Friday, June 3, 2016

ماں

ماں!!!
_______________

بقلم: عبدالغفار زاہد بنارسی

مری ماں اپنے آنچل میں مرا ہر غم چھپاتی ہے
مرے عیبوں پہ پردہ ڈال کر مجھ کو بچاتی ہے

کبھی دل میں اداسی کا سمندر جب امنڈتا ہے
مری ماں دیکھ کر چہرہ مرے سب غم بتاتی ہے

جنہیں پالا تھا ماں نے ایک دن جب وہ ستاتے ہیں
وہ کچھ کہتی نہیں تنہائی میں آنسو بہاتی ہے

دُکھا کر ماں کا دل میں کون سی جنت میں جاؤں گا؟
یہ ماں ہے جو اگر خوش ہو مجھے جنت دلاتی ہے

لگا کر جان کو داؤں پہ مجھ کو جنم دیتی ہے
پھر اپنا خون مجھ کو دودھ کی صورت پلاتی ہے

وہ بھوکی رہ کے سوتی ہے مگر مجھ کو کھلاتی ہے
مجھے تکلیف ہو جائے تو آنسو وہ بہاتی ہے

مگر وہ ماں بڑھاپے کی حدوں کو جب پہنچتی ہے
تو اس بوڑھے سراپے سے مجھے اک گھن سی آتی ہے

تب اس کی بات بھی مجھ کو زہر معلوم ہوتی ہے
ہر اک لمحہ وہ بوڑھی ماں مجھے غصہ دلاتی ہے

میں جب غصے میں کچھ کہتا ہوں وہ چپ چاپ سنتی ہے
اور اک دن چھوڑ کر سب کچھ وہ رب کے پاس جاتی ہے

اور اب تنہائی میں جب بیٹھ کر کچھ سوچتا ہوں میں
تو ہر لمحہ مجھے اس ماں کی صورت یاد آتی ہے

میں جب بھی روٹھتا تھا ماں مجھے کیسے مناتی تھی
یہی سب سوچ کر وہ ماں ہر اک پل یاد آتی ہے

مرے درد والم میں اک سہارا تھی مری ماں تو
میں جب بھی درد سہتا ہوں تو تیری یاد آتی ہے

دُکھا کر ماں کا نازک دل کوئی خوش ہو نہیں سکتا
اگر ماں بددعا کر دے فلک کے پار جاتی ہے

جو ماں کے دامنِ شفقت سے ہو محروم اے زاہد
وہ محرومِ زمانہ ہے یتیمی یہ بتاتی ہے

No comments:

Post a Comment