Thursday, June 30, 2016

عورت اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دے سكتى ہے

عورت اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دے سكتى ہے
====================
ميرى بيوى كے پاس زيور ہے جس پر زكاۃ واجب ہے، ميرى بيوى ملازمت نہيں كرتى اور نہ ہى اس كا كوئى اور ذريعہ آمدن ہے، اس كى طرف سے مجھ پر ادائيگى واجب ہے، ليكن ميں مقروض ہوں، تو كيا بيوى مجھے اپنے مال كى زكاۃ دے سكتى ہے تا كہ ميں اپنا قرض ادا كرسكوں ؟
Published Date: 2014-08-31
الحمد للہ:

اول:

بيوى كے مال كى زكاۃ كى ادائيگى خاوند كے ذمہ واجب نہيں، كيونكہ زكاۃ مالك پر واجب ہوتى ہے، اور زكاۃ اس نفقہ ميں شامل نہيں ہوتى جو بيوى كا اپنے خاوند كے ذمہ واجب ہے۔

دوم:

اور رہا مسئلہ بيوى كا اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دينا تو اس ميں اكثر اہل علم جواز كے قائل ہيں، اور انہوں نے مندرجہ ذيل بخارى اور مسلم كى حديث سے استدلال كيا ہے:

ابو سعيد خدری رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو صدقہ كرنے كا حكم ديا تو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا آئىں اور كہنے لگى:

اے اللہ تعالى نبى !آپ نے آج صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديا ہے، اور ميرے پاس ميرا زيور ہے ميں اسے صدقہ كرنا چاہتى ہوں، تو ابن مسعود [رضى اللہ عنہ] كا خيال ہے كہ وہ اور اس كى اولاد اس صدقہ كى زيادہ مستحق ہیں ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ابن مسعود رضى اللہ عنہ نے سچ كہا ہے، تيرا خاوند اور تيرى اولاد كسى دوسرے پر صدقہ كرنے سے زيادہ حقدار ہیں"

صحيح بخارى ( 1462 ) صحيح مسلم ( 1000 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس حديث سے استدلال كيا گيا ہے كہ بيوى اپنى زكاۃ خاوند كو دے سکتی ہے، یہ موقف امام شافعى، ثورى، امام ابو حنيفہ كے صاحبين، كا قول ہے اور امام مالك اور امام احمد كى ايك روايت يہى ہے۔

اور اس كى تائيد اس قاعدہ سے بھی ہوتى ہے كہ ضرورت کے وقت تفصيل بیان نہ کرنا عموم كے قائم مقام ہوتا ہے، لہذا جب صدقہ كا ذكر كيا گيا اور اس كى تفصيل بيان نہيں ہوئى كہ وہ فرضى ہے يا نفلى تو گويا يہ كہا كہ: "فرضى ہو يا نفلى آپ سے ادا ہو جائے گا"

اور بعض علماء كرام نے اس سے منع كيا ہے كہ بيوى اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دے، ان كا كہنا ہے كہ: كيونكہ خاوند اس زكاۃ کو اپنی اسی بیوی پر خرچ كرے گا، تو گويا كہ اس نے زكاۃ اپنے آپ كو ہى دى، اور انہوں نے مندرجہ بالا حديث كو نفلى صدقہ پر محمول كيا ہے۔

چنانچہ ابن منير رحمہ اللہ نے اس كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے:

"صدقہ دوبارہ بیوی کی طرف لوٹ آئے اسکا احتمال تو نفلى صدقہ ميں بھى پايا جاتا ہے" تصرف کے ساتھ

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الشرح الممتع " (6/168-169)ميں كہتے ہيں:

صحيح يہى ہے كہ اگر خاوند زكاۃ كے مستحقين ميں سے ہے تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے، اور اس كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ كے اس قول سے استدلال كيا جاسكتا ہے جو انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ عنہا كو فرمايا تھا: " تيرا خاوند اور تيرى اولاد قابل صدقہ افراد میں تمہارئے صدقہ کے زيادہ حقدار ہيں "

تو ہمارے ليے يہ كہنا ممكن ہے: اس میں فرض اور نفل دونوں شامل ہیں، بہر حال اگر حديث ميں دليل ہے تو يہ بہتر اورخير ہے، اور اگر يہ كہا جائے كہ يہ تو نفلى صدقہ كے ساتھ خاصل ہے، تو ہم خاوند كو زكاۃ دينے كے بارہ ميں يہ كہيں گے: خاوند فقير اور محتاج ہے اور اس ميں وہ وصف پايا جاتا ہے جس كى بنا پر زكاۃ كا مستحق ہوا جاتا ہے، تو منع اور نہ دينے كى دليل كہاں ہے؟ كيونكہ جب سبب پايا جائے تو حكم ثابت ہو جاتا ہے، ليكن اگراگر كوئى دليل اس كے خلاف ملے تو پهر ثابت نہيں ہوگا، چنانچہ يہاں اس كے خلاف قرآن اور سنت سے كوئى دليل نہیں ملتى ہے كہ بيوى اپنے خاوند كو زكاۃ ادا نہيں كر سكتى۔ انتہی مختصرا

دائمی فتوى كميٹى (10/62)سے پوچھا گيا:

اگر خاوند فقير اور محتاج ہو تو كيا بيوى اپنے مال كى زكاۃ اسے دے سکتی ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

اگر خاوند فقير ہو تو اس كے فقر كو دور كرنے كے ليے بيوى ، خاوند کو اپنے مال كى زكاۃ دے سكتى ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كا عموم ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ) یعنی زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين ۔۔۔کیلئے ہے۔ التوبۃ / 60

سوم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے وہ بيوى كا اپنے خاوند كو مال كى زكاۃ دينے كے متعلق تھا، اور رہا مسئلہ خاوند كا اپنے مال كى زكاۃ بيوى كو دينا تو اس كے متعلق ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

"علماء كا اس پر اجماع ہے كہ مرد اپنى بيوى كو زكاۃ نہيں دے گا، كيونكہ بيوى كا نفقہ خاوند كے ذمہ واجب ہے، تو بیوی کو خاوندکی زکاۃ کی کوئی ضرورت نہیں" .

اسلام سوال وجواب

jakat

📔ZAKAT INFORMATION LIST.📔
🔹Rupees. 👉Rs.          Ps.
🔹100.        👉 2.           50
🔹200         👉5.            00
🔹300         👉7.            50
🔹400.        👉 10.         00
🔹500.        👉12.          50
🔹600.        👉15.          00
🔹700.        👉17.          50
🔹800.        👉20.          00
🔹900.        👉22.          50
🔹1000.      👉25.          00
🔹1500.      👉37.          50
🔹2000.      👉50.          00
🔹2500.      👉62.          50
🔹3000.      👉75.          00
🔹3500.      👉87.          50
🔹4000.      👉100.        00
🔹4500.      👉112.        50
🔹5000.      👉125.        00
🔹5500.      👉137.        50
🔹6000.      👉150.        00
🔹6500.      👉162.        50
🔹7000.      👉175.        00
🔹7500.       👉187.       50
🔹8000.       👉200.       00
🔹8500.       👉212.       50
🔹9000.       👉225.       00
🔹9500.       👉237.       50
🔹10000.     👉250.      00
🔹15000.     👉375.      00
🔹20000.     👉500.      00
🔹25000.     👉625.      00
🔹30000.     👉750.      00
🔹35000.     👉875.      00
🔹40000.     👉1000.    00
🔹45000.     👉1125.    00
🔹50000.     👉1250.    00
🔹55000.     👉1375.    00
🔹60000.     👉1500.    00
🔹65000.     👉1625.    00
🔹70000.     👉1750.    00
🔹80000.     👉2000.    00
🔹90000.     👉2250.    00
🔹1 lakh.      👉2500.    00
🔹2 lakh.      👉5000.    00
🔹3 lakh.      👉7500.    00
🔹4 lakh.      👉10000.  00
🔹5 lakh.      👉12500.  00
🔹6 lakh.      👉15000.  00
🔹7 lakh.      👉17500.  00
🔹8 lakh.      👉20000.  00
🔹9 lakh.      👉22500.  00
🔹10 lakh.    👉25000. 00
🔹20 lakh.    👉50000. 00
🔹30 lakh.    👉75000. 00
🔹40 lakh.    👉1 lakh.
🔹50 lakh.    👉1 lakh 25000
🔹1 caror.     👉2 lakh 50000
🔹2 caror.     👉5 lakh.
Frwded as received ......ye ramzan mein kaam aiga save rakho.
Apna zakat aur fitra muslimon ki bhalai ke liye istmal kare.

Monday, June 20, 2016

قنوت

اللَّهمَّ اهدِني فيمن هديتَ وعافِني فيمن عافيتَ وتولَّني فيمن تولَّيتَ وبارِك لي فيما أعطيتَ وقني شرَّ ما قضيتَ فإنَّكَ تقضي ولا يُقضى عليكَ وإنَّهُ لا يذلُّ من واليتَ تباركتَ ربَّنا وتعاليت

َ(صحيح الترمذي:464)

Tuesday, June 14, 2016

احد کے شہداء کو نماز جنازہ نہیں پڑھی

احد کے شہداء کو نماز جنازہ نہیں پڑھی

صحیح بخاری 4079

حدثنا قتيبة بن سعيد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الليث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول ‏"‏ أيهم أكثر أخذا للقرآن ‏"‏‏.‏ فإذا أشير له إلى أحد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قدمه في اللحد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال ‏"‏ أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة ‏"‏‏.‏ وأمر بدفنهم بدمائهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يصل عليهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يغسلوا‏.

ترجمہ

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک نے اور انہیں حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب سے زیادہ کون ہے ؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا جاتا تو لحد میں آپ انہی کو آگے فرماتے ۔ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ رہوں گا ۔ پھر آپ نے تمام شہداء کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا -------------------------------------------------




بادمےشہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی

؟؟،،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

صحیح بخاری 4085

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

حدثني عمرو بن خالد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الليث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن يزيد بن أبي حبيب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي الخير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عقبة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على أهل أحد صلاته على الميت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم انصرف إلى المنبر فقال ‏"‏ إني فرط لكم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأنا شهيد عليكم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإني لأنظر إلى حوضي الآن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ـ أو مفاتيح الأرض ـ وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها ‏"‏‏.

ترجمہ

مجھ سے عمرو بنخالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیثبن سعد نے بیان کیا ، ان سے یزیدبنابیحبیب نے ، ان سے ابو الخیر نے اور ان سے حضرت عقبہ بنعامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی ، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے ۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا ، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا ، میں اب بھی اپنے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا ( آپ نے یوں فرمایا ) مفاتیح الارض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں ۔ ( دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے ) خدا کی قسم ! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتاکہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کاڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے ۔

جو چیزیں جنت میں حلال ہیں وہ دنیا میں کیوں حرام کی گئی ہیں

جو چیزیں جنت میں حلال ہیں وہ دنیا میں کیوں حرام کی گئی ہیں

---------------------
❓❓❓❓❓
میں مسلمان ہوں اور سویڈن میں رہائش رکھتی ہوں میرے پاس ایک عیسائی کا سوال ہے اس کے متعلق میں نے بہت پوچھا اور کتابوں میں اس کا جواب بھی تلاش کیا ہے لیکن مجھے اس کا کوئی حل نہیں ملا وہ سوال حوروں کے متعلق تھا۔
میں نے سنا ہے کہ مرد کو جنت میں ایک سے زیادہ عورتیں ملیں گیں مجھے یہ علم نہیں آیا یہ معلومات صحیح ہیں یا کہ نہیں لیکن اگر آپ مجھے اس موضوع کے متعلق کچھ معلومات دے سکیں تو میں آپ کی شکر گزار ہوں گی ۔
اور اہم سوال یہ ہے کہ:
اسلام ایسی چیزوں کی جنت میں بشارت کیوں دیتا ہے اور اس چیز پر کیوں ابھارتا ہے جو کہ دنیا میں حرام ہیں ؟ مثلا عورت اور مرد کے شادی کے بغیر تعلقات جو کہ حرام ہیں تو اگر مسلمان ان سے بچے تو اسے جنت میں اس کے بدلے میں حوریں ملیں گیں تو کیا یہ عجیب چیز نہیں ؟
افسوس سے کہتی ہوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ معلومات تو ہیں لیکن پتہ نہیں یہ سوال کہاں سے آٹپکا لیکن مجھے اس کا یقین ہے کہ اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہو گا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس موضوع میں میرا تعاون فرمائیں گے ۔ آپ کا شکریہ
الحمد للہ :

اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی صفات اور جنتی لوگوں کی صفات کا کئ جگہ پر قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

فرمان باری تعالی ہے :

(اس میں بہتا ہوا چشمہ ہو گا اور اس میں اونچے اونچے تخت ہوں گے اور آبخورے رکھے ہوئےہوں گے اور ایک قطار میں لگے ہوئےتکیۓ ہوں گے اور مخملی مسندیں پھیلی ہوں گی ) الغاشیہ /12- 16

اور فرمان باری تعالی ہے :

( اور اس شخص کے لۓ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ (دونوں جنتیں ) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ تو ان دونون جنتوں میں دو بہتے چشمے ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میووں کی دو قسمیں ہوں گی ) الرحمن / 46 – 52

جنت کی صفات میں بہت سی آیات ہیں اور جنت کی عورتوں کی صفات میں کئ ایک آیات آئی ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

( ان جنتوں میں نیچی (شرمیلی) نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ گویا وہ حوریں یاقوت اور مونگے مرجان ہیں ) الرحمان / 56- 58

اور فرمان ربانی ہے :

( گوری رنگت والی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ) الرحمان / 72

اور ارشاد باری تعالی ہے :

( اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئےموتیوں کی طرح ہیں یہ اس کا صلہ ہے جو کہ وہ عمل کرتے رہے ہیں ) الواقعۃ /22/24

اور نبی صلی اللہ علیہ و�

Monday, June 13, 2016

ساری زمین آسمان قیامت کے دن اللہ کی مٹھی میں ہوگی

ساری زمین آسمان قیامت کے دن اللہ کی مٹھی میں ہوگی

@@@@@@@@@@@@@@@@@

39 : سورة الزمر 67

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۶۷﴾

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔


زمین و آسمان اللہ کی انگلیوں میں ۔ مشرکین نے دراصل اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا ہمسر اور کرنے والا ہے۔ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے۔ جو شخص اللہ کو ہر چیز پر قادر مانے، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے مسوڑھے ظاہر ہوگئے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ آپ ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور روایت میں ہے کہ وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے اللہ تعالیٰ زمین کو قبض کرلے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ مسلم کی اس حدیث میں ہے کہ زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں ۔ آپ اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا ؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں ۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے۔ بزار کی رویت میں ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ تین مرتبہ آئے گئے واللہ اعلم۔ معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا میں آج تمہیں سورۃ زمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آگیا وہ جنتی ہوگیا اب آپ نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بناکر بہ تکلف روئے۔ ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا۔ (١) اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کرلیتے اور معلوم کرلیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر اپنی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے؟ (٢) پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کردوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں ۔ (٣) اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے۔ لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں ۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کردی ہیں ۔ اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں ۔ واللہ اعلم۔

تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا

تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا

@@@@@@@@@@@@@@@@@

39 : سورة الزمر 65

وَ لَقَدۡ  اُوۡحِیَ  اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ  اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ  لَتَکُوۡنَنَّ  مِنَ  الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾

یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔

Sunday, June 12, 2016

اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا

اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا

@@@@@@@@@@@@@@@@@

11 : سورة هود 31

وَ لَاۤ   اَقُوۡلُ  لَکُمۡ  عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ  اَعۡلَمُ  الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ  اَقُوۡلُ  اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ  اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ  لَنۡ  یُّؤۡتِیَہُمُ  اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ  اَعۡلَمُ  بِمَا فِیۡۤ  اَنۡفُسِہِمۡ  ۚ ۖ اِنِّیۡۤ  اِذًا لَّمِنَ  الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۱﴾

میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔(سنو!)میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا نہ میں کہتا ہوں کہ میں یہ کوئی فرشتہ ہوں نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالٰی کوئی نعمت دے گا ہی نہیں ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہو جائے گا ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

7 : سورة الأعراف 188

قُلۡ لَّاۤ  اَمۡلِکُ  لِنَفۡسِیۡ  نَفۡعًا وَّ لَا  ضَرًّا  اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚ  ۛ وَ مَا مَسَّنِیَ  السُّوۡٓءُ   ۚ ۛ اِنۡ  اَنَا  اِلَّا  نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ  لِّقَوۡمٍ  یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪

آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔

Tafseer ibn e kaseer

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہدیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورہ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97؀) 19-مريم:97) ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے۔

GAIB KA ILM

GAIB KA ILM 🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴
gaib ka ilm sirf Allah hi janta h🔹
dalil dalil
1 surah bakra ayt 33
2 surah maeda ayt 109
3 surah maeda ayt 116
4 surah anaam 50,,59,,73
5 surah aaraf ayt 188
6 surah touba ayt 78,,94,,105
7 surah younus ayt 20
8 surah hud ayt 31,,123
9 surah raad ayt 9
10 surah nahal ayt 77
11 surah kahaf ayt 26
12 surah momenun ayt 92
13 surah nahal ayt 77
14 surah sajda ayt 6
15 surah saba 3,,48
16 surah faatir ayt 38
17 surah zumar ayt 46
18 surah hujrat ayt 18
19 surah tur ayt 41
20 surah najam ayt 35
21 surah hashr ayt 22
22 surah juma ayt 8
23 surah tagabin ayt 18
24 surah jin ayt 26
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

Saturday, June 11, 2016

جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں

جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں

@@@@@@@@@@@@@@@@@

39 : سورة الزمر 45

وَ  اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ  وَحۡدَہُ  اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ  اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۴۵﴾

جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اور کا) ذکرکیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں۔


یہ بات قریب قریب ساری دنیا کے مشرکانہ ذوق رکھنے والے لوگوں میں مشترک ہے ، حتّیٰ کہ مسلمانوں میں بھی جن بد قسمتوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے وہ بھی اس عیب سے خالی نہیں ہیں ۔ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں ۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اکیلے اللہ کا ذکر کیجیے تو ان کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں ۔ کہتے ہیں ، ضرور یہ شخص بزرگوں اور اولیاء کو نہیں مانتا، جبھی تو بس اللہ ہی اللہ کی باتیں کیے جاتا ہے۔ اور اگر دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں کی کلی کھل جاتی ہے اور بشاشت سے ان کے چہرے دمکنے لگتے ہیں ۔ اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اصل میں دلچسپی اور محبت کس سے ہے۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس مقام پر خود اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک وفات یافتہ بزرگ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ میں نے کہا اللہ کے بندے ، اللہ کو پکار، وہ خود فرماتا ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعَوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ میری یہ بات سن کر اسے سخت غصہ آیا اور بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ کہتا تھا یہ شخص اولیاء کا منکر ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس کو یہ کہتے بھی سنا کہ اللہ کی نسبت ولی جلدی سن لیتے ہیں ۔

اور نہ میں غیب جانتا ہوں


اور نہ میں غیب جانتا ہوں

@@@@@@@@@@@@@@@@@

 : سورة الأنعام 50

قُلۡ  لَّاۤ  اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ  اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ  اَقُوۡلُ لَکُمۡ  اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ  اَتَّبِعُ  اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی  اِلَیَّ ؕ قُلۡ ہَلۡ  یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا  تَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾

آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے سو کیا تم غور نہیں کرتے؟

Tafseer  ibne kasir

مسلمانو ! طبقاتی عصبیت سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہو جاتی ہے ، میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، میں تو انسان ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا ۔ کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو نابینا ہے؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں، حساب کا کھٹکار رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہو گا، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ۔ یہ تیرا ڈرانا اس لئے ہے کہ شاید وہ تقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اور ثابت کے مستحق بن جائیں ، پھر فرماتا ہے یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ) 18۔ الکہف:28) یعنی انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں ، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے آیت (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ) 40۔ غافر:60) تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے ، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں ، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر ، جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا ۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا ، مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ کی مجلس مبارک میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ تو آیت (و انذر بہ سے بالشاکرین تک اتری ۔ ابن جریر میں ہے کہ ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ پے در پے سہارا لوگ بھی ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں دیکھئے حضرت اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو وہ آپ کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں اس پر آیت (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ) 6۔ الانعام:52) شاکرین تک اتری ۔ ابن ابی حاتم میں قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی، عینیہ بن حصن فزاری ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بےحیثیت لوگوں کے ساتھ ہمیں بیٹھتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے ، آپ کی مجلس میں عرب کا وفد آیا کرتے ہیں وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو آپ کم سے کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائین، ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیے آپ نے کاغذ منگوایا اور حضرت علی کو لکھنے کیلئے بلوایا، مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل اترے اور یہ آیت نازل ہوئی حضور نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا ، لیکن یہ حدیث غریب ہے آیت مکی ہے اور اقرع اور عینیہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی میں جاتے اور آپ کے اردگرد بیٹھتے تاکہ پور طرح اور شروع سے آخر تک آپ کی حدیثیں سنیں ۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی اس کے برخلاف یہ آیت اتری (مستدرک حاکم) پھر فرماتا ہے اسی طرح ہم ایک دورے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امرا ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں سے اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بےمایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا (وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ) 11۔ ہود:27) یعنی ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بےوقوف لوگوں نے ہی کی ہے ، شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے حضور کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے ، الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مزاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت (لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ) 46۔ الاحقاف:11) اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے اور آیت میں ہے جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے؟ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت (وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا) 19۔ مریم:74) یعنی ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ، چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ، جیسے فرمان ہے آیت (وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ) 29۔ العنکبوت:69) جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیھکتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کرلیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ، ابو طالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اللہ عزوجل نے وانذو سے بالشاکرین تک آیتیں اتریں ۔ یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال، عمار، سالم صبیح ، ابن مسعود، مقداد، مسعود، واقد ، عمرو ذوالشمالین، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت (وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ) 6۔ الانعام:53) بھی نازل ہوئی ۔ حضرت عمر ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت (وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ ۙ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 6۔ الانعام:54) نازل ہوئی ، آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رح پر واجب کر لیا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں دنیا ساری جہالت ہے ، غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کر لے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کر لے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضا و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ ابن مردویہ میں حضور کا فرمان ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لئے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے، یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں آیت (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ) 7۔ الاعراف:156) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضور نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوجھا جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر فرمایا جانتے ہو بندے جب یہ کرلیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے، مسند احمد میں یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے ۔

یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو۔اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔

یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو۔اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

ahih Bukhari Hadees # 1390

حدثنا موسى بن إسماعيل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن هلال ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عروة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه ‏  ‏ لعن الله اليهود والنصارى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد ‏  ‏‏.‏ لولا ذلك أبرز قبره ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غير أنه خشي أو خشي أن يتخذ مسجدا‏.‏ وعن هلال قال كناني عروة بن الزبير ولم يولد لي‏.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانبر نہ ہو سکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنا لیں۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت (ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔

اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے


اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے

@@@@@@@@@@@@@@@@@

ahih Bukhari Hadees # 18

حدثنا أبو اليمان ،‏‏‏‏ قال أخبرنا شعيب ،‏‏‏‏ عن الزهري ،‏‏‏‏ قال أخبرني أبو إدريس ،‏‏‏‏ عائذ الله بن عبد الله أن عبادة بن الصامت ـ رضى الله عنه ـ وكان شهد بدرا ،‏‏‏‏ وهو أحد النقباء ليلة العقبة ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وحوله عصابة من أصحابه ‏  ‏ بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا ،‏‏‏‏ ولا تسرقوا ،‏‏‏‏ ولا تزنوا ،‏‏‏‏ ولا تقتلوا أولادكم ،‏‏‏‏ ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ،‏‏‏‏ ولا تعصوا في معروف ،‏‏‏‏ فمن وفى منكم فأجره على الله ،‏‏‏‏ ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب في الدنيا فهو كفارة له ،‏‏‏‏ ومن أصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله ،‏‏‏‏ فهو إلى الله إن شاء عفا عنه ،‏‏‏‏ وإن شاء عاقبه ‏  ‏‏.‏ فبايعناه على ذلك‏.‏

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔

زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔

زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@


ahih Bukhari Hadees # 31

حدثنا سليمان بن حرب ،‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ عن واصل الأحدب ،‏‏‏‏ عن المعرور ،‏‏‏‏ قال لقيت أبا ذر بالربذة ،‏‏‏‏ وعليه حلة ،‏‏‏‏ وعلى غلامه حلة ،‏‏‏‏ فسألته عن ذلك ،‏‏‏‏ فقال إني ساببت رجلا ،‏‏‏‏ فعيرته بأمه ،‏‏‏‏ فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏  ‏ يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية ،‏‏‏‏ إخوانكم خولكم ،‏‏‏‏ جعلهم الله تحت أيديكم ،‏‏‏‏ فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل ،‏‏‏‏ وليلبسه مما يلبس ،‏‏‏‏ ولا تكلفوهم ما يغلبهم ،‏‏‏‏ فإن كلفتموهم فأعينوهم ‏  ‏‏.‏

میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ (یاد رکھو) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

Friday, June 10, 2016

غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔

غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

ahih Bukhari Hadees # 7379

حدثنا خالد بن مخلد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سليمان بن بلال ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني عبد الله بن دينار ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏  ‏ مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يعلم ما في غد إلا الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا تدري نفس بأى أرض تموت إلا الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله ‏  ‏‏.‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ رحم مادر میں کیا ہے، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ کوئی مرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔“

کیا معراج کی رات میں نبی ﷺ اپنے رب کو دیکھا تھا؟

کیا معراج کی رات میں نبی ﷺ اپنے رب کو دیکھا تھا؟

@@@@@@@@@@@@@@@@@

 Sahih Bukhari Hadees # 4855

حدثنا يحيى ،‏‏‏‏ حدثنا وكيع ،‏‏‏‏ عن إسماعيل بن أبي خالد ،‏‏‏‏ عن عامر ،‏‏‏‏ عن مسروق ،‏‏‏‏ قال قلت لعائشة ـ رضى الله عنها ـ يا أمتاه هل رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه فقالت لقد قف شعري مما قلت ،‏‏‏‏ أين أنت من ثلاث من حدثكهن فقد كذب ،‏‏‏‏ من حدثك أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد كذب‏.‏ ثم قرأت ‏ {‏ لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏}‏ ‏ {‏ وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب‏}‏ ومن حدثك أنه يعلم ما في غد فقد كذب ثم قرأت ‏ {‏ وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏}‏ ومن حدثك أنه كتم فقد كذب ثم قرأت ‏ {‏ يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏}‏ الآية ،‏‏‏‏ ولكنه رأى جبريل ـ عليه السلام ـ في صورته مرتين‏.‏

میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏» سے لے کر «من وراء حجاب‏» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏» یعنی ”اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔“ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@

6 : سورة الأنعام 103

لَا تُدۡرِکُہُ  الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ  ہُوَ  اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾

نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے۔

Thursday, June 9, 2016

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء
====================
مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں 20 تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں 20 تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ آئیے اس کی حقیقت اور تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف جانتے ہیں ۔

صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة''(صحیح بخاری: 2013)
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ ''(صحیح ابن خزیمہ :1070،ابن حبان2401، ابویعلی 3؍336، صحیح بخاری 2012)
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔

امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔'(موطأ: 1؍73،مصنف ابن ابی شیبہ 2؍391)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔


سعودی علماء اور مسئلہ تراویح
--------------------------
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
(1) شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

(2) سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''( فتاوٰی اللجنة الدائمة : 7؍194)
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
شیخ عبداللہ بن قعود،
شیخ عبداللہ بن غدیان
شیخ عبدالرزاق عفیفی
شیخ ابن باز

(3)شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما  قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''( مجالس شہر رمضان: ص19)
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر۔

سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علماءبھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔

منقول از محدث میگزین بترمیم

✳✳✳✳✳✳✳✳
 گياره ركعت تراويح علمائے احناف كى عدالت ميں
✳✳✳✳✳✳✳✳
1⃣دليل مقلداورحنفى مذهب كے بانى ومؤسس امام ابوحنيفہ رحمہ الله كے نزديک بهى نمازتراويح(قيام الليل) آٹه ركعت ہی هے جيساكہ امام ابويوسف ابوحنيفہ سے نقل كرتے ہوئے رقمطرازہيں:
"عن أبي حنيفة عن أبي جعفرمحمد بن علي عن النبيّ صلى الله عليه وسلم أنّه كان يصلي بعدالعشاء الآخرة إلى الفجرفيمابين ذلك ثماني ركعات ويوتربثلاث ، ويصلي ركعتي الفجر"
[الحاوي للفتاوى ازامام سيوطى ،بحواله سنن سعيد بن منصور 1/416].
امام ابوحنيفہ اپنے استاذابوجعفركى سند سے رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كاطريقہ نقل كرتے ہيں كہ آپ صلى الله عليه وسلم  عشاء كے بعد آخرى  حصہ ميں فجرتک گياره ركعت مع الوترہى پڑهاكرتے تهے اوردوركعت صبح كى سنتيں آذان كے بعد ادافرماتے تهے.

2⃣دليل نمبرــ امام ابوحنيفہ رحمہ الله كے تيسرے بڑے شاگرد محمد بن الحسن الشيبانى جن پرفقہ كى اكثرعمارت كهڑى ہے اپنى كتاب "مؤطاامام محمد" ميں"باب التراويح" حديث عائشہ صديقہ رضى الله عنها سے صحيح بخارى ومسلم والى گياره ركعت مع الوتركى روايت نقل كرنے كے بعدرقمرطراز ہيں:
"وبهذانأخذ كله" كہ ہمارا بهى اس گياره ركعت مع الوتروالى حديث پرہى عمل ہے"  
[حواله:مؤطاامام محمد ص نمبر93]

3⃣دليل نمبرــ ملاعلى قارى حنفى ماتريدى فرماتے ہيں:
"إن التراويح في الأصل إحدى عشرركعة بالوترفي جماعة فعله رسول الله صلى الله عليه وسلّم"   [مرقاة شرح مشكوة ج3/ص نمبر382].
كہ مسئلہ تراويح ميں حقيقت يہى ہے كہ گياره ركعت مع الوترہى مسنون ہےجنكا اہتمام رسول الله صلى الله عليہ وسلّم نے كيا تها.

4⃣دليل نمبرــ امام ابن همام خنفى فرماتے ہيں:
"فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدى عشرركعة بالوترفي جماعة فعله صلى الله عليه وسلّم"    [فتح القديرشرح الهدايه( حنفى قرآن) ج1/ ص نمبر468].
كہ مسنون تعداد تراويح گياره ركعت مع الوترہى ہے جس كا اہتمام رسول الله صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا.

5⃣دليل نمبرــ امام ابن نجيم حنفى نعمانى فرماتے ہيں:
"وقدثبت أن ذلك كان إحدى عشرة ركعة بالوتركما ثبت في الصحيحين من حديث عائشة رضي الله عنها فإذن يكون المسنون على اصول مشا ئخنا ثمانية منها والمستحب إثناعشر"   [البحرالرائق شرح كنز الدقائق ج2/ ص نمبر66،67].
"اس مسئلہ مي‍ں صحيحين كی حديث كے مطابق گياره (11) ركعت مع الوترہى ثابت ہيں پس ہمارے مشائخ كے عقيدے كے مطابق آٹہ ركعت مسنون اورباقى بيس ميں سے باره(12)  مستحب ہے.

6⃣دليل نمبرــ صاحب شرح الوقايہ رقمطراز ہيں:
"نتيجہ يہ ہے كہ آٹه ركعت تراويح سنت ہيں اوربيس مستحب"
[شرح وقايه جلد1/ص نمبر132، مطبوعه زراقى لكهنو].

7⃣دليل نمبر ــ ابوالاخلاص الحسن بن عمارشرنبلانى حنفى (المتوفى 1069هـ) فرماتے ہيں:
"لمّا ثبت أنّه صلى بالجماعة إحدى عشرة ركعة بالوتر"
[ مراقى الفلاح شرح نورالايضاح (404)].
جب يہى بات ثابت ہے كہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے باجماعت گياره ركعت مع الوترپڑهائيں پهراس سنيت سے انحراف يقيناسنت نبوى سے دائمى عداوت كى دليل ہے.

8⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ موصوف لكهتے ہيں:
"نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے گياره ركعتيں مع وتر باجماعت پڑهائى ہيں اوربيس ركعتوں والى روايت ضعيف ہے"  [ديكهئے:فتاوى شرنبلالى].

9⃣دليل نمبرــ جناب خليل احمدسهارنپورى ديوبندى حنفى (1269ــ1346) فرماتے ہيں:
"سنت مؤكده ہونا تراويح آٹه ركعت تو بالاتفاق ہے اگرخلاف ہے توباره ميں".  [براهين القارى 1/402].

🔟دليل نمبر ــ مزيدسهارنپورى صاحب تحرير فرماتے ہيں:
"فتحصل من هذا كلّه أنّ قيام رمضان سنة إحدى عشرة ركعة بالوترفعله صلى الله عليه وسلّم"  [حاشية على صحيح البخاري ج1/ص نمبر154].
كہ اس مسئلہ كا خلاصہ ونتيجہ يہ ہے كہ رمضان كا قيام (نمازتراويح) رسول اكرم صلى اللہ عليہ وسلّم سے سنت گياره ركعت مع الوترہى ثابت ہے.

1⃣1⃣دليل نمبرــ مشہورحنفى عالم امام طحاوى اورمولوى ابوالسعودحنفى اورمولوى احمد حموى نے بهى آٹه ركعت تراويح كوسنت قرارديا ہے:
"رسول اكرم صلى الله عليه وسلّم نے بيس(20) ركعت تراويح نہيں بلكہ آٹه ركعت تراويح ہى  پڑهيں"  ▪حوالے....
[1] :شرح ردّ المختارص نمبر296 ، مطبوعه مصر.
[2] شرح كنزص نمبر565مطبوه مصر.
[3] شرح الاشباه والنظائر].

2⃣1⃣دليل نمبرــ ملا عينى حنفى فرماتے ہيں:
"فإن قلت لم يبين في الروايات المذكورة عدد الصلاة الّتي صلها رسول الله صلى الله عليه وسلّم في تلك الليالي ، قلت رواه ابن خزيمة وابن حبّان من حديث جابررضي الله عنه قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلّم في رمضان ثمان ركعات ثمّ أوتر"
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري ج3/ص نمبر597
اس حديث جابركوامام زيلعى حنفى صوفى نے اپنى شہره آفاق كتاب "نصب الرأية في تخريج احاديث الهداية ج1/ ص نمبر293 پرنقل كيا ہے].
"اگرتويہ اعتراض كرے كہ آپ صلى الله عليه وسلم نے رمضان كى تين راتوں ميں باجماعت جونمازپڑهائى اس كى تعداد واضح نہيں توميں جواب ميں ابن خزيمہ اورابن حبان ميں حضرت جابروالى روايت بيان كروں گاكہ آپ نے هم كو رمضان ميں آٹه ركعت تراويح اور پهر وتر پڑهائے".

♻مولانا انورشاه كشميرى كے  بعض اقوال:

3⃣1⃣دليل نمبرــ مشہورحنفى عالم مولانا انورشاه كشميرفرماتے ہيں:
"لامناص من تسليم أن تراويحه عليه الصلاة والسلام كانت ثمانية ركعات" [العرف الشذّي حاشية على الجامع الترمذي ج1/177].
كہ اس بات كوتسليم كئے بغيرجان خلاصى ناممكن ہے كہ آپ عليہ السلام كى نماز تراويح آٹه ركعت ہى بدون وترتهى.
🎯( يعنى اهل حديث كا جومسلک ہے كہ آٹہ ركعت ہى نبى عليہ السلام  كى سنت ہے وہى صحيح ہے).

4⃣1⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ موصوف فرماتے ہيں:
"كہ نبى صلى الله عليہ وسلم سے صحيح سند كے آٹه تراويح ہى ثابت ہيں اوربيس ركعتوں والى حديث ضعيف ہے اوراسكے ضعف پرتمام محدثين كا اتفاق ہےـ
[ديكهئے:العرف الشذي ص:309].

5⃣1⃣دليل نمبرـ اسى طرح موصوف اپنى كتاب"فيض البارى" ميں اس طرح رقمطرازہيں:
"نبى صلى الله عليہ وسلم سے كسى مرفوع حديث ميں تيره ركعتوں سے زياده نمازتراويح ثابت ہى نہيں ہے"ـ [فيض البارى 1/420].

6⃣1⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ رقمطرازہيں:
"كہ نبى صلى الله عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ماه رمضان ميں  آٹه ركعت تراويح اورتين وتركى جماعت كروائى تهى جيساكہ ابن خزيمہ و ابن حبان نے اپنى اپنى صحيح ميں اورمحمد بن نصرمروزى نے قيام الليل ميں  حضرت جابر كى حديث بيان كى ہے ـ
[كشف السترص:27].

7⃣1⃣دليل نمبرــ تبليغى جماعت كے بانى مولانازكريا تبليغى ديوبندى صوفى صاحب  فرماتے ہيں:
"لاشك في أنّ تحديد التراويح في عشرين ركعة لم يثبت مرفوعا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح على أصول المحدثين وماورد فيه من رواية ابن عباس رضي الله عنهمامتكلّم فيها على أصولهم"  [اوجزالمسالك شرح مؤطاامام مالك ج2/ص نمبر304].
كہ يقينا محدثين كے اصولوں كے مطابق بيس(20) ركعت نمازتراويح نبى كريم صلى الله عليہ وسلم سے مرفوعا ثابت نہيں بلكہ ابن عباس والى روايت محدثين كے اصولوں كے مطابق مجروح ہے ثابت نہيں.

8⃣1⃣دليل نمبرــ مولوى احمديار نعيمى بريلوى اپنى معروف كتاب "جاء الحق" ميں مدارج النبوة كے حوالے سے مولوى عبد الحق حنفى ديوبندى دہلوى كاقول نقل كرتے ہيں كہ مولوى عبد الحق حنفى آٹه ركعت تراويح كى سنت كااعتراف كرتے ہوئے لكهتے ہيں:
"تحقيق آنست كہ صلاة آنحضرت دررمضان هماں نمازمعتادبوديازده ركعت كہ دائم درتہجدمے گزارد"  [مدارج النبوة ج1/ ص نمبر400].
تحقيق يہ كہ آنحضرت صلى الله عليہ وسلم كى رمضان ميں وہى گياره ركعت ہى تهى كہ جو عام حالات ميں ہميشہ تہجد كى نماز پڑها كرتے تهے.

9⃣1⃣دليل نمبرــ مزيدعبد الحق دہلوى فرماتے ہيں:
"والصحيح ماوردته عائشة رضي الله عنهاأنّه صلى الله عليه وسلّم كان يصلي إحدى عشرة ركعة كما هوعادته في قيام الليل"
[ماثبت بالسنة ازدهلوى ص217].

0⃣2⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ عبدالحق صاحب فرماتے ہيں:
"تحقيق اورصحيح يہى ہے كہ نبى صلى الله عليہ وسلم ماه رمضان ميں گياره ركعت(تراويح) ہى پڑهاكرتے تهے جو كہ آپ صلى الله عليہ وسلم تہجد ميں ہميشہ پڑهاكرتے  تهے جيساكہ معروف ہے"
[حواله:مدارج النبوة1/465].

1⃣2⃣دليل نمبرــ نفحات رشيد ميں لكها ہے:
"نبى صلى الله عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے وترسميت گياره ركعت تراويح سے زياده نہيں پڑهيں ، نہ رمضان ميں نہ غيررمضان ميں"
[بحواله:مسلک الختام1/289].
صحيح مسئلہ يہى ہے كہ گياره ركعت ہى تراويح ہے جيساكہ آپ صلى اللہ كى قيام الليل ميں عادت تهى.
👆مولوى عبد الحق حنفى دہلوى كے كلام سے يہ بهى ثابت ہوا كہ نماز تہجد ، قيام الليل اورتراويح ايک ہى نمازہے.

2⃣2⃣دليل نمبرــ بانى مذهب ديوبند مولوى قاسم نانوتوى ديوبندى فرماتے ہيں:
"ويازده از فعل سرورعالم صلى الله عليه وسلم اكدازيست"
[لطائف قاسميه،مكتوب سوئم ص 18].
كہ رسول الله صلى الله عليه سے جوگياره ركعت ثابت ہيں وه بيس (20) سے  زياده معتبرہيں.

👆آل ديوبند كواپنے بانى كى لاج ركهتے ہوئے بيس ركعت(20) سنت اورآٹه ركعت كو بدعت كى اشتہار بازى سے رک جانا چاہئے.

3⃣2⃣دليل نمبرــ ايک اورجگہ فتح سرالمنان في تأئيد مذهب النعمان ميں لكهتے ہيں:
"جيسا كہ آج كل بيس(20) ركعت تراويح كو سنت بتاياجارهاہے ، يہ رسول صلى الله عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہے ، آپ صلى الله عليہ وسلم كے زمانہ مبارک  ميں آپ  كے حكم كے بموجب حضرت عائشہ رضى الله عنها كى حديث پرعمل رہا جيساكہ بخارى شريف ميں موجود ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے رمضان ميں گياره ركعات مع الوتر سے  زياده نماز تراويح نہيں پڑهى اورحضرت عائشہ رضى الله عنها رسول الله صلى الله عليہ وسلم كے حال سے خوب واقف تهيں ـ  
[ فتح سرّ المنان في تأئيد مذهب النعمان ص:327 والحق الصريح للقاسمى ـ].

4⃣2⃣دليل نمبرــ علامہ حموى حاشية الاشباه ميں لكهتے ہيں:
"بلاشبہ نبى صلى الله عليه وسلم نے بيس ركعتيں نہيں بلكہ آٹه ركعات تراويح  پڑهى ہيں"
[حاشية الاشباه ص:9].

5⃣2⃣دليل نمبرــ ابو السعود كنزالدقائق ميں مرقوم ہے:
"نبى صلى الله عليہ وسلم نے تراويح بيس ركعت نہيں بلكہ آٹه ركعتيں پڑهى ہيں"
[شرح كنزالدقائق ص:265].

6⃣2⃣دلیل نمبرــ مولانا محمد احسن نانوتوى رقمطراز ہيں:
"نبى صلى الله عليہ وسلم نے تراويح كى بيس(20) ركعتيں نہيں بلكہ صرف آٹه رکعت پڑهی ہیں.

7⃣2⃣دليل نمبرــ مولوى رشيداحمدگنگوہى فرماتے ہيں:
"براہل علم پوشيده نيست كہ قيام رمضان و قيام الليل في الواقع يک نماز است كہ دررمضان برائے تيسيرمسلمين دراول شب مقرركرده شدوهنوزعزيمت  دراداشيں آخرشب است ودرقيام الليل فخرعليہ الصلاة والسلام چنانچہ ايازده ركعت وكم ازاں ثابت شده اندسيزده ركعت سوائے سنت فجريم صحيحين موداند"
[الحق الصريح في اثبات التراويح (فارسى) ص:1].
كسى بهى اہل علم سے يہ بات مخفى نہيں كہ قيام رمضان(تراويح) اورقيام الليل درحقيت ايک ہى چيز ہيں رمضان ميں صرف مسلمانوں كى سہولت كے لئے قيام شروع رات ميں مقرركياگيا اورعام حالات ميں برائے عزيمت آخرى رات ميں مقرر ہوگيا رسول كريم صلى الله عليہ وسلم سے گياره ركعت ہى قيام الليل ثابت ہے بلكہ كم بهى ثابت ہے ــ تيره ركعت صبح كى دو سنتوں کے علاوه بخارى ومسلم مي‍ں موجود ہيں.

8⃣2⃣دليل نمبرــ بانى جماعت
اسلامى و مؤسس  مولانا ابوالاعلى مودودى حنفى فرماتےہيں:
"تمام روايات جمع كرنے سے جو چيزحقيقت كے قريب ترمعلوم ہوتى ہے وه يہ ہے كہ حضورصلى الله عليہ وسلم نے خودجماعت كے ساته رمضان ميں جونمازپڑهائى وه اول وقت ميں تهى نہ كہ آخروقت ميں اوروه آٹه ركعات تهيں نہ كہ بيس(20) ركعات، اگرچہ ايک روايت (20) بيس ركعات كى بهی ہے مگروه آٹه والى كى نسبت ضعيف ہے"  
[رسائل ومسائل (2/167].

9⃣2⃣دليل نمبر ــ مولانا كفايت الله ديوبندى حنفى رقمطراز ہيں:
"اكثرروايتوں سے حضورصلى الله عليہ وسلم كاآٹه ركعتيں(تراويح) پڑہناثابت ہے.
[وكفايت المفتى 3/363].

0⃣3⃣دليل نمبر ــ قاضى شمس الدين ديوبندى حنفى فرماتے ہيں:
"ميرايہ موقف ہے كہ مجهے نہ آٹه ركعت كى سنت سے انكارہے اورنہ عملا اسكے ترک كومستحسن سمهتا ہوں اور نہ ہی حتى المقدوراسكو ترک كرتا ہوں اورنہ كسى كو تلقين كرتاہوں كہ وه ترک كردے اورنہ ہى ميرى جماعت حنفيہ آٹه كى سنت كے منكروتارک ہيں بلكہ ہم كهتے ہيں كہ آٹه ركعت سنت ہے ، سنت هے"   [القول الفصيح ص:5].

1⃣3⃣دليل نمبرــ علامہ شامى فرماتے ہيں:
"دليل كے لحاظ سے صرف آٹه تراويح  ہى سنت ہے اورباقى ركعتيں مستحب ہیں"
[ديكهئے:ردالمختارالمعروف فتاوى شامى،ج1ص :495].

2⃣3⃣دلیل نمبر ــ مولانا احمد على سهارنپورى فرماتے هيں:
"قيام رمضان(تراويح)گياره ركعت مع وترسنت ہے، جسے نبى صلى اللہ علي وسلم نے باجماعت اداكيا ہے"  [حاشيه بخارى شريف ازسهارنپورى1/154].

3⃣3⃣دليل نمبرــ اسى طرح موصوف نے ايک اورجگہ لكهاہے:
"صحيح حديث كى روسے وترسميت نماز تراويح كى  صرف گياره ركعتيں  ہى ثابت ہيں"
[بحواله:عين الهداية شرح    ص، 562، والمفاتيح الأسرارالتراويح، ص:9 ].

4⃣3⃣دليل نمبر ــ علامہ شاه ولى الله محدث دہلوى فرماتے هيں:
"رسول الله صلى الله عليه وسلم كے عمل سے(تراويح كى) گياره ركعتيں ايک ثابت شده حقيقت ہے"  [بحوالہ: مصطفى شرح مؤطافارسى مع مسوى1/177].

♻ان تمام ادلہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تراویح کی صحیح تعداد وتر کے ساته گیارہ رکعت ہی ہے ، اور یہ علمائے احناف کے یہاں بهی مسلم ہے....

Tuesday, June 7, 2016

وتر

Sahih Bukhari Hadees # 473

حدثنا أبو النعمان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا حماد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أيوب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رجلا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال كيف صلاة الليل فقال ‏  ‏ مثنى مثنى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ توتر لك ما قد صليت ‏  ‏‏.‏ قال الوليد بن كثير حدثني عبيد الله بن عبد الله أن ابن عمر حدثهم أن رجلا نادى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد‏.‏

ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے آنے والے نے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت پھر جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر کی پڑھ لے تاکہ تو نے جو نماز پڑھی ہے اسے یہ رکعت طاق بنا دے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ولید بن کثیر نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ عمری نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

                        2

Sahih Bukhari Hadees # 991

وعن نافع ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن عبد الله بن عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كان يسلم بين الركعة والركعتين في الوتر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى يأمر ببعض حاجته‏.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

                      3

Sahih Bukhari Hadees # 993

حدثنا يحيى بن سليمان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني ابن وهب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرني عمرو ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن عبد الرحمن بن القاسم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثه عن أبيه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الله بن عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏  ‏ صلاة الليل مثنى مثنى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت ‏  ‏‏.‏ قال القاسم ورأينا أناسا منذ أدركنا يوترون بثلاث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإن كلا لواسع أرجو أن لا يكون بشىء منه بأس‏.‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہے اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک (رکعت وتر) سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہو گی۔

                         4

Sahih Bukhari Hadees # 996

حدثنا عمر بن حفص ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا أبي قال ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الأعمش ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني مسلم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مسروق ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالت كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر‏.‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور آخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔

                         5

Sahih Muslim Hadees # 1617

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَائِ وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِلَی الْفَجْرِ إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُسَلِّمُ بَيْنَ کُلِّ رَکْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ فَإِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَائَهُ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّی يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر کی نماز کے درمیان تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فجر ظاہر ہو جاتی اور مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر ہلکی ہلکی دو رکعت پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کے لئے آتا۔


                       6


Sunday, June 5, 2016

فرقہ ناجیہ


                                     فرقہ ناجیہ
                                """"""""""""""""

جماعت کا صحیح مفہوم

بہت سارے لوگ لفظ " جماعۃ  " سے ہی گمراہ ہوئے ، کوئی اپنا ہم خیال گروپ تیار کرکے جماعت کا دعوی کرتا ہے،تو کچھ لوگ دعوتی تنظیم ، فاونڈیشن ، ادارہ ، لیگ وغیرہ بنا کر جماعت کا دعوی کرتے ہیں ، جو ان کا ممبر بنے  اسے جماعت (فرقہ ناجیہ ) میں شامل کرلیتے ہیں ، اور جو ممبر نہ ہواسے اسی بنا پر گمراہ سمجھ کر  اپنےفتوی سے جہنم کا ایندھن بنادیتے ہیں اگر چہ وہ سلف صالحین کے خالص منہج پر گامزن بھی کیوں نہ ، سبحان اللہ !!!
ایسا کہنا کھلی گمراہی ہے ، ایسے لوگ غزو فکری کے شکار ہیں ، جو لفظ جماعت کے عظیم اور وسیع معنی کو اپنی تنظیم کے دائرے میں محدود کردیتے ہيں، یہی دور جدید کا جدید فتنہ ہے جسے علماء حق نے حزبیت کا نام دیا ہے اور اس کی سخت ترین مزمت کی ہے ۔
معاویہ بن ابی سفیان  رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: "أَلاَ إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِى النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِى الْجَنَّةِ وَهِىَ الْجَمَاعَةُ " (ابو دادو / 4597 / امام البانی نے اسے حسن کہا ہے)
یعنی : خبردار ! جو تم سے پہلے اہل کتاب تھے وہ بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے ، اور یقینا یہ امت تہتَّر  (73 ) فرقوں میں بٹ جائے گی ، ان میں سے بہتر ( 72 )جہنم میں جائيں گے اور ایک جنت میں جائے گا ، وہ  " جماعت " ہے ۔
اب لوگوں نے اس لفظ " جماعت " میں گمراہ کن فتوی سازی کی ، جس سے وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔تحریف لفظی کو مشکل پاکر تحریف معنوی کا سہار لیا ۔  چونکہ یہ اصول متفق علیہ ہے کہ اگر قرآن اور حدیث میں کہیں پر کوئی لفظ ہو جس کی پوری وضاحت وہاں پر نہ ہو تو قرآن اور حدیث ہی کی دوسری نصوص سے اس کا مفہوم سمجھا جاتا ہے لہذا اس لفظ"جماعت" کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے :
"۔۔۔ قَالُوا وَمَنْ هِىَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِى " (ترمذی / 2641 /امام البانی نے اسے حسن کہا ہے  // شیخ الاسلام نے اس سے کئی جگہوں میں استشہاد کیا ہے جیسے : مجموع فتاوی ج 3 ، ص 159)
یعنی: انہوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) ! وہ ( فرقہ ناجیہ ) کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ( جو اس راہ پر ہوں گے ) جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
اس سوال اور جواب کے عموم میں ہر وہ شخص شامل ہوا جو قرآن ، حدیث ، اور منہج صحابہ رضی اللہ عنہم پر قائم ہوگا ، لہذا جو شخص ، تنظیم ، فاونڈیشن ، ادارہ اس حدیث میں بتائے ہوئے منہج پر قائم ہوگا تو وہ جماعت  ( فرقہ ناجیہ ) میں شامل ہے ، اور اگر وہ اس منہج پر قائم نہیں ہے تو وہ جماعت میں شامل نہیں ہے ، پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بیک وقت صرف ایک ہی شخص یا ایک ہی تنظیم یا ایک ہی ادارہ جماعت میں شامل نہیں ہوں گے ، بلکہ جتنی تنظیمیں ، ادارے ، اشخاص ، حديث میں بتائے ہوئے منہج پر ہوں گے وہ سب جماعت میں شامل ہیں ۔ پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بعض لوگ اکثرت میں ہونے کی وجہ سے دھوکہ کھاتے ہیں یا جان بوجھ کر دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ جو اکثر ہوں گے وہی حق پر ہوں گے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا فیصلہ  یوں مروی ہے  :
عمرو بن میمون الأودی نے کہا : میں نے لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ عبد اللہ بن مسعود ( رضی اللہ عنہ )کی صحبت اختیار کی ، تو میں نے اس سے سنا:  "عَليكم بالجماعةِ فإن يَدَّ اللهِ مَعَ الجماعةِ " یعنی: تم جماعت کو لازم پکڑو ، پس یقینا اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔   پھر ایک دن میں نے اسے کہتے سنا کہ:  عنقریب تم پر ایسے حکمران ہوں گے جو نمازمیں اپنے اوقات سے  تاخیر کریں گے،تم نماز کو اپنےاوقات ہی میں ادا کرنا وہ تمہارے لیے فرض ادا ہوگی ، اور ان (حکمرانوں) کے ساتھ بھی نماز ادا کرنا وہ تمہارے لیے نفل ادا ہوگی ، تو میں نے کہا :اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ!  مجھے سمجھ نہیں آتا ہے کہ تم کیا کہتے ہو ؟ ! تو اس نے کہا: کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : تو مجھے جماعت ( کو لازم پکڑنے ) کا حکم دیتے ہو اور اس پر مجھے ابھارتے ہو ، پھر مجھے کہتے ہو کہ (اپنے وقت پر)اکیلے ہی نماز پڑھو وہ فرض ہوگی ، اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھو وہ نفل ہوگی ؟ ! اس نے کہا : اے عمرو بن میمون ! میں تو سمجھتا تھا کہ تو اس گاؤں میں سب سے زیادہ سمجھ دار ہے !کیا تجھے معلوم ہے کہ جما‏عت کیا ہوتی ہے  ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا :جماعت کے اکثر لوگوں نے تو جماعت ہی چھوڑ دی ہے ، "الجماعةُ ما وافَقَ الحق وإن كنتَ وَحدَك " یعنی : جماعت وہ ہے جس کے ساتھ حق ہو اگرچہ تو اکیلا ہی ہو ۔ (اعلام الموقعین / ج 3 / ص 397 // اس سے بہت سارے علماء نے استشہاد کیا ہے جیسے:امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے ،ابن باز نے مجموع فتاوی ج 8 / ص 180 میں ،  صالح الفوزان نے شرح العقيدة الواسطية ص 6 میں ، وغیرہ)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا : ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابو شامہ نے کتاب (الباعث على إنكار) الحوادث و البدع میں کیا ہی بہترین بات کہی ہے : جماعت لازم پکڑنے کا حکم آیا ہے ، اس سے مراد " لزوم الحق وأتباعه "حق اور اس کے پیروکاروں کو لازم پکڑنا ہے ، اگرچہ اس پر کاربند کم ہی ہوں  اور اس کے مخالفین زیادہ ہی ہوں ، کیوں کہ حق ہی پر پہلی جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے زمانے میں تھی ، ان کے ( زمانے کے ) بعد اہل بدعت کی کثرت کو نہیں دیکھا جائے گا (إغاثة اللهفان من مصائد الشيطان / ج 1 / ص 69)۔
 محدث نُعَيْم بن حَمَّاد رحمہ اللہ نے کہا : " إذا فَسدَتِ الجماعةُ فَعَليكَ بما كانت عَليهِ الجماعَةُ قَبلَ أَن تَفسِدَ وإِنْ كُنتَ وَحْدَكَ؛ فَإنَّكَ أنتَ الجماعَةُ حِينئذٍ " ( المدخل للبیقھي، بحوالہ : إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة ج 1 / ص 265 / تالیف: الشیخ حمود بن عبد الله التويجري) یعنی : جب  جماعت فساد کی شکار ہوجائے تو آپ پر لازم ہےکہ اسے لازم پکڑے جس پر جماعت فساد سے قبل تھی، اگرچہ تو اکیلا ہی ہو ، تب اس وقت تو ہی جماعت ہو ۔
کچھ لوگ قرآن و سنت اور منہج صحابہ رضی اللہ عنہم پر گامزن داعیوں کی دعوت میں رخنہ ڈالنے کے لیےلفظ "جماعت" کی معنوی تحریف کرکے حزبیت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ راستہ ہرگز بھی سلف صالحین کا راستہ نہیں ہے ، انہیں چاہیے کہ جو سبز باغ وہ دیکھتے ہیں یا انہیں مخصوص مقاصد کے تحت دکھایا جارہا ہے اس سے باہر نکلیں اور سلف صالحین کا راستہ علماء حق سے معلوم کریں ، ذیل میں علماء حق کے چند حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں تاکہ حق کےمتلاشی کو حق تلاش کرنے میں آسانی ہوسکے :
1۔ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ : انہوں نے  حزبیت کو قرآن اور حدیث میں مزموم فرقہ بندی سے تشبیہ دی ہے ، اور کسی شخص کے کہنے پر دشمنی اور دوستی قائم کرنے کو اس آيت کا مصداق قرار دیا جس میں آیا ہے " مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا " (30 / الروم / 32) تفصیل کےلیے دیکھئے : مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ج 11 / ص 92 اور ج 20 ص 8 ۔ اور اسے بدعتیوں کا طریقہ قرار دیا ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ج 20 / ص 164)۔ حزبیت سے لوگوں میں عداوت پیدا کرنے کو چنگیزیت قرار دیا ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ج 28 / ص 16) ۔ کسی شیخ کی طرف اپنی نسبت کرکے اس کی پیروی میں دوستی اور دشمنی قائم کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کے ساتھ دوستی قائم کرنے کو واجب گردانا ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیۃ ج 11 / ص 512)
2۔علامہ  ابن باز رحمہ اللہ : انہوں نے قرآن اور حدیث پر مبنی ادارے قائم کرنے کو صالح منہج قرار دیا ( مجموع فتاوی ابن باز/ ج 8 / ص 434 ) اور جس شہر میں ایسے ادارے زیادہ سے زیادہ قائم ہوں تو اسے خیر اور برکت قرار دیا ۔  جو شخص تعصب کرتے ہوئے دعوتی کام کرنے والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کی نقاب کشائی کرنے کو واجب قرار دیا (مجموع فتاوی ابن باز /ج 4 / ص 136) اور حزبیت کو ترک کرنا واجب قرار دیا ، اور کسی بھی تنظیم کی اندھی تائید کو ناجائز قرار دیا  (مجموع فتاوی ابن باز /ج 7 / ص 182 -184), اور تعصب کیے بغیر قرآن و حدیث کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی تنظیم کے ساتھ دعوتی کام کرنے کو جائز قرار دیا (مجموع فتاوی ابن باز /ج 8 / ص 237)۔
3۔علماء سعودی دائمی فتوی کمیٹی : انہوں نے اس جماعت ( تنظیم ، ادارہ ، فاونڈیشن وغیرہ ) کے ساتھ تعاون کرنے کو واجب قرار دیا جوقرآن، سنت ، منہج سلف کے مطابق دعوتی کام کرتی ہو (مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ / ج 2 / ص 41 / المجموعۃ الثانیۃ بمطابق المکتبۃ الشاملۃ ) اور دیکھئے : ج 2  ص 237 – 239 ۔ دعوتی کام کرنے کے لیے کسی امیر کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے نصاری کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی ہے  (مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ / ج 2 / ص 74 / دستخط علماء : بكر أبو زيد ، صالح الفوزان ، عبد الله بن غديان ، عبد العزيز آل الشيخ ، عبد الرزاق عفيفي ، عبد العزيز بن عبد الله بن باز)۔
4۔ ڈاکٹر صالح الفوزان : تنظیم کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی قائم کرنے کو انہوں نے حزبیت قرار دیا (اعانۃ المستفید / ج 1 / ص 34، 104) کسی بھی امام ، عالم ، مفتی کی رائے کی اندھی تائید کرنے کو ناجائز قرار دیا ، اور  کسی جماعت ، تنظیم ، دعوتی کام کے لیے بنائے ہوئے(تنظیمی) آئین کی اندھی تائید کرنے کو قرآن اور سنت کے خلاف قرار دیا ہے  (إعانۃ المستفید / ج 1 / ص 119) ۔ کسی جماعت کی بیعت کو بدعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیعت صرف مسلمانوں کے ولی امر ( حاکم ) کی جائز ہے (المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان/ ص213 ) ۔
5۔ علامہ بکر ابو زيد  رحمہ اللہ : تنظیم کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی قائم کرنے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عین مخالفت اور تمام آفات کی جڑ  قرار دیا  ، اور اسے اسی فرقہ پرستی سے تشبیہ دی جسے اسلام نے مٹادیا ہے ۔ مزید  انہوں نے حزبیت کی بیماریوں میں یہ بھی شمار کیا ہے کہ اس سے نوجوانوں میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ تنظیم کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جاسکتا ہے  ( حکم الانتماء إلی الفرق و الأحزاب  والجماعات الإسلامیۃ / ص 118 ، 119)
6۔ فقیہ العصر  علامہ ابن العثیمین رحمہ اللہ : تنظیم کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی قائم کرنے کو سلف کے منہج کے خلاف قرار دیتے ہوئے طالب علم کے لیے اس سے دور رہناواجب قرار دیا ہے، اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ جو ہماری تنظیم میں نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے  ، اس بات کو انہوں نے خبیث اصول بتایا ہے  (شرح حلیۃ طالب العلم / ص 406 ، 407) ۔ حزبیت والی جماعت کے ساتھ تعاون کو ناجائز قرار دیا ہے ، اور اس کو وہ فرقہ بندی قرار دیا جس نے امت کو بکھیر دیا ہے ( فتاوى نور على الدرب / الطبعة:.الإصدار الأول[1427-2006] / أهل السنة) وہ حزبی بیعت اور عہد نامہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں ،ان کے نزدیک طالب علم کے لیے کافی ہے کہ جس شیخ کے علم ، امانت داری ، دینداری پر اسے بھروسہ ہو اس سے علم حاصل کرے جیسا کہ اسلاف کا طریقہ تھا۔ انہوں نے کہا: احمد ، شافعی ، مالک ، ابو حنیفہ ، سفیان ثوری جیسے ا ئمہ اپنے شاگردوں اور ساتھیوں سے کسی طرح کی بیعت اور عہد نامہ نہیں لیتے تھے۔ خوارج کے سوا کوئی بھی اس طرح کی بیعت یا عہد نامہ نہیں لیتا تھا جس کے تحت وہ  سختی اور آرام ، جنگ اور امن میں پابند رہے۔  (کیسٹ بعنوان :" أسئلة أبي الحسن للشيخين ابن باز وابن العثيمين" یہ ریکاڑنگ مکہ مکرمہ میں 6 ذو الحجہ سن 1416 ھ میں ہوئی ہے ) تنظیموں کی طرف بلانے والے اپنے آپ پر اور اپنے بھائیوں ( ساتھیوں ) پر جنایہ (زیادتی)  کرتے ہیں (لقاء الباب المفتوح / ملاقات نمبر 60 / ص 33) ۔
7 ۔ محدث العصر  امام البانی رحمہ اللہ :   حزبیت پر رد کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ہم صراحت کے ساتھ حزبیت کے خلاف لڑ رہے ہیں (شرح حلیۃ طالب العلم / ص 407)۔  ان سے ایک سوال کیا گیا کہ بعض اسلامی جماعتیں سلفی عقیدہ کی طرف دعوت دیتی ہیں ، اور ایک عمومی امیر منتخب کرتی ہیں پھر اس کے تحت ذیلی امراء ہوتے ہیں پھر اپنے ممبروں کو ان امیروں کی اطاعت لازمی قرار دیتی ہیں ، وہ یہ کہتی ہیں کہ یہ شرعی امارت ہے ، اس کی اطاعت واجب ہے اس کی نافرمانی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے، اور اس حدیث  سے استدلال کرتے ہیں : "وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي " ( بخاری / 7135) یعنی: جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔ تو  امام البانی نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضعیف استدلال ہے ، کیوں کہ اس کو کس نے امیر بنایا ہے ؟!( ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امیر نہیں بنایا ہے لہذا اس طرح کا استدلال کرنا صحیح نہیں ہے) ۔  اس طرح کرنے سے امت میں تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور انہوں نے مختلف قسم کے اہداف والی  متعدد تنظیمیں بنانے کی تائيد کی بشرطیکہ وہ قرآن اور سنت کے منہج کے مطابق ہوں ۔ (المنھج السلفي عند الشیخ ناصر الدین الالباني / ص  230-233) اور دیکھئے :  سلسلة الهدى والنور (کیسٹ نمبر/371)   (http://kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=43935)
حزبی اگرچہ یہ اعتراف نہ بھی کرے کہ وہ حزبیت چلا رہا ہے لیکن پھر بھی اس کے کاموں سے اس کی حزبیت صاف عیاں ہوتی ہے (کیسٹ نمبر840)
8 ۔  الشیخ أبو عبدالرحمن عقيل بن محمد بن زيد المقطري:
تنظیموں کا ایک دوسرے سے آگے جانے کے لیے ( خلافت کی ) بیعت والی احادیث سے لوگوں کو ڈرا کر اپنی تنظیم میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے (قواعد الاعتدال لمَن أرادَ تقويم الجماعات وَالرِجَال/ ص 24) ۔
9 ۔الشیخ مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله تعالى : وہ حزبیت سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں ، اور بدعتی ،اور حزبی ( تنظیمی مقلد ) کی اچھائیوں کو بیان نہ کرنے کو کہتے ہیں (تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب/ ص 65 ، 135) ۔ جو شخص اپنی جماعت کے ساتھ دوستی اور دوسروں کے ساتھ دشمنی کرے وہ گمراہ بدعتی ہے (غارة الأشرطة/2/28) ۔
10 ۔  الشيخ عبيد الجابري(اسلامک یونیورسٹی مدینہ طیبہ کے سابق استاد ): وہ تنظیم کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی قائم کرکے یہ کہنے سے منع کرتے ہیں کہ کوئی یہ کہے کہ یہ فلاں تنظیم یا ادارہ سے تعلق رکھتا ہے لہذا وہ ہمارے پاس نہ آئے ۔ (http://kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=43935)
11 ۔  الشيخ أبي عبد المعز فركوس حفظه الله (اسلامک یونیورسٹی  الجزائر کے مدرس ) : جو تنظیم  دوستی اور دشمنی کا معیار تنظیمی بنیاد پر قائم کرے، یا امیر کی باتوں کو بلا دلیل اصول بنا لے ، اور تنظیم کی آراء کو قطعیۃ الثبوت بنادے جن میں نقد  ممکن نہ ہو تو وہ حزبی تنظیم ہے  اگر چہ اس کا نام اسلامی بھی ہو ،  اس اعتبار سے یہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کھلی مخالفت  اور دشمنی ہے کیوں کہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان کی بنیاد ہے ۔ (http://kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=39127)
12۔  الشیخ اسعد اعظمي بن محمد انصاری ( جامعہ سلفیہ بنارس ، ہند کے استاد ) : حزبیت مسلمانوں کی جماعتوں اور صفوں میں گھس گئي ہے  ، وہ ان کے ذہنوں اور دلوں پر چھا چکی ہے  جس کی وجہ سے ایمانی بھائی چارہ اور اسلامی وحدت کا کوئی معنی باقی نہ رہا  (صوت الخریجین  ، عدد 4 / فروری 2014 / ص 47 )
13 ۔  ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ : موجودہ دور میں مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جماعت کے بہت سے افراد میں گروہ بندی و تحزب کا مزاج پیدا ہوگیا ہے ، جماعت سے ایسے لوگوں کی وابستگی حق پرستی اور صلاحیت کردار کی بنیاد پر نہیں بلکہ جماعت کے ساتھ دینے اور ہمنوائی کی بنیاد پر ہے ، جماعت کے لئے یہ مرض بیحد مہلک ہے  ۔۔۔ (ہندوستان میں تحریک اہل حدیث اور جدید تقاضے ص 26 -28 )
14 ۔  الشیخ علامہ احمدبن یحیی النجمي رحمہ اللہ (المعہد العلمی جازان سعودی عرب کے مدرس ، اور شیخ ربیع بن ہادی کے استاد): انہوں نے حزبیت کو بدعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مرتکب اہل سنت و جماعت سے خارج ہے (الفتاوى الجلية عن المناهج الدعوية " (2/249) حزبیت کی بدعت کی مزمت قرآن اور حدیث میں بہت سی جگہوں میں آئی ہے۔ حزبیت کو انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے خارج قرار دیا ہے (المورد العذب الزلال /ص150)
15 ۔ الشیخ علامہ ربيع بن هادي المدخلي حفظه الله : وہ اللہ کی قسم کھاکر  حزبیت کو بدعت قرار دیتے ہیں ، بلکہ حزبی کو عام بدعتیوں سے بھی سخت شر قرار دیتے ہیں کیوں کہ جو حزبی ہوتا ہے وہ اہل سنت و جماعت کو ستانے سے اور اہل بدعت اور اہل باطل کی دوستی سے باز نہیں رہتا ہے، ایسا شخص کسی طرح سلفی نہیں ہوسکتا ہے ۔ (مجموع كتب ورسائل وفتاوى العلامة المجاهد ربيع المدخلي / 14/161 ،162)۔
16 ۔  الشيخ علامہ زيد بن محمد بن هادي المدخلي حفظه الله(المعھد العلمي سامطۃ جازان سعودی عرب کے استاد، اور شیخ احمد النجمی کا شاگر) : تنظیم (حزب ) میں الولاء و البراء ( دوستی اور دشمنی ) کی بدعت قائم کرنے،  اور جو تنظیم کے آئین کی دفعات سے اتفاق نہ کرے اسے برا سمجھنے وغیرہ کو منہج اہل سنت و جماعت سے خارج قرار دیا ہے (الأجوبة المختصرة على الأسئلة العشرة "ص96)۔
17 ۔  الشیخ عبد اللہ غدیان (عضو سعودی دائمی فتوی کمیٹی): دعوتی کام کرنے کے لیے کسی امیر کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے نصاری کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی ہے  ( فتوی کمیٹی کا مشترکہ فیصلہ ، ملاحظہ ہو:  مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ / ج 2 / ص 74 )
18 ۔  الشیخ عبد العزیز آل شیخ (صدر سعودی دائمی فتوی کمیٹی ) : دعوتی کام کرنے کے لیے کسی امیر کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے نصاری کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی ہے  ( فتوی کمیٹی کا مشترکہ فیصلہ ، ملاحظہ ہو:  مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ / ج 2 / ص 74 )
19 ۔   الشیخ عبد الرزاق عفیفی(عضو سعودی دائمی فتوی کمیٹی) : دعوتی کام کرنے کے لیے کسی امیر کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے نصاری کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی ہے  ( فتوی کمیٹی کا مشترکہ فیصلہ ، ملاحظہ ہو:  مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ / ج 2 / ص 74)
20 ۔ ڈاکٹر صالح بن عبد الله بن حميد: اللہ کے لیے ایمانی بھائی چارہ قائم کرنے کو داعی کے اہم صفات میں گردانا ، اور تعصب و حزبیت سے دور رہنا لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دعوت اور داعیوں کے آپسی تعاون پر حزبیت سے کوئی اور چیز زیادہ ضرر رساں نہيں ہے ۔ حزبیت کے عیوب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنظیم پرست  صرف اپنی تنظیم کی کتابیں پڑھتا ہے اور تنظیم کے شیخ کے بغیر کسی کا شاگرد نہیں بنتا ہے (مجلة البحوث الإسلامية/ ج 51 / ص216 ، 221 ، 222)۔

Friday, June 3, 2016

ماں

ماں!!!
_______________

بقلم: عبدالغفار زاہد بنارسی

مری ماں اپنے آنچل میں مرا ہر غم چھپاتی ہے
مرے عیبوں پہ پردہ ڈال کر مجھ کو بچاتی ہے

کبھی دل میں اداسی کا سمندر جب امنڈتا ہے
مری ماں دیکھ کر چہرہ مرے سب غم بتاتی ہے

جنہیں پالا تھا ماں نے ایک دن جب وہ ستاتے ہیں
وہ کچھ کہتی نہیں تنہائی میں آنسو بہاتی ہے

دُکھا کر ماں کا دل میں کون سی جنت میں جاؤں گا؟
یہ ماں ہے جو اگر خوش ہو مجھے جنت دلاتی ہے

لگا کر جان کو داؤں پہ مجھ کو جنم دیتی ہے
پھر اپنا خون مجھ کو دودھ کی صورت پلاتی ہے

وہ بھوکی رہ کے سوتی ہے مگر مجھ کو کھلاتی ہے
مجھے تکلیف ہو جائے تو آنسو وہ بہاتی ہے

مگر وہ ماں بڑھاپے کی حدوں کو جب پہنچتی ہے
تو اس بوڑھے سراپے سے مجھے اک گھن سی آتی ہے

تب اس کی بات بھی مجھ کو زہر معلوم ہوتی ہے
ہر اک لمحہ وہ بوڑھی ماں مجھے غصہ دلاتی ہے

میں جب غصے میں کچھ کہتا ہوں وہ چپ چاپ سنتی ہے
اور اک دن چھوڑ کر سب کچھ وہ رب کے پاس جاتی ہے

اور اب تنہائی میں جب بیٹھ کر کچھ سوچتا ہوں میں
تو ہر لمحہ مجھے اس ماں کی صورت یاد آتی ہے

میں جب بھی روٹھتا تھا ماں مجھے کیسے مناتی تھی
یہی سب سوچ کر وہ ماں ہر اک پل یاد آتی ہے

مرے درد والم میں اک سہارا تھی مری ماں تو
میں جب بھی درد سہتا ہوں تو تیری یاد آتی ہے

دُکھا کر ماں کا نازک دل کوئی خوش ہو نہیں سکتا
اگر ماں بددعا کر دے فلک کے پار جاتی ہے

جو ماں کے دامنِ شفقت سے ہو محروم اے زاہد
وہ محرومِ زمانہ ہے یتیمی یہ بتاتی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قرآن کریم میں ثابت ہے

بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قرآن کریم میں ثابت ہے
=================
شفاعت كی قسمیں

سوال نمبر 6 - فتوی نمبر 9184

س 6: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے قیامت کے دن رب العالمین کے یہاں کیسے سفارش کریں گے، اسی طرح صحابہ کرام، صلحاء اور فرشتے گناہگاروں کے لئے کیسے سفارش کریں گے؟ اور یہ حدیث: میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لئے ہے۔کیا اس کی سند صحیح ہے، اگر حدیث صحیح ہے تو اس کا کیا مفہوم ہے؟

ج 6: بروز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور صلحاء کی شفاعت قرآن کریم سے ثابت ہے، اس سلسلے میں صحیح احادیث قرآن کریم کی تفسیر ووضاحت کرتی ہیں، ان میں سے ایک حدیث ہے جس کی طرف آپ نے سوال میں اشارہ کیا ہے، یہ شفاعت مختلف نوعیت کی ہیں، شیخ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (فتح المجید) میں کہا: ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ شفاعت کی 6 قسمیں ہیں:
1- شفاعت کبری، جس میں اولی العزم انبیاء علیہم السلام بھی پیچھے رہیں گے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کى جب بارى آئیں گى تو آپ کہیں گے: میں یہ سفارش کروں گا، یہ اس وقت ہوگا جب تمام مخلوقات انبیاء کی سفارش کی خواہش کریں گے تاکہ رب العالمین انہیں محشر کی ہولناکی سے آرام دے، یہ سفارش صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھـ مخصوص ہے، اس میں کوئی شریک نہیں ہوگا۔
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنتیوں کے لئے جنت میں داخلہ کی سفارش، اسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک طویل حدیث میں ذکر کیا ہے، متفق علیہ۔
3- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے نافرمان بندوں کی سفارش، جن پران کے گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب کی گئی ہوگی، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے جہنم میں داخل نہ کرنے کے لئے سفارش کریں گے۔
4- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل توحید میں سے نافرمان بندوں کی سفارش، جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اس سفارش کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث وارد ہیں، اس پر صحابہ کرام اور اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے، اس شفاعت سے انکار کرنے والے بدعتی كو كہا گيا، اسے انكار كرنے سے باز آنے كو كہا گيا اور اس كو گمراہ قرار ديا گيا۔
5- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش جنتیوں کے درجات بلند کرنے اور مزید ثواب ملنے کے لئے، یہ سفارش ایسی ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، یہ ان مخلص موحدین کے ساتھـ مخصوص ہے جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا دوست اور سفارشی نہیں بنایا، جیساکہ ارشاد الہی ہے:    ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﮈﺭﺍﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﻛﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﻏﯿﺮ ﺍللہ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻛﻮﺋﯽ ﺍﻥ کا ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻛﻮﺋﯽ ﺷﻔﯿﻊ،
6- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش آپ کے خاندان کے بعض کافر جہنمیوں کے لئے تاکہ ہلکا عذاب ہو، یہ سفارش خاص طور پر ابو طالب کے لئے ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

عجوہ کی فضیلت احادیث صحیحہ کی روشنی میں

عجوہ کی فضیلت احادیث صحیحہ کی روشنی میں
==================
(1)عَنْ سَعْد بْن أَبِي وَقَّاص رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً، لَمْ يَضرَّهُ فِي ذَلِكَ اليَوْمِ سُمٌّ وَلا سِحْرٌ». متفق عليه.
ترجمہ: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیا کرے، اس دن اسے زہر اور جادو ضرر نہ پہنچا سکے گا۔

(2)إنَّ في العَجْوَةِ العاليةِ شفاءً ، أو إنها تِرْياقٌ ، أولَ البَكْرَةِ(مسلم:2048)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے اور وہ زہر وغیرہ کے لئے تریاق کی خاصیت رکھتی ہیں‘ جب کہ اس کو دن کے ابتدائی حصہ میں یعنی نہار منہ کھایا جائے"۔

(3)العجوَةُ منَ الجنَّةِ ، وفيها شِفاءٌ منَ السُّمِّ . والكمَأَةُ منَ المنِّ وماؤُها شِفاءٌ للعينِ(صحیح الترمذی :2066)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : عجوہ جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفاء ہے اور کمأة (کھنبی) من (کی ایک قسم) اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔

(4)حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ أَخْبَرَنَا هَاشِمٌ أَخْبَرَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اصْطَبَحَ کُلَّ يَوْمٍ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً لَمْ يَضُرَّهٗ سُمٌّ وَلَا سِحْرٌ ذٰلِکَ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ ۔(صحيح البخاري:5768)
ترجمہ:علی، مروان، ہاشم، عامر بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای:اٰہ جس نے ہر صبح چند عجوہ کجھوریں کھالیں اسے رات تک کوئی زہر اور نہ کوئی جادو نقصان پہنچائے گا۔

(5)الكَمَأةُ من المنِّ وماؤُها شفاءٌ للعينِ والعَجوةُ من الجنَّةِ وهي شفاءٌ من الجنَّةِ(صحيح ابن ماجة:2798)
ترجمه: آپﷺنے فرمایا: کمأة (کھنبی) من (کی ایک قسم) اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔اورعجوہ جنت سے ہے اور اس میں جنون سے شفا ہے“۔
٭ یہاں صحیح لفظ "وهي شفاء من السم" ہے یعنی یہ زہر سے شفا ہے ۔

(6)ليس في الأرض من الجنةِ إلا ثلاثةُ أشياءَ : غرسُ العَجوةِ ، وأواقٍ تنزل في الفُراتِ كلَّ يومٍ من بركة الجنَّةِ ، والحَجَرُ(السلسلۃ الصحیحہ :3111)
ترجمہ:زمین پر جنت کی چیزوں میں سے تین چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں․عجوہ کھجور کا درخت،وہ برکت کی مقدار کثیر جو روزانہ جنت سے دریائے فرات پر اترتی ہے اور سنگ اسود۔

عجوہ کی فضیلت میں بہت ساری ضعیف روایات بھی ہیں جنہیں میں نے ذکر نہیں کیا۔
مقبول احمد سلفی
اسلامی سنٹر طائف، سعودی عرب

رمضان کا استقبال کیسے کریں

رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
================
تحریر: مقبول احمد سلفی
داعی /مرکزالدعوۃ والارشاد طائف،سعودی عرب

رمضان المبارک  کی آمد آمد  ہے ، ہر طرف مومن کے اندر اس کے تئیں اظہار مسرت ہے ۔ یہ وہ مبارک مہینہ  ہےجس کا انتظار مومن آدمی سال بھر کرتاہے کیونکہ یہ نیکی،برکت،بخشش،عنایت،توفیق،عبادت،زہد،تقوی،مروت،خاکساری،مساوات، صدقہ وخیرات،رضائے مولی،جنت کی بشارت،جہنم سے گلوخلاصی  کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مقدس میں مومن کے اندرفکرآخرت کے ذریعہ رب سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوتی ہے ۔سبحان اللہ اس قدر پاکیزہ ومحترم مہینہ ۔یہ رب کی طرف سے اس پر ایمان لانے والوں کے لئے عظیم تحفہ ہے ۔ اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کا کیسے استقبال کریں اور کس عمدگی سے اس مہینے کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو نیکیوں کے موتی بھرلیں؟
رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
اپنے ذہن میں ذرا تصور پیدا کریں کہ جب آپ کے گھر کسی اعلی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟   آپ کا جواب ہوگا۔ہم بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں۔ گھرآنگن  کو خوب سجاتے ہیں، خود بھی ان کے لئے زینت اختیار کرتے ہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے ، بچوں کے لب پہ نغمے،چہرے پہ خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کےلئے ان گنت پرتکلف سامان تیار کئے جاتے ہیں۔ جب ایک مہمان کے لئے اس قدر تیاری تو مہمانوں میں سب سے اعلی اور رب کی طرف سے بھیجا ہوا مہمان ہو تو اس کی تیاری کس قدر پرزور ہونی چاہئے ؟  آئیے اس تیاری سے متعلق آپ کے لئے ایک مختصر خاکہ پیش کرتا ہوں ۔
(1)عظمت کا احساس
رمضان کا مہینہ بیحد عظیم ہے ، اس کی عظمت کا احساس اور قدرومنزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن ودماغ میں پیوست کرلیاجائے تاکہ جب رمضان میں داخل ہوں تو غفلت،سستی،بے اعتنائی،ناقدری،ناشکری، احسان فراموشی  اور صیام وقیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ نہ پیدا ہوں۔
یہ اتنی عظمت وقدر والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات کا نام ہی قدرومنزلت ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5) (سورة القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ رمضان کی ایک رات ہی قدر کی رات ہے بلکہ اس کا ہردن اور ہررات قدرومنزلت کا حامل ہے ۔

(2) نعمت کا احساس
رمضان جہاں رب کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے ۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لئے تڑپتا رہتا ہے ۔ ایک بینا کو آنکھ کی نعمت کا احساس کم ہوتا ہے اس لئے اس کا استعمال فلم بینی اور برائی کے مشاہدے میں کرتاہے ۔ اگر اسے یہ احساس ہو کہ یہ رب کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدرکرنی چاہئے تو کبھی اپنی آنکھ سے برائی کا ادراک نہ کرے ۔ بینا کی بنسبت اندھے کو آنکھ کی نعمت کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ فرق ایمان میں کمی کا سبب ہے ۔ جس کا ایمان مضبوط ہوگا وہ ہرنعمت کی قدر کرے گا ۔ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے کی نعمت کا احساس کریں ۔ اور اس احساس کا تقاضہ ہے کہ اس نعمت پہ رب کی شکرگذاری ہوجیساکہ اللہ کا فرمان ہے ۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ(ابراهيم: 7)
ترجمہ: اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے, تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اوراگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ{ابراہیم :28-29}
ترجمہ : کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جوبدترین ٹھکانہ ہے ۔
نعمت میں رمضان جیسا مہینہ نصیب ہونے کی بھی نعمت ہے اور صحت وتندرستی  اس پہ مستزاد ہے۔ان نعمتوں کا احساس کیوں نہ کریں ، کہ ان نعمتوں کے بدلے ہمیں ہرقسم کی نیکی کی توفیق ملتی ہے ۔ روزہ،نماز،صدقہ،خیرات،دعا،ذکر،انابت الی اللہ ،توبہ،تلاوت، مغفرت،رحمت وغیرہ ان نعمتوں کی دین ہے ۔

(3) انابت الی اللہ
جب ہم نے اپنے دل میں مہمان کی عظمت بحال کرلی، اس عظیم نعمت کی قدرومنزلت کا بھی احساس کرلیا تو اب ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ دنیا سے رخ موڑ کے اللہ کی طرف لوٹ جائیں ۔ "انابت الی اللہ" عظمت اور نعمت کے احساس میں مزید قوت پیدا کرے گی۔ اللہ کی طرف لوٹنا صرف رمضان کے لئے نہیں ہے بلکہ مومن کی زندگی ہمیشہ اللہ کے حوالے اور اس کی مرضی کے حساب سے گذرنی چاہئے ۔ یہاں صرف بطور تذکیر ذکر کیا جارہاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو بندہ رب سے دور ہوکر روزہ کے نام پہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرے ۔ اگر ایسا ہے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ پہلے رب کی طرف لوٹیں ، اس سے تعلق جوڑیں اور اس کو راضی کریں پھر ہماری ساری نیکی قبول ہوں گی ۔
انابت الی اللہ سے میری مراد، ہم رب پر صحیح طور ایمان لائیں، ایمان باللہ کو مضبوط کریں، عبادت کو اللہ کے لئے خالص کریں، رب پہ مکمل اعتماد کریں، اللہ کو سارے جہاں کا حاکم مانیں، خود کو اس کا فقیر اور محتاج جانیں ، کسی غریب ومسکین کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ،ناداروں کی اعانت کریں،بیماری ومصیبت میں اسی کی طرف رجوع کریں۔ یہ ساری باتیں انابت الی اللہ میں داخل ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں،روزہ بھی رکھتے ہیں، لمبے لمبے قیام اللیل کرتے ہیں مگر غیراللہ کوپکارتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کو اوروں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں ۔ بیماری اور مصیبت میں مردوں سے استغاثہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا روزہ کیسے قبول ہوگا؟ گویا ایسے عقیدے والوں کا مکمل رمضان اور اس کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ اللہ تعالی کا فرمان لاریب ہے ۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر:65)
ترجمہ : یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔
اس لئے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں۔

(4) پیش قدمی
اس کے دو پہلو ہیں ۔ (الف)منکر سے اجتناب (ب) معروف کی رغبت
(الف) منکر سے اجتناب: رمضان کے استقبال میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرلیں۔ دیکھا جاتا ہے لوگ ایک طرف نیکی کرتے ہیں تو دوسری طرف بدی کرتے ہیں ۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ بدی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے پاس نیکی کی کمی ہے وہ بھی ضائع ہوجائے تو نیکی کرنے کا فائدہ کیا؟ اس لئے نیکی کو اگر بچانا چاہتے ہیں اور رمضان المبارک کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں، بخششوں اور نیکیوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بدی سے مکمل اجتناب کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (التوبة:53)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی بھی طرح خرچ کروقبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا، یقینا تم فاسق لوگ ہو۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی فسق وفجور اور ناپسندیدگی سے خرچ کرنےکی وجہ سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔
اورحدیث میں ہے صحابہ بیان کرتے ہیں :
كنا معَ بُرَيدَةَ في يومٍ ذي غَيمٍ، فقال : بَكِّروا بالصلاةِ، فإن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : مَن ترَك صلاةَ العصرِ حَبِط عملُه(صحيح البخاري:594)
کہ ہم لوگ بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوۂ میں بارش والے دن تھے تو انہوں نے کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
جو آدمی عبادت بھی کرے اور گناہ کا کام بھی کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نیک عمل مردود ہے ۔" إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ "(العنکبوت :45)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے توجونمازیا روزہ بے حیائی سے نہ روکے وہ اللہ کے یہاں قابل رد ہے ۔
(ب)  معروف کی رغبت
رمضان بھلائی کمانے کے واسطے ہے ، اللہ تعالی مومنوں کو متعدد طریقے سے اس مہینے میں بھلائی سے نوازتاہے ، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کی خاطر رمضان سے پہلے ہی کمربستہ ہوجانا چاہئے اور مواقع حسنات سے مستفید ہونے کے لئے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کرنا چاہئے تاکہ ہرقسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں ۔ سمجھ کر قرآن پڑھنے کا اہتمام(کم از کم ایک ختم) ، پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات ، صدقہ وخیرات، ذکرواذکار، دعاومناجات، طلب عفوودرگذر، قیام اللیل کا خاص خیال،روزے کے مسائل کی معرفت بشمول  رمضان کے مستحب اعمال، دروس وبیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت ومشقت اور زہدوتقوی سے مسلح ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس خاکے کے مطابق رمضان المبارک کا روحانی ومقدس مہینہ گذاریں ۔
رمضان میں ہرچیز کا ثواب دوچندہوجاتا ہے اور روزے کی حالت میں کارثواب کرنا مزید اضافہ حسنات کا باعث ہے ، اس لئے اس موسم میں معمولی نیکی بھی گرانقدر ہے خواہ مسکواک کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔ ہر نماز کے لئے مسکواک کرنا، اذان کا انتظار کرنا بلکہ پہلے سے مسجد میں حاضررہنا،تراویح میں پیش پیش رہنا، نیکی کی طرف دوسروں کو دعوت دینا، دروس ومحاضرات کا اہتمام کرنا،منکر ات کے خلاف مہم جوئی کرنا اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنا سبھی ہمارے خاکے کا حصہ ہوں۔

(5) بہتر تبدیلی
استقبال رمضان کے لئے خود کو مکمل تیار کریں، نیکی کا جذبہ وافر مقدار میں ہواور اپنے اندر اچھائی کے تئیں ابھی سے ہی بدلاؤ نظر آئے ۔ پہلے سے زیادہ سچائی اور نیکی کی راہ اختیار کرے ۔ رمضان چونکہ رمضان ہے اس لئے اس سے قبل ہی بہتری  کااظہارشروع ہونے لگ جائے ۔ تقوی کے اسباب اپنائے اور خود کو متقی انسان بنانے پہ عبادت کے ذریعہ جہد کرنے کا مخلصانہ جذبہ بیدار کرے ۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اپنے اندر بہتری پیداکرنے کی خوبی اور خاصہ صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ سال بھر کے لئے پیدا کرے ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہواکرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے بلکہ یہ کہیں اللہ سے ہی غافل ہوجاتے ہیں ۔اس لئے ابھی سے ہی یہ راہ مہیارہے کہ اچھائی کے لئے بدلاؤ مہینہ بھر کے لئے نہیں سال بھر بلکہ زندگی بھر کے لئے ہو۔ اسی طرح کا بدلاؤ رمضان کے سارے اعمال کو اللہ کے حضور شرف قبولیت سے نوازے گا اورآپ کی اخروی زندگی کو بہتر سے بہترکرے گا ۔
آخری پیغام
رمضان کے استقبال کے لئے کوئی خاص دعا، خاص عبادت  وروزہ یا کوئی مخصوص ومتعین  طریقہ شریعت میں وارد نہیں ہواہے ۔ حدیث میں رمضان کے استقبال میں ایک دو دن پہلے کا روزہ رکھنا منع ہے ۔ لہذا دین میں کسی طرح کی بدعت کے ارتکاب سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔

اللہ تعالی ہمیں رمضان کا بہترین استقبال کرنے ، اس مہینے سے ہرطرح کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے اور رمضان میں بکثرت اعمال صالحہ انجام دینے  کی توفیق دے اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین
http://maquboolahmad.blogspot.com/2016/05/blog-post_31.html

اگر كوئى شخص نماز جمعہ كى تشھد ميں ملے تو كيا كرے

اگر كوئى شخص نماز جمعہ كى تشھد ميں ملے تو كيا كرے ؟
================
اگر كوئى مسلمان شخص نماز جمعہ كى صرف تشھد ہى پائے تو اسے كيا كرنا چاہيے ؟
اور اگر كسى شخص كو نماز جمعہ كى ادائيگى سے روك ديا جائے يا پھر كسى ايسے سبب كى بنا پر وہ نماز جمعہ ادا نہ كر سكے جس كا باعث وہ خود نہيں، مثلا جس بس اور گاڑى پرسوار تھا وہ خراب ہو گئى تو كيا اس پر كوئى گناہ ہو گا ؟
كيا اسے جو اجروثواب اور دعاء كى قبوليت كے جو لحظات حاصل ہونا تھے وہ سب ضائع ہو جائيگا ؟
الحمد للہ :

اگر امام كے ساتھ ايك ركعت ملے تو پھر نماز جمعہ حاصل ہو گى، اور ايك ركعت اس وقت ملے گى جب امام كے ساتھ ركوع سے قبل ملے اور ركوع حاصل كر لے، اور اگر وہ دوسرى ركعت ميں امام كے ساتھ ركوع سے قبل مل جائے تو اس نے نماز جمعہ پالى، تو اس وقت امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ اٹھ كر ايك ركعت ادا كر كے نماز جمعہ مكمل كرے گا.

ليكن اگر وہ امام كے ركوع سے اٹھنے كے بعد امام كے ساتھ ملتا ہے تو اس كى نماز جمعہ رہ جائيگى، اور اس طرح وہ ظہر كى نماز ادا كرے گا، اور امام كے سلام پھيرنے كے بعد اٹھ كر چار ركعت نماز ظہر ادا كرے گا نہ كہ نماز جمعہ، جمہور علماء كرام: امام مالك، امام شافعى، امام احمد رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 558 ).

ان كے دلائل يہ ہيں:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پالى اس نے نماز پالى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 607 ).

2 - نسائى رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نماز جمعہ يا دوسرى نماز كى ايك ركعت پالى تو وہ اس كے ساتھ دوسرى ركعات بھى ادا كر تو اس كى نماز مكمل ہو گئى "

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء ( 622 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر انسان كسى ايسے عذر كے باعث نماز ميں شامل نہ ہو سكے جس كا باعث وہ خود نہيں بلكہ وہ غير ارادى طور پر ہوا ہو مثلا جيسا سائل نے ذكر كيا كہ گاڑى خراب ہو جائے يا كوئى اور عذر مثلا نيند يا پھر بھول جانا، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس پركوئى گناہ ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿تم سے جو بھول چوك ہو جائے اس ميں تم پر كوئى حرج نہيں، ليكن گناہ اس ميں ہے ہے جو تمہارے دل كے ارادے سے ہو ﴾الاحزاب ( 5 ).

اور اس طرح كا شخص جان بوجھ كر عمدا نماز ضائع نہيں كرتا.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطاء، نسيان، اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے "

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 82 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اگر وہ اس حالت ميں نماز كى ادائيگى كا عزم ركھتا كہ اگر عذر نہ ہوتا تو وہ ضرور نماز ادا كرتا، تو اسے مكمل اجروثواب حاصل ہوگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1907 ).

اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ غزوہ تبوك سے واپس آرہے تھے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو فرمايا تھا:

" بلا شبہ مدينہ ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو مدينہ ميں رہنے كے باوجود تمہارے ساتھ ہرگھاٹى اور وادى اور سفر ميں تمہارے ساتھ رہے، اور اجروثواب ميں شريك ہوئے، انہيں بيمارى نے روك ليا تھا "

صحيح مسلح حديث نمبر ( 1911 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد