مسئلہ تراویح اور سعودی علماء
====================
مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں 20 تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں 20 تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ آئیے اس کی حقیقت اور تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف جانتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة''(صحیح بخاری: 2013)
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ ''(صحیح ابن خزیمہ :1070،ابن حبان2401، ابویعلی 3؍336، صحیح بخاری 2012)
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔
امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔'(موطأ: 1؍73،مصنف ابن ابی شیبہ 2؍391)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
• رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
• یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
• پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔
سعودی علماء اور مسئلہ تراویح
--------------------------
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
(1) شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''
(2) سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''( فتاوٰی اللجنة الدائمة : 7؍194)
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''
اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
شیخ عبداللہ بن قعود،
شیخ عبداللہ بن غدیان
شیخ عبدالرزاق عفیفی
شیخ ابن باز
(3)شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''( مجالس شہر رمضان: ص19)
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''
سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر۔
سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔
نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!
سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علماءبھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
منقول از محدث میگزین بترمیم
✳✳✳✳✳✳✳✳
گياره ركعت تراويح علمائے احناف كى عدالت ميں
✳✳✳✳✳✳✳✳
1⃣دليل مقلداورحنفى مذهب كے بانى ومؤسس امام ابوحنيفہ رحمہ الله كے نزديک بهى نمازتراويح(قيام الليل) آٹه ركعت ہی هے جيساكہ امام ابويوسف ابوحنيفہ سے نقل كرتے ہوئے رقمطرازہيں:
"عن أبي حنيفة عن أبي جعفرمحمد بن علي عن النبيّ صلى الله عليه وسلم أنّه كان يصلي بعدالعشاء الآخرة إلى الفجرفيمابين ذلك ثماني ركعات ويوتربثلاث ، ويصلي ركعتي الفجر"
[الحاوي للفتاوى ازامام سيوطى ،بحواله سنن سعيد بن منصور 1/416].
امام ابوحنيفہ اپنے استاذابوجعفركى سند سے رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كاطريقہ نقل كرتے ہيں كہ آپ صلى الله عليه وسلم عشاء كے بعد آخرى حصہ ميں فجرتک گياره ركعت مع الوترہى پڑهاكرتے تهے اوردوركعت صبح كى سنتيں آذان كے بعد ادافرماتے تهے.
2⃣دليل نمبرــ امام ابوحنيفہ رحمہ الله كے تيسرے بڑے شاگرد محمد بن الحسن الشيبانى جن پرفقہ كى اكثرعمارت كهڑى ہے اپنى كتاب "مؤطاامام محمد" ميں"باب التراويح" حديث عائشہ صديقہ رضى الله عنها سے صحيح بخارى ومسلم والى گياره ركعت مع الوتركى روايت نقل كرنے كے بعدرقمرطراز ہيں:
"وبهذانأخذ كله" كہ ہمارا بهى اس گياره ركعت مع الوتروالى حديث پرہى عمل ہے"
[حواله:مؤطاامام محمد ص نمبر93]
3⃣دليل نمبرــ ملاعلى قارى حنفى ماتريدى فرماتے ہيں:
"إن التراويح في الأصل إحدى عشرركعة بالوترفي جماعة فعله رسول الله صلى الله عليه وسلّم" [مرقاة شرح مشكوة ج3/ص نمبر382].
كہ مسئلہ تراويح ميں حقيقت يہى ہے كہ گياره ركعت مع الوترہى مسنون ہےجنكا اہتمام رسول الله صلى الله عليہ وسلّم نے كيا تها.
4⃣دليل نمبرــ امام ابن همام خنفى فرماتے ہيں:
"فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدى عشرركعة بالوترفي جماعة فعله صلى الله عليه وسلّم" [فتح القديرشرح الهدايه( حنفى قرآن) ج1/ ص نمبر468].
كہ مسنون تعداد تراويح گياره ركعت مع الوترہى ہے جس كا اہتمام رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا.
5⃣دليل نمبرــ امام ابن نجيم حنفى نعمانى فرماتے ہيں:
"وقدثبت أن ذلك كان إحدى عشرة ركعة بالوتركما ثبت في الصحيحين من حديث عائشة رضي الله عنها فإذن يكون المسنون على اصول مشا ئخنا ثمانية منها والمستحب إثناعشر" [البحرالرائق شرح كنز الدقائق ج2/ ص نمبر66،67].
"اس مسئلہ ميں صحيحين كی حديث كے مطابق گياره (11) ركعت مع الوترہى ثابت ہيں پس ہمارے مشائخ كے عقيدے كے مطابق آٹہ ركعت مسنون اورباقى بيس ميں سے باره(12) مستحب ہے.
6⃣دليل نمبرــ صاحب شرح الوقايہ رقمطراز ہيں:
"نتيجہ يہ ہے كہ آٹه ركعت تراويح سنت ہيں اوربيس مستحب"
[شرح وقايه جلد1/ص نمبر132، مطبوعه زراقى لكهنو].
7⃣دليل نمبر ــ ابوالاخلاص الحسن بن عمارشرنبلانى حنفى (المتوفى 1069هـ) فرماتے ہيں:
"لمّا ثبت أنّه صلى بالجماعة إحدى عشرة ركعة بالوتر"
[ مراقى الفلاح شرح نورالايضاح (404)].
جب يہى بات ثابت ہے كہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے باجماعت گياره ركعت مع الوترپڑهائيں پهراس سنيت سے انحراف يقيناسنت نبوى سے دائمى عداوت كى دليل ہے.
8⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ موصوف لكهتے ہيں:
"نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے گياره ركعتيں مع وتر باجماعت پڑهائى ہيں اوربيس ركعتوں والى روايت ضعيف ہے" [ديكهئے:فتاوى شرنبلالى].
9⃣دليل نمبرــ جناب خليل احمدسهارنپورى ديوبندى حنفى (1269ــ1346) فرماتے ہيں:
"سنت مؤكده ہونا تراويح آٹه ركعت تو بالاتفاق ہے اگرخلاف ہے توباره ميں". [براهين القارى 1/402].
🔟دليل نمبر ــ مزيدسهارنپورى صاحب تحرير فرماتے ہيں:
"فتحصل من هذا كلّه أنّ قيام رمضان سنة إحدى عشرة ركعة بالوترفعله صلى الله عليه وسلّم" [حاشية على صحيح البخاري ج1/ص نمبر154].
كہ اس مسئلہ كا خلاصہ ونتيجہ يہ ہے كہ رمضان كا قيام (نمازتراويح) رسول اكرم صلى اللہ عليہ وسلّم سے سنت گياره ركعت مع الوترہى ثابت ہے.
1⃣1⃣دليل نمبرــ مشہورحنفى عالم امام طحاوى اورمولوى ابوالسعودحنفى اورمولوى احمد حموى نے بهى آٹه ركعت تراويح كوسنت قرارديا ہے:
"رسول اكرم صلى الله عليه وسلّم نے بيس(20) ركعت تراويح نہيں بلكہ آٹه ركعت تراويح ہى پڑهيں" ▪حوالے....
[1] :شرح ردّ المختارص نمبر296 ، مطبوعه مصر.
[2] شرح كنزص نمبر565مطبوه مصر.
[3] شرح الاشباه والنظائر].
2⃣1⃣دليل نمبرــ ملا عينى حنفى فرماتے ہيں:
"فإن قلت لم يبين في الروايات المذكورة عدد الصلاة الّتي صلها رسول الله صلى الله عليه وسلّم في تلك الليالي ، قلت رواه ابن خزيمة وابن حبّان من حديث جابررضي الله عنه قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلّم في رمضان ثمان ركعات ثمّ أوتر"
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج3/ص نمبر597
اس حديث جابركوامام زيلعى حنفى صوفى نے اپنى شہره آفاق كتاب "نصب الرأية في تخريج احاديث الهداية ج1/ ص نمبر293 پرنقل كيا ہے].
"اگرتويہ اعتراض كرے كہ آپ صلى الله عليه وسلم نے رمضان كى تين راتوں ميں باجماعت جونمازپڑهائى اس كى تعداد واضح نہيں توميں جواب ميں ابن خزيمہ اورابن حبان ميں حضرت جابروالى روايت بيان كروں گاكہ آپ نے هم كو رمضان ميں آٹه ركعت تراويح اور پهر وتر پڑهائے".
♻مولانا انورشاه كشميرى كے بعض اقوال:
3⃣1⃣دليل نمبرــ مشہورحنفى عالم مولانا انورشاه كشميرفرماتے ہيں:
"لامناص من تسليم أن تراويحه عليه الصلاة والسلام كانت ثمانية ركعات" [العرف الشذّي حاشية على الجامع الترمذي ج1/177].
كہ اس بات كوتسليم كئے بغيرجان خلاصى ناممكن ہے كہ آپ عليہ السلام كى نماز تراويح آٹه ركعت ہى بدون وترتهى.
🎯( يعنى اهل حديث كا جومسلک ہے كہ آٹہ ركعت ہى نبى عليہ السلام كى سنت ہے وہى صحيح ہے).
4⃣1⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ موصوف فرماتے ہيں:
"كہ نبى صلى الله عليہ وسلم سے صحيح سند كے آٹه تراويح ہى ثابت ہيں اوربيس ركعتوں والى حديث ضعيف ہے اوراسكے ضعف پرتمام محدثين كا اتفاق ہےـ
[ديكهئے:العرف الشذي ص:309].
5⃣1⃣دليل نمبرـ اسى طرح موصوف اپنى كتاب"فيض البارى" ميں اس طرح رقمطرازہيں:
"نبى صلى الله عليہ وسلم سے كسى مرفوع حديث ميں تيره ركعتوں سے زياده نمازتراويح ثابت ہى نہيں ہے"ـ [فيض البارى 1/420].
6⃣1⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ رقمطرازہيں:
"كہ نبى صلى الله عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ماه رمضان ميں آٹه ركعت تراويح اورتين وتركى جماعت كروائى تهى جيساكہ ابن خزيمہ و ابن حبان نے اپنى اپنى صحيح ميں اورمحمد بن نصرمروزى نے قيام الليل ميں حضرت جابر كى حديث بيان كى ہے ـ
[كشف السترص:27].
7⃣1⃣دليل نمبرــ تبليغى جماعت كے بانى مولانازكريا تبليغى ديوبندى صوفى صاحب فرماتے ہيں:
"لاشك في أنّ تحديد التراويح في عشرين ركعة لم يثبت مرفوعا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح على أصول المحدثين وماورد فيه من رواية ابن عباس رضي الله عنهمامتكلّم فيها على أصولهم" [اوجزالمسالك شرح مؤطاامام مالك ج2/ص نمبر304].
كہ يقينا محدثين كے اصولوں كے مطابق بيس(20) ركعت نمازتراويح نبى كريم صلى الله عليہ وسلم سے مرفوعا ثابت نہيں بلكہ ابن عباس والى روايت محدثين كے اصولوں كے مطابق مجروح ہے ثابت نہيں.
8⃣1⃣دليل نمبرــ مولوى احمديار نعيمى بريلوى اپنى معروف كتاب "جاء الحق" ميں مدارج النبوة كے حوالے سے مولوى عبد الحق حنفى ديوبندى دہلوى كاقول نقل كرتے ہيں كہ مولوى عبد الحق حنفى آٹه ركعت تراويح كى سنت كااعتراف كرتے ہوئے لكهتے ہيں:
"تحقيق آنست كہ صلاة آنحضرت دررمضان هماں نمازمعتادبوديازده ركعت كہ دائم درتہجدمے گزارد" [مدارج النبوة ج1/ ص نمبر400].
تحقيق يہ كہ آنحضرت صلى الله عليہ وسلم كى رمضان ميں وہى گياره ركعت ہى تهى كہ جو عام حالات ميں ہميشہ تہجد كى نماز پڑها كرتے تهے.
9⃣1⃣دليل نمبرــ مزيدعبد الحق دہلوى فرماتے ہيں:
"والصحيح ماوردته عائشة رضي الله عنهاأنّه صلى الله عليه وسلّم كان يصلي إحدى عشرة ركعة كما هوعادته في قيام الليل"
[ماثبت بالسنة ازدهلوى ص217].
0⃣2⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ عبدالحق صاحب فرماتے ہيں:
"تحقيق اورصحيح يہى ہے كہ نبى صلى الله عليہ وسلم ماه رمضان ميں گياره ركعت(تراويح) ہى پڑهاكرتے تهے جو كہ آپ صلى الله عليہ وسلم تہجد ميں ہميشہ پڑهاكرتے تهے جيساكہ معروف ہے"
[حواله:مدارج النبوة1/465].
1⃣2⃣دليل نمبرــ نفحات رشيد ميں لكها ہے:
"نبى صلى الله عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے وترسميت گياره ركعت تراويح سے زياده نہيں پڑهيں ، نہ رمضان ميں نہ غيررمضان ميں"
[بحواله:مسلک الختام1/289].
صحيح مسئلہ يہى ہے كہ گياره ركعت ہى تراويح ہے جيساكہ آپ صلى اللہ كى قيام الليل ميں عادت تهى.
👆مولوى عبد الحق حنفى دہلوى كے كلام سے يہ بهى ثابت ہوا كہ نماز تہجد ، قيام الليل اورتراويح ايک ہى نمازہے.
2⃣2⃣دليل نمبرــ بانى مذهب ديوبند مولوى قاسم نانوتوى ديوبندى فرماتے ہيں:
"ويازده از فعل سرورعالم صلى الله عليه وسلم اكدازيست"
[لطائف قاسميه،مكتوب سوئم ص 18].
كہ رسول الله صلى الله عليه سے جوگياره ركعت ثابت ہيں وه بيس (20) سے زياده معتبرہيں.
👆آل ديوبند كواپنے بانى كى لاج ركهتے ہوئے بيس ركعت(20) سنت اورآٹه ركعت كو بدعت كى اشتہار بازى سے رک جانا چاہئے.
3⃣2⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ فتح سرالمنان في تأئيد مذهب النعمان ميں لكهتے ہيں:
"جيسا كہ آج كل بيس(20) ركعت تراويح كو سنت بتاياجارهاہے ، يہ رسول صلى الله عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہے ، آپ صلى الله عليہ وسلم كے زمانہ مبارک ميں آپ كے حكم كے بموجب حضرت عائشہ رضى الله عنها كى حديث پرعمل رہا جيساكہ بخارى شريف ميں موجود ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے رمضان ميں گياره ركعات مع الوتر سے زياده نماز تراويح نہيں پڑهى اورحضرت عائشہ رضى الله عنها رسول الله صلى الله عليہ وسلم كے حال سے خوب واقف تهيں ـ
[ فتح سرّ المنان في تأئيد مذهب النعمان ص:327 والحق الصريح للقاسمى ـ].
4⃣2⃣دليل نمبرــ علامہ حموى حاشية الاشباه ميں لكهتے ہيں:
"بلاشبہ نبى صلى الله عليه وسلم نے بيس ركعتيں نہيں بلكہ آٹه ركعات تراويح پڑهى ہيں"
[حاشية الاشباه ص:9].
5⃣2⃣دليل نمبرــ ابو السعود كنزالدقائق ميں مرقوم ہے:
"نبى صلى الله عليہ وسلم نے تراويح بيس ركعت نہيں بلكہ آٹه ركعتيں پڑهى ہيں"
[شرح كنزالدقائق ص:265].
6⃣2⃣دلیل نمبرــ مولانا محمد احسن نانوتوى رقمطراز ہيں:
"نبى صلى الله عليہ وسلم نے تراويح كى بيس(20) ركعتيں نہيں بلكہ صرف آٹه رکعت پڑهی ہیں.
7⃣2⃣دليل نمبرــ مولوى رشيداحمدگنگوہى فرماتے ہيں:
"براہل علم پوشيده نيست كہ قيام رمضان و قيام الليل في الواقع يک نماز است كہ دررمضان برائے تيسيرمسلمين دراول شب مقرركرده شدوهنوزعزيمت دراداشيں آخرشب است ودرقيام الليل فخرعليہ الصلاة والسلام چنانچہ ايازده ركعت وكم ازاں ثابت شده اندسيزده ركعت سوائے سنت فجريم صحيحين موداند"
[الحق الصريح في اثبات التراويح (فارسى) ص:1].
كسى بهى اہل علم سے يہ بات مخفى نہيں كہ قيام رمضان(تراويح) اورقيام الليل درحقيت ايک ہى چيز ہيں رمضان ميں صرف مسلمانوں كى سہولت كے لئے قيام شروع رات ميں مقرركياگيا اورعام حالات ميں برائے عزيمت آخرى رات ميں مقرر ہوگيا رسول كريم صلى الله عليہ وسلم سے گياره ركعت ہى قيام الليل ثابت ہے بلكہ كم بهى ثابت ہے ــ تيره ركعت صبح كى دو سنتوں کے علاوه بخارى ومسلم ميں موجود ہيں.
8⃣2⃣دليل نمبرــ بانى جماعت
اسلامى و مؤسس مولانا ابوالاعلى مودودى حنفى فرماتےہيں:
"تمام روايات جمع كرنے سے جو چيزحقيقت كے قريب ترمعلوم ہوتى ہے وه يہ ہے كہ حضورصلى الله عليہ وسلم نے خودجماعت كے ساته رمضان ميں جونمازپڑهائى وه اول وقت ميں تهى نہ كہ آخروقت ميں اوروه آٹه ركعات تهيں نہ كہ بيس(20) ركعات، اگرچہ ايک روايت (20) بيس ركعات كى بهی ہے مگروه آٹه والى كى نسبت ضعيف ہے"
[رسائل ومسائل (2/167].
9⃣2⃣دليل نمبر ــ مولانا كفايت الله ديوبندى حنفى رقمطراز ہيں:
"اكثرروايتوں سے حضورصلى الله عليہ وسلم كاآٹه ركعتيں(تراويح) پڑہناثابت ہے.
[وكفايت المفتى 3/363].
0⃣3⃣دليل نمبر ــ قاضى شمس الدين ديوبندى حنفى فرماتے ہيں:
"ميرايہ موقف ہے كہ مجهے نہ آٹه ركعت كى سنت سے انكارہے اورنہ عملا اسكے ترک كومستحسن سمهتا ہوں اور نہ ہی حتى المقدوراسكو ترک كرتا ہوں اورنہ كسى كو تلقين كرتاہوں كہ وه ترک كردے اورنہ ہى ميرى جماعت حنفيہ آٹه كى سنت كے منكروتارک ہيں بلكہ ہم كهتے ہيں كہ آٹه ركعت سنت ہے ، سنت هے" [القول الفصيح ص:5].
1⃣3⃣دليل نمبرــ علامہ شامى فرماتے ہيں:
"دليل كے لحاظ سے صرف آٹه تراويح ہى سنت ہے اورباقى ركعتيں مستحب ہیں"
[ديكهئے:ردالمختارالمعروف فتاوى شامى،ج1ص :495].
2⃣3⃣دلیل نمبر ــ مولانا احمد على سهارنپورى فرماتے هيں:
"قيام رمضان(تراويح)گياره ركعت مع وترسنت ہے، جسے نبى صلى اللہ علي وسلم نے باجماعت اداكيا ہے" [حاشيه بخارى شريف ازسهارنپورى1/154].
3⃣3⃣دليل نمبرــ اسى طرح موصوف نے ايک اورجگہ لكهاہے:
"صحيح حديث كى روسے وترسميت نماز تراويح كى صرف گياره ركعتيں ہى ثابت ہيں"
[بحواله:عين الهداية شرح ص، 562، والمفاتيح الأسرارالتراويح، ص:9 ].
4⃣3⃣دليل نمبر ــ علامہ شاه ولى الله محدث دہلوى فرماتے هيں:
"رسول الله صلى الله عليه وسلم كے عمل سے(تراويح كى) گياره ركعتيں ايک ثابت شده حقيقت ہے" [بحوالہ: مصطفى شرح مؤطافارسى مع مسوى1/177].
♻ان تمام ادلہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تراویح کی صحیح تعداد وتر کے ساته گیارہ رکعت ہی ہے ، اور یہ علمائے احناف کے یہاں بهی مسلم ہے....
No comments:
Post a Comment