- کیا دعا تقدیر کو بدل سکتی ہے؟
📼📼📼📼📼📼📼📼
دین اسلام کے ارکان و شعار کے متعلق اس قسم کے اعتراضات پہلے بھی ہوئے ہیں اور ہمارے اسلاف نے ان کے اعتراضات کے جوابات بھی دیے ہیں ۔اس کے متعلق صحیح جواب یہ ہے کہ دنیا کے معاملات کا وقو ع پذیر ہونا اسباب کے ساتھ معلق کیا گیا ہے۔جیسا کہ اگر کسی بیج کے متعلق یہ مقدر ہے کہ اس نے اگنا ہے اور پھلنا پھولنا ہے تو اس کی یہ تقدیر اسباب و ذرائع کے بجا لانے سےمعلق ہوگی۔ اسے زمین میں کاشت کیا جائے گا۔پھر اسے پانی بھی دیا جائے،زمینی آفات سے اس کی نگرانی بھی کی جائے گی۔ اس کے بعد یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ بیج اگے گا اور پھلے پھولے گا۔امام ابن قیمؒ نے اس سوال کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دیا ہے کہ سوال میں بیان کردہ صورت حال کا تقاضا ہےکہ ہم ہر قسم کے اسباب و ذرائع کو معطل کردیں اور انہیں بالکل عمل میں نہ لائیں کیونکہ اگر ہمارے مقدر میں سیر ہونا لکھا ہے تو ہو کر رہے گا،کواہ ہم کھا نا کھائیں یا نہ کھائیں،اسی طرح اگر ہمارے مقدر میں اولاد ہے تو وہ ہوکررہےگی،خواہ ہم شادی کریں نہ کریں اور شادی کرنے کے بعد بیوی کے پاس جائیں یا نہ جائیں ،کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کا اقرار کرتا ہے؟ بلکہ دنیا میں اسے احمق کہا جائے گا ،کیونکہ کسی چیز کا وقوع پذیر ہونا اسباب سے معقل ہے ،وہ اسباب بھی تقدیر کا حصہ ہیں،ان کی بجا آوری ضروری ہے،ہمارا رزق طے شدہ ہے لیکن اس کے لئے بھاگ دوڑ،محنت مشقت اور ذرائع و اسباب کا استعمال کرنا ضروری ہے۔گھر بیٹھ رہنے سے وہ مقدر حاصل نہیں ہوگا،چنانچہ اس بات کی وضاحت ایک حدیث میں بایں الفاظ ہے۔
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ‘‘عمر میں کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اضافہ ہوتا ہے،بری تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے اور آدمی بعض اوقات اپنے برے کردار کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتاہے۔ ’’
(مسند امام احمد،ص:۲۷۷،ج۵)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور حسن سلوک انسان کی عمر میں اضافہ کا سبب ہے۔ جب اسے عمل میں لایا جائے گا تو سبب،یعنی عمر میں اضافہ ہوگا اور یہ دونوں باتیں ،یعنی نیک عمل کرنا اور عمر میں اضافہ ہونا تقدیر کا حصہ ہیں۔اسی طرح پریشانی یا بیماری میں مبتلا ہونا تقدیر کا حصہ ہے اور دعا یا دو اسے اس کا دور ہونا بھی اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے چونکہ ہم اسباب و ذرائع کو استعمال کرنے کے پابند ہیں۔اس لئے ان کی بجاآوری بھی ضروری ہے،چنانچہ یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں آدمی فلاں گناہ کے ارتکاب سے رزق سے محروم ہوگا،جب وہ گناہ کرے گا تو ضرور اس رزق سے محروم ہوگا اگرچہ احتیاطی تدابیر بعض اوقات کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔تاہم دعا ایک ایسی احتیاطی تدبیر ہے کہ یہ کسی صورت میں ضائع نہیں ہوتی،جیسا کہ ایک حدیث می
No comments:
Post a Comment