Tuesday, August 30, 2016

*ریاض الجنہ (جنت کی کیاری

*ریاض الجنہ (جنت کی کیاری)*



*مقبول احمد سلفی*


ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف  کے درمیان میں ہے, اس کا نام ریاض الجنۃ ہے (جنت کا باغیچہ)۔

یہ نام اس لئے پڑا کہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة''(رواه البخاري :1196ومسلم :1391)

''میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے''۔

مسند بزار اور بعض دیکر کتب حدیث میں یہ الفاظ بھیآئے ہیں:

''مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة''

"میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ۔

محدثین کی رائے یہ ہے کہ" قبری" کا لفظ بعض رواۃ کی طرف سے خطا ہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:

" والثابت عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال : (ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ) " هذا هو الثابت في الصحيح ، ولكن بعضهم رواه بالمعنى فقال : قبري .

وهو صلى الله عليه وسلم حين قال هذا القول لم يكن قد قبر بعد صلوات اللّه وسلامه عليه ، ولهذا لم يحتج بهذا أحد من الصحابة لما تنازعوا فى موضع دفنه ، ولو كان هذا عندهم لكان نصاً فى محل النزاع " انتهى.(مجموع الفتاوى 1/236)

ترجمہ: نبی ﷺ سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے :"ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة" (میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان جنت کی ایک کیاری ہے ) ،حقیقت میں یہی ثابت ہے ۔ لیکن بعض راویوں نے روایت بالمعنی کیا ہے اور انہوں نے کہا: "قبری" ۔ جب نبی ﷺ نے یہ بات کہی اس وقت آپ کی قبر تھی ہی نہیں، اسی لئے صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے دلیل نہیں پکڑی جب دفن کی جگہ کے سلسلے میں تنازع کررہے تھے ، اور اگر یہ ان کے پاس ہوتا تو ان کے لئے نزاع کی جگہ میں دلیل بن جاتی۔


اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاض الجنۃ سے مراد واقعی جنت کی کیاری ہے ؟

*اس سلسلے میں اہل علم کے کئی اقوال ملتے ہیں*۔

(1) اس جگہ پہ بیٹھنے کی سعادت و اطمنان جنت کی کیاریوں کے مشابہ ہے ۔

(2)اس جگہ پہ عبادت کرنا جنت میں دخول کا سبب ہے ۔

(3) یہ جگہ آخرت میں واقعی جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

بعض علماء نے پہلے قول کو ، بعض نے دوسرے قول کو اور بعض نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔


میں ان اقوال میں سے کسی ایک کو بلا ترجیح دئے بس یہ کہوں گا کہ اصل تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو زمان و مکان کو فضیلت و خصوصیت بخشتا ہے ،ساتھ ساتھ  یہبھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام کی بڑی فضیلت ہے ، اگر مسجد نبوی ﷺ آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اللہ سے دعا، اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے ۔


یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی کے ساتھ آتا اوروہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آ کرنماز ادا کرتے ، تومیں نے انہيں کہا اے ابومسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرورنماز ادا کرتے ہیں ! تووہ فرمانے لگے :

میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔ (بخاری :502 ومسلم:509 ) ۔

اور اس مقام پہ بیٹھنا یا عبادت کرنا آپ سے تقاضہ کرتا ہے کہ اپنے اندر تقوی پیدا کریں ، اگر آپ کو ریاض الجنہ آنے کی سعادت ملی مگر اعمال میں سنت کی پیروی نہیں بلکہ بدعت اور نیت میں اخلاص نہیں بلکہ ریا کاری ہے تو پھر آپ کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔

ایک اہم بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ جو لوگ اس جگہ پہ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کو یہاں آنے کا موقع فراہم نہیں کرتے وہ بھی غلط کرتے ہیں اور ان کی بھی غلطی ہے جو بھیڑ دیکھ کر بھی ضعیفوں اور کمزوروں کو تکلیف پہنچاکر اندر داخل ہوتے ہیں۔


*اللہ تعالی ہمارے حال کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو اس مقدس جگہ ریاض الجنہ میں عبادت کرنے اور کچھ دیر سعات حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین*

نماز کی قدر و منزلت

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

نماز کی قدر و منزلت


فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اﷲِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ
جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو گویا اس کا دِل بہت متقی ہے(الحج)۔

علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ظاہر نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی بڑی اہمیت اور مقام ہے۔ یہ عبادت دیگر تمام عبادات سے بڑھ کر امتیازات و خصائص کی حامل ہے۔ کچھ خصوصیات ذیل میں درج ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر ایمان رکھنے کے حکم کے بعد سب سے پہلے نماز کو فرض کیا تھا۔

2۔ توحید الٰہی کے بعد سب سے بڑھ کر عظمت نماز کو حاصل ہے۔ ارکانِ اسلام میں توحید کے بعد سب سے بڑا رکن نماز ہے۔ حج زکوٰۃ، روزہ کا نمبر نماز کے بعد آتا ہے۔

3۔ مسلمان کا سب سے بہترین عمل نماز ہے۔ فرمانِ نبویصلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’خوب جان لو تمہارا بہترین عمل نماز ہے‘‘۔ (مسند احمد۔ صححہ الالبانی)۔

4۔ معراج کے موقع پر آسمانوں میں نماز فرض کی گئی تھی۔ دیگر تمام ارکان زمین پر فرض کئے گئے تھے۔

5۔ نماز کو تمام رسولوں اور نبیوں پر فرض کیا گیا ہے بلکہ آسمانوں اور زمین دونوں پر عبادت اسی طریقے سے کی جاتی ہے۔

6۔ بچوں کو چھوٹی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح کہ حدیث ہے: ’’اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو‘‘ (ابوداؤد،مسند احمد)۔
7۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری وصیت بھی نماز کے متعلق تھی۔ جیسا کہ مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری حکم جو دیا تو وہ یہ تھا کہ ’’نماز، نماز اور غلاموں کا خیال کرنا‘‘۔ (نسائی، مسند احمد وغیرہ)۔

8۔ یہ ایسا فریضہ ہے جو کسی مسلم پر کبھی بھی ساقط نہیں ہوتا۔ علاوہ حائضہ اور نفاس والی عورت کے۔ مسافر، بیمار اور حالت خوف والے کو حسب استطاعت نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ اس کے برعکس روزے، زکوٰۃ اور حج، عذر کی حالت میں فرض نہیں رہتے۔

9۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز کے ترک کے علاوہ کفر کا حکم کسی اور چیز کے ترک پر مروی نہیں ہے۔

10۔ نماز ایک ایسا عمل ہے جو دین میں آخر تک چلے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’لوگوں کا آخری دینی عمل نماز باقی رہے گا‘‘ (صحیح الجامع۔ البانی)۔
11۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کا نام ایمان رکھا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَ مَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ
اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ (البقرۃ:)۔

12۔ انسان سجدے کی حالت میں اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

13۔ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ پانے کا ذریعہ، سب سے بڑھ کر نماز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جنت میں رفاقت کا سوال کرنے والے کو فرمایا گیا کہ ’’تم میری مدد کثرتِ سجود سے کرو‘‘ (مسلم)

14۔ قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کا فرق سجدے سے واضح ہو گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ
جس دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو (لوگوں کو) سجدے کی دعوت دی جائے گی (تو منافق لوگ) سجدہ نہ کر سکیں گے۔ (القلم)۔

15۔ اُمت محمدیہ کی سب سے واضح ترین علامت نماز ہو گی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک میری اُمت کو قیامت کے دن پکارا جائے گا۔ ان کے وضو کے اعضاء چمک رہے ہوں گے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

16۔ نمازی کو نماز جہنم کی آگ سے بچائے گی۔ اگرچہ یہ نمازی جہنم میں داخل کیوں نہ ہو جائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشاد ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدے کے نشانات کو کھائے‘‘ (متفق علیہ)۔

17۔ مسلمانوں کو فواحش، برائیوں اور جرائم سے روکنے کا بڑا سبب نماز ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ
بے شک نماز، فحاشی اور برائی سے روکتی ہے (العنکبوت:)۔

18۔ جان و مال کی حفاظت، ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ نماز سے ہوتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ
اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کو قائم کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (التوبہ:)۔

اور اسی طرح حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’بے شک مجھے نمازیوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے‘‘ (ابوداؤد، مسند احمد)۔

19۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمان ہے:

وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ (البقرہ)
اور تم مدد طلب کرو، صبر اور نماز کے ساتھ، بے شک یہ بھاری ہے مگر ڈرنے والوں کے لئے نہیں۔

20۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کبھی کوئی بڑا معاملہ پیش آتا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر گبھراہٹ طاری ہوتی تو آپ نماز کی طرف فوراً چلے جاتے تھے (ابوداؤد۔ مسند احمد)۔

21۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بلال رضی اللہ عنہ کو نماز کا حکم دیتے تو یوں فرماتے تھے: ’’اے بلال: کھڑے ہو جاؤ اور ہمیں نماز سے سکون پہنچاؤ (یعنی اذان دو)‘‘۔ (ابوداؤد، مسند احمد)۔

22۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے‘‘۔ (احمد)۔

23۔ نماز، تمام اعمال کے مقابلے میں ایک ترازو کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اِرشاد ہے کہ: ’’جو شخص نماز کی حفاظت کرتا ہے تو وہ دیگر اعمال کی بھی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے تو وہ دیگر اعمال کو بھی ضائع کرے گا۔

24۔ جو شخص اپنا مقام و منزلت، اللہ تعالیٰ کے حضور دیکھنا چاہے تو وہ اپنا مقام نماز کے مطابق دیکھئے۔( قولِ امام احمد)۔

25۔ اللہ تعالیٰ کی توحید، تعظیم، تکبیر اور حمد و ثنائ، انسان کی عاجزی و انکساری ان تمام اُمور کا مجموعہ نماز ہے۔

26۔ نماز میں بندے اور پروردگار میں مناجات کا سلسلہ بھی رکھا گیا ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ ’’الرحمن الرحیم‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میرے بندے نے میری تعریف بیان کی‘‘۔ ’’مالک یوم الدین‘‘ کہنے پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میرے بندے نے میری عظمت بیان کی‘‘ (مفہوم صحیح مسلم)۔ اور ایک مقام پر فرمایا: ’’بے شک تم میں سے کوئی جب ایک نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔

27۔ قیامت کے دن سب سے پہلے حساب و کتاب نماز کی بابت ہو گا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’اگر نماز کا معاملہ درست ہوا تو سارے اعمال درست ہو جائیں گے اور اگر نماز کا معاملہ بگڑا تو سارے اعمال بگڑ جائیں گے‘‘ (ابوداؤد)۔

28۔ نماز گناہوں سے بخشش کا بڑا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’جو بھی مسلمان، فرض نماز پڑھنے کے لئے اچھے طریقے سے وضو کرے اور خشوع و خضوع سے رکوع سجود کرے تو اس کا یہ عمل اس کے تمام گذشتہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ بشرطیکہ وہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے۔ اور یہ (ثواب) تمام عمر کے لئے ہے‘‘ـ (ابوداؤد)۔

29۔ دنیا و آخرت کی فلاح و خیر کا بڑا سبب نماز ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ: ’’تحقیق وہ مومن فلاح پا گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں‘‘ (المومنون)۔

30۔ تزکیہ نفس کے لئے نماز بڑا اہم ذریعہ ہے۔ انسان کو جزع فزع، بخیلی اور برے اخلاق سے بچاتی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’بے شک انسان بڑا بے صبرا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جزع فزع کرنے لگتا ہے۔ اور جب خیر ملتی ہے تو (لوگوں کو دینے) سے منع کر دیتا ہے۔ مگر نماز پڑھنے والے (ایسے نہیں ہوتے) ۔ (سورہ معارج)۔

31۔ رزق کی کنجیوں میں ایک بڑی کنجی نماز ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر ڈٹے رہو۔ ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کرتے بلکہ رزق دینے والے ہم ہیں۔ اور عاقبت تو تقوی والوں کے لئے ہے‘‘۔ (سورہ طہ)۔

32۔ جو شخص نماز کی محافظت کرتا ہے تو اس کا اللہ پر حق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں۔ جو شخص ان نمازوں میں، بہترین وضو کرے۔ اپنے اپنے اوقات پر نماز پڑھے۔ مکمل رکوع کرے۔ عاجزی کے ساتھ پڑھے۔ تو اس کا اللہ تعالیٰ پر حق بنتا ہے کہ اللہ اس کو معاف فرما دے۔ اور جو ایسا نہ کرے گا تو اس کا کوئی حق نہیں بنے گا۔ اگر اللہ چاہے تو بخش دے، نہ چاہے تو نہ بخشے‘‘۔ (ابوداؤد مسند احمد)۔

33۔ نماز پڑھتے وقت کسی دوسرے کام میں مشغول نہیں ہوا جا سکتا۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’بے شک نماز کی اپنی ایک خاص مشغولیت ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

34۔ فرمان ہے کہ ’’رأس الامر اسلام ہے، ستون نماز ہے اور کوہان کی بلندی جہاد سے ہے‘‘۔(سنن ترمذی، مسند احمد)۔ یعنی اس دین کا بنیادی معاملہ تو اسلام ہے اور ستون کی حیثیت نماز کو حاصل ہے۔ اور دین کی سربلندی جہاد سے حاصل ہوتی ہے۔

35۔ اس عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو شرائط رکھی ہیں وہ کسی اور عبادت میں نہیں پائی جاتیں مثلاً مکمل پاکیزگی، صاف ستھرا لباس، قبلہ کی طرف منہ کرنا وغیرہ۔

36۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اس عبادت پر ڈٹے رہنے کا حکم دیا ہے۔

37۔ دنیا میں آنے والے بچے کو سب سے پہلے نماز کی خبر ملتی ہے یعنی اس کی کان میں اذان دی جاتی ہے۔ اور مسلم کا دنیا سے آخری الوداعی معاملہ بھی نماز سے ہوتا ہے۔ یعنی کہ نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎

اذان بعد ولادت، نماز بعد وفات
بس اتنی سی زندگی ہے اس جہان کے لئے​


38۔ قیامت کے دن جہنمیوں کی پہلی حسرت نماز چھوڑنے کے بارے میں ہوگی۔ فرمانِ الٰہی ہے:

مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ (المدثر)
ان سے پوچھا جائے گا کہ کس وجہ سے تم جہنم میں ڈالے گئے تو یہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔

39۔ جو نماز کی حفاظت کرے گا تو یہ نماز اس کے لئے نور، برھان اور باعث نجات ہو گی۔ فرمانِ رسول : ’’جو شخص نماز کی حفاظت کرتا ہے تو یہ نماز اس کے لئے نور، برھان اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ ہو گی۔ جو حفاظت نہ کرے گا تو یہ نماز نہ تو اس کے لئے نور بنے گی نہ دلیل اور نہ باعث نجات ہو گی بلکہ بے نمازی قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان، ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا‘‘۔ (مسند احمد، ابن حبان) ۔

ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا پکا نمازی بنائے آمین۔

Monday, August 29, 2016

نبی ﷺ پردرود وسلام اور ان کے مسائل

نبی ﷺ پردرود وسلام اور ان کے مسائل
====================
مقبول احمد سلفی

نبی ﷺ پہ درودوسلام کے تعلق سے لوگوں میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اس وجہ سےمیں مختصرا اس پہ روشنی ڈالنا مناسب سمجھتاہوں ۔
(1) نبی ﷺ پہ درود پڑھنے کا حکم: نبی ﷺ کے حقوق میں سے اطاعت ومحبت کے علاوہ آپ پر درودوسلام پڑھنا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کاحکم فرمایاہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا (الاحزاب: 56)
ترجمہ: بے شک میں (اللہ) اور میرے فرشتے درود اور سلام نبی پر بھیجتے ہیں۔اے ایمان والوں تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود وسلام بھیجو۔

(2) درود وسلام میں فرق:
درود یہ ہے : اللهم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید۔اللهم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید۔
سلام یہ ہے : السلام علیک ایهاالنبی و رحمة الله و برکاته
اللہ کے درود کا مطلب فرشتوں میں نبی ﷺ کی تعریف کرنا، فرشتوں کے درود کا مطلب نبی ﷺ کے حق میں رحمت وبرکت کی دعاکرنا اور انسانوں کے درود کا مطلب نبی ﷺ کےلئے رحمت وبرکت اور مغفرت کی دعا کرنا ہے ۔ اور لفظ سلام تو معروف ہے سلامتی کی دعا کرنا۔

(3) درود کی فضیلت :
چند احادیث ،،،،
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ : مَا شِئْتَ . قَالَ قُلْتُ الرُبُعَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ النِّصْفَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قَالَ قُلْتُ فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا ؟ قَالَ : إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ .(صحیح الترغیب:1670)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔

فمَنْ كان أكثرَهُمْ عليَّ صَلاةً ، كان أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً ( صحيح الترغيب:1673)
ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔

من صلَّى عليَّ واحدةً ، صلَّى اللهُ عليه عشرَ صلواتٍ ، و حطَّ عنه عشرَ خطيئاتٍ ، و رفعَ له عشرَ درجاتٍ(صحيح الجامع:6359)
ترجمہ: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔
اس کے برعکس جو نبی ﷺ کا نام آنے پردرود نہیں پڑھتا اسے بخیل کہا گیا ہے ۔
البخيلُ الَّذي مَن ذُكِرتُ عندَهُ فلم يصلِّ عليَّ(صحيح الترمذي:3546)
ترجمہ: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اس نے مجھ پہ درود نہ پڑھا۔
بخاری کی حدیث میں ذکر ہے جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ نام کا سننے پہ درود نہ پڑھنے والوں کے حق میں بددعا کی تو آپ ﷺ نے منبر پہ آمین کہی ۔

(4) درود وسلام کے افضل صیغے :
ابن ابی لیلہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے کعب بن عجرہ نے ملاقات کی اور کہا کیا میں تمہیں ہدیہ نہ کروں : رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا کہ سلام کیسے کریں ہمیں معلوم ہوگیا مگر آپ پر درود کیسے بھیجیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرماہا: تم کہو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ(بخاري:3119 و مسلم :614)
تفصیل کے لئے علامہ البانی کی صفۃ صلاۃ النبی دیکھیں ۔

(5) درود کے ساتھ سلام پڑھنا: نبی ﷺ پہ درود بھیجتے وقت سلام کا بھی اضافہ کرنا چاہئے تاکہ درود کے ساتھ سلام بھی جمع ہوجائے اور یہ اللہ تعالی كاحکم بھی ہے ۔اس لئے درود ابراہیمی کا اہتمام کریں جس میں درود وسلام موجود ہے اور جسے خود نبی ﷺ نے پڑھنے کی تعلیم ہے ۔ نماز سے باہربھی ذکرنبی ﷺ پہ کم از کم کہے "صلی اللہ علیہ وسلم" ۔

(6) درود وسلام کے مواقع:
بعض جگہ درودوسلام کہنا واجب ہے ،ان میں آخری تشہد ہے ۔اس کے علاوہ وجوب کے متعلق اختلاف ہے تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ یہ نبی ﷺ کے حقوق میں سے ہےجہاں جہاں پڑھنے کا حکم ملاہے وہاں پڑھنا چاہئے ۔وہ مقامات ہیں: جمعہ کے دن بکثرت،نبی ﷺ کا ذکر کرنے، سننےیا لکھنے کے وقت، اذان کے بعد،مسجد میں داخل ہوتےاور نکلتے وقت،نمازجنازہ کی دوسری تکبیرپہ، خطبات یعنی عیدین و جمعہ اوراستسقاء وغیرہ کے وقت ، دعاکرتے وقت ، ہرمجلس میں جداہونے سے پہلےاور دعائےقنوت کے آخرمیں وغیرہ۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جلاء الافہام میں اکتالیس مقامات کا ذکر کیا ہے ۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

غار میں چھپے تین آدمیوں کا واقعہ

غار میں چھپے تین آدمیوں کا واقعہ
====================
صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا لِغَيْرِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَرَضِيَ) صحیح بخاری: کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان (باب : کسی نے کوئی چیز دوسرے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر خرید لی پھر وہ راضی ہو گیا تو یہ معاملہ جائز ہے)
2215 . حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمْ الْمَطَرُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ قَالَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ فَقَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَى ثُمَّ أَجِيءُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيءُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ قَالَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ قَالَ فَفُرِجَ عَنْهُمْ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَاءَ فَقَالَتْ لَا تَنَالُ ذَلِكَ مِنْهَا حَتَّى تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّى جَمَعْتُهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً قَالَ فَفَرَجَ عَنْهُمْ الثُّلُثَيْنِ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَى ذَاكَ أَنْ يَأْخُذَ فَعَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ حَتَّى اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي فَقُلْتُ انْطَلِقْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا فَإِنَّهَا لَكَ فَقَالَ أَتَسْتَهْزِئُ بِي قَالَ فَقُلْتُ مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ وَلَكِنَّهَا لَكَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَكُشِفَ عَنْهُمْ
حکم : صحیح 2215 .

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پنا ہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لئے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ” اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لئے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنادے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کرلی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے ( نکلنے کا ) راستہ بنادے “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا ( کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جورا پیدا ہوئی کہ ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آکر مزدوری مانگی کہ خدا کے بندے مجھے میرا حق دے دے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا ” میں مذاق نہیں کرتا “ واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے ( اس چٹان کو ہٹا کر ) راستہ بنا دے۔ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آگئے۔

Sunday, August 28, 2016

اَسباب حسد


  • اَسباب حسد 

تفوق کی خواہش:انسان کا نفس بنیادی طورپردوسروں سے بلند وبرتر رہنا چاہتا ہے۔جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے ۔ لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں۔یہ حسد کی بنیادی علت ہے۔
حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میںہوتا ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں،تاجر تاجر سے حسد کرے گا،سیاستدان سیاستدان سے حسد کرے گا، طالب علم طالب علم سے اور اہل قلم اہل قلم سے حسد کریں گے اور حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرارپایا تھا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد اللہ کے فیصلے کونہیں بدل سکتا۔
ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کامجموعہ ہے۔ اپنے کردار و مزاج کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اِصلاح کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا کڑھنا شروع کردے تویہ حسد کا پیش خیمہ بن جاتاہے۔ایسا انسان احساس کمتری میںمبتلا ہوجاتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرلیتا ہے۔اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں پر اس کی نظر نہیں جاتی۔وہ ہر وقت دوسروں پر نظر رکھتا ہے۔ اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے اور حاسد بن جاتا ہے۔
تنگ دلی: دل کی تنگی بھی اَسباب حسد میں سے ہے۔ بعض اوقات نہ تو انسان میں تکبر ہوتا ہے اور نہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتاہے،لیکن جب اس کے سامنے کسی پر اللہ کے انعام یا احسان کا تذکرہ کیا جائے تو اسے یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اورجب کسی شخص کی بدحالی یا مصیبت کا تذکرہ کیا جائے تو اُسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لوگوں کی بدحالی اُسے بھلی لگتی ہے اور خوشحالی اُسے غمگین کردیتی ہے وہ بندوں پراللہ کی نعمتوں کا بخل کرتا ہے حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور اس کے اس موجود نعمتوں میں کچھ کمی بھی نہیں ہورہی ہوتی تویہ نفس کی خباثت اور شرانگیزیاں ہیں جو انسان کو اس بُرے کردار و عمل کی طرف لے جاتی ہیں اور نفس کا پہلے پہل یہی کام ہوتا ہے کہ وہ انسان کو بُرائی پر اکساتا ہے۔
اِجارہ داری کا خبط:غرور و تکبر میں مبتلا شخص ہر چیز پراپنی اجارہ داری سمجھتا ہے۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر کوئی اور انسان اس کے برابر آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بڑا نہ ہوجائے یا اگر اُس سے کم حیثیت کا شخص اس کے برابر آجائے یا اس سے آگے بڑھ جائے تو وہ اس کی بلندی کو برداشت نہیںکرپاتا اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اُسے اپنی حیثیت و مقام کھو جانے کا خو ف لاحق ہوجاتا ہے۔ مشرکین مکہ کا رسول اللہﷺسے حسد اسی نوعیت کا تھا۔
علم وفن میں برتری کی خواہش:بعض اَوقات انسان اپنے فن، علم، حیثیت، عہدے، دین اور صلاحیتوں میںممتاز ہوتا ہے، یگانۂ روز گار ہوتا ہے اور جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور علاقے یا جگہ میںاس کی طرح کا ایک اور انسان موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں۔یا اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ اُس فرد کے مرجانے یا اس کی نعمت کے زائل ہوجانے کی تمنا کرنے لگتا ہے اور یہ جذبات حسد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔
بغض وعناد:بغض و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتے ہیں۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے۔اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتاہے اور حضرت انسان کو اپنے دشمن کا نقصان اور مصیبت اچھی لگتی ہے اور دشمن کو ملنے والی نعمت یابھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہوجانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے۔ گویا عداوت، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں اور جس نے حسد کی بیماری کا علاج کیا ہے اُسے عداوت اور بغض کا علاج بھی کرنا ہوگا، کیونکہ اگر اسباب باقی رہے تو بیماری کبھی بھی پلٹ کر حملہ آور ہوسکتی ہے۔حسد کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اَسباب کا خاتمہ ضروری ہے۔

حسد سے بچاؤ کی تدابیر

حسد سے بچاؤ کی تدابیر
اگر کوئی آپ سے حسد کرے تو …!
اللہ پر مکمل بھروسہ رکھیں اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ عقیدہ توحید پر ثابت قدم رہیں۔
ارشادِ نبویؐ ہے:جب تک اللہ نہ چاہے کوئی آپ سے کچھ نہیںچھین سکتا۔
اللھم لامانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت(صحیح بخاری:۶۶۱۵)
’’اے اللہ!اُس چیز کو کوئی نہیں روک سکتا جو تو دے، اور کوئی نہیں اس کو دے سکتا جسے تو روک لے۔‘‘
Click to expand...
اشتعال میں نہ آئیں اور انتقام کے منصوبے نہ بنائیں۔ آپ کا صبر ہی حسد کو ختم کرے گا۔
حاسد کو معاف کردیں اس سے اس کے حسد میں کمی ہوگی۔
اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے نماز کی پابندی ضرور کریں۔
صبح و شام کے اَذکار پڑھیں۔
صبح و شام دم کریں۔ نظر بد سے بچاؤ کی دعائیں پڑھیں اوراپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دیں،کیونکہ اللہ کی پناہ کے علاوہ حاسد سے بچنے کا اور کوئی چارا نہیں ہے۔ حسد سے بچاؤ کا سب سے مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔
حاسد نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اس کے علم اور ظرف کے مطابق تھا۔ آپ اپنے علم اور ظرف کے مطابق جوابی رد عمل ظاہر کردیں۔ خیر خواہی کے علاوہ کچھ نہ چاہیں۔
حسد کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پھر حکمت کے ساتھ حاسد کا سامنا کریں۔
حاسد سے کم کم ملیں۔
حاسد کی ہدایت کے لیے دعائے خیر کریں۔
خوف ِ خدا اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔
جب کبھی موقع ملے تو حاسد کے ساتھ احسان یا بھلائی کا معاملہ کریں۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے حاسد کے حسد میں کمی ہورہی ہے یا نہیں؟
کچھ معاملات میں رازداری سے کام لیں۔ کام کرنے سے پہلے اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹنا شروع کردیں۔
حسد کے جواب میں حسد کرنا یا غیر شرعی طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ سے کچھ دعائیں ثابت ہیں جو حسد سے اور نظر ِ بد سے بچاؤ کے لیے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئیں۔ مثلاً :
معوذتین پڑھیں:
عبداللہ بن عابس الجہنی کی روایت نسائی، بیہقی، بغوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضور1 نے مجھ سے فرمایا: ’’ابن عابس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی چیزوں کے ذریعے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کون سی چیزیں ہیں؟میں نے عرض کیا ضرور یارسول اللہﷺ! فرمایا:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}
اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ}یہ دونوں سورتیں۔‘‘ (سنن نسائی:۸۶۳)
ابن عباسؓ سے مرویہے کہ نبیﷺ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر یہ دُعا پڑھتے تھے۔
أعیذکما بکلمات اﷲ التامۃ من کل شیطان وھامۃ ومن کل عین لامۃ
’’میں تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۳۷۱)
مسلم میں ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ بیمار ہوئے تو جبریل ؑ نے آکر پوچھا: ’’اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہوگئے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے کہا:
’’باسم اﷲ أرقیک من کل شئ یؤذیک من شر کل نفس أو عین حاسد اﷲ یشفیک باسم اﷲ أرقیک‘‘ (رقم الحدیث:۲۱۸۶)
’’میں اللہ کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں ہر اُس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اُس کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں۔‘‘
ایک اور دعا یہ ہے:
بسم اﷲ یبریک ومن کل داء یشفیک ومن شر حاسد إذا حسد ومن شر کل ذي عین (صحیح مسلم:۲۱۸۵)
’’اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ، وہ تجھے برکت دے، وہ تجھے ہربیماری سے شفا دے گا اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہرنظر بد کے شر سے۔‘‘

حسد کو ختم کرنے والے اَسباب

           
                 حسد کو ختم کرنے والے اَسباب


یہ جان لیں کہ حسد سے سراسر اپنا ہی نقصان ہے، دین کا بھی اور دنیا کا بھی۔حاسد تو خود اپنا دشمن ہے۔ محسود مظلوم کے درجے میںہے اور حاسد ظ الم کے درجے میں۔ اس لیے محسود تو فائدے میں ہے جب کہ حاسد کانقصان دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب تیار ہے۔جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے وگرنہ روح کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
اللہ سے دعا کریں۔ دلی کیفیات میں بعض اوقات انسان خود بھی بے بس ہوجاتا ہے اس کے لیے اللہ کی مدد بہت ضروری ہے۔
سوچ کو بدلیں۔منفی کے بجائے مثبت اندازِ فکر اپنایا جائے۔
کسی اچھی چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ پڑھیں۔ اس سے نظر نہیں لگے گی۔
اپنی نعمتوں پرنظر رکھیں۔ دوسروں کی نعمتوں پرنظر نہ رکھیں۔
حسد کو رشک میں تبدیل کردیں مگر یہ یاد رہے کہ رشک صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔
اچھا مطالعہ کریں۔ وسعت فکر سے وسعت ظرف بھی پیدا ہوگا اور وسعتِ قلب بھی نصیب ہوگا۔
اچھے دوستوں کا انتخاب کریں جو آپ کو اللہ سے قریب کرنے والے ہوں۔ آپ کے ایمان کے محافظ ہوں اور آپ کی خامیوں کی اصلاح کرنے والے ہوں۔
تذکیر کے لیے اچھی مجالس و محافل میں شرکت کریں۔
صاحب نعمت کے حق میں ضرور دعا کریں بلکہ اسی موقع پر اس کو دعائیہ کلمات سے نوازیں۔
نفس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ أعوذ باﷲ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا
نفس کی رذیل خواہشات کو کچلنے کی عادت پیدا کریں وگرنہ نفس اَمارہ تو بُرائی پہ ہی اُکساتا ہے اور اگر نفس ہم پر غلبہ پالے تو پھر معاذ اللہ۔
حسد دل کی بہت بڑی بیماریوں میں سے ہے اور اَمراض قلوب کا علاج علم و عمل سے ہوتا ہے۔
اپنی نعمتوں اور صلاحیتوں پر اللہ کا شکر اَدا کریں۔ان کو محسوس کریں اور جو فضیلت اور برتری اللہ نے کسی اور کو عطا کی ہے، اس کا اعتراف کریں۔
ہرنعمت اور صلاحیت کی تمنا مت کریں۔ اللہ کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اﷲُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ} (النسائ:۳۲)
جب کبھی کسی کے خلاف حاسدانہ جذبات پرورش پانے لگیں تو اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھ کر استغفار کریں۔ رجوع الی اللہ کریں۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔

Saturday, August 27, 2016

*اسلامی عقيدہ*🌴

السلام عليکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

        🌴*اسلامی عقيدہ*🌴

🌹آج کا سبق *قسط نمبر 47*

====================
         *توسل اور طلب شفاعت*

☄السوال

کيا ہم رسول اللہ ﷺ کی مدح و تعريف ميں مبالغہ کر سکتے ہيں ؟؟؟


⚡الجواب
ہم آپ ﷺ کی مدح و تعريف ميں مبالغہ آرائ اور غلو نہيں کرسکتے-


☘*القرآن*

🌺*اللہ تعالی کا ارشاد ہے*

       🌴﷽🌴

Holy Quran 18:110
------------------
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے
       
☘*الحديث*
🌺*رسول اللہ ﷺ نے فرمايا*
"مجھے ( مدح سرائ کے ذريعے سے رُتبے ميں ) حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح عيسائيوں نے عيسیٰ ابنِ مريم عليہ السلام کو ( رُتبے ميں بڑھا ديا تھا ) ميں تو ( اللہ ) کا بندہ ہوں ، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہی کہو -"

صحيح البخاری *4445*

♦ان شاءاللہ جاری ہے♦

🌲🌹☘🍁🌿🌺🌾🌸🌱🌼

بدلہ لینا جائز ہے


بدلہ لینا جائز ہے ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

42 : سورة الشورى 40

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ  سَیِّئَۃٌ  مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ  فَاَجۡرُہٗ  عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ  لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ۔ جیسے فرمایا آیت (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٩٤؁) 2- البقرة:194) اور آیت میں ہے ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁) 16- النحل:126) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا ۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے ۔ پھر برائی کی ابتدا اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ ابن عون فرماتے ہیں ، میں اس لفظ (انتصر) کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو حضرت عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ حضرت عائشہ کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس وقت حضرت زینب وہاں موجود تھیں آپ کو معلوم نہ تھا صدیقہ کی طرف جب آپ نے ہاتھ بڑھایا تو صدیقہ نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ حضرت زینب نے صدیقہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ نے حضرت عائشہ کو اجازت دی کہ جواب دیں ۔ اب جو جواب ہوا تو حضرت زینب عاجز آگئیں اور سیدھی حضرت علی کے پاس گئیں اور کہا عائشہ تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں یہ سن کر حضرت فاطمہ حاضر حضور ہوئیں آپ نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی !عائشہ سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں ۔ اور حضرت علی سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر حضرت علی آئے اور آپ سے باتیں کیں ۔ یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموما منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ حضرت زینب غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع حضرت عائشہ کے گھر چلی آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صدیقہ کی نسبت کچھ کہا پھر حضرت عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے عائشہ سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ نے جواب دینے شروع کئے تو حضرت زینب کا تھوک خشک ہو گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ صدمہ ہٹ گیا ۔ حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ بزار میں ہے ظالم کے لئے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا ۔ یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ایسے فسادی قیامت کے دن دردناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کر لیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابو عبداللہ تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون ومال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بےوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں ۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی ۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا ۔ (ابن ابی حاتم ) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضلیت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کر لے اور برائی سے درگذر کر لے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض کا فرمان ہے کہ جب تم سے آکر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کر دو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیز گاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہدو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کر دو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کر دینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے ۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق کو برا بھلا کہنا شروع کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے حضرت صدیق خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ نے بھی بعض کا جواب دیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے۔ حضرت ابو بکر سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کے چلے ؟ آپ نے فرمایا سنو جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آگیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابو بکر تین چیزیں بالکل حق ہیں (١) جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کر لے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا (٢) جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا (٣) اور جو شخص مال بڑھانے کے لئے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بےبرکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابو داؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے ۔

Monday, August 8, 2016

اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں

’’(اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں

************************

فرمان باری ہے:
﴿ کل نفس ذائقة الموت ﴾ کہ ’’ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار مکہ) بھی مر جائیں گے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی عطا نہیں کی، تو جب آپ (افضل الشبر علیہ الصلاۃ والسلام) نے فوت ہونا ہے تو کیا یہ (کفار مکہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿ تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ﴾ کہ ’’یہ امتیں تھیں جو گزر چکیں، ان کے لئے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے جو تم نے کمایا۔‘‘
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا) ...صحيح البخاري کہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد تو مر چکے ہیں، اور جو شخص اللہ رب العٰلمین کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ لا زوال ہیں اور کبھی نہیں مریں گے، پھر آپ﷜ نے درج ذیل دو آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی جن کا ترجمہ یہ ہے:
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
2. نہیں کہ محمد مگر رسول ہی، جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے (یعنی آ کر فوت ہوچکے) کیا اگر وہ (محمد) مر جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تم مرتد ہوجاؤ گے؟ اور جو اپنے قدموں پر پلٹا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « ما على الأرض نفس منفوسة ، يعني : اليوم - يأتي عليها مائة سنة » کہ ’’آج زمیں پر جتنے لوگ موجود ہیں، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی نفس بھی سانس لینے والا (یعنی زندہ) نہیں ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: « لا يبقى على وجه الأرض بعد مائة سنة ممن هو عليها اليوم أحد » اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام﷩ بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء﷜ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » ... سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح سیدنا انس﷜ سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » ... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله کہ ’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام﷩ اور شہداء﷭ وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر﷫ شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل ...تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164) کہ ’’یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ نعمتیں روحوں کیلئے ہیں۔ اور یہ زندگی بھی روحوں کی زندگی ہے، اور یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی، اور ان کی روحیں ان کے دنیاوی اجساد میں نہیں ہوں گی، اسی لئے وہ اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کے دنیاوی جسموں میں لوٹانے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ دوبارہ شہید ہوں (اور اللہ کے مزید انعامات حاصل کریں۔)‘‘
علماء لجنہ دائمہ﷭ فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "فتاوى اللجنة الدائمة" (1 / 173-174) کہ ’’انیباء اور شہداء کی زندگی اور اسی طرح دیگر تمام اولیاء کی زندگی برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یہ زندگی ہرگز اس زندگی کی طرح نہیں جو دنیا میں تھی۔‘‘اور شہیدوں کی برزخی زندگی کی بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی وراثت تقسیم کر دی جاتی ہے، ان کی بیویوں سے دیگر لوگ شادی کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان پر مردوں کے دیگر تمام احکامات جاری ہوتے ہیں۔
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی  عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق﷜ انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔

امام کے پیچھے سرہ فاتحہ کو دل میں پڑھو

امام کے پیچھے  سرہ فاتحہ کو دل میں پڑھو

^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

Book Name
صحیح مسلم
Kitab Name
نماز کا بیان
Baab
ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنے کے وجوب اور جب تک فاتحہ کا پڑھنا یا سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کو جو آسان ہو فاتحہ کے علاوہ پڑھ لینے کے بیان میں
Hadees Number
778



حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْه

ترجمہ
ُ
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

Sunday, August 7, 2016

چھ یا سات سال کے عمرمیں امامت کرانا

چھ یا سات سال کے عمرمیں امامت کرانا

/^^^^^^^^^^^^^^^^^^^'


Book Name
صحیح بخاری شریف
Kitab Name
کتاب غزوات کے بیان میں
Baab
۔ ۔ ۔
Hadees Number
4302

حدثنا سليمان بن حرب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا حماد بن زيد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أيوب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي قلابة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمرو بن سلمة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال لي أبو قلابة ألا تلقاه فتسأله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال فلقيته فسألته فقال كنا بماء ممر الناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان يمر بنا الركبان فنسألهم ما للناس ما للناس ما هذا الرجل فيقولون يزعم أن الله أرسله أوحى إليه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو أوحى الله بكذا‏.‏ فكنت أحفظ ذلك الكلام ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكأنما يغرى في صدري ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكانت العرب تلوم بإسلامهم الفتح ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيقولون اتركوه وقومه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه إن ظهر عليهم فهو نبي صادق‏.‏ فلما كانت وقعة أهل الفتح بادر كل قوم بإسلامهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبدر أبي قومي بإسلامهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قدم قال جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وسلم حقا فقال ‏"‏ صلوا صلاة كذا في حين كذا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصلوا كذا في حين كذا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا حضرت الصلاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فليؤذن أحدكم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليؤمكم أكثركم قرآنا ‏"‏‏.‏ فنظروا فلم يكن أحد أكثر قرآنا مني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لما كنت أتلقى من الركبان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقدموني بين أيديهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأنا ابن ست أو سبع ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سنين وكانت على بردة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كنت إذا سجدت تقلصت عني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت امرأة من الحى ألا تغطوا عنا است قارئكم‏.‏ فاشتروا فقطعوا لي قميصا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فما فرحت بشىء فرحي بذلك القميص‏.

ترجمہ

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوبسختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمروبنسلمہ رضی اللہ عنہ نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمروبنسلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے ؟ ( یہ اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتا تھا ۔ ) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے ( وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے ) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں ۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم ( قریش ) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی ۔ پھر جب ( مدینہ ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں خدا کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھاکرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو ۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یادکرنے والاا نہیں نہیں ملا ۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآنمجید یاد کر لیا کرتا تھا ۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا ۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی ‘ جب میں ( اسے لپیٹ کر ) سجدہ کرتا تو اوپر ہو جاتی ( اور پیچھے کی جگہ ) کھل جاتی ۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چو تڑ تو پہلے چھپا دو ۔ آ خر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی ، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا ۔

نہ امام مالکؒ تھے

                        نہ امام مالکؒ تھے 


ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ نہ امام مالکؒ ھوتے تھے اور نہ امام ابو حنیفہؒ
،نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ امام احمد نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ امام مسلم ، نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ امام ترمذی ،، نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ابوداؤد !اور دین تب بھی مکمل تھا !
ھے ناں تعجب کی بات ؟
بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟
 اس وقت کے لوگ ھاتھکہاں باندھتے ھوں گے ؟
 یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طئے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں !
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و رھے تھے ! پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ بغیر کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے !
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی !
اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے !
سب سے بڑا ون ملین ڈالرز سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟؟؟؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے !

                          👆

بیوی کی بہن

🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

⚠️بیوی کی بہن⚠️
-----------------
یہ تو ہم سب جانتے ہیں
کہ
بیوی کی بہن کے لئے ہمارے معاشرے میں لفظ "سالی" مستعمل ہے۔۔۔۔
لفظ اگرچہ کچھ مناسب نہیں لگتا
لیکن
اسی نام سے بات شروع کرتے ہیں۔۔۔
عموماًبیوی کی بڑی بہنیں شادی شدہ ہوتی ہیں
اور
اگر غیر شادی شدہ بھی ہوں تو وقت کے ساتھ طبیعت میں سنجیدگی اور بردباری آچکی ہوتی ہے۔۔۔۔
جبکہ بیوی کی چھوٹی بہنیں عمر کے اس مرحلے میں ہوتی ہیں
جب
زندگی کا ہر رُخ خوبصورت اور ہر موڑ دلکش معلوم ہوتا ہے۔۔۔
ایسے میں بہن کا شادی ہونا اور ایک نئے فرد یعنی بہنوئی کا گھر سے تعلق ہونا بھی ایک منفرد رنگ لئے ہوتا ہے۔۔۔
معاشرے کے عام چلن کی وجہ سے عموماًیہ چھوٹی سالیا ں اپنے بہنوئی سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی ہیں اور اپنے بہنوئی کا خیال بھی بہت رکھتی ہیں۔۔۔
جب کبھی بہن کا اپنے میکے جا نا ہو
تو
اکثر یہی سالیاں بہن اور بہنوئی کو بوریت سے بچانے کے لئے ان کو مکمل وقت دیتی ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مرد کے رُخ سے کچھ بات ہوجائے۔۔۔
ہمارے معاشرے میں ایک محاورہ مشہور ہے۔۔۔
سالی۔۔۔
آدھے گھر والی۔۔۔
اکثر مرد جب اپنے عزیز دوستوں میں بیٹھتے ہیں
تو
چھوٹی سالیوں کے نام پر ایک عجیب مسکراہٹ ان کے چہرے پر آجاتی ہے۔۔۔
دوست احباب بھی ذومعنی جملوں سے اس مسکراہٹ کو مزید گہرا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔۔۔
یہ حقیقت عجیب صحیح لیکن بہر حال معاشرے میں موجود ہے۔۔۔
اپنے بہنوئی کے اس رُخ سے ان کی سالیاں بھی اکثربے خبر ہوتی ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اسلام کے رُخ سے اس پہلو کو دیکھتے ہیں۔۔۔
اسلام کی رُو سے بہنوئی سالی کا آپس میں شرعی پردہ ہے۔۔۔
بہنوئی،سالی کا نامحرم ہے اور گھر کے اندر گاہے بگاہے اس کی موجودگی کی وجہ سے اس پردے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ ایسی حقیقت ہے جس سے لڑکی کے ماں باپ بھی آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں۔۔۔
اکثر بہنوئی بھی اس پردے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔۔۔
اور سالیا ں "ہمارے بہنوئی تو ہمارے بھائی جیسے ہیں" کی سوچ کے ساتھ اس سے صرفِ نظر کرتی ہیں۔۔۔

اور یہ میلان کی خطرناک حد بہنوئی کے علاوہ کسی کے علم میں بھی نہ ہو گی۔۔۔
اور وہ بہنوئی کبھی اپنی بیوی کو بھی اس میلان کانہیں بتائے گا۔۔۔
یہ ایسا خاموش زہر ہے جس سے یا تو وہ مرد واقف ہے یا الله تعالیٰ کی ذات اس کے دل کا حال جانتی ہے۔۔۔
نہ مردوں میں اتنی ایمانی قوت ہے کہ وہ اپنی اس حرکت کو تسلیم کرسکیں۔۔۔
خدارا!اس امتحان میں نہ پڑیں۔۔۔
بیوی کے ماں باپ سے گزارش ہے کہ اپنی دیگر بیٹیوں کو داماد سے شرعی پردہ کروائیں۔۔۔
بیوی کی بہنوں سے گزارش ہے کہ خود ہی پیچھے پیچھے رہا کریں تاکہ بہنوئی کو یہ باور ہو کہ میری سالیاں جھجھک اور شرم والی ہیں۔۔۔
اور مرد حضرات سے گزارش ہے کہ اس نسبی تعلق کے ساتھ مالِ مفت دل ِبے رحم والا معاملہ نہ کریں اور دل کے اندر گھٹیا اور
فضول خواہشات پالنے سے گریز کریں۔۔۔
الله تعالیٰ ہمیں اس باریک مسئلے کی حقیقت کا ادراک کرنے والا بنا دے آمین۔
🔴 نوٹ :
اس پیغام سے آپ خود بهی مستفید ہوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ بهی share کریں ممکن ہے آپ کے share سے کسی کی اصلاح ہوجائے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے.
🌟⚠النَّصِيحَةُالصَحيِحَةُ ⚠🌟

🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

روزے سے متعلق چند اہم مسائل کے روابط

روزے سے متعلق چند اہم مسائل کے روابط
 =======================

روزے کے لئے نیت کرنا
http://islamqa.info/ur/ref/26863
http://islamqa.info/ur/ref/22909                                                                                                http://islamqa.info/ur/ref/37643                                                                                                


 روزہ شروع کرنے کی دعا کی حقیقت
http://islamqa.info/ur/ref/37643                                                                  http://islamqa.info/ur/ref/65955/sahoor

روزے کو فاسد کر دینے والے اعمال؟                                                                              http://islamqa.info/ur/ref/38023

 آٹھ رکعت تراویح                                           http://islamqa.info/ur/ref/9036/start%20of%20ramadan                                           http://islamqa.info/ur/ref/82152/rak'ahs%20taraweeh
                                            http://islamqa.info/ur/ref/9036
                                            http://islamqa.info/ur/ref/38021

نماز تراویح میں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنا                                         http://islamqa.info/ur/ref/69670/taraweeh%20obligatory
                                          http://islamqa.info/ur/ref/1255

تراویح کی رکعات کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر با آوازِ بلند درود پڑھنے کا حکم                                                                                http://islamqa.info/ur/ref/121270                                                                                http://islamqa.info/ur/ref/50718                                                                                 http://islamqa.info/ur/ref/108506

جنبی کا روزہ
http://islamqa.info/ur/181351

شوھرکا اپنی بیوی کو روزہ توڑنے کے لئے مجبور کر نا              http://islamqa.info/ur/ref/49615/not%20fasting%20because%20husband                 http://islamqa.info/ur/ref/1350/not%20fasting%20because%20husband

رمضان میں جماع کرنا                         http://islamqa.info/ur/ref/23339/intercourse%20in%20ramadan                             http://islamqa.info/ur/ref/124290/intercourse%20in%20ramadan
                              http://islamqa.info/ur/ref/37679

رمضان میں شادی کرنا                                     http://islamqa.info/ur/ref/65736/start%20of%20ramadan

 روزہ کی حالت میں بیوی کو چومنا                                                                                                 http://islamqa.info/ur/ref/14315/kissing%20in%20fast

   چاند اور رمضان کا روزہ
          http://islamqa.info/ur/ref/68828/sha'baan
http://islamqa.info/ur/ref/106491/difference%20in%20start%20of%20ramadan
http://islamqa.info/ur/ref/12660

روزے کے دوران آنکھ، ناک اور کان میں دوائی کے قطرے ڈالنے یا انجکشن وغیرہ لگانے کا حکم
http://islamqa.info/ur/80208
http://islamqa.info/ur/93531
http://islamqa.info/ur/22199
http://islamqa.info/ur/49706
http://islamqa.info/ur/79178

بھول کر کھا پی لینا
http://islamqa.info/ur/ref/49658/taste%20food%20fast

غلطی سے چکھتے وقت غذا کا حلق سے نیچے اتر جانا
http://islamqa.info/ur/ref/67168/invalidates%20fast

کسی بیماری ، حادثہ  یا زخم  کی وجہ سے خون نکل آنا
http://islamqa.info/ur/ref/37918/invalidates%20fast

مسوڑوں  سے خون نکلنا
http://islamqa.info/ur/ref/78438
http://islamqa.info/ur/ref/79190/invalidates%20fast

دن کے وقت احتلام ہوجانا
http://islamqa.info/en/ref/38623/invalidates%20fast


كيا فجر كى اذان سنتے ہى فورا كھانا پينا بند كر دينا چاہيے ؟
http://islamqa.info/ur/ref/66202/ate%20during%20fast

رمضان

بدعت کرنے والے

بدعت کرنے والے

"""""""""""""""""""""""""""
صحیح مسلم  489

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ أَخْبَرَنِي الْعَلَائُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبُرَةَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا قَالُوا أَوَلَسْنَا إِخْوَانَکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَنْتُمْ أَصْحَابِي وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ فَقَالُوا کَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهْرَيْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ أَلَا يَعْرِفُ خَيْلَهُ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ الْوُضُوئِ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَی الْحَوْضِ أَلَا لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي کَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ أُنَادِيهِمْ أَلَا هَلُمَّ فَيُقَالُ إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا


ترجمہ

یحیی بن ایوب، سریج بن یونس، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، علاء، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبرستان تشریف لائے اور فرمایا سلامتی ہو تم پر مومنوں کے گھر، ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ ہم اپنے دینی بھائیوں کو دیکھیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم تو میرے صحابہ ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کو اے اللہ کے رسول! کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک نہیں آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بھلا تم دیکھو اگر کسی شخص کی سفید پیشانی والے سفید پاؤں والے گھوڑے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے پہچان نہ لے گا صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ جب آئیں گے تو وضو کے اثر کی وجہ سے ان کے چہرے ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور میں ان سے پہلے ح

Friday, August 5, 2016

ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالٰی کلام کرے

42 : سورة الشورى 51

وَ مَا کَانَ  لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ  اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ  حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾

ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالٰی کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے۔

Thursday, August 4, 2016

نیک عمل وه ہے جو سنت کے مطابق ہے

نیک عمل وه ہے جو سنت کے مطابق ہے . 🌹🌴🌱🍀🌹🍀🌱🌴🌹
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تین حضرات
 ( علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی (سری)عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ،
 جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا
 اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں ۔

 ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔
 دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رکهوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔

تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔

 پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟

📚📢 سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم !

 ⭐1📢اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔

⭐2📢 میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں

⭐3📢 لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔

⭐4📢نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں

⭐5📢اور میں عورتوں سے نکاح بهی  کرتا ہوں ۔
⭐6📢 میرے طریقے(میری سنت) سے جس نے بےرغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
     🌹🍀صحیح بخاري 5063🍀🌹
✨سوچیں،
✨سمجهیں ،
✨دین میں اضافہ سے بچیں .
 ✨بدعات سے دور رہیں .

اندازه کریں کہ اتنے جلیل القدر صحابہ کرام کو بهی سنت میں اضافہ کرنے سے روک دیا گیا تها .

کیا آپ اکثریت کے پیچھے چل رہے ہیں؟*

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کا ایک واقعہ

*کیا آپ اکثریت کے پیچھے چل رہے ہیں؟*
🌱ایک بار حضرت *عمر رضى الله* بازار میں چل رہے تھے، وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو دعا کر رہا تھا،
🌱 "اے الله مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر، اے الله مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر"۔
🌱حضرت *عمر رضى الله*  نے اُس سے پوچھا، یہ دعا تم نے کہاں سے سیکھی؟ وہ بولا، الله کی کتاب سے،

الله نے قرآن میں فرمایا ہے،
💥 *"اور میرے بندوں میں صرف چند ہی شکر گزار ہیں۔"* (القرآن 34:13)
🌱حضرت *عمر رضي الله عنه* یہ سُن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے،"اے عمر ! لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے الله مجھے بھی اپنے اُن چند لوگوں میں شامل کر۔"
🌱ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص سے کوئی گناہ کا کام چھوڑنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ اکثر لوگ کرتے ہیں ۔ میں کوئی اکیلا تو نہیں۔ اگر آپ قرآن پاک میں "اکثر لوگ" سرچ کریں تو *"اکثر لوگ"*
💥 *" اكثر لوگ نہیں جانتے"* (7:187)
💥 *"اكثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے"*(2:243)
💥 *"اكثر لوگ ایمان نہیں لائے"*(11:17)
🌱اگر آپ *"زیادہ تر"* کو سرچ کریں، تو آپ کو ملے گا کہ زیادہ تر لوگ،
💥 *"زیادہ تر شدید نافرمان ہیں"*۔ (5:59)
💥 *"زیادہ ترجاہل ہیں"* (6:111)
💥 *"زیادہ تر راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں۔"* (21:24)
💥 *"زیادہ ترسوچتے نہیں۔"* (29:23)
💥 *"زیادہ تر سنتے نہیں"* (8:23)
🌱تو اپنے آپ کو چند لوگوں میں ڈالو جن کے بارے میں الله نے فرمایاِ،
💥 *"میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں"*(34:13)
💥 *"اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے"*(11:40)
💥 *"مزے کے باغات میں پچھلوں  میں زیادہ هيں اور بعد والوں میں تھوڑے"* (56:12-14)
🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲🌲
*چند لوگوں میں اپنے آپ کو شامل کریں اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ اورکوئی اس راستے میں نہیں اور آپ اکیلے ہیں*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
🌻(كتاب الزھد - احمد بن حنبل (رحمه الله)، 🌻
🌻المُصنف - ابن ابى شيبة (رحمه الله))🌻

رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت

رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت

رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دورکعتوں سے اٹھ کر رفع الیدین کرتے تھے،اس کا ترک ثابت نہیں، دلائل ملاحظہ ہوں:

دلیل نمبر 1

سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:

" انّ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم کان یرفع یدیہ حزو منکبیہ اذا افتح الصّلاۃ، واذا کبّر للرّ کوع، واذا رفع رأسہ من الرّ کوع رفعھما کذلک أیضا وقال: سمع اللہ لمن حمدہ، ربُنا ولک الحمد ، وکان لا یفعل ذلک فی السّجود۔

"بے شک رسول اللہﷺ جب نماز شروع  کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور  سمع اللہ لمن حمدۂ ، ربّنا لک الحمد  کہتے ، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔"

                   (صحیح بخاری: ۱۰۲/۱،ح: ۷۳۵،۷۳۸،۷۳۸، صحیح  مسلم : ۱۶۸، ح: ۳۹۰)

راوی حدیث کا عمل:

         : سلیمان الشیبانی کہتے ہیں:

رأیت سالم بن عبد اللہ اذا افتح الصّلاۃ رفع یدیہ ، فلمّا رکع رفع یدیہ ، فلمّا رفع رأسہ ، فسألتہ، فقال: رأیت أبی یفعلہ، فقال: رأیت رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم یفعلہ۔

 " میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعؒی کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ؒنے فرما یا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر  ) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسولﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔"

  (حدیث السراج: ۳۴/۲- ۳۵، ح: ۱۱۵، وسندۂ صحیح)

سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راویٔ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا ، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کررہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کررہے  ہیں ، اگر رفع الیدین منسوخ ہوگا تھا تو نبی کریم ﷺ کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوئ حدیث صحابئ رسول سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہوگیا؟

جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں: "جوسنت کی محبت سے بلاشروفساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے ، اس کو برا نہیں جا نتا"۔(تذکرۃ الرشید : ۱۷۵/۲)

" اے اللہ ! اےزمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت سے محبت کی وجہ  سے کرتے ہیں !

دلیل نمبر 2

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں بیس دن رہے ، جب واپس جانے لگے تو نبئ کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا:

صلّوا کما رأیتمونی أصلّی

نماذ ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

(صحیح بخاری: ۸۸/۱ح: ۶۳۱)

راوئ حدیث کا عمل:

         ابو قلابہ تابعی ؒ سے روایت ہے:

أنّہ رآی مالک بن حویرث اذا صلّٰی کبّر ورفع یدیہ ، واذاأر اد أن یرکع رفع یدہ ،واذا رفع رأسہ من الرّکوع رفع یدیہ، وحدّث أنّ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم صنع ھکذا۔

"انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہﷺایسا ہی کیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری:۱۰۲/۱، ح: ۷۳۷، صحیح مسلم: ۱۶۸/۱، ح: ۳۹۱)

صحابئ رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبئ کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبئ اکرم ﷺ کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبئ اکریمﷺتاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔

دلیل نمبر 3۔

سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، پھر کپڑا لپیٹ لیا ،دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا ، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، جب (رکوع کے بعد) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے  درمیان کیا۔

صحیح مسلم : ۱۷۳/۱، ح: ۴۰۱

واضح رہے کہ سید نا وائل بن حجر ؓ ۹ہجری میں نبئ اکرمﷺ کے پاس آئے۔ (عمدۃ القاری از عینی حنفی: ۲۷۴/۵

ایک وقت کے بعد موسمِ سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ (سنن ابی دا‍‍‍ؤد:۷۲۷، وسندہ حسن

دلیل نمبر 4:

سیدنا علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ ﷺ قراءت مکمل کرکے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے آپ ﷺ نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے"۔

(سنن ابی داؤد : ۷۴۴، مسند الامام احمد ۹۳/۱، وسندہ حسن)

اس حدیث  کو امام ترمذی ؒ نے " حسن صحیح" کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ ؒ(۵۸۴) نے اسے " صحیح" کہا ہے۔

راوئ حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی ؒ کہتے ہیں:

ھذا عند نا مثل حدیث الزّ ھری عن سالم عن أ بیہ "

ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں ۔"(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ۳۴۲۳ ، وسندہ صحیح)

 اس کے راوی عبد االرحمٰن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک "ثقہ"ہیں ، جیسا کہ حافظ ابنِ حجرؒ لکھتے ہیں :

وھو ثقۃ عند الجمھور ، وتکلّم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ۔

 " وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب ِجرح نہیں۔"(نتائج الافکار لا بن حجر: ۳۰۴)

" مدینہ  میں اس کی حدیث "صحیح"اور عراق میں '' مضطرب '' تھی، اس پر جرح اسی صورت پر محمل ہے، یہ روایت مد نی ہے۔  والحمد للہ!

دلیل نمبر 5

 ابو الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

انّ جابر بن عبداللہ کان اذا افتح الصّلاۃ رفع یدیہ،واذا رفع رأ سہ من الرّکوع فعل مثل ذلک ، ویعقول : رأیت رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم فعل مثل ذلک      

"سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کرتے اور رکوع سےسر  اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

(سنن ابن ماجۃ: ۸۶۸، وسندہ صحیح)

ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے"مسند السمراج(۹۲)" میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔

اب غور فرمائیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک تابعی سید نا جابر صحابئ رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابئ رسول ا سے نبئ اکرمﷺ کا عمل مبار ک بتارہے ہیں ، اگر نبئ اکرم ﷺنے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کار بند کیوں رہے؟

دلیل نمبر 6:

سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں :

ھل أریکم صلاۃرسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم؟ فکبّر ورفع یدیہ، ثمّ کبّر ورفع یدیہ للرّ کوع، ثمّ قال: سمع اللہ لمن حمدہ، ثمّ قال: ھکذا فاصنعوا، ولا یرفع بین السّجدتین۔

"کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ ؓ نے اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور  رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو! آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔

(سنن الدار قطنی:۲۹۲/۱، ح: ۱۱۱۱، وسندہ صحیح)

حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں :

ورجالہ ثقات۔

"اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔" (التلخیص الحبیر : ۲۱۹/۱)

 اس حدیث سے " بعض الناس " کا یہ کہنا کہ"۹مقامات پر رفع الیدین کا اثبا ت اور ۱۸ مقامات پر نفی دکھاؤ "باطل ومردود ٹھہر تا ہے، کیونکہ سید نا ابو موسیٰ اشعری ؓ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں ، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز قراردے رہے ہیں ، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں ، صحابہ کرام نے جہاں آپ ﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھا، وہا ں کیا، جہا ں نہیں دیکھا، وہا ں نہیں کیا۔

دلیل نمبر 7:

سیدنا ابوحمید الساعدی ؓ نے دس صحابہ کرام ؓ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کردکھائی، نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دورکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا: صدقت، ھکذا یصلّی النّبیّ صَلَّی اللہ علیہ وسلّم "آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔")

مسند الامام احمد: ۴۲۴/۵، سنن التر مذی: ۳۰۴، وسندہ صحیح)

اس حدیث کو امام تر مذی ؒ نے "حسن صحیح" کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ (۵۸۷) امام ابن الجارود (۱۹۲)، امام ابن حبان(۱۸۶۵)، اور حافظ خطابی (معالم السنن: ۱۹۴/۱)  نے اس حدیث کو "صحیح " قرار دیا ہے۔

حافظ نووی ؒ نے بھی اس کو" صحیح" کہا ہے۔ (خلاصۃ الا حکام: ۳۵۳)

حافظ ابنِ قّیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں :

  حدیث أبی حمید ھذا حدیث صحیح متلقّی بالقبول ، لا علّہ قومبما برّأہ اللہ أئمۃ الحدیث منہ، ونحن نذکر ما علّلو بہ، ثمّ نبیّن فساد تعلیلھم وبطلا نہ بعون اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت وعمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں! اسے ایک قوم(احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہاہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کردیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسدو باطل ہونا بیان کریں گے۔"

(تھذیب السنن لا بن القیم :۴۱۶/۲)

امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابو عبد اللہ النیسابور ی ؒ (۲۵۸ھ) فرماتے ہیں : "جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے  سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے ، اس کی نماز ناقص ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ: ۲۹۸/۱، وسندہ صحیح)

دلیل نمبر 8:

امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابو نعمان محمد بن فضل ؒ کی اقتدار میں نماز پڑھی ، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرما یا، میں نے امام حماد بن زید ؒ کی اقتدار میں نماز پڑھی ، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے  وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرما یا، میں نے امام ایوب سختیانی ؒ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرما یا، میں نے (صحابئ رسولﷺ) سیدنا عبد اللہ زبیر ؓکی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ ؓنماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح ؒ کہتے ہیں ، میں رفع الیدین کے بارے میں سید نا عبد اللہ بن زبیر ؓ سے سوال کیا تو آپؓ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سید نا ابو بکر صدیق ؓ کی اقتداء میں نماز ادا کی ، آپ ؓ نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفۂ اول) سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرما یا ، میں نے رسولِ کریم ﷺ کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ ﷺ نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔"

(السنن الکبرٰی للبیھقی: ۷۳/۲، وسندہ صحیح)

خود امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : رواتہ ثقات۔ "اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔"

حافظ ذہبی ؒ  (المھذب فی اختصار السنن الکبیر : ۴۹/۲)اور حافظ ابنِ حجر ؒ نے اس حدیث کے راویوں کو"ثقہ" قرار دیا ہے۔

قارئین کرام! اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ، اور تابعین عظام نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے ۔ ۔۔۔۔ آمین یاربّ العالمین!

تنبیہ:  الامام الثقۃ ابو جعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی ؒ(م۳۱۸)بیا ن کرتے ہیں : "میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپﷺنماز پڑھے رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔"(سنن دار قطنی: ۲۹۲/۱،ح: ۱۱۱۲، وسندہ صحیح)

جن لوگوں کے مذہب کی بنیاد بزرگوں کے خوابوں پر ہے، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صور ت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟

الحاصل:    

رفع الیدین رسول اللہﷺ کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔

منقول
🍒💐🍒💐🍒💐🍒💐🍒💐🍒

Wednesday, August 3, 2016

"بے پردگی دین کی کھلی بغاوت ہے

"بے پردگی دین کی کھلی بغاوت ہے"

بے پردگی اعلانیہ گناہ ہے ۔ یعنی کھلی بغاوت ہے۔ رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”میری پوری امت معافی کے لائق ہے مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔“

“دیوث جنت میں داخل نہیں ہو گا”

حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔
دیوث
مردوں کی طرح شکل بنانے والی عورتیں
ہمیشہ شراب پینے والا
صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین نے عرض کیا ”دیوث کون ہے ؟“
فرمایا : وہ شخص جس کو اس کی پروا نہیں کہ اس کے گھر کی عورتوں کے پاس کون شخص آتا ہے اور کون جاتا ہے ۔ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر مطولا)

ایک موقع پر حضرت سعد بن عبادہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیر مرد ( نامحرم) کے ساتھ دیکھوں تو اس کو اپنی تلوار سے قتل کردوں گا۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے صحابہ! کیا تمہیں سعد رضی الله تعالیٰ عنہ کی غیرت پر تعجب (حیرت) ہے ۔ سنو! میں سعد رضی الله تعالیٰ عنہ سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ ( مشکوٰة)

"عورتوں کے باہر نکلنے کا ضابطہ"

سب سے بڑی چیز جو ایک مرد کو عورت کی طرف یا عورت کو مرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظر ہے۔
قرآن پاک میں دونوں فریق کو حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں ۔ سورہ نور، رکوع نمبر چار میں اول مردوں کو حکم فرمایا: ” آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے ۔ بے شک الله تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے، جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔“
اس کے بعد عورتوں کو خطاب فرمایا:” اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنے حسن و جمال کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں ( سوائے ان کے جو شرعاَ محروم ہیں) اور مسلمانو! ( تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہو تو ) تم سب الله تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ ( سورہ نور،آیت نمبر31)

الله عزوجل سورہ احزاب آیت 33 میں خواتین اسلام کو حکم فرماتے ہیں
: ﴿وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الاولی﴾ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ اس آیت شریفہ کے ذیل میں لکھتے ہیں : ” اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتیں اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بد اخلاقی اور بےحیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے؟ اسلام نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر اپنے حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔“

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 626 از طبرانی)

تشریح: اس حدیث میں اول تو عورت کا مقام بتایا ہے یعنی یہ کہ وہ چھپا کر رکھنے کی چیز ہے۔ عورت کو بحیثیت عورت گھر کے اندر رہنا لازم ہے، جوعورت پردہ سے باہر پھرنے لگے وہ حدود نسوانیت سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ جب عورت باہر نکلے گی تو شیطان کی یہ کوشش ہو گی کہ لوگ اس کے خدوخال اور حسن وجمال اور لباس و پوشاک پر نظر ڈال ڈال کر لطف اندوز ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ کے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ گھر کے اندر ہوتی ہے جن عورتوں کو الله تعالیٰ کی نزدیکی کی طلب اور رغبت ہے وہ گھر کے اندر ہی رہنے کو پسند کرتی ہیں اور حتی الامکان گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہیں۔

اسلام نے عورتوں کو ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عورتیں اپنے گھر کے اندر ہی رہیں کسی مجبوری سے باہر نکلنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں متعدد پابندیاں لگائی گئی ہیں
مثلاً یہ کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں
اور یہ بھی حکم فرمایا کہ عورت راستے کے درمیان نہ چلے بلکہ راستے کے کنارے پر چلے ،
مردوں کے ہجوم ( رش یا بھیڑ) میں داخل نہ ہو ۔
اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر برقعہ یا لمبی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر لپیٹ کر چلے ( راستہ نظر آنے کے لیے ایک آنکھ کا کھلا رہنا کافی ہے ) یا برقعہ میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں یا برقعہ یا چادر اس طرح اوڑھ لیں کہ ماتھے تک بال وغیرہ ڈھک جائے اور نیچے سے چہرہ ناک تک چھپ جائے۔ صرف دونوں آنکھیں ( راستہ نظر آنے کے لیے ) کھلی رہیں ۔
آج کل جوان لڑکیاں برائے نام چادر اوڑھ لیتی ہیں اور چادر بھی باریک چکن کی ہوتی ہے اور تنگ بھی ، اس سے ہرگز شرعی پردہ نہیں ہوتا اور ان کا اس چادر کے ساتھ باہر نکلنا بے پردہ نکلنے کی طرح ہے، جو سراسر ناجائز اور حرام ہے . قرآن کریم میں جس چادر کا ذکر ہے، اس سے ہرگز ایسی چادر مراد نہیں۔
عورتیں جب گھر سے کسی مجبوری کی وجہ سے نکلیں تو بجنے والا کوئی زیور نہ پہنا ہو ۔
کسی غیر محرم سے اگر ضروری بات کرنی پڑے تو بہت مختصر کریں، ہاں ناں کا جواب دے کر ختم کر ڈالیں ۔
گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقے پر بات نہ کریں ۔ جس طرح چال ڈھال اور رفتار کے انداز دل کھنچتے ہیں اسی طرح گفتار ( باتوں) کے نزاکت والے انداز کی طرف بھی کشش ہوتی ہے ۔ عورت کی آواز میں طبعی اور فطری طور پر نرمی اور لہجہ میں دل کشی ہوتی ہے ۔ پاک نفس عورتوں کی یہ شان ہے کہ غیر مردوں سے بات کرنے میں بتکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں خشونیت اور روکھا پن ہو، بقول مفتی رشید احمد صاحب رح..

Tuesday, August 2, 2016

Ummat e Muslimah shirk ni kar sakti

Ummat e Muslimah shirk ni kar sakti


 ہم اس مسئلے کا فیصلہ احادیث مصطفی ﷺ سے کروا لیتے ہیں ۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے ‘‘ ، (ابن ماجہ :۳۹۵۲ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۱۲۳۷ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۴۹۱) ۔ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ، (ترمذی : ۳۳۱۰) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۲۵۳۶ ) ۔ اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ، (بخاری :۳۲) ۔نبی پاک ﷺ سے کثیر التعداد احادیث مروی ہیں جن سے واضح ہے کہ : ’’ مسلمان بھی شرک کریں گئے ۔ ‘‘

sirk

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر روزی دی پھر مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا بتاؤ تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ بھی کر سکتا ہو۔ اللہ تعالٰی کے لئے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں۔

سود کهانےوالا

سود کهانےوالا

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْن

आप जो ब्याज पर देते हो कि लोगों के माल में बढ़ता रहे वह अल्लाह ke  pasँ नहीं बढ़ता और जो कुछ दान ज़कात तुम अल्लाह का मुंह देखने (और खुशी के लिए) दो तो ऐसे लोग ही हैं अपना दोचन्द करने वाले َ

تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا  اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے  ۔

Surah rum30-aaet 39

نماز تراویح میں قرآن سے دیكھـ كر تلاوت كرنا

 نماز تراویح میں قرآن سے دیكھـ كر تلاوت كرنا
➖➖➖➖➖➖➖➖
فتوى نمبر:579

سوال : رمضان کی نماز تراویح میں دیکھـ کر قرآن پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب : اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، چنانچہ کچھـ لوگوں نے اسے ناپسند کیا ہے جبکہ جمهورعلماء نے جائز قرار دیا ہے، شيخ علامہ محمد بن نصر مروزی کی کتاب (قيام الليل وقيام رمضان) میں حضرت ابن ابی مُليْكَہ سے مروی ہے  کہ  ذكوان ابو عَمرو كو حضرت عائشہ نے مکاتبت پر آزاد کیا، اور وہ رمضان میں آپ اور آپ کے ساتھـ موجود عورتوں کو قرآن دیکھـ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھایا کرتے تھے، اور ابن شھاب
سے رمضان میں قرآن دیکھـ کر پڑھنے والے شخص کی امامت کے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے كہا: ابتدائے اسلام سے یہ عمل جاری ہے، اور امت کے بہترین علماء قرآن دیکھـ کر امامت کیا کرتے تھے۔اور ابراهيم بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ انہیں رمضان میں اپنے اہل خانہ کی امامت کا حکم دیا کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ قرآن سے دیکھـ کر پڑھو، اور فرماتے: مجھے اپنی آواز سناؤ ! اور ایوب محمد الفقیہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ نفل نماز میں کوئی شخص قرآن دیکھـ کر امامت کرے، اور عطاء نے اس شحص کے بارے میں کہا جو رمضان میں قرآن دیکھـ کر امامت کرتا ہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور يحيى بن سعيد انصاری کہتے ہیں: میں اس شخص کے لئے رمضان میں قرآن دیکھـ کر امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا جو قيام اللیل کرنا چاہے، اور ابن وهب رحمه الله کہتے ہیں کہ امام مالك رحمه الله سے ان گاؤں والوں کے متعلق پوچھا گیا جن میں کوئی حافظ قرآن نہ ہو کہ کیا وہ کسی شخص کو مقرر کر سکتے ہیں جو ان کی قرآن دیکھـ کر امامت کرے؟ تو آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور کتاب (المنتهى) میں اس مسئلے کی شرح یوں کی گئی ہے: نمازی کے لئے قرآن دیکھنا اور دیکھکر پڑھنا جائز ہے، اور امام احمد فرماتے ہیں کہ:قیام لیل میں قرآن پاک دیکھـ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان سے پوچھا گیا کہ: کیا فرض نماز میں بھی [ قرآن دیکھکر پڑھنا جائز ہے]؟
تو فرمایا: اس کے متعلق میں نے کوئی روایت نہیں سنی ہے، اور امام زہری سے قرآن دیکھـ کر امامت کرنے والے کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: ہمارے بڑے علماء رمضان میں قرآن دیکھـ کر پڑھتے تھے۔
 ختم شد۔

اور جنہوں نے اس عمل کو ناپسند کیا ہے ان میں مجاہد اور ابراہیم اورسفيان ثوری ہیں، انہوں نے رمضان میں قرآن سے دیکھـ کر نماز پڑھانا مکروہ قرار دیا ہے، جیسے محمد بن نصر
اپنی كتاب (قيام الليل وقيام رمضان) اور دوسری کتاب (الوتر) میں رقمطراز ہیں: بے شک اس کو کچھـ علماء نے مکروہ جانا ہے کیونکہ یہ اہل كتاب کا عمل ہے، لہذ�

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور علم غیب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور علم غیب
=====================
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، جو شخص تم میں یوں کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دیکھا ہے بس اس نے جھوٹ بولا اور فرمایا  جو شخص تم میں یوں کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  غیب جانتے تھے تو وہ جھوٹا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔ (صحیح بخاری، کتاب التوحید)

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی ہی عالم الغیب ہے اور نبی ﷺ غیب کا علم نہیں رکھتے ۔


------------

سنت اور حدیث میں فرق

سنت اور حدیث میں فرق===================
سنت کے لغوی معنی طریقہ یا راستہ کے ہیں (النھایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ص٣٦٨)اور جبکہ حدیث کو لغت میں جدت کے معنی میں لیا جانا اور حدیث کو لغت میں کسی کلام یا کوئی بات بھی کہا جاتا ہے ۔(السنة قبل التدوین ص٢٠)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :اللہ نزل احسن الحدیث (الزمر آیت ٢٣)
اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے ۔
حدیث کے معنی اصطلاح میں ہر اس قول ،فعل ،تقریر اور صفت کو کہتے ہیں جس کی نسبت حضورۖ کی طرف کی جاتی ہو ۔
(اصطلاح الحدیث کی تعریف وتشریح اذ ڈاکٹر محمود الطحان)
محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
ڈاکٹر صبحی صالح فرماتے ہیں اگر ہم محدثین بالعموم اور متاخرین محدثین بالخصوص کی غالب رائے پر عمل کریں تو ہم حدیث وسنت کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائیں گے یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے ہیں اور ان دونوںکا مفہوم کسی قول فعل تقریر یا صفت کو سرورکائنات ۖ کی جانب منسوب کرنا ہے البتہ اگر حدیث وسنت کے الفاظ کو ان اصول تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت نکھر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال میں لغت واصطلاح کے پیش نظر کچھ دقیق سا فرق بھی پایا جاتا ہے (علوم الحدیث ومصطلحہ للصبحی الصالح ۔ص١١٣)
اگر حدیث وسنت کے لفظ کا انفرادی طور پر استعمال کیا جائے تو سنت سے مراد حدیث اور حدیث سے مراد سنت ہوتی ہے ۔
ابن اثیر فرماتے ہیں ']یقال فی ادلة الشرع الکتاب والسنة ،ای القرآن والحدیث ''شرعی دلائل میں کہا جاتا ہے کہ قرآن وسنت تو اس سے
مراد ہوتا ہے قرآن وحدیث ''(النھایہ فی غریب الحدیث ،ص٣٦٨)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سنت سے مراد وہ عمل ہے جو صدر اوّل(پچھلے انبیاء سے چلا آرہا ہو ۔اور اگر غامدی صاحب کے مبادی سنت کا کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو انکی سنت سے مراد بھی کچھ اسی طرح ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ سنت کی اسی تعریف کو مان لیا جائے تو بھی حدیث اور سنت میں زیادہ فرق نہیں آتا۔کیونکہ ہمیں کس طرح معلوم ہوگا کہ کہ یہ عمل صدر اوّل سے چلا آرہا ہے ؟ تو اس کا معقول جواب یہی ہوسکتا ہے کہ اس کی معرفت ہمیں حدیث ہی کے ذریعے ہوگی اور صدر اوّل کے اسی عمل کو تسلیم کیا جائے گا جس پر نبی ۖ نے عمل کیا ہو یاعمل کرنے کا حکم دیا ہو ۔اور یہ بھی ہمیں حدیث سے معلو ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''لکل جعلنا منکم شرعة ومنھا جا''(المائدہ ۔آیت ٤٨)
''ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔

عمرہ کا مسنون طریقہ

عمرہ کا مسنون طریقہ
📼📼✳📼📼✳📼📼
♻{احرام}
▪حج اور عمرہ زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہے،اور اس کے بعد مسنون ہے۔
اس کے وجوب کی چھ شرائط ہیں۔
1⃣اسلام
2⃣عقل
3⃣بلوغت
4⃣آزادی
5⃣استطاعت
6⃣عورت کے لئے محرم کا ہونا۔
▪عمر ہ میں داخل ہو نے کی نیت کو احرام کہتے ہیں ۔
▪عمرہ کرنے والے کو احرام باندھتے وقت ((لبّیک عمرۃً)) یا((اللّٰھم لبّیک عمرۃً )) کا لفظ زبان سے کہنا مستحب ہے ۔
اور اگر خوف لاحق ہو یا عورتوں کے لئے ایّام مخصوصہ شروع ہونے کا اندیشہ ہو تو نیت کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں((فان حبسنی حابس فمحلی حیث حبستنی)) ’’اگر کسی عارضہ نے مجھے روک لیا تو میری نیت وہاں تک ہی ہے ،جہاں اس نے روک لیا‘‘
▪مرد ایک بغیر سلی تہہ بند اور ایک چادر (یعنی جو بنیان ‘موزہ ‘پائجامہ ‘ اور قمیص شلوار وغیرہ کی طرح عضو کے برابر سلی ہوئی نہ ہوں ) میں احرام باندھے گا۔اور بہتر ہے کہ چادر ولنگی دونوں سفید ہوں۔
▪احرام کی نیت کرنے سے پہلے غسل کرنا ‘خوشبو لگانا ‘اور (ناخن تراشنا ‘مونچھیں کاٹنا ‘موے زیر ناف مونڈنا ‘اور بغل کے بالوں کی ) صفائی کرنا مستحب ہے۔
▪احرام کی دو رکعت کے نام سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ہاں اگر فرض نماز کے وقت اتفاقاًاحرام باندھنا پڑ جائے تو پہلے فرض نماز پڑھ لے پھر احرام باندھ لے۔
▪احرام باندھنے کے بعد تلبیہ پکارنا یعنی (( لبّیک اللھم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک۔ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک))’’میں حاضر ہوں ‘ اے اللہ میں حاضر ہوں ‘ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ‘ یقینا سب تعریف تیرے ہی لئے ہے ‘ ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ‘ اور ساری بادشاہت تیری ہی ہے ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘کہنا مسنون ہے ۔مرد بلند آواز سے پکاریں گے اور عورتیں پست آواز سے۔
▪طواف شروع کرتے وقت عمرہ کرنے والا تلبیہ کہنے یعنی’’ لبیک‘‘ پکارنے سے رک جائیگا ۔
▪احرام کا لباس اگر میلا ہو جائے تو اس کو نکالنا اور بدلنا جائز ہے ۔اور احرام کا لباس محرم کو اپنے گھر میں سفر سے پہلے پہننا جائز ہے ۔لیکن احرام کی نیت میقات کے پاس ہی کرے گا ۔
▪عورت کے لئے احرام کا کو ئی مخصوص رنگ کا لباس نہیں ‘ جیسے کالا یا سبز ‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ۔
▪محرمہ عورت کے لئے دستانے پہننا ‘ یا نقاب لگانا ‘ جائز نہیں۔اس لئے کہ یہ دونوں عضو کے برابر سلے گئے ہیں ۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے :’’محرمہ عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے ‘‘ [بخاری]لیکن وہ اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دستانے اور نقاب کے علاوہ دوسرے کپڑے سے چھپائے رکھے گی ۔

♻{طواف}
▪طواف کعبہ کے سات چکر لگانے ہیں ۔ہر چکر حجر اسودکے سامنے سے شروع ہو گا اور اسی پر ختم ہو گا۔
▪عمرہ کرنے والا طواف کے دوران کعبہ کو اپنی بائیں جانب رکھے گ�

اتباع اور تقلید میں فرق

اتباع اور تقلید میں فرق

ابوالاسجدصدیق رضا۔کراچی​

اس مضمون میں اتباع اور تقلید میں جوبنیادی فرق ہے وہ واضح کیا گیا ہے۔

سردست اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ آخری امام محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت اور لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے اماموں کی تقلید میں کیا فرق ہے؟مضمون میں مختلف پہلو سے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔


پہلا فرق:اطاعت رسولﷺ کا حکم الہی


اللہ تعالی فرماتے ہیں
’’واطيعوا الله واطيعوا الرسول واحذروا فان توليتم فاعلموا انما علي رسولنا البلغ المبين‘‘( المائدہ:92)


اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو،

اگر تم (ان کی اطاعت سے) روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ﷺ

کی ذمہ داری تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے۔


دوسرا فرق:اللہ تعالی کی محبت اور مغفرت کی ضمانت


اللہ تعالی فرماتے ہیں
’’قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفرلكم ذنوبكم والله غفوررحيم‘‘(آل عمران:31)


اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور

 تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا،بےشک اللہ تعالی معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔


کس قدر فضیلت ہے،اتباع رسولﷺ کی کہ آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالی کی محبت کا دعوی قابل قبول نہیں ۔

اس دعویٰ کے صدق کےلیے جس دلیل کی ضرورت ہے وہ دلیل رسو ل اللہ ﷺ کی اتباع ہے۔


تیسرا فرق:اطاعت رسولﷺ اللہ تعالی کی اطاعت ہے


اللہ تعالی فرماتے ہیں
’’من يطع الرسول فقد اطاع الله‘‘(النساء:80)


جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ

کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت وفرمانبرداری قرار دیا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں لوگوں کے

مقرر کردہ امام کی تقلید کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری نہیں کہا۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کا بس صرف ایک ہی ذریعہ ہے ،


ایک ہی راستہ ہے،ایک ہی طریقہ ہے کہ رسولﷺ کی اطاعت کی جائے۔


چوتھا فرق:قبولیت عمل کی یقین دہانی


يايها اللذي امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول ولا تبطلوا عمالكم (محمد33)


اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔
جو عمل اللہ اور

 رسولﷺ کی اطاعت کے مطابق نہ ہو وہ عمل باطل ہے،اس کی کوئی فضیلت ہے نہ کوئی ثواب ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’من عمل عملاً ليس عليه امرنا فهو رد‘‘ (صحیح مسلم)


جس کسی نے کوئی ایسا عمل یا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ہے،یعنی نامقبول ہے اسے رد کر دیا جائے گا۔


پانچواں فرق:فیصلۂ رسول اللہﷺ کاحتمی و ابدی ہونا