرنے والے کے تمام اعمال برباد کر دیں گے .
3- عمل کا سنت کے مطابق ہونا :دلیل
من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہورد(صحیح بخاری:7962 )
ترجمہ : وہ عمل جس پر میرا حکم نہیں ، مردود ہے.

جن لوگوں کا عمل ان صفات سے خالی ہوگا ان کا عمل اللہ کے یہاں قبول ہی نہیں ہوگا اور جن کا عمل اللہ کے یہاں مقبول ہی نہیں ان کا معاملہ سخت ہوگا۔
اللہ تعالی ہمارے حساب و کتاب آسان بنائے ۔ آمین

کتبہ
مقبول احمد سلفی

قرآنی معلومات

[1:57am, 13/07/2015] ‪+966 53 143 7827‬: قرآنی معلومات کے لئے مندرجہ ذیل رابطہ پہ کلک کریں۔
[1:58am, 13/07/2015] ‪+966 53 143 7827‬: http://lib.bazmeurdu.net/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%B9%D9%84%D9%88%D9%85%D8%A7%D8%AA-%DB%94%DB%94%DB%94-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D9%88-%D8%AA%D8%B1%D8%AA%DB%8C%D8%A8-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%B9%D8%AF%D9%86%D8%A7%D9%86/

اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں

َ

اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں

@@@@@@@@@@@@@@@@@
 اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرادیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀) 6- الانعام:59) یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ 34؀ۧ) 31- لقمان:34) اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا ؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی۔ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے؟ جیسے فرمان ہے آیت (ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ١٨٧؁) 7- الاعراف:187) سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آجائے گی ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لئے کہ اللہ فرماتا ہے زمین وآسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں ۔ آسمان کی زینت بھولے بھٹکوں کی رہبری اور شیطانوں کی مار۔ کسی اور بات کا ان کیساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے۔ جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو معلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہوگا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکو سلے ہیں انکی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے ۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہوسکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں ۔ سنو اللہ کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے ( ابن ابی حاتم ) سبحان اللہ حضرت قتادہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے۔ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہوگئے ہیں ۔ ایک قرأت میں بل ادرک ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں

Thursday, July 28, 2016

بستر پر پیدا ہوا ہے

بستر پر پیدا ہوا ہے ۔

^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

صحیح بخاری      4303

حدثني عبد الله بن مسلمة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مالك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عروة بن الزبير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال الليث حدثني يونس عن ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة قالت كان عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد أن يقبض ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال عتبة إنه ابني‏.‏ فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة في الفتح أخذ سعد بن أبي وقاص ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقبل به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأقبل معه عبد بن زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال سعد بن أبي وقاص هذا ابن أخي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عهد إلى أنه ابنه‏.‏ قال عبد بن زمعة يا رسول الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هذا أخي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هذا ابن زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولد على فراشه‏.‏ فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا أشبه الناس بعتبة بن أبي وقاص ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هو لك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هو أخوك يا عبد بن زمعة ‏"‏‏.‏ من أجل أنه ولد على فراشه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ احتجبي منه يا سودة ‏"‏‏.‏ لما رأى من شبه عتبة بن أبي وقاص‏.‏ قال ابن شهاب قالت عائشة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الولد للفراش وللعاهر الحجر ‏"‏‏.‏ وقال ابن شهاب وكان أبو هريرة يصيح بذلك‏.

ترجمہ

مجھ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( دوسری سند اور لیثبن سعد نے کہا مجھ سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ( مرتے وقت زمانہ جاہلیت میں ) اپنے بھائی ( سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ بن لیثی کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں ۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑکا ہو گا ۔ چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوے تو سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس بچے کو لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے ۔ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا یا رسول اللہ یہ میرا بھائی ہے ( میرے والد ) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہیں کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی �

بستر پر پیدا ہوا ہے

بستر پر پیدا ہوا ہے ۔

^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

صحیح بخاری      4303

حدثني عبد الله بن مسلمة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مالك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عروة بن الزبير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال الليث حدثني يونس عن ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة قالت كان عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد أن يقبض ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال عتبة إنه ابني‏.‏ فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة في الفتح أخذ سعد بن أبي وقاص ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقبل به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأقبل معه عبد بن زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال سعد بن أبي وقاص هذا ابن أخي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عهد إلى أنه ابنه‏.‏ قال عبد بن زمعة يا رسول الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هذا أخي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هذا ابن زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولد على فراشه‏.‏ فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابن وليدة زمعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا أشبه الناس بعتبة بن أبي وقاص ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هو لك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هو أخوك يا عبد بن زمعة ‏"‏‏.‏ من أجل أنه ولد على فراشه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ احتجبي منه يا سودة ‏"‏‏.‏ لما رأى من شبه عتبة بن أبي وقاص‏.‏ قال ابن شهاب قالت عائشة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الولد للفراش وللعاهر الحجر ‏"‏‏.‏ وقال ابن شهاب وكان أبو هريرة يصيح بذلك‏.

ترجمہ

مجھ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( دوسری سند اور لیثبن سعد نے کہا مجھ سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ( مرتے وقت زمانہ جاہلیت میں ) اپنے بھائی ( سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ بن لیثی کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں ۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑکا ہو گا ۔ چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوے تو سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس بچے کو لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے ۔ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا یا رسول اللہ یہ میرا بھائی ہے ( میرے والد ) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہیں کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی �

قرآن میں تمام مسائل کا حل موجود ہے

قرآن میں تمام مسائل کا حل موجود ہے
===================
اسلام کے پہلے مصدر قرآن کریم میں زندگی میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے، اس میں زندگی میں پیش آنے والے سارے احکام اختصار کے ساتھ بیان کر دئیے گیے ہیں، قرآن میں خود کہا گیا ہے:
ما فرطنا في الكتاب من شيء (سورة الأنعام 38)
“ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے.”
لیکن قرآن میں زیادہ تر موضوعات پر جو رہنمائی ملتی ہے وہ مختصر ہے. ان سب کی تفصیلی وضاحت کی ذمہ داری اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی. اللہ نے فرمایا:
وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم (سورة النحل 44)
  ” اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں “.
پھر آپ نے لوگوں کے سامنے قرآن کی جو تشریح کی وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی تھی، اپنی طرف سے آپ نے اس میں کچھ نہیں ملایا، اسی لئے اللہ نے فرمایا:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ  (سورة النجم 3، 4)
”  اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے. “
اس کی تائید سنن ابوداود کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ  نے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه (سنن أبي داؤد بحاشيته عون المعبود 4 / 328-329)
“مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کی طرح اس کے ساتھ ایک اور چیز (حدیث) دی گئی ہے.”
واضح یہ ہوا کہ سنت یا حدیث بھی قرآن کی طرح ہے اور قرآن کے جیسے یہ بھی وحی ہے لیکن قرآن کا لفظ اور معنی دونوں اللہ کی جانب سے ہے جب کہ حدیث کا مفہوم اللہ کی جانب سے ہے اور اس کا لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےاور دونوں کو یکساں طور پر پہنچانے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے.
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا “وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے جو معجزہ کے طور پر ظاہر ہوئی ہے اور وہ قرآن ہے جبکہ دوسری وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور نہ ہی وہ معجزہ کے طور پر ظاہر ہوئی ہے وہ حدیث ہے جو قرآن کی طرح ہی مستند ہے. “(الإحکام فی اصول الأحكام لابن حزم 87)
پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے کام ان دونوں قسموں کی وحی کے مطابق ہوتے تھے. یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اصل ماخذ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ ‘حديث’ ہے. دونوں کو ملا کر مذہب اسلام کی مکمل تشریح اور اسلامی شریعت کی ساخت بنتی ہے.

جنت کے دروازے اور ان کے نام

جنت کے دروازے اور ان کے نام
================
جنت کے کل آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ریان ہے جو روزہ داروں کے لیے مختص ہے ۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ لَا يَدْخُلُهُ إِلَّا الصَّائِمُونَ
صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ أبواب الجنۃ ح ۳۲۵۷

جنت کے بعض‌ دروازوں کے نام اس حدیث میں‌ ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الجَنَّةِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا، قَالَ: «نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ» [صحيح البخاري 3/ 25]۔

صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہو گا اسے ”باب ریان“ سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ مزید دروازوں‌ کی تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَعَ فِي الْحَدِيثِ ذِكْرُ أَرْبَعَةِ أَبْوَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَتَقَدَّمَ فِ

اذان كے بعد دعا

🍄💠 اذان كے بعد دعا 💠🍄

🚨 ميرے علم كے مطابق اذان سے قبل تو كوئى دعاء نہيں، اگر اس وقت يعنى اذان سے قبل كوئى خاص قول وغيرہ كہا جائے تو يہ بدعت منكرہ ہے، ليكن اگر بالاتفاق اور اچانک ايسا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں
🚨 جب مؤذن اقامت كہنے لگے تو خاص كر اس وقت بھى ہمارے علم كے مطابق كوئى خاص قول اور دعا نہيں ہے، اس ليے بغير ثبوت اور دليل كے ايسا كرنا بدعت منكرہ ميں شامل ہوتا ہے
✔ رہا مسئلہ اذان اور اقامت كے درميان دعا كا، تو يہ ايسا وقت ہے جس ميں دعاء كرنا سنتِ مرغوبہ ہے
💎 انس رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اذان اور اقامت كے درميان كى گئى دعاء رد نہيں كى جاتى
(سنن ترمذى: 212)
✔ اور اذان كے فورًا بعد دعاء كے الفاظ مخصوص ہيں:
💎 عَمرو بن عاص رضی الله عنہ كہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمايا: جب اذان سنو تو اس كا جواب دو اور پھر مجھ پر درود پڑھو...
(صحيح مسلم: 384)
💎 جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو شخص اذان سن كر يہ دعاء پڑھتا ہے

اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاَةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ

(اے اس مكمل پكار كے رب، اور قائم نماز كے رب محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو وسيلہ اور فضيلت عطا فرما، اور انہيں وہ مقام محمود عطا فرما جس كا تو نے ان سے وعدہ كر ركھا ہے)
اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی
(صحيح بخارى: 589)
💎 سعد رضی الله عنہ سے روايت ہے که رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: اذان سننے کے بعد جو كہے

أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبَّـاً وَبِمُحَـمَّدٍ رَّسُولًا وَبِالإسْلامِ دِينًا

(ميں گوا ہی ديتا ہوں که الله كے علاوه كوئی معبودِ برحق نہيں، وه اكيلا ہے اس كا كوئی شريک نہیں اور محمد صلی الله عليه وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں، میں راضی ہو گیا الله كے رب ہونے پہ اور محمد صلی الله عليه وسلم كے رسول ہونے پہ اور اسلام كے دين ہونے پہ)
اس كے پچھلے گناه معاف ہو جاتے ہیں
(صحيح مسلم: 386)
🌹 احاديث كو جمع كرنے سے

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاَةِ �

واٹس اپ پوسٹ ملنے پہ ہم کیا کریں

واٹس اپ پوسٹ ملنے پہ ہم کیا کریں؟
➖➖➖➖➖➖➖
📗مقبول احمد سلفی

✅اگر کوئی پوسٹ بیحد پسند آئے تو" سبحان اللہ" کہہ سکتے ہیں.

✅ کسی نے محنت سے تیار کرکے کوئی چیز آپ کو بهیجی ہے ، اس پہ "جزاک اللہ خیرا" کہنا چاہئے.

✅کسی پوسٹ کا آخری جملہ دعائیہ ہو تو اس پہ "آمین " کہنا چاہئے.

✅کوئی غمناک خبر ملے تو " انا للہ وانا الیہ راجعون" کہنا چاہئے.

✅کوئی سوال ہو اور جواب معلوم نہ ہو تو "لاادری" کہنا چاہئے.

✅ اگر کوئی خلاف شریعت بات ہو تو اس پہ تنبیہ کرنا چاہئے.

✅اگر پوسٹ سمجه میں نہ آئے تو وضاحت طلب کرنا چاہئے.

✅اگر بلا دلیل پوسٹ ہو تو دلیل طلب کرنا چاہئے.

✅اگر قرآن و حدیث کی بات ہو تو اس سے استفادہ کرکے آگے بهیجنا چاہئے ، بصورت دیگر فارورڈ نہیں کرنا چاہئے.

✅  واٹس اپ پہ انگریزی اسٹائل و آداب سے پرہیز کرکے اسلامی آداب کو رائج کرنا چاہئے مثلا ہائی ہیلو، بائی بائی، تهینکس، اوکے، گڈ ، پلیز ، واو وغیرہ..............


〰〰〰〰〰〰〰

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا
===============
مقبول احمد سلفی

حج پہ جانے سے پہلے پورے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کیا جائے،اگر کسی کو دکھ پہنچایاہو تو اس سے معافی مانگنی چاہیے ، کسی کا حق دبایا ہو تو معافی کے ساتھ اس کو واپس کردیناچاہیے، حق دار نہ ملے تو صدقہ کرنا چاہیے ،ساتھ ہی نیت رہے کہ جب ملے گا تو واپس کر دیں گے ۔
اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت پہ بہت ابھارا گیا ہے ، اور یہ وہ حق ہے جسے خود بندہ ہی معاف کرسکتا ہے ، ورنہ اللہ معاف نہ کرے گا، اگر اسی حالت میں دنیا سے چلا گیا تو آخرت میں اس کی نیکی مظلوم کو دے دی جائے گی ۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«من كانت عنده لأخيه مظلمةٌ فليتحلَّل منه قبل ألا يكون درهمٌ ولا دينارٌ، إن كان له عملٌ صالحٌ أُخِذ منه بقدر مظلَمته، وإن لم يكن له حسناتٌ أُخِذ من سيئات صاحبِه فحُمِل عليه»
’’جس کسی نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو تو اس سے اس دن سے قبل معاملہ حل کر لے جب اس کے پاس درہم و دینار باقی نہ رہیں گے۔ اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بقدر لے لیا جائے گا اور اور اگر اس کے پاس نیک عمل نہ ہوں گے تو مظلوم شخص کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ ‘‘
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : تم مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا : جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«المُفلِسُ من أمتي: من يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي وقد شتمَ هذا، وقذفَ هذا، وضربَ هذا، وسفكَ دمَ هذا، وأخذَ مالَ هذا، فيأخُذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنِيَت حسناتُه قبل أن يُقضَى ما عليه أُخِذ من خطاياهم فطُرِحَت عليه ثم طُرِح في النار»
’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو(روز قیامت) نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی چوری کی ہوگی، کسی کو مارا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی۔ اور اگر ان کا معاملہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کی برائیاں اس کے حصہ میں ڈال دی جائیں گی اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔‘‘
جب بندہ حج جیسے فریضے کی ادائیگی پہ جارہاہو اور اس کے اوپر کسی کا حق رہ جاتا ہو یا اس نے کسی کو تکلیف دیا ہو تو حج تو ہوجائے گا مگر اس کے اس عمل کا گناہ اس کے سر باقی رہے گا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اس گناہ کی وجہ سے بہت سے اجر سے محروم ہوجائے گا۔
روى مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْ

کیا بے وضو قرآن کو چھواجاسکتا ہے

کیا بے وضو قرآن کو چھواجاسکتا ہے؟؟؟
==================

بچپن میں ہمیں ایک بات کی نصحت کی جاتی تھی کہ قرآن مجید کو بغیر وضو ہاتھ نہ لگانا اس سے بہت گناہ ہوتا ہے مگر جب میں نے قدرے بڑے ہوکر اس بات کی تحقیق کی کہ کیا واقعی بغیر وضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا منع ہے تو میں حیران رہ گیا کہ ایسا حکم قرآن و صحیح حدیث میں کہیں بھی نہیں ہے::یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسا حکم نہ ملا ہو اگر کسی بھائی کے علم میں ہوتو وہ رہنمائی فرمائے جزاک اللہ::اس کی تحقیق پیش کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہوں کہ ایسی اور بھی بہت سی باتیں اور عقائد ہیں جو بنادی گئیں ہیں مگر ان کی اصل قرآن اور صحیح حدیث میں بالکل بھی نہیں ہے، ان عقائد میں نمازوں کی رکات بھی شامل ہیں مگر آج میں آپ کے سامنے اس بات کی تحقیق پیش کرونگا کہ کیا قرآن مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا منع ہے کہ نہیں؟؟؟

اس پر جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ قرآن کی یہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77۝ۙفِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ 78۝ۙلَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ 79۝ۭ
بیشک یہ قرآن ہے بڑا ہی عزت (و عظمت) والا، جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے، جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ سورۃ الواقعہ:۷۷۔۷۸۔۷۹
تفسیر تیسیر القرآن

مطہرون سے مراد کون؟ اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو اسے لا کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں۔ قرآن کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بے وضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بے وضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس سے تلاوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔

اب اس آیت کے کئی مطالب سامنے آئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ کوئی انسان اس کتاب کو ہاتھ نہ لگائے مگر جو پاک ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بغیر وضو انسان پلید، ناپاک ہوجاتا ہے؟ اگر تو ایسا ہی ہے پھر تو وضو لازم ہوا اور اگر ایسا نہیں ہے تو وض

ریاض الجنہ (جنت کی کیاری

ریاض الجنہ (جنت کی کیاری)
================
مقبول احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت و ارشاد (طائف، سعودی عرب)

ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف  کے درمیان میں ہے, اس کا نام ریاض الجنۃ ہے (جنت کا باغیچہ)۔
یہ نام اس لئے پڑا کہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة''(رواه البخاري :1196ومسلم :1391)
''میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے''۔
مسند بزار اور بعض دیکر کتب حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
''مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة''
"میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ۔
محدثین کی رائے یہ ہے کہ" قبری" کا لفظ بعض رواۃ کی طرف سے خطا ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:
" والثابت عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال : (ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ) " هذا هو الثابت في الصحيح ، ولكن بعضهم رواه بالمعنى فقال : قبري .
وهو صلى الله عليه وسلم حين قال هذا القول لم يكن قد قبر بعد صلوات اللّه وسلامه عليه ، ولهذا لم يحتج بهذا أحد من الصحابة لما تنازعوا فى موضع دفنه ، ولو كان هذا عندهم لكان نصاً فى محل النزاع " انتهى.(مجموع الفتاوى 1/236)
ترجمہ: نبی ﷺ سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے :"ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة" (میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ) ،حقیقت میں یہی ثابت ہے ۔ لیکن بعض راویوں نے روایت بالمعنی کیا ہے اور انہوں نے کہا: "قبری" ۔ جب نبی ﷺ نے یہ بات کہی اس وقت آپ کی قبر تھی ہی نہیں، اسی لئے صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے دلیل نہیں پکڑی جب دفن کی جگہ کے سلسلے میں تنازع کررہے تھے ، اور اگر یہ ان کے پاس ہوتا تو ان کے لئے نزاع کی جگہ میں دلیل بن جاتی۔

اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاض الجنۃ سے مراد واقعی جنت کی کیاری ہے ؟
اس سلسلے میں اہل علم کے کئی اقوال ملتے ہیں۔
(1) اس جگہ پہ بیٹھنے کی سعادت و اطمنان جنت کی کیاریوں کے مشابہ ہے ۔
(2)اس جگہ پہ عبادت کرنا جنت میں دخول کا سبب ہے ۔
(3) یہ جگہ آخرت میں واقعی جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
بعض علماء نے پہلے قول کو ، بعض نے دوسرے قول کو اور بعض نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔

میں ان اقوال میں سے کسی ایک کو بلا ترجیح دئے بس یہ کہوں گا کہ اصل تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو زمان و مکان کو فضیلت و خصوصیت بخشتا ہے ،ساتھ ساتھ  یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام کی بڑی فضیلت ہے ، اگر مسجد نبوی ﷺ آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اللہ سے دعا، اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پ�

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی
==============================
ترتیب و پیشکش : مقبول احمد سلفی
یہ بات متحقق ہے کہ ایک قربانی پورے ایک فیملی ممبرس کے لئے کافی ہے ، لیکن سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ فیملی ممبرس یا ایک گھرانہ کسے کہتے ہیں ۔
اس بارے میں علمائے کرام کے چار اقوال ہیں:
(1)جن میں تین شرائط پائی جائیں: (الف)قربانی کرنے والا شخص انکے خرچہ کا ذمہ دار ہو (ب) وہ تمام افراد اسکے رشتہ دار بھی ہو (ج) قربانی کرنے والا شخص انکے ساتھ رہائش پذیر ہو، یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے۔
(2)جن پر ایک ہی شخص خرچ کرتا ہو، یہی موقف کچھ متأخر شافعی فقہاء کا ہے۔
(3)قربانی کرنے والے کے تمام عزیز و اقارب، چاہے ان پر یہ خرچ بھی نہ کرتا ہو۔
(4)قربانی کرنے والے کیساتھ رہنے والے تمام افراد چاہے اسکے رشتہ دار نہ ہوں، اس موقف کے قائلین میں خطیب شربینی، شہاب رملی، اور متأخر شافعی فقہاء میں سے طبلاوی رحمہم اللہ جمیعا شامل ہیں، لیکن ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے اسے بعید قرار دیا ہے۔
اب اس سلسلہ میں احادیث دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا کہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟
تو انہوں نے جواب ديا:
آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے "
(سنن ترمذى حديث نمبر :1505) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
" يہ حديث اس كى صريح نص اور دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى ہو، اور حق بھى يہى ہے۔
(2) عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیَّ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ فَیَاْکُلُوْنَ وَ یُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَکَمَا تَرَی .
( ابن ماجہ : ابواب الاضاحی ‘ باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ‘ رقم 3147:)
حضرت عطاء نے ابوایوب سے پوچھا کہ آنحضور ﷺ کے عہد میں قربانیوں کا کیا حال تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی میں ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھاتے اور کبھی اوروں کو کھلاتے۔ یہاں تک کہ فخرو مباہات شروع ہو گیا‘ جیسے تم دیکھ رہے ہو۔
(3) عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَائشَۃَ وَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ کَانَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یُّضَحِّیَ اِشْتَرٰی کَبَشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ اَقْرَن�

Wednesday, July 27, 2016

حدیث کا سب سے بڑا جانکا رہی سب سے بڑا فقیہ ہوتاہے

حدیث کا سب سے بڑا جانکا رہی سب سے بڑا فقیہ ہوتاہے۔
===================

کفایت اللہ سنابلی

بعض لوگوں‌ نے معلوم نہیں کہاں‌ سے یہ سمجھ لیا ہے کہ فقیہ کا مطلب ہوتا ہے حددرجہ ذہین ، و تیز دماغ !!!!!!

اب سوال یہ کہ کیا فقیہ کا واقعی یہی مفہوم ہے، اورفقہ صرف تیز دماغی کا نام ہے اگر یہ بات ہے تب تو وہ بہت بڑا ظالم شخص ہوگا تو محترم ڈاکٹرذاکرنائیک صاحب کو فقیہ عصر نہ مانے ، مولانا وحیدالدین خان صاحب کو فقیہ دھر نہ مانے ، مولانا مودودی صاحب کو رئیس الفقہاء نہ مانے ، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کو امیرالمؤمنین فی الفقہ نہ مانے ،کیونکہ ان حضرات کی ذہانت و تیز دماغی مسلم ہے ، بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ شبلی نعمانی نے کہا کہ آزاد دماغ عجائب خانہ میں رکھنے کے قابل ہے، واللہ اعلم ۔

یاد رہے کہ میں نے مثال میں ان شخصیات کو پیش کیا ہے جنہوں نے اپنی عمرکا بہت بڑا حصہ فہم دین میں صرف کیاہے، اورڈاکڑ ذاکرنائیک کے علاوہ دیگرشخصیات کو تو مولانا کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔
کیا علوی بھائی مذکورہ شخصیات کواپنے عصرکے عظیم فقہاء تسلیم کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اب آئیے دیکھتے ہیں فقیہ کا مطلب کیا ہوتا ہے :
ارشاد باری ہے:
{ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]
سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کون سی فقہ حاصل کرنے کا حکم ہے ؟؟؟؟؟
کیا صرف ذہانت اور اس کا استعمال مراد ہے ؟؟؟؟؟؟؟
اگر یہی مراد ہے تو تفقہ کے لئے انہیں گھر سے نکلنے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ یہ حکم مسلمانوں کو ہورہاہے اور ہرمسلمان کے پاس دین کی بنیادوں باتوں کا علم ہوتا ہے اب اگرصرف ذہانت کی بنا پر بڑی سے بڑی فقاہت حاصل کی جاسکتی ہے تو یہ کام گھربیٹے بھی ہوسکتاہے !!!
اب اگر مذکورہ آیت میں فقہیہ بنانا مقصود تھا تو صرف کہنا چاہئے تھا کہ دین کا تمہارے پاس جس قدر بھی علم ہے اس میں اپنی ذہانت کو استعمال کرکے گھربیٹھے فقیہ بن جاؤ!!!!!!!!!

الغرض کہنے کامطلب یہ کے فقیہ کا مطلب عظیم ذہانت کا مالک ہونا نہیں بلکہ احکام دین سے واقف ہوناہے اور جس کے پاس احادیث کا جنتا زیادہ علم ہوگا اسے اسی کے بقدر فقاہت نصیب ہوگی۔

فہم نصوص کا دار مدار عقل وذہانت پر نہیں
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ کیا نصوص کو محض اپنی عقل سے جس طرح چاہیں سمجھ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟ کیاکسی شخص کو یہ اجازت ہے کہ وہ کسی نص شرعی کا جومفہوم اپنی عقل سے سمجھیں وہی مفہوم اسے پہنادے، اگر فہم نصوص کا دار ومدار عقل و ذہانت پر ہے تو آج سلفیت اور فھمنا مقید بفہم السلف کا نعرہ ایک لغو چیز ہ�

گرگٹ یا چهپکلی کو مارنے کا حکم

- گرگٹ یا چهپکلی کو مارنے کا حکم
〰〰〰〰〰〰〰〰
1⃣اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا۔(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے ’فاسق“ قرار دیا ہے۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام۔(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا)
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔

بعض روایات میں ’وزغ‘ کو قتل کرنے کے بارے اجر وثواب کا بھی تذکرہ ہے۔(سنن الترمذی، کتاب الاحکام والفوائد، باب ماجاءفی قتل الوزغ)

2⃣پس ’وزغ‘ کو مارناسنت اور باعث اجر وثواب فعل ہے۔
شیخ صالح العثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما قتل الوزغ فإنه سنة وفيه أجر عظيم۔(فتاوی نور علی الدرب:جزء111، ص41، المکتبة الشاملة)
’وزغ‘ کا قتل کرنا سنت ہے اور اس میں اجر عظیم ہے۔

3⃣’وزغ‘ کی بہت سی اقسام ہیں اور ہمارے ہاں گھروں میں پائی جانے والی چھپکلیاں اس کی ایک قسم ہیں۔عربی میں ’وزغ‘ کا ترجمہ ’سام ابرص‘ اور انگریزی میں’گیکو‘ کہتے ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ چھپکلی بھی ’وزغ‘ ہی کی ایک قسم ہے اور اسے ”وزغ‘ سے نکالنا درست نہیں ہے۔

4⃣’وزغ‘ کو مارنے کی حکمت اس کا فاسق اور موذی ہونا ہے یعنی ایذا دینے والی مخلوق ہے اور ایذا دینے والی مخلوق کو ہلاک کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے تا کہ نوع انسانی کو اس کی ایذا سے بچایا جائے۔ کتنے ہی ایسے واقعات سننے اور اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ چھپکلی کھانے یا پینے کی کسی شیء میں گر گئی اور اس کے زہریلے پن سے اہل خانہ کی موت واقع ہو گئی۔

5⃣اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں بتلایا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو پھونکیں مارتی تھی۔اس روایت میں چھپکلی کی فطرت کی طرف بھی اشارہ کیا گیاہے جیسا کہ سانپ اور بچھو کی فطرت ڈنگ مارنا ہے۔ پس چھپکلی کی فطرت اہل ایمان کی عداوت اور ان کے ساتھ بغض کااظہار ہے۔
یہ واضح رہے کہ یہ چھپکلی کو مارنے کی علت کا بیان نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کاخیال ہے کیونکہ جس چھپکلی نے پھونکیں ماری تھیں، وہ ، وہ نہیں ہے جسے آج ہمیں قتل کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب


➖➖➖➖➖➖➖➖

شب معراج کی حقیقت | محدث فورم [Mohaddis Forum] -

شب معراج کی حقیقت | محدث فورم [Mohaddis Forum] - http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B4%D8%A8-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA.6820/

حلال و حرام

حلال و حرام جانور/حدیث:241 مكتب توعية الجاليات - حلال و حرام جانور/حدیث:241 مكتب توعية الجاليات الغاط - http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=1456

شب معراج کی حقیقت

شب معراج کی حقیقت
💥💥💥💥💥💥
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
بیشک اسراء ومعراج اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور اللہ کے نزدیک ان کے بلند مرتبے کی دلیل ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کی واضح قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کی بڑائی کی بھی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَا مِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ ئٰ ایٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)) [الاسرائ:۱]
’’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیاجس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،اس لئے کہ ہم اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
نبی کریمﷺسے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ان کو معراج کروایا گیا اور ان کے لئے سارے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے گئے حتی رسول اللہ ﷺ ساتویں آسمان کو بھی کراس کر گئے ۔جہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے جو چاہا گفتگو کی اور ان پر پچاس نمازیں فرض کیں ۔نبی کریمﷺ مسلسل مراجعہ کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کرتے رہے حتی کہ پانچ نمازیں کر دی گئیں۔اب ادائیگی میں پانچ نمازیں فرض ہیں لیکن اجر پچاس نمازوں کا ہی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا زیادہ کر کے دیتے ہیں جو ہم پر اللہ کا احسان اور کرم ہے۔فللّٰہ الحمد۔
جس رات نبی کریمﷺ کو معراج کروایا گیا اس رات کی تعیین کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔اور اس رات کی تعیین کے سلسلے میں جو کچھ بھی وارد ہے اہل علم بالحدیث کے نزدیک وہ نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے۔اس رات کو بھلا دینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت ہے۔
اور اگر اس رات کی تعیین ثابت بھی ہو جائے تو تب بھی مسلمانوں کے لئے اس رات میں کوئی خاص عبادت کرنا یا محافل منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ محافل منعقد کرنا اگر کوئی شرعی امر ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی امت کے لئے قول یا فعل سے ضرور اس کو بیان فرما دیتے اور صحابہ کرام اس عمل کو ہم تک ضرور نقل کرتے۔کیونکہ صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے ہر اس چیز کو بحفظ وامان ہم تک پہنچا دیا ہے جس کی امت محتاج تھی اور اس سلسلے میں انہوں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔بلکہ وہ خیر میں سبقت لے جانیوالے تھے اگر اس رات کو محافل منعقد کرنا مشروع ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے اس کام کو کرتے۔
نبی کریمﷺ لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ خیر خواہ تھے اور انہوں نے رسالت کوکامل واکمل حالت میں ہم تک پہنچا دیا اور اپنی امانت ادا کر دی۔اگر اس رات کی تعظی�

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا
==================
مقبول احمد سلفی
لوگوں میں عام طور سے ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے حج فرض ہوجاتا ہے یا یہ کہ حج کے مہینوں میں بغیر حج کے عمرہ نہیں کرنا چاہئے ۔
حج کے مہینے شوال ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
جیسے عمرہ کرنا دیگر مہینوں میں مسنون ہے ویسے ہی کسی کے لئے بغیر حج کی نیت کے عمرہ کرنا مسنون ہے یعنی اشہر حج میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوجاتا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتٰی عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ (مسلم)
ترجمہ : نبی کريم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے جس وقت آپ نے ان يہ سب مواقيت ان لوگوں كے لئے ہيں جو وہاں کے رہنے والے ہيں اور ان کے علاوہ لوگوں کے لئے بھی ہيں جو وہاں سے حج يا عمره ادا كرنے کے ارادہ سے گزريں۔
اس حدیث سے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی دلیل ملتی ہے ۔ نیز نبی ﷺ سے بھی حج کے مہینوں میں حج کے بغیر عمرہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ آپ ﷺ سے چار عمرہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے اور یہ سارے عمرے ذوالقعدہ میں آپ نے ادا فرمایا ، اور سبھی جانتے ہیں کہ ذوالقعدہ حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ۔ بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔

عن أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عُمر كلهن في ذي القعدة إلا التي مع حجته :عمرة من الحديبية أو زمن الحديبية في ذي القعدة ، وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة ، وعمرة من جِعْرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة ، وعمرة مع حجته۔ (صحیح البخاري :4148 وصحیح مسلم :1253)
ترجمہ : امام بخاری اورمسلم رحمہما اللہ نے انس رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چارعمرے کیے اوریہ سارے عمرے ذی القعدہ کے مہینہ میں تھے صرف وہ عمرہ جوآپ نے حج کےساتھ کیا وہ نہيں ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
انس اورابن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ دونوں کا چارعمروں میں اتفاق ہے اوران میں سے ایک چھ ہجری ذی القعدہ کے مہینہ میں حدیبیہ کےسال تھا اس میں انہیں روک دیا گيا تھا تووہ حلال ہوگئے اوران کے لیے یہ عمرہ شمار کرلیا گیا ۔
اوردوسرا عمرہ ذي القعدہ سات ھجری میں عمرہ قضاء تھا ، اورتیسرا عمرہ ذي القعدہ آٹھ ھجری میں جسے عام الفتح کہا جاتا ہے میں کیا ، اورچوتھا عمرہ آپ صلی اللہ وسلم نے اپنے حج کےساتھ کیا اوراس کا احرام ذی القعدہ میں تھا اور عمل ذی الحجہ میں کیا۔

لہذا کوئی شخص بغیر حج کی نیت کے عمرہ ادا کرسکتا ہے ، چاہے تو متعدد بار بھی ادا کرسکتا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور اہل علم کے مابین بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ۔

واللہ اعلم

مہر کی ادائیگی

مہر کی ادائیگی
==============
مہر عورت کا حق ہے اور مرد کے ذمہ اس کی ادائيگی واجب ہے ۔ اس کے وجوب کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ ذيل میں ذکر کی جاتی ہیں :

ارشادی باری تعالی ہے :

{ اورعورتوں کو ان کے مہر راضي خوشی دے دو } النساء ( 4 ) ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ نحلہ سے مہر مراد ہے ۔

حافظ ابن کثيررحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین کی کلام میں کہتے ہيں:

مرد پر واجب ہے کہ وہ واجبی طور پر بیوی کومہرادا کرے اوریہ اسے راضی وخوشی دینا چاہیے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا ایک مقام پر کچھ اس طرح فرمان ہے :

{ اوراگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اوران میں سے کسی تم نے خزانہ کا خزانہ بھی دے رکھا ہو توبھی اس میں سے کچھ نہ لو ، کیا تم اسے ناحق اورکھلاگناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے ، تم اسے کیسے لے لو گو، حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اوران عورتوں نے تم سے مضبوط عہدوپیمان لے رکھا ہے } النساء ( 20 - 21 ) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :

یعنی جب تم کسی بیوی کوچھوڑنا چاہو اوراس کے بدلےمیں کسی اور عورت سےشادی کرنا چاہو توپہلی کو دیے گئے مہرمیں سے کچھ بھی واپس نہ لو چاہے وہ کتنا بڑا خزانہ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ مہر تو اس ٹکڑے کے بدلے میں ہے ( یعنی جس کی وجہ سے اس سے ہم بستری جائز ہوئي ہے ) ۔

اوراسی لیے اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے :

{ تم اسے کس طرح لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل ( ہم بستری کر ) چکے ہو } اورمیثاق غلیظ عہد وپیمان اورعقد ہے ۔

حدیث شریف میں ہے کہ :

انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے توان پر زرد رنگ کے نشان تھے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا توانہوں نے بتایا کہ ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

مہر کتنا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ایک گٹھلی کھجور کے برار سونا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4756 ) ۔

مہر کو پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں ، یا کچھ پہلے دیدیں اور کچھ بعد میں جیسادونوں میں اتفاق ہوجائے ۔ اور مشکل ہو تو تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں کی طرح بھی ادا کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم

----------------

تمام محدثین رفع یدین کرتے تھے

تمام محدثین رفع یدین کرتے تھے
===================
رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہؓ سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کو جمع کرنے والے اور حدیث پہ بحث و تحقیق کرنے والے تمام محدثین رفع یدین کرتے تھے ۔
نمونے کے طور پہ ایک دلیل پیش خدمت ہے جو سب سے صحیح حدیث ہے اور یہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وہ حدیث یہ ہے :
(( عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))
عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔

حوالہ :
(بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:
-----------------------------خ

رفع الیدین کے بارے میں سوالات اور ان کے جوابات

رفع الیدین کے بارے میں سوالات اور ان کے جوابات
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سوال1۔رفع الیدین کرنا سنت ہے۔ مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ سنت ہے؟
جواب :صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع جاتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔ سجدہ میں آپ رفع الیدین نہیں کیا کرتے تھے۔ ( صحیح بخاري، الاذان، باب رفع الیدین فی التکبیرة الاولی مع الافتتاح سواء ، صحیح مسلم، الصلاة، باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین)
اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے۔ ( صحیح بخاری ؍ کتاب الاذان ؍ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین)
شروع نمازِ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کی جو حیثیت ہے رکوع والے رفع الیدین کی بھی وہی حیثیت ہے۔

سوال 2۔  رفع الیدین کے بغیر نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : رفع الیدین کے بغیر نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز نہیں ہوتی۔

سوال 3۔  رفع الیدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری نمازوں میں کی ہے؟
جواب : صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے حوالہ سے لکھا جاچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور معلوم ہے آخری نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور رکوع سے سر بھی اٹھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین بھی کیا۔ پھر ان سے پوچھیں شروع نماز والا رفع الیدین اور وتروں کی تیسری رکعت والا رفع الیدین آخری نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے؟ دلیل پیش کریں ورنہ انہیں بھی چھوڑ دیں۔

سوال 4۔  رفع الیدین کے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں کتنی حدیثیں آتی ہیں؟
جواب : رفع الیدین کرنے کی احادیث بہت زیادہ ہیں۔ البتہ ان کی تعداد کتاب و سنت میں کہیں نہیں آئی۔ ہاں صاحب نیل الفرقدین  نے لکھا ہے رفع الیدین کرنے کی بارہ احادیث صحیح ہیں۔  (نیل الفرقدین فی مسئلۃ رفع الیدین ص:۵۳ للأستاذ مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری)

سوال 5۔   رفع الیدن سجدہ سے سر اٹھاتے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے یا نہیں؟
جواب : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجود میں رفع الیدین نہیں کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاري، کتاب الأذان، باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرة الاحرام والرکوع وفی الرفع من الرکوع وانه لا یفعله إذا رفع من السجود)

سوال 6۔   رفع الیدین علماء کہتے ہیں ۱۰ نیکیاں ملتی ہیں۔ ثبوت ہے یا نہیں؟
جواب : قرآنِ مجید میں ہے: ﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا ۖ ﴾ (الأنعام:۱۶۰)
’’ جو کوئی اللہ کے  ہاں نیکی لے کر آئ�

قرآن کریم پر اعراب لگانا بدعت ہے

قرآن کریم پر اعراب لگانا بدعت ہے ؟
========================
ﺍﮨﻞ ﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﺑﺎﺭﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺯﺑﺮ ﺯﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﭼﮭﯽ ﭼﯿﺰﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻋﺖ ﺣﺴﻨﮧ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﮨﮯ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﻏﻠﻂ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺯﯾﺮﺯﺑﺮﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺮﺯﯾﺮ ﺗﺐ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻗﺮﺍﻥ ﮨﮯ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺳﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻟﯿﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ، ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﻢ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺮﺯﺑﺮﻧﯿﺎﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ،ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮ:

(1)ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻟﯿﻞ:
ﻗﺮﺍﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮨﻢ ﺗﮏ ﺗﻼﻭﺕ ﮨﻮﮐﺮﭘﮩﻨﭽﺎﮨﮯ،ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﯽ ،ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩﮨﮯ:
 ﺗِﻠْﻚَ ﺁﻳَﺎﺕُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻧَﺘْﻠُﻮﻫَﺎ ﻋَﻠَﻴْﻚَ ﺑِﺎﻟْﺤَﻖِّ  [ﺍﻟﺠﺎﺛﻴﺔ: 6]
ترجمہ : ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻢ ﭘﺮﺣﻖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ )۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻗﺮﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ:
ﻭَﺇِﻧَّﻪُ ﻟَﺘَﻨْﺰِﻳﻞُ ﺭَﺏِّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦَ (192) ﻧَﺰَﻝَ ﺑِﻪِ ﺍﻟﺮُّﻭﺡُ ﺍﻟْﺄَﻣِﻴﻦُ (193) ﻋَﻠَﻰ ﻗَﻠْﺒِﻚَ ﻟِﺘَﻜُﻮﻥَ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻤُﻨْﺬِﺭِﻳﻦَ(194) ﺑِﻠِﺴَﺎﻥٍ ﻋَﺮَﺑِﻲٍّ ﻣُﺒِﻴﻦٍ (195) [ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ: 192 - 195]
ترجمہ: ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺸﮏ ﻭ ﺷﺒﮧ ﯾﮧ ( ﻗﺮﺁﻥ ) ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ﺍﺳﮯ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ،ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮﺍﺗﺮﺍ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ،ﺻﺎﻑ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﻮ ﭘﮍﮪ ﮐﺮﺍﻭﺭﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎ ﯾﺎ ﮨﮯ، ﺑﺨﺎﺭﯼﻣﯿﮟ ﮨﮯ:
ﻭَﻛَﺎﻥَ ﻳَﻠْﻘَﺎﻩُ ﻓِﻲ ﻛُﻞِّ ﻟَﻴْﻠَﺔٍ ﻣِﻦْ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ﻓَﻴُﺪَﺍﺭِﺳُﻪُ ﺍﻟﻘُﺮْﺁﻥَ (ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ (/1 8) ﺭﻗﻢ 6 )
ترجمہ:ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﺮﺭﺍﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﺍﻭﺭﺁﭖ ﮐﻮﻗﺮﺍﻥ ﭘﮍﮬﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﻭﺭﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻗﺮﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﻮﺑﺘﻼﯾﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﺏ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ �

Monday, July 25, 2016

اہل تقلید کا باطل شبہ اور اس کا رد

اہل تقلید کا باطل شبہ اور اس کا رد
=====================
پیشکش مع اضافہ : مقبول احمد سلفی

مقلدوں کو جب منہ کی کھانی پڑی تو اب جاکے یہ کہنے لگے کہ مجتہد کے لئے تقلید ضروری نہیں ساتھ ہی ایک شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ جو غیر مجتہد ہیں ان کے لئے تقلید ضروری ہے وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ قرآن و حدیث کے بہت سے مسائل غیر منصوص ہیں ، ان مسائل میں غیر مجتہد کو تقلید کرنا ضروری ہے ۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جتنی کمزور مقلد کی تقیلدی دیوار ہے اتنا ہی کمزور یہ شبہ بھی ہے ۔ آئیے اس شبہ کی حقیقت دیکھتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے تقلیدی شبہ کے لئے پہلے تقلید کو لغت اور اصطلاح سے معلوم کرنا پڑے گا۔


تقلید کا لغوی معنی:
.
المعجم الوسیط، القاموس الوحید، مصباح اللغات ، المنجد، حسن اللغات اورجامع اللغات وغیرہ میں تقلید کی جو لغوی تعریف کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ (دین میں)بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کرکے، بغیر دلیل و بغیر حجت کے، بغیر غوروفکر کسی شخص کی (جو نبی نہیں ہے)پیروی واتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے۔
.
تقلید کا اصطلاحی معنی:
.
مسلم الثبوت، فواتح الرحموت، ابن ہمام حنفی، ابن امیر الحاج، قاضی محمد اعلی تھانوی حنفی، الجرجانی حنفی، محمد بن عبدالرحمن عید المحلاوی الحنفی، عبیداللہ الاسعدی، قاری چن محمد دیوبندی، اشرف علی تھانوی، سرفراز خان صفدر دیوبندی اور مفتی احمد یار نعیمی وغیرہ کی تعریفات ان کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ، ہم یہاں طوالت کے خوف سے مذکورہ ان حنفی اصحاب علم  کی تقلید کی تعریفات و تشریحات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔ تقلید یہ ہے کہ
(1)آنکھیں بند کرکے، بے سوچے سمجھے، بغیر دلیل وبغیر حجت کے کسی غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے۔
(2)قرآن وحدیث اور اجماع پرعمل کرنا تقلید نہیں ہے۔جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
(3)اور تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے۔
.
:::خلاصہ بحث:::
.
حنفیوں ودیوبندیوں وبریلویوں وشافعیوں و مالکیوں وحنبلیوں وظاہریوں وشارحین حدیث کی ان تشریحات سے سے معلوم ہوا کہ :تقلید کا مطلب یہ ہے کہ بغیر حجت وبغیر دلیل والی بات کو (بغیر سوچے سمجھے، اندھا دھند)تسلیم کرنا۔

(1)مختصراً یہ کہ  آنکھیں بندکرکے، بےسوچے سمجھے، بغیردلیل اور بغیرحجت کے کسی غیرنبی کی بات ماننا تقلید ہے-

(2)قرآن،حدیث اور اجماع پرعمل کرنا تقلید نہیں ہے-

(3)جاہل کا عالم سےمسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے-

اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے

اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے

حدثنا أبو عاصم ،‏‏‏‏ عن ابن جريج ،‏‏‏‏ عن الزهري ،‏‏‏‏ عن عطاء بن يزيد ،‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عدي ،‏‏‏‏ عن المقداد بن الأسود ،‏‏‏‏ حدثني إسحاق ،‏‏‏‏ حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ،‏‏‏‏ حدثنا ابن أخي ابن شهاب ،‏‏‏‏ عن عمه ،‏‏‏‏ قال أخبرني عطاء بن يزيد الليثي ،‏‏‏‏ ثم الجندعي أن عبيد ،‏‏‏‏ الله بن عدي بن الخيار أخبره أن المقداد بن عمرو الكندي ،‏‏‏‏ وكان حليفا لبني زهرة ،‏‏‏‏ وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبره أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا ،‏‏‏‏ فضرب إحدى يدى بالسيف فقطعها ،‏‏‏‏ ثم لاذ مني بشجرة فقال أسلمت لله‏.‏ آأقتله يا رسول الله بعد أن قالها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقتله ‏"‏‏.‏ فقال يا رسول الله ،‏‏‏‏ إنه قطع إحدى يدى ،‏‏‏‏ ثم قال ذلك بعد ما قطعها‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقتله ،‏‏‏‏ فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل أن تقتله ،‏‏‏‏ وإنك بمنزلته قبل أن يقول كلمته التي قال ‏"‏‏.


ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابنجریج نے ، ان سے زہری نے ، ان سے عطاء بنیزید لیثی نے ، ان سے عبیداللہ بن عدی نے اور ان سے حضرت مقدادبناسود رضی اللہ عنہ نے ۔ ( دوسری سند ) امامبخاری نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے ، ان سے ابن شہاب کے بھتیجے ( محمد بن عبداللہ ) نے ، اپنے چچا ( محمد بن مسلم بن شہاب ) سے بیان کیا ، انہیں عطاء بنیزید لیثی ثم الجندعی نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبردی اور انہیں مقداد بنعمرو کندی رضی اللہ عنہ نے ، وہ بنیزہرہ کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوںایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے ، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے ” میں اللہ پر ایمان لے آیا ۔ “ تو کیا یا رسول اللہ ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں ؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے ؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے ؟ آپ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا ، کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کرنے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہو گا اور تمہارا مقام وہ ہو گا جو اس کا مقام ا

ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم

ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم

حدثني إسحاق بن نصر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الأعمش ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو صالح ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يقول الله تعالى يا آدم‏.‏ فيقول لبيك وسعديك والخير في يديك‏.‏ فيقول أخرج بعث النار‏.‏ قال وما بعث النار قال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فعنده يشيب الصغير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتضع كل ذات حمل حملها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وترى الناس سكارى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما هم بسكارى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكن عذاب الله شديد ‏"‏‏.‏ قالوا يا رسول الله وأينا ذلك الواحد قال ‏"‏ أبشروا فإن منكم رجل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن يأجوج ومأجوج ألف ‏"‏‏.‏ ثم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إني أرجو أن تكونوا ربع أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا‏.‏ فقال ‏"‏ أرجو أن تكونوا ثلث أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا‏.‏ فقال ‏"‏ أرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا‏.‏ فقال ‏"‏ ما أنتم في الناس إلا كالشعرة السوداء في جلد ثور أبيض ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو كشعرة بيضاء في جلد ثور أسود ‏"‏‏.

مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) فرمائے گا ، اے آدم ! آدم علیہ السلام عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں ، مستعد ہوں ، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، جہنم میں جانے والوں کو ( لوگوں میں سے الگ ) نکال لو ۔ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے ۔ اے اللہ ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ اس وقت ( کی ہولناکی اور وحشت سے ) بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی ۔ اس وقت تم ( خوف و دہشت سے ) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ بیہوش نہ ہوں گے ۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہو گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو ، وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ تم ( امت مسلمہ ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے ۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ، پھر آپ نے فرمایا کہ ( محشر میں ) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہو گے ج�

مدینہ ” طیبہ “ ہے

مدینہ ” طیبہ “ ہے

حدثنا أبو الوليد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عدي بن ثابت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت عبد الله بن يزيد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يحدث عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال لما خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى أحد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رجع ناس ممن خرج معه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فرقتين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرقة تقول نقاتلهم‏.‏ وفرقة تقول لا نقاتلهم‏.‏ فنزلت ‏ {‏ فما لكم في المنافقين فئتين والله أركسهم بما كسبوا‏}‏ وقال ‏"‏ إنها طيبة تنفي الذنوب كما تنفي النار خبث الفضة ‏"‏‏.

ترجمہ

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عدی بن ثابت نے ، میں نے عبداللہ بنیزید سے سنا ، وہ زیدبنثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بیان کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہاحد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے ( منافقین ، بہانہ بنا کر ) واپس لوٹ گئے ۔ پھر صحابہ کی ان واپس ہونے والے منافقین کے بارے میں دو رائیں ہو گئیں تھیں ۔ ایک جماعت تو کہتی تھی ہمیں پہلے ان سے جنگ کرنی چاہیے اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ ان سے ہمیں جنگ نہ کرنی چاہیے ۔ اس پر آیت نازل ہوئی ” پس تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہاری دو جماعتیں ہو گئیں ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالی کی وجہ سے انہیں کفر کی طرف لوٹا دیا ہے ۔ “ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ ” طیبہ “ ہے ، سرکشوں کو یہ اس طرح اپنے سے دور کر دیتا ہے جیسے آگ کی بھٹی چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے تیرانداز تھے

غزوہ احد

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے تیرانداز تھے

حدثنا أبو معمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الوارث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد العزيز ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال لما كان يوم أحد انهزم الناس عن النبي صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة بين يدى النبي صلى الله عليه وسلم مجوب عليه بحجفة له ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كسر يومئذ قوسين أو ثلاثا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان الرجل يمر معه بجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة‏.‏ قال ويشرف النبي صلى الله عليه وسلم ينظر إلى القوم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيقول أبو طلحة بأبي أنت وأمي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا تشرف يصيبك سهم من سهام القوم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ نحري دون نحرك‏.‏ ولقد رأيت عائشة بنت أبي بكر وأم سليم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنهما لمشمرتان أرى خدم سوقهما تنقزان القرب على متونهما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ تفرغانه في أفواه القوم ثم ترجعان فتملآنها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم تجيئان فتفرغانه في أفواه القوم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولقد وقع السيف من يدى أبي طلحة إما مرتين وإما ثلاثا

صحیح بجاری 4064
‏.ترجمہ‏
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں جب مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہو کر پسپا ہو گئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چمڑے کی ڈھال سے حفاظت کر رہے تھے ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے تیرانداز تھے اور کمان خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے ۔ اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑ دی تھیں ۔ مسلمانوں میں سے کوئی اگر تیر کا ترکش لیے گزرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے یہ تیر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہیں رکھتے جاؤ ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر جھانکتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، سرمبارک اوپر نہ اٹھایئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر سے کوئی تیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جائے ۔ میری گردن آپ سے پہلے ہے اور میں نے دیکھا کہ جنگ میں حضرت عائشہ بنت ابی بکررضی اللہ عنہا اور ( انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) امسلیم رضی اللہ عنہا اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان کی پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں اور مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے دوڑ رہی ہیں اور اس کا پانی زخمی مسلمانوں کو پلا رہی ہیں پھر ( جب اس کا پانی ختم ہو جاتا ہے ) تو واپس آتی ہیں اور مشک بھر کر پھر لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو پلاتی ہیں ۔ اس دن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گر گئی تھی ۔

تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ

تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ

حدثنا عبد الله بن يوسف ،‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك ،‏‏‏‏ عن زيد بن رباح ،‏‏‏‏ وعبيد الله بن أبي عبد الله الأغر ،‏‏‏‏ عن أبي عبد الله الأغر ،‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام ‏"

‏‏ترجمہ

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے زید بن رباح اور عبیداللہ بن ابی عبداللہ اغرسے خبر دی ، انہیں ابوعبدللہ اغر نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجدالحرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے ۔

صحیح بخاری 1190

عظمت علی

عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا

عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ،

 صحیح بخاری  590

حدثنا أبو نعيم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبد الواحد بن أيمن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني أبي أنه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع عائشة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالت والذي ذهب به ما تركهما حتى لقي الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما لقي الله تعالى حتى ثقل عن الصلاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان يصلي كثيرا من صلاته قاعدا ـ تعني الركعتين بعد العصر ـ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان يحب ما يخفف عنهم‏.

ترجمہ

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ پاک سے جا ملے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو ، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا ۔

Tuesday, July 5, 2016

نماز میں خیال پیدا ہونا


  •       نماز میں خیال پیدا ہونا


@@@@@@@@@@@@@@@@

Sahih Bukhari Hadees # 1135

حدثنا سليمان بن حرب ،‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ عن الأعمش ،‏‏‏‏ عن أبي وائل ،‏‏‏‏ عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة ،‏‏‏‏ فلم يزل قائما حتى هممت بأمر سوء‏.‏ قلنا وما هممت قال هممت أن أقعد وأذر النبي صلى الله عليه وسلم‏.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔

janaja me 4 takbir

Sahih Bukhari Hadees # 1319

حدثنا مسلم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الشيباني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الشعبي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرني من ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ شهد النبي صلى الله عليه وسلم أنه أتى على قبر منبوذ فصفهم وكبر أربعا‏.‏ قلت من حدثك قال ابن عباس رضى الله عنهما‏.‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر آئے جو اور قبروں سے الگ تھلگ تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

islam suru jamane se hae

42 : سورة الشورى 13



شَرَعَ  لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ  اَوۡحَیۡنَاۤ  اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ  اِبۡرٰہِیۡمَ  وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ  اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ  کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ  مَا تَدۡعُوۡہُمۡ  اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ  یَجۡتَبِیۡۤ  اِلَیۡہِ مَنۡ  یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ  اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾

اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔

Friday, July 1, 2016

عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ،

عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ،

 صحیح بخاری  590

حدثنا أبو نعيم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبد الواحد بن أيمن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني أبي أنه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع عائشة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالت والذي ذهب به ما تركهما حتى لقي الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما لقي الله تعالى حتى ثقل عن الصلاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان يصلي كثيرا من صلاته قاعدا ـ تعني الركعتين بعد العصر ـ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان يحب ما يخفف عنهم‏.

ترجمہ

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ پاک سے جا ملے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو ، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا ۔

کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے

Quraan

کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے۔

Jo musalman emamo ke chkkar me nabi ke sunnat ko thukrate hae

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا

 sura ahzaab 66

 ترجمہ

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت و افسوس سے) کہیں کہ کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے۔

نظر بد کا شرعی علاج

٭٭٭٭٭٭٭٭ نظر بد کا شرعی علاج ٭٭٭٭٭٭٭٭٭
==============
📗مقبول احمد سلفی

اکثر لوگ جو کسی کام میں مہارت رکھتے ہیں یا خوب رو ہوتے ہیں، انہیں کسی کی نظر لگ جاتی ہے ، اور مشاہدے میں آیا ہے بڑوں کی نسبت کو بچوں کو نظر جلدی اور اکثر لگ جاتی ہے ۔ نظر کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حسی اور شرعی دونوں طریقے سے ثابت ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ (القلم:51)
ترجمہ : اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔
٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ كَانَ شَىْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا۔(صحیح مُسلم حدیث :5831)
ترجمہ :نظر  بد لگنا حق ہے اور اگر تقدیر پر کوئی حاوی ہو سکتا  ہوتا تو یقیناً نظربد حاوی ہو جاتی ،اور اگر تُم لوگوں کو (خُود کو)غسل دینے کا کہا جائے تو غُسل دو ۔
نظر بد لگنے کے بعد لوگوں میں اس کے علاج کے متعلق بڑی بدعقیدگی اور رسومات ہیں جنہیں عام مسلمان شرعی علاج سمجھتے ہیں ۔ لوگوں میں جادو ٹونہ یا نظر بد کے علاج کے لئے کالی چیز کو ڈھال بنایا جاتا ہے جیسے کوئی گاڑی کو نظر بد بچانے کی خاطر کالا کپڑا باندھ دیتے ہیں، نیا گھر بناتے ہیں تو اس کے اوپر کالی ہانڈی رکھ دیتے ہیں ، یا خود کو نظر سے بچانے کے لئے بدن پہ کالا دھاگہ باندھتے ہیں ۔ اسی طرح نظر بد کے علاج میں کالی مرچ جلا کر اس کی دھونی دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے عمل ہیں جو نظر اتارنے کے لئے کئے جاتے ہیں جبکہ ہمیں اسلام نے نظر بد کا شرعی طریقہ بتایا ہے ۔ اس لئے رسم و رواج سے پرہیز کریں اور اپنے اندر سے ضعیف الاعتقادی ختم کریں ۔
نظر بد کا شرعی علاج :::
سب سے پہلے طبی اور نفسیاتی معائنے کے ذریعہ یہ جان لینا از حد ضروری ہے کہ نظر لگی ہے ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیماری کچھ نہیں ہوتی محض وہم و گمان ہوتا ہے اور وھم ایسی خوفناک بیماری ہے جو بہت سے بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے اور بسا اوقات انسان کو موت تک لے جاتی ہے۔
(1) نبى کرىم ﷺ اپنے بىٹوں، اپنے نواسوں ، حسن وحسىن رضى اللہ عنہما کو دم کرتے اور فرماتےکہ تمہارے باپ ابراہىم علىہ السلام اپنے بىٹوں کو ىہى دم کىا کرتے تھے۔ وہ دم کىا تھا:
أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ
[جامع ترمذی:2060] ۔

(2) اگر عائن یعنی نظر لگانے والے ، یا جس کی نظر لگی ہو اُس کا پتہ ہو تو اُسے وضوء کرنے اور اپنی کمر سے نیچے والے حصوں کو دھونے کا حکم دِیا جائے ، اور ج�