رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت
رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دورکعتوں سے اٹھ کر رفع الیدین کرتے تھے،اس کا ترک ثابت نہیں، دلائل ملاحظہ ہوں:
دلیل نمبر 1
سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
" انّ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم کان یرفع یدیہ حزو منکبیہ اذا افتح الصّلاۃ، واذا کبّر للرّ کوع، واذا رفع رأسہ من الرّ کوع رفعھما کذلک أیضا وقال: سمع اللہ لمن حمدہ، ربُنا ولک الحمد ، وکان لا یفعل ذلک فی السّجود۔
"بے شک رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع اللہ لمن حمدۂ ، ربّنا لک الحمد کہتے ، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔"
(صحیح بخاری: ۱۰۲/۱،ح: ۷۳۵،۷۳۸،۷۳۸، صحیح مسلم : ۱۶۸، ح: ۳۹۰)
راوی حدیث کا عمل:
: سلیمان الشیبانی کہتے ہیں:
رأیت سالم بن عبد اللہ اذا افتح الصّلاۃ رفع یدیہ ، فلمّا رکع رفع یدیہ ، فلمّا رفع رأسہ ، فسألتہ، فقال: رأیت أبی یفعلہ، فقال: رأیت رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم یفعلہ۔
" میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعؒی کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ؒنے فرما یا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر ) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسولﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔"
(حدیث السراج: ۳۴/۲- ۳۵، ح: ۱۱۵، وسندۂ صحیح)
سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راویٔ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا ، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کررہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کررہے ہیں ، اگر رفع الیدین منسوخ ہوگا تھا تو نبی کریم ﷺ کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوئ حدیث صحابئ رسول سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہوگیا؟
جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں: "جوسنت کی محبت سے بلاشروفساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے ، اس کو برا نہیں جا نتا"۔(تذکرۃ الرشید : ۱۷۵/۲)
" اے اللہ ! اےزمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں !
دلیل نمبر 2
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں بیس دن رہے ، جب واپس جانے لگے تو نبئ کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا:
صلّوا کما رأیتمونی أصلّی
نماذ ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
(صحیح بخاری: ۸۸/۱ح: ۶۳۱)
راوئ حدیث کا عمل:
ابو قلابہ تابعی ؒ سے روایت ہے:
أنّہ رآی مالک بن حویرث اذا صلّٰی کبّر ورفع یدیہ ، واذاأر اد أن یرکع رفع یدہ ،واذا رفع رأسہ من الرّکوع رفع یدیہ، وحدّث أنّ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم صنع ھکذا۔
"انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہﷺایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری:۱۰۲/۱، ح: ۷۳۷، صحیح مسلم: ۱۶۸/۱، ح: ۳۹۱)
صحابئ رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبئ کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبئ اکرم ﷺ کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبئ اکریمﷺتاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔
دلیل نمبر 3۔
سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، پھر کپڑا لپیٹ لیا ،دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا ، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، جب (رکوع کے بعد) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔
صحیح مسلم : ۱۷۳/۱، ح: ۴۰۱
واضح رہے کہ سید نا وائل بن حجر ؓ ۹ہجری میں نبئ اکرمﷺ کے پاس آئے۔ (عمدۃ القاری از عینی حنفی: ۲۷۴/۵
ایک وقت کے بعد موسمِ سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ (سنن ابی داؤد:۷۲۷، وسندہ حسن
دلیل نمبر 4:
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ ﷺ قراءت مکمل کرکے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے آپ ﷺ نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے"۔
(سنن ابی داؤد : ۷۴۴، مسند الامام احمد ۹۳/۱، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے " حسن صحیح" کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ ؒ(۵۸۴) نے اسے " صحیح" کہا ہے۔
راوئ حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی ؒ کہتے ہیں:
ھذا عند نا مثل حدیث الزّ ھری عن سالم عن أ بیہ "
ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں ۔"(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ۳۴۲۳ ، وسندہ صحیح)
اس کے راوی عبد االرحمٰن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک "ثقہ"ہیں ، جیسا کہ حافظ ابنِ حجرؒ لکھتے ہیں :
وھو ثقۃ عند الجمھور ، وتکلّم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ۔
" وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب ِجرح نہیں۔"(نتائج الافکار لا بن حجر: ۳۰۴)
" مدینہ میں اس کی حدیث "صحیح"اور عراق میں '' مضطرب '' تھی، اس پر جرح اسی صورت پر محمل ہے، یہ روایت مد نی ہے۔ والحمد للہ!
دلیل نمبر 5
ابو الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
انّ جابر بن عبداللہ کان اذا افتح الصّلاۃ رفع یدیہ،واذا رفع رأ سہ من الرّکوع فعل مثل ذلک ، ویعقول : رأیت رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم فعل مثل ذلک
"سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کرتے اور رکوع سےسر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
(سنن ابن ماجۃ: ۸۶۸، وسندہ صحیح)
ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے"مسند السمراج(۹۲)" میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
اب غور فرمائیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک تابعی سید نا جابر صحابئ رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابئ رسول ا سے نبئ اکرمﷺ کا عمل مبار ک بتارہے ہیں ، اگر نبئ اکرم ﷺنے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کار بند کیوں رہے؟
دلیل نمبر 6:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں :
ھل أریکم صلاۃرسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم؟ فکبّر ورفع یدیہ، ثمّ کبّر ورفع یدیہ للرّ کوع، ثمّ قال: سمع اللہ لمن حمدہ، ثمّ قال: ھکذا فاصنعوا، ولا یرفع بین السّجدتین۔
"کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ ؓ نے اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو! آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
(سنن الدار قطنی:۲۹۲/۱، ح: ۱۱۱۱، وسندہ صحیح)
حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں :
ورجالہ ثقات۔
"اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔" (التلخیص الحبیر : ۲۱۹/۱)
اس حدیث سے " بعض الناس " کا یہ کہنا کہ"۹مقامات پر رفع الیدین کا اثبا ت اور ۱۸ مقامات پر نفی دکھاؤ "باطل ومردود ٹھہر تا ہے، کیونکہ سید نا ابو موسیٰ اشعری ؓ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں ، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز قراردے رہے ہیں ، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں ، صحابہ کرام نے جہاں آپ ﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھا، وہا ں کیا، جہا ں نہیں دیکھا، وہا ں نہیں کیا۔
دلیل نمبر 7:
سیدنا ابوحمید الساعدی ؓ نے دس صحابہ کرام ؓ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کردکھائی، نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دورکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا: صدقت، ھکذا یصلّی النّبیّ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم "آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔")
مسند الامام احمد: ۴۲۴/۵، سنن التر مذی: ۳۰۴، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام تر مذی ؒ نے "حسن صحیح" کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ (۵۸۷) امام ابن الجارود (۱۹۲)، امام ابن حبان(۱۸۶۵)، اور حافظ خطابی (معالم السنن: ۱۹۴/۱) نے اس حدیث کو "صحیح " قرار دیا ہے۔
حافظ نووی ؒ نے بھی اس کو" صحیح" کہا ہے۔ (خلاصۃ الا حکام: ۳۵۳)
حافظ ابنِ قّیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں :
حدیث أبی حمید ھذا حدیث صحیح متلقّی بالقبول ، لا علّہ قومبما برّأہ اللہ أئمۃ الحدیث منہ، ونحن نذکر ما علّلو بہ، ثمّ نبیّن فساد تعلیلھم وبطلا نہ بعون اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت وعمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں! اسے ایک قوم(احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہاہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کردیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسدو باطل ہونا بیان کریں گے۔"
(تھذیب السنن لا بن القیم :۴۱۶/۲)
امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابو عبد اللہ النیسابور ی ؒ (۲۵۸ھ) فرماتے ہیں : "جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے ، اس کی نماز ناقص ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ: ۲۹۸/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر 8:
امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابو نعمان محمد بن فضل ؒ کی اقتدار میں نماز پڑھی ، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرما یا، میں نے امام حماد بن زید ؒ کی اقتدار میں نماز پڑھی ، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرما یا، میں نے امام ایوب سختیانی ؒ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرما یا، میں نے (صحابئ رسولﷺ) سیدنا عبد اللہ زبیر ؓکی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ ؓنماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح ؒ کہتے ہیں ، میں رفع الیدین کے بارے میں سید نا عبد اللہ بن زبیر ؓ سے سوال کیا تو آپؓ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سید نا ابو بکر صدیق ؓ کی اقتداء میں نماز ادا کی ، آپ ؓ نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفۂ اول) سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرما یا ، میں نے رسولِ کریم ﷺ کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ ﷺ نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔"
(السنن الکبرٰی للبیھقی: ۷۳/۲، وسندہ صحیح)
خود امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : رواتہ ثقات۔ "اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔"
حافظ ذہبی ؒ (المھذب فی اختصار السنن الکبیر : ۴۹/۲)اور حافظ ابنِ حجر ؒ نے اس حدیث کے راویوں کو"ثقہ" قرار دیا ہے۔
قارئین کرام! اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ، اور تابعین عظام نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے ۔ ۔۔۔۔ آمین یاربّ العالمین!
تنبیہ: الامام الثقۃ ابو جعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی ؒ(م۳۱۸)بیا ن کرتے ہیں : "میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپﷺنماز پڑھے رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔"(سنن دار قطنی: ۲۹۲/۱،ح: ۱۱۱۲، وسندہ صحیح)
جن لوگوں کے مذہب کی بنیاد بزرگوں کے خوابوں پر ہے، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صور ت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟
الحاصل:
رفع الیدین رسول اللہﷺ کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔
منقول
🍒💐🍒💐🍒💐🍒💐🍒💐🍒
No comments:
Post a Comment