Sunday, August 28, 2016

اَسباب حسد


  • اَسباب حسد 

تفوق کی خواہش:انسان کا نفس بنیادی طورپردوسروں سے بلند وبرتر رہنا چاہتا ہے۔جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے ۔ لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں۔یہ حسد کی بنیادی علت ہے۔
حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میںہوتا ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں،تاجر تاجر سے حسد کرے گا،سیاستدان سیاستدان سے حسد کرے گا، طالب علم طالب علم سے اور اہل قلم اہل قلم سے حسد کریں گے اور حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرارپایا تھا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد اللہ کے فیصلے کونہیں بدل سکتا۔
ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کامجموعہ ہے۔ اپنے کردار و مزاج کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اِصلاح کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا کڑھنا شروع کردے تویہ حسد کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔ایسا انسان احساس کمتری میںمبتلا ہوجاتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرلیتا ہے۔اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں پر اس کی نظر نہیں جاتی۔وہ ہر وقت دوسروں پر نظر رکھتا ہے۔ اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے اور حاسد بن جاتا ہے۔
تنگ دلی: دل کی تنگی بھی اَسباب حسد میں سے ہے۔ بعض اوقات نہ تو انسان میں تکبر ہوتا ہے اور نہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتاہے،لیکن جب اس کے سامنے کسی پر اللہ کے انعام یا احسان کا تذکرہ کیا جائے تو اسے یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اورجب کسی شخص کی بدحالی یا مصیبت کا تذکرہ کیا جائے تو اُسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لوگوں کی بدحالی اُسے بھلی لگتی ہے اور خوشحالی اُسے غمگین کردیتی ہے وہ بندوں پراللہ کی نعمتوں کا بخل کرتا ہے حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور اس کے اس موجود نعمتوں میں کچھ کمی بھی نہیں ہورہی ہوتی تویہ نفس کی خباثت اور شرانگیزیاں ہیں جو انسان کو اس بُرے کردار و عمل کی طرف لے جاتی ہیں اور نفس کا پہلے پہل یہی کام ہوتا ہے کہ وہ انسان کو بُرائی پر اکساتا ہے۔
اِجارہ داری کا خبط:غرور و تکبر میں مبتلا شخص ہر چیز پراپنی اجارہ داری سمجھتا ہے۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر کوئی اور انسان اس کے برابر آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بڑا نہ ہوجائے یا اگر اُس سے کم حیثیت کا شخص اس کے برابر آجائے یا اس سے آگے بڑھ جائے تو وہ اس کی بلندی کو برداشت نہیںکرپاتا اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اُسے اپنی حیثیت و مقام کھو جانے کا خو ف لاحق ہوجاتا ہے۔ مشرکین مکہ کا رسول اللہﷺسے حسد اسی نوعیت کا تھا۔
علم وفن میں برتری کی خواہش:بعض اَوقات انسان اپنے فن، علم، حیثیت، عہدے، دین اور صلاحیتوں میںممتاز ہوتا ہے، یگانۂ روز گار ہوتا ہے اور جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور علاقے یا جگہ میںاس کی طرح کا ایک اور انسان موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں۔یا اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ اُس فرد کے مرجانے یا اس کی نعمت کے زائل ہوجانے کی تمنا کرنے لگتا ہے اور یہ جذبات حسد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔
بغض وعناد:بغض و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتے ہیں۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے۔اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتاہے اور حضرت انسان کو اپنے دشمن کا نقصان اور مصیبت اچھی لگتی ہے اور دشمن کو ملنے والی نعمت یابھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہوجانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے۔ گویا عداوت، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں اور جس نے حسد کی بیماری کا علاج کیا ہے اُسے عداوت اور بغض کا علاج بھی کرنا ہوگا، کیونکہ اگر اسباب باقی رہے تو بیماری کبھی بھی پلٹ کر حملہ آور ہوسکتی ہے۔حسد کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اَسباب کا خاتمہ ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment