تم جب سونے لگو تو چراغ بجھا دو۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@
Sahih Bukhari Hadees # 5624
حدثنا موسى بن إسماعيل ، حدثنا همام ، عن عطاء ، عن جابر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أطفئوا المصابيح إذا رقدتم ، وغلقوا الأبواب ، وأوكوا الأسقية ، وخمروا الطعام والشراب ـ وأحسبه قال ـ ولو بعود تعرضه عليه .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جب سونے لگو تو چراغ بجھا دو۔ دروازے بند کر دو، مشکوں کے منہ باندھ دو اور کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ دو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا خواہ لکڑی ہی کے ذریعہ سے ڈھک سکو جو اس کی چوڑائی میں بسم اللہ کہہ کر رکھ دی جائے۔
Thursday, October 27, 2016
کھانے کا آداب
کھانے کا آداب
@@@@@@@@@@@@@@
Sahih Bukhari Hadees # 5376
حدثنا علي بن عبد الله ، أخبرنا سفيان ، قال الوليد بن كثير أخبرني أنه ، سمع وهب بن كيسان ، أنه سمع عمر بن أبي سلمة ، يقول كنت غلاما في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت يدي تطيش في الصحفة فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يا غلام سم الله ، وكل بيمينك وكل مما يليك . فما زالت تلك طعمتي بعد.
میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور (کھاتے وقت) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@
Sahih Bukhari Hadees # 5378
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا، آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ اور اپنے سامنے سے کھا۔
@@@@@@@@@@@@@@
Sahih Bukhari Hadees # 5376
حدثنا علي بن عبد الله ، أخبرنا سفيان ، قال الوليد بن كثير أخبرني أنه ، سمع وهب بن كيسان ، أنه سمع عمر بن أبي سلمة ، يقول كنت غلاما في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت يدي تطيش في الصحفة فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يا غلام سم الله ، وكل بيمينك وكل مما يليك . فما زالت تلك طعمتي بعد.
میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور (کھاتے وقت) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@
Sahih Bukhari Hadees # 5378
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا گیا، آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ اور اپنے سامنے سے کھا۔
میں تقلید کیوں نہیں کرتا
📚میں تقلید کیوں نہیں کرتا📚..بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
غور سے پڑهیں
مقلد اور مجتهد کے درمیان فرضی مکالمہ
مقلد🔻السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
مجتهد🔺وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
مقلد🔻آپ تقلید کیوں نہیں کرتے؟
مجتهد🔺تقلید قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے.
مقلد🔻لگتا ہے آپ نے یہ آیت نہیں پڑھ رکھی (فاسئلوا أهل الذکر أن کنتم لاتعلمون) اہل ذکر سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے.
مجتهد🔺پڑھ رکھی ہے لیکن اس میں تقلید کہاں سے آگئی؟
مقلد🔻کیوں نہیں اللہ تعالی نے کہا نہیں کہ اگر تمہیں علم نہ ہو تو سوال کر لو.
مجتهد🔺یہی تو میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ سوال تقلید نہیں ہوا کرتا.
مقلد🔻کیوں نہیں سوال کرنا تقلید ہے.
مجتهد🔺اگر سوال کرنا تقلید ہے تو امام ابو حنیفہ بهی اپنے اساتذہ سے سوال کرتے تھے تو وہ بهی مقلد ہوئے
مقلد🔻(سر پر خارش کرتے ہوئے)نہیں جی جو خود تقلید کرتا ہو اس کی تقلید نہیں ہو سکتی سوال کرنا تقلید نہیں ہے.
مجتهد🔺اور تمہارے علماء بهی جاہل ہوئے جو تقلید کرتے ہیں کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے اس میں ہے کہ اگر تمہیں علم نہ ہو (جاہل) ہو تو سوال کرو.
مقلد🔻( منہ بسور کر) آپ کی بات تو ٹهیک لگتی ہے پر وہ.
مجتهد🔺وہ کیا
مقلد: وہ ایک اور آیت آتی ہے جس میں تقلید کا حکم ہے (( یاایها الذین آمنوا اطیعوا اللہ وأطيعوا الرسول والی الأمر منکم)) تو الوالامر کی تقلید کا حکم ہے
مجتهد🔺تو کیا اس آیت پر امام ابوحنیفہ نے عمل کیا
مقلد🔻( کافی دیر سوچ کر) جی کیا قرآن پر عمل نہ کرنے والا مسلمان ہی نہیں.
مجتهد🔺امام ابوحنیفہ نے عمل کیا ہے تو انہوں نے آپ کے بقول تقلید کی اور آپ کہہ چکے ہیں کہ جو تقلید کرتا ہے اس کی تقلید نہیں ہو سکتی تو تیرا امام تو خود مقلد ہو گیا.
مقلد🔻اوہ نہیں ابوحنیفہ مجتهد ہیں انہوں نے عمل نہیں کیا.
مجتهد🔺اچھا ابوحنیفہ نے قرآن پر عمل نہیں کیا تو آپ نے خود کہا ہے کہ جو قرآن پر عمل نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں تو وہ امام کیسے ہیں پهر تو ابوحنیفہ کی امامت ختم ہو گئی.
مقلد🔻مجهے سمجھ آگئی کہ اس آیت میں تو تقلید کا حکم نہیں میں غلطی پر تها چلیں آپ ہی راہنمائی کر دیں کہ کیا کرنا چاہیے؟؟؟؟
مجتهد🔺ہمیں ہر مسئلہ میں قرآن و سنت پر عمل کرنا چاہیے اور جو آیت آپ نے پڑھی ہے اس میں ہے کہ (فإن تنازعتم في شيء فردوه الي الله والرسول) کہ جب تم میں تنازعہ ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ
نہ کہ أولو الأمر کی طرف.
مقلد🔻آپ کی بات تو بالکل ٹهیک ہے لیکن عام آدمی تو قرآن و سنت پڑها ہوا نہیں ہے.
مجتهد🔺کیا عام آدمی فقہ پڑها ہوا ہے
مقلد🔻نہیں
مجتهد🔺تو جس طرح وہ فقہ اور امام ابو حنیفہ کے قول پوچھتا ہے تو وہاں امام عربی کی سنت پوچھا کرے رب کائنات کا فرمان پوچھا کرے اور اس پر عمل کیا کرے.
مقلد🔻فقہ تو شرعی ضرورت ہے.
مجتهد🔺فقہ شرعی ضرورت نہیں شرعی ضرورت اتباع و اطاعت ہے اور کسی صحابی نے تقلید نہیں کی اور نہ ہی کسی تابعی نے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 100 سال سے زیادہ تک تقلید کا نام و نشان تک نہ تھا.
مقلد🔻لیکن فقہ تو امام صاحب نے آسان کر دی ہے.
مجتهد🔺لا حول ولا قوة إلا بالله
آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے فقہ تو قرآن و سنت کے مقابلے میں مشکل ہے قرآن و سنت آسان ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ولقد یسرنا القرآن للذكر فهل من مدکر) ہم نے ہی ذکر (قرآن و سنت) کو آسان کیا ہے تو ہے کوئی غور و فکر کرنے والا.
اور میں مقلدین سے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مباهلہ کریں کہ قرآن و سنت مشکل ہیں اور فقہ آسان ہے.
مقلد🔻ٹهیک ہے مجهے سمجھ آگئی کہ قرآن و سنت ہی آسان ہیں جس کا رب تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ذکر بهی کیا ہے.
مجتهد🔺تو پهر کیا خیال ہے آپ کا
مقلد🔻میں اللہ کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ تقلید نہیں کروں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت میں زندگی بسر کروں گا.
مجتهد🔺اللہ آپ کو استقامت دے اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے.
غور سے پڑهیں
مقلد اور مجتهد کے درمیان فرضی مکالمہ
مقلد🔻السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
مجتهد🔺وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
مقلد🔻آپ تقلید کیوں نہیں کرتے؟
مجتهد🔺تقلید قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے.
مقلد🔻لگتا ہے آپ نے یہ آیت نہیں پڑھ رکھی (فاسئلوا أهل الذکر أن کنتم لاتعلمون) اہل ذکر سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے.
مجتهد🔺پڑھ رکھی ہے لیکن اس میں تقلید کہاں سے آگئی؟
مقلد🔻کیوں نہیں اللہ تعالی نے کہا نہیں کہ اگر تمہیں علم نہ ہو تو سوال کر لو.
مجتهد🔺یہی تو میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ سوال تقلید نہیں ہوا کرتا.
مقلد🔻کیوں نہیں سوال کرنا تقلید ہے.
مجتهد🔺اگر سوال کرنا تقلید ہے تو امام ابو حنیفہ بهی اپنے اساتذہ سے سوال کرتے تھے تو وہ بهی مقلد ہوئے
مقلد🔻(سر پر خارش کرتے ہوئے)نہیں جی جو خود تقلید کرتا ہو اس کی تقلید نہیں ہو سکتی سوال کرنا تقلید نہیں ہے.
مجتهد🔺اور تمہارے علماء بهی جاہل ہوئے جو تقلید کرتے ہیں کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے اس میں ہے کہ اگر تمہیں علم نہ ہو (جاہل) ہو تو سوال کرو.
مقلد🔻( منہ بسور کر) آپ کی بات تو ٹهیک لگتی ہے پر وہ.
مجتهد🔺وہ کیا
مقلد: وہ ایک اور آیت آتی ہے جس میں تقلید کا حکم ہے (( یاایها الذین آمنوا اطیعوا اللہ وأطيعوا الرسول والی الأمر منکم)) تو الوالامر کی تقلید کا حکم ہے
مجتهد🔺تو کیا اس آیت پر امام ابوحنیفہ نے عمل کیا
مقلد🔻( کافی دیر سوچ کر) جی کیا قرآن پر عمل نہ کرنے والا مسلمان ہی نہیں.
مجتهد🔺امام ابوحنیفہ نے عمل کیا ہے تو انہوں نے آپ کے بقول تقلید کی اور آپ کہہ چکے ہیں کہ جو تقلید کرتا ہے اس کی تقلید نہیں ہو سکتی تو تیرا امام تو خود مقلد ہو گیا.
مقلد🔻اوہ نہیں ابوحنیفہ مجتهد ہیں انہوں نے عمل نہیں کیا.
مجتهد🔺اچھا ابوحنیفہ نے قرآن پر عمل نہیں کیا تو آپ نے خود کہا ہے کہ جو قرآن پر عمل نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں تو وہ امام کیسے ہیں پهر تو ابوحنیفہ کی امامت ختم ہو گئی.
مقلد🔻مجهے سمجھ آگئی کہ اس آیت میں تو تقلید کا حکم نہیں میں غلطی پر تها چلیں آپ ہی راہنمائی کر دیں کہ کیا کرنا چاہیے؟؟؟؟
مجتهد🔺ہمیں ہر مسئلہ میں قرآن و سنت پر عمل کرنا چاہیے اور جو آیت آپ نے پڑھی ہے اس میں ہے کہ (فإن تنازعتم في شيء فردوه الي الله والرسول) کہ جب تم میں تنازعہ ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ
نہ کہ أولو الأمر کی طرف.
مقلد🔻آپ کی بات تو بالکل ٹهیک ہے لیکن عام آدمی تو قرآن و سنت پڑها ہوا نہیں ہے.
مجتهد🔺کیا عام آدمی فقہ پڑها ہوا ہے
مقلد🔻نہیں
مجتهد🔺تو جس طرح وہ فقہ اور امام ابو حنیفہ کے قول پوچھتا ہے تو وہاں امام عربی کی سنت پوچھا کرے رب کائنات کا فرمان پوچھا کرے اور اس پر عمل کیا کرے.
مقلد🔻فقہ تو شرعی ضرورت ہے.
مجتهد🔺فقہ شرعی ضرورت نہیں شرعی ضرورت اتباع و اطاعت ہے اور کسی صحابی نے تقلید نہیں کی اور نہ ہی کسی تابعی نے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 100 سال سے زیادہ تک تقلید کا نام و نشان تک نہ تھا.
مقلد🔻لیکن فقہ تو امام صاحب نے آسان کر دی ہے.
مجتهد🔺لا حول ولا قوة إلا بالله
آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے فقہ تو قرآن و سنت کے مقابلے میں مشکل ہے قرآن و سنت آسان ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ولقد یسرنا القرآن للذكر فهل من مدکر) ہم نے ہی ذکر (قرآن و سنت) کو آسان کیا ہے تو ہے کوئی غور و فکر کرنے والا.
اور میں مقلدین سے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مباهلہ کریں کہ قرآن و سنت مشکل ہیں اور فقہ آسان ہے.
مقلد🔻ٹهیک ہے مجهے سمجھ آگئی کہ قرآن و سنت ہی آسان ہیں جس کا رب تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ذکر بهی کیا ہے.
مجتهد🔺تو پهر کیا خیال ہے آپ کا
مقلد🔻میں اللہ کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ تقلید نہیں کروں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت میں زندگی بسر کروں گا.
مجتهد🔺اللہ آپ کو استقامت دے اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے.
بولے جانے والے چند کفریہ کلمات🎀
🎀بولے جانے والے چند کفریہ کلمات🎀
🏒میں یہاں پر کچھ کفریہ کلمات اپنےدوستوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔جن سے ان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض علوم کو ضرور سیکھئے ۔
☄1۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"
☄2۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمر میں بلا لیا"۔
☄3۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے
☄4۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا۔
☄5۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے
☄6۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔
☄7۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا
☄8۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔
☄9۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔
☄10۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے
☄11۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے
☄12۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں
☄13۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔
☄14۔ کسی نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑایا توکافر ہے۔
☄15۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)
☄16۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)
☄17۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔
☄18۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔
☄19۔ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
☄20۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔
☄21۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔
🏒وغیرہ وغیرہ۔۔ مزید تفصیل کےلئے "کفریہ کلمات " نامی کتاب کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
رحمت اللعالمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِمُعظَّم ہے:
📗 ''ان فِتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے، ایک آدَمی صُبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافِر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صُبح کو کافِر ہوگا ۔ نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بدلے فروخت کر دے گا۔ '' (مُسلِم حدیث118ص73)
🌹 درسِ ہدایت:۔ 🌹
اللہ عزوجل کی شان میں ہرگزہرگز کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا چاہے جن سے ان کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ آج کل لوگ بہت لا پرواہی کرتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی شان میں کفریہ الفاظ بول کر ایمان گنوا دیتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں عذاب کے حق دار بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ہمیں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت فرمائے۔ آمین
🏒میں یہاں پر کچھ کفریہ کلمات اپنےدوستوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔جن سے ان کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض علوم کو ضرور سیکھئے ۔
☄1۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"
☄2۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمر میں بلا لیا"۔
☄3۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے
☄4۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا۔
☄5۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے
☄6۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔
☄7۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا
☄8۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔
☄9۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔
☄10۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے
☄11۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے
☄12۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں
☄13۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔
☄14۔ کسی نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑایا توکافر ہے۔
☄15۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)
☄16۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)
☄17۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔
☄18۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔
☄19۔ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
☄20۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔
☄21۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔
🏒وغیرہ وغیرہ۔۔ مزید تفصیل کےلئے "کفریہ کلمات " نامی کتاب کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
رحمت اللعالمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِمُعظَّم ہے:
📗 ''ان فِتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے، ایک آدَمی صُبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافِر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صُبح کو کافِر ہوگا ۔ نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بدلے فروخت کر دے گا۔ '' (مُسلِم حدیث118ص73)
🌹 درسِ ہدایت:۔ 🌹
اللہ عزوجل کی شان میں ہرگزہرگز کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا چاہے جن سے ان کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ آج کل لوگ بہت لا پرواہی کرتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی شان میں کفریہ الفاظ بول کر ایمان گنوا دیتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں عذاب کے حق دار بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ہمیں کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت فرمائے۔ آمین
Wednesday, October 26, 2016
تلاوت ترتیل کل قرآن
میری طرف سے ایک ھدیہ ....
تلاوت ترتیل کل قرآن ، ایک ایک پارہ کی صورت میں ، قاری عبد الباسط کی دلنشین آواز میں :
پھلا پاره 1
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/01.mp3
دوسرا پاره 2
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/02.mp3
تیسرا پاره 3
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/03.mp3
چوتھا پاره 4
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/04.mp3
پانچواں پاره 5
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/05.mp3
چھٹا پاره 6
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/06.mp3
ساتواں پاره 7
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/07.mp3
آٹھواں پاره 8
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/08.mp3
نواں پاره 9
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/09.mp3
دسواں پاره 10
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/10.mp3
گیارھواں پاره 11
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/11.mp3
بارھواں پاره 12
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/12.mp3
تیرھواں پارہ 13
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/13.mp3
چودھواں پارہ 14
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/14.mp3
پندرھواں پارہ 15
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/15.mp3
سولھواں پارہ 16
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/16.mp3
سترھواں پارہ 17
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/17.mp3
اٹھارھواں پارہ 18
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/18.mp3
انیسواں پارہ 19
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/19.mp3
بیسواں پارہ 20
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/20.mp3
اکیسواں پارہ 21
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/21.mp3
بائیسواں پارہ 22
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/22.mp3
تئیسواں پارہ 23
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/23.mp3
چوبیسواں پارہ 24
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/24.mp3
پچیسواں پارہ 25
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/25.mp3
چھبیسواں پارہ 26
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/26.mp3
ستائیسواں پارہ 27
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/27.mp3
اٹھائیسواں پارہ 28
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/28.mp3
انتیسواں پارہ 29
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/29.mp3
تیسواں پارہ 30
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/30.mp3
اس پوسٹ کو دوسروں تک پھنچائے..
جزاك الله خيرا. ...
تلاوت ترتیل کل قرآن ، ایک ایک پارہ کی صورت میں ، قاری عبد الباسط کی دلنشین آواز میں :
پھلا پاره 1
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/01.mp3
دوسرا پاره 2
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/02.mp3
تیسرا پاره 3
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/03.mp3
چوتھا پاره 4
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/04.mp3
پانچواں پاره 5
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/05.mp3
چھٹا پاره 6
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/06.mp3
ساتواں پاره 7
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/07.mp3
آٹھواں پاره 8
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/08.mp3
نواں پاره 9
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/09.mp3
دسواں پاره 10
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/10.mp3
گیارھواں پاره 11
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/11.mp3
بارھواں پاره 12
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/12.mp3
تیرھواں پارہ 13
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/13.mp3
چودھواں پارہ 14
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/14.mp3
پندرھواں پارہ 15
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/15.mp3
سولھواں پارہ 16
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/16.mp3
سترھواں پارہ 17
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/17.mp3
اٹھارھواں پارہ 18
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/18.mp3
انیسواں پارہ 19
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/19.mp3
بیسواں پارہ 20
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/20.mp3
اکیسواں پارہ 21
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/21.mp3
بائیسواں پارہ 22
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/22.mp3
تئیسواں پارہ 23
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/23.mp3
چوبیسواں پارہ 24
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/24.mp3
پچیسواں پارہ 25
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/25.mp3
چھبیسواں پارہ 26
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/26.mp3
ستائیسواں پارہ 27
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/27.mp3
اٹھائیسواں پارہ 28
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/28.mp3
انتیسواں پارہ 29
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/29.mp3
تیسواں پارہ 30
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/30.mp3
اس پوسٹ کو دوسروں تک پھنچائے..
جزاك الله خيرا. ...
Tuesday, October 25, 2016
نماز میں رفع یدین کرنا سنت ہے
نماز میں رفع یدین کرنا سنت ہے
=================
نماز میں رفع یدین کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے ، لہذا اسے اپنانا چاہئے جو اسے نہیں اپناتے وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
(1) نمازرفع یدین کرنے کے دلایل
http://www.urdumajlis.net/threads/%D8%B1%D9%81%D8%B9-%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%84.19001/
(2) ہم نماز میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟
https://plus.google.com/107241036654492185419/posts/3vum6APV7jL
(3) تمام محدثین رفع یدین کرتے تھے ۔
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/10/blog-post_70.html
(4) رفع یدین نہ کرنےکے سلسلے میں احناف کے دلائل کا جائزہ
http://maquboolahmad.blogspot.com/2014/06/blog-post_9407.html
(5) عدم رفع یدین سے متعلق گھمن کے دلائل کا جزئزہ
http://zeeshan316.blogspot.com/2013/03/blog-post_9816.html
(6) رفع یدین کے بارے میں سوالات اور ان کے جوابات
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/10/blog-post_68.html
(7)کیا رفع یدین کی وجہ بغل میں مورتی؟
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/03/blog-post_62.html
(8) رفع یدین اور احناف کا تذبذب
http://www.ahnafexpose.com/index.php/en/answer/article/148-ap-ka-jota-ap-ka-sar
(9) رفع یدین کرنا سنت ہے اس پہ چند کتابوں کا لنک
http://kitabosunnat.com/kutub-library/isbat-raful-yadain.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/raf-ul-yadain-masail-o-ahkamdalaile-o-tehqiq.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/masla-rafa-ul-yadain-aik-ilmi-w-tahqiqi-kawash.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/noor-ul-ainain-fi-isbat-raful-yadain.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/kiarafa-al-yadain-mansookh-he.html
اس سلسلے میں بہت ساری کتابیں ہیں مگر صرف چند کتابوں کا لنک دیا گیا ہے میرے خیال سے کسی کی تسلی کے لئے یہی کافی ہیں ۔
تیارکردہ مقبول احمد سلفی
=================
نماز میں رفع یدین کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے ، لہذا اسے اپنانا چاہئے جو اسے نہیں اپناتے وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
(1) نمازرفع یدین کرنے کے دلایل
http://www.urdumajlis.net/threads/%D8%B1%D9%81%D8%B9-%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%84.19001/
(2) ہم نماز میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟
https://plus.google.com/107241036654492185419/posts/3vum6APV7jL
(3) تمام محدثین رفع یدین کرتے تھے ۔
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/10/blog-post_70.html
(4) رفع یدین نہ کرنےکے سلسلے میں احناف کے دلائل کا جائزہ
http://maquboolahmad.blogspot.com/2014/06/blog-post_9407.html
(5) عدم رفع یدین سے متعلق گھمن کے دلائل کا جزئزہ
http://zeeshan316.blogspot.com/2013/03/blog-post_9816.html
(6) رفع یدین کے بارے میں سوالات اور ان کے جوابات
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/10/blog-post_68.html
(7)کیا رفع یدین کی وجہ بغل میں مورتی؟
http://maquboolahmad.blogspot.com/2015/03/blog-post_62.html
(8) رفع یدین اور احناف کا تذبذب
http://www.ahnafexpose.com/index.php/en/answer/article/148-ap-ka-jota-ap-ka-sar
(9) رفع یدین کرنا سنت ہے اس پہ چند کتابوں کا لنک
http://kitabosunnat.com/kutub-library/isbat-raful-yadain.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/raf-ul-yadain-masail-o-ahkamdalaile-o-tehqiq.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/masla-rafa-ul-yadain-aik-ilmi-w-tahqiqi-kawash.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/noor-ul-ainain-fi-isbat-raful-yadain.html
http://kitabosunnat.com/kutub-library/kiarafa-al-yadain-mansookh-he.html
اس سلسلے میں بہت ساری کتابیں ہیں مگر صرف چند کتابوں کا لنک دیا گیا ہے میرے خیال سے کسی کی تسلی کے لئے یہی کافی ہیں ۔
تیارکردہ مقبول احمد سلفی
عالمِ دین سے شادی کرنے کے فوائد:*
*عالمِ دین سے شادی کرنے کے فوائد:*
آج کل اسکول میں تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر لڑکیوں کا مزاج اس طرح ہوجاتا ہے کہ اگر ان کے نکاح کے لیے کوئی عالم یا داڑھی والا دیندار لڑکا تجویز کیا جائے تو وہ منع کردیتی ہیں کہ ہمیں مولانا اور داڑھی والے سے شادی نہیں کرنی؛ یعنی ہیرو ٹائپ لڑکا ہی چاہیے؛ شاید انہیں مولاناؤں کی خوبیوں اور ان کے ساتھ شادی کرنے کے فوائد کا علم نہیں ورنہ وہ اپنے لیے عالم لڑکے کو ہی ترجیح دیں؛ چنانچہ مندرجۂ ذیل میں چند فوائد کا ذکر کیا جاتا ہے.
1. نیک صالح عالم جہیز کی مانگ نہیں کرتا.
2. عالم اپنی بیوی کے مکمل حقوق سے واقف ہوتا ہے اور حق تلفی نہیں کرتا.
3. عالم اپنی بیوی کو بہت خوش رکھتا ہے.
4. عالم اپنی بیوی کا گھر اور کچن کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا ہے.
5. عالم اپنی بیوی کو پردے میں رکھتا ہے؛ کیوں کہ بے پردہ عورت شیطان کا نوالہ ہوتی ہے.
6. عالم اپنی بیوی کی دنیا و آخرت دونوں کا خیال رکھتا ہے اس لیے اس کو دین دار بناتا ہے، نماز ، روزہ کی تاکید کرتا ہے.
7. عالم کی بیوی کی معاشرے میں الگ ہی شان ہوتی ہے، سبھی عورتیں ادب سے پیش آتی ہیں.
8. عالم اپنی بیوی کی تلخ باتوں پر جلدی غصہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو بہت جلد اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے.
9. عالم اپنی بیوی پر ظلم و ستم نہیں کرتا، اس کو بے جا ڈانٹتا ڈپٹتا نہیں اور نا ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہے.
10. عالم نہ ہی کنجوس ہوتا ہے اور نہ ہی فضول خرچ کرنے والا؛ بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام ضروریات پوری کرتا ہے.
11. عالم سود، جوا ، لاٹری اور تمام حرام کمائی سے بچتا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی محفوظ رکھتا ہے.
12. عالم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتا ہے اور انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے.
13. عالم اپنی بیوی کو روٹھنے نہیں دیتا، اگر روٹھ جائےتو منا لیتا ہے.
14. عالم اپنی بیوی سے بے وفائی نہیں کرتاـ یہی وجہ ہے کہ عالم کے یہاں طلاق کی نوبت کم آتی ہے.
15. عالم معاشرے کا سب سے شریف انسان ہوتا ہے، کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*تنبیه: ان تمام اوصاف کی توقع فارغ التحصیل عالمِ دین سے ہے، مطلق حافظ اور قاری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا.*
آج کل اسکول میں تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر لڑکیوں کا مزاج اس طرح ہوجاتا ہے کہ اگر ان کے نکاح کے لیے کوئی عالم یا داڑھی والا دیندار لڑکا تجویز کیا جائے تو وہ منع کردیتی ہیں کہ ہمیں مولانا اور داڑھی والے سے شادی نہیں کرنی؛ یعنی ہیرو ٹائپ لڑکا ہی چاہیے؛ شاید انہیں مولاناؤں کی خوبیوں اور ان کے ساتھ شادی کرنے کے فوائد کا علم نہیں ورنہ وہ اپنے لیے عالم لڑکے کو ہی ترجیح دیں؛ چنانچہ مندرجۂ ذیل میں چند فوائد کا ذکر کیا جاتا ہے.
1. نیک صالح عالم جہیز کی مانگ نہیں کرتا.
2. عالم اپنی بیوی کے مکمل حقوق سے واقف ہوتا ہے اور حق تلفی نہیں کرتا.
3. عالم اپنی بیوی کو بہت خوش رکھتا ہے.
4. عالم اپنی بیوی کا گھر اور کچن کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا ہے.
5. عالم اپنی بیوی کو پردے میں رکھتا ہے؛ کیوں کہ بے پردہ عورت شیطان کا نوالہ ہوتی ہے.
6. عالم اپنی بیوی کی دنیا و آخرت دونوں کا خیال رکھتا ہے اس لیے اس کو دین دار بناتا ہے، نماز ، روزہ کی تاکید کرتا ہے.
7. عالم کی بیوی کی معاشرے میں الگ ہی شان ہوتی ہے، سبھی عورتیں ادب سے پیش آتی ہیں.
8. عالم اپنی بیوی کی تلخ باتوں پر جلدی غصہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو بہت جلد اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے.
9. عالم اپنی بیوی پر ظلم و ستم نہیں کرتا، اس کو بے جا ڈانٹتا ڈپٹتا نہیں اور نا ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہے.
10. عالم نہ ہی کنجوس ہوتا ہے اور نہ ہی فضول خرچ کرنے والا؛ بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام ضروریات پوری کرتا ہے.
11. عالم سود، جوا ، لاٹری اور تمام حرام کمائی سے بچتا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی محفوظ رکھتا ہے.
12. عالم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتا ہے اور انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے.
13. عالم اپنی بیوی کو روٹھنے نہیں دیتا، اگر روٹھ جائےتو منا لیتا ہے.
14. عالم اپنی بیوی سے بے وفائی نہیں کرتاـ یہی وجہ ہے کہ عالم کے یہاں طلاق کی نوبت کم آتی ہے.
15. عالم معاشرے کا سب سے شریف انسان ہوتا ہے، کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*تنبیه: ان تمام اوصاف کی توقع فارغ التحصیل عالمِ دین سے ہے، مطلق حافظ اور قاری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا.*
Sunday, October 23, 2016
قضا نماز
قضا نماز
@@@@@@@@@@@@@@@@@
قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔
(صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (467
,سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
بھول جانے،سوئے رہنے کی وجہ سےاور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
فرمان رسول ﷺ ہے:
"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
"يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
صحيح بخارى:69
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّل اللَّه سَيِّئَاتهمْ حَسَنَات (الفرقان:70)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
وَإنّي لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طہ:82)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترک كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر :572 صحيح مسلم:1564
کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
جس نے ايک يا زيادہ فرض نمازيں بغير كسى عذر كے ترک كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر ترک كرنا كفر ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرک اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).
اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.
والله اعلم بالصواب
@@@@@@@@@@@@@@@@@
قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔
(صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (467
,سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
بھول جانے،سوئے رہنے کی وجہ سےاور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
فرمان رسول ﷺ ہے:
"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
"يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
صحيح بخارى:69
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّل اللَّه سَيِّئَاتهمْ حَسَنَات (الفرقان:70)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
وَإنّي لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طہ:82)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترک كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر :572 صحيح مسلم:1564
کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
جس نے ايک يا زيادہ فرض نمازيں بغير كسى عذر كے ترک كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر ترک كرنا كفر ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرک اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).
اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.
والله اعلم بالصواب
Sunday, October 16, 2016
कुरआन की आयात या दीनी massage को delete करना कैसा है ?
कुरआन की आयात या दीनी massage को delete
करना कैसा है ?
@@@@@@@@@@@@#######
✳✳➿➿🔳🔳
☝ जो लोग ये कहते है कि कुरआन की आयात सेल फोन📱(मोबाईल) से Delete (डिलीट)करना कयामत की निशानियों मे से है। उसका मुख़्तसर सा जवाब।🅰🔻
🌀 कुरआन की आयात या दीनी massage को delete
करना कैसा है ? 🌀
🔱📙🔱हदीस:-:-
अमल का दारोमदार नियत पर है और हर शख्स को वही मिलता है जिसकी वो नियत करे !
📝
{सही बुखारी शरीफ-हदीस न..5070}
तो अगर आप किसी आयत या दीनी massege को Delete करते हो तो आपकी नियत गलत नहीं होती इसलिए गुनाह नहीं होगा !!✨
🌀आजकल Whatsapp पर इस तरह के बहुत सारे Massage आते रहते हैं ।
✨
🌸💫मेरे दोस्तों सबसे पहली बात तो ये समझले कि कुरआन ए करीम को न मिटाया जा सकता है और न इसमें रहती दुनिया तक कोई तबदिली आ सकती है क्योकि इस मुक़द्दस किताब कुरआन की हिफाज़त की जिम्मेदारी खुद खुदा ने ली है।अल्लाह खुद कलामे पाक में फरमाता है कि- "हमने इस कुरआन को नाज़िल किया और हम ही उसकी हिफाज़त करने वाले(और निगेहबान)है।"(📖सूरः हिज्र 9 पारा 14)✨
💫अब आप बताओ मेरे 👤दोस्तों कि अल्लाह जिस चीज़ की हिफाज़त करे उसे मिटाया या बर्बाद कैसे किया जा सकता है।✨
💠💫दूसरी बात ये कि कुरआन के मिटाने की जहाँ तक बात है या डिलीट करने की तो दोस्तो जब हमें मदरसे में पढ़ाया जाता है तो ब्लैक बोर्ड पर कुरआन की आयतों को लिख कर बच्चों को समझया जाता है और फिर दूसरी आयत लिखने के लिए पहली आयत मिटा दी जाती है !💫
♻अगर इस बात को देखा जाये तो यहाँ भी डिलीट या मिटाने का सिस्टम है तो इस हिसाब से मदरसे को भी बंद कर देना चाहिए !✨
👤दोस्त अगर आपके या मेरे घर में या किसी भी मुस्लिम के घर में बहुत पुराना ज़ईफ कलामे पाक हो और बेहद खस्ता हालत में हो जिसके सफे निकल रहे हों तो ऐसी हालत में उसे आप क्या करेंगे ?✨
💫ऐसी हालत में उसे नदी में बहाया जाये या फिर किसी कुएं में डाला जाए तब तो लोग ऐसा कहेंगे की ये लो ये तो पूरा कुरआन ही मिटा दिया !
🌸💫कुरआन की आयतों को मिटा देने का मतलब ये नही की तुम अपने हाथों से कुरआन को लिखोगे और मिटा दोगे।
बल्कि कुरआन की आयते मिटा देने का मतलब ये है कि तुम उसे पढ़ोगे फिर भी उस पर अमल नही करोगे।
♻💫फिर सिर्फ हाथ से लिखकर मिटा देना या नेट सेल फोन पर टाईप करके Delete कर देना से कोई फर्क नही पढ़ेगा. इन्शाअल्लाह।🌺💫
👤कुछ लोगों का ये भी कहना है के मोबाईल पाक नहीं होता और सही गलत चीजें मोबाईल में रहती इसलिए कुरआन की आयतों को मोबाईल में नहीं रखना चाहिए !✨
💠💫 हम मानते है कि मोबाईल में कुछ लोग गलत चीजें भी रखते हैं और कुरआन की आयतों को भी रखते हैं लेकिन यह मसला तो हमारी ज़ुबान का भी है ज़ुबान से तो हम गाली गलोज भी करते हैं गीबत भी करते हैं झूठ भी बोलते हैं चुगली भी करते हैं और फिर उसी ज़ुबान से कुरआन ए पाक की तिलावत भी करते हैं !✨
💦💫तो ऐसे हाल में क्या कोई ये कहेगा के ज़ुबान कटवा देनी चाहिए या फिर कुरआन की तिलावत उस ज़ुबान से नहीं करनी चाहिए !दोस्तों ऐसा कहना तो बेवकूफी होगा !✨
👤मेरे दोस्तों इस तरह के Massage इस्लाम के दुश्मनों की तरफ से भेजे जाते हैं और भोले भाले हमारे मुस्लिम भाई बीना सोंचे समझे उसे आगे फॉरवर्ड करते जाते हैं जिसकी वजह से जो भी इस्लाम की जानकारी एक दूसरे को मिल रही होती है वो भी मिलना बंद हो जाती है और दुश्मन अपनी चाल में कामयाब हो जाता है !✨
🌸💫मेरे दोस्तों आज इस्लाम दुनिया के हर कोने कोने में बहुत तेजी से फ़ैल रहा है इसलिए दुश्मनाने इस्लाम इसे रोकने की हर तरह की कोशिश करते रहते हैं लेकिन तारीख़ गवाह है हर दौर में हमारी खिलाफत रही है ! पर शर्त ये है के हम अल्लाह के हुक्म और नबी की सुन्नतों पर चलने वाले सच्चे मोमिन बन जाएँ ।
✨
💫अल्लाह हम सबको सही समझ अता फरमाए और गलत सही की पहचान करने की तौफीक अता फरमाए !!✨
आमीन!!
Saturday, October 15, 2016
عیسی علیہ السلام کا نزول
عیسی علیہ السلام کا نزول
Sahih Muslim Hadees # 7268
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْکِلَابِيَّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَکَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِکَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَکَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْکُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيکُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَکُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيکُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ کَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَکَهُ مِنْکُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْکَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ کَسَنَةٍ وَيَوْمٌ کَشَهْرٍ وَيَوْمٌ کَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ کَأَيَّامِکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِکَ الْيَوْمُ الَّذِي کَسَنَةٍ أَتَکْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ کَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَی الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا کَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي کُنُوزَکِ فَتَتْبَعُهُ کُنُوزُهَا کَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَکُ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا کَفَّيْهِ عَلَی أَجْنِحَةِ مَلَکَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ کَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِکَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّی يُدْرِکَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ أَوْحَی اللَّهُ إِلَی عِيسَی إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَی الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَی بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ کَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ حَتَّی يَکُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِکُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَکُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّی يَتْرُکَهَا کَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَکِ وَرُدِّي بَرَکَتَکِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْکُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَکُ فِي الرِّسْلِ حَتَّی أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَکْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَکْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَکْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَکُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَی شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ
ابوخیثمہ زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، یحیی بن جا رب طائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت نو اس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمعان سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے کبھی تحقیر کی (یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے پس جب ہم شام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بارے میں معلوم کرلیا تو فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنہ کو بڑا کر کے بیان کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ دوسرے فتنوں کا زیادہ خوف کرتا ہوں اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوگیا تو تمہارے بجائے میں اس کا مقابلہ کروں گا اور اگر میری غیر موجودگی میں ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرنے والا ہوگا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہوگا بے شک دجال نوجوان گھنگریالے بالوں والا اور پھولی ہوئی آنکھ والا ہوگا گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے ساتھ تشبیہ دیتا ہوں پس تم میں سے جو کوئی اسے پالے تو چاہئے کہ اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے بے شک اس کا خروج شام اور عراق کے درمیان سے ہوگا پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب فساد برپا کرے گا اے اللہ کے بندو ثابت قدم رہنا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ دن جو سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ہمارے لئے ایک دن کی نمازیں پڑھنا کافی ہوں گیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم ایک سال کی نمازوں کا اندازہ کرلینا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی زمین میں چلنے کی تیزی کیا ہوگی آپ نے فرمایا اس بادل کی طرح جسے پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کو کھیں تنی ہوئی ہوں گی پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کر دیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہو جائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گے۔جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں، پھر وہ ایک کڑیل اور کامل الشباب آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ایک تیر کی مسافت پر رکھ دے گا، پھر وہ اس (مردہ) کو آواز دے گا تو وہ زندہ ہوکر چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ دجال کے اسی افعال کے دوران اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے جب وہ اپنے سر کو جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے اور جب اپنے سر کو اٹھائیں گے تو اس سے سفید موتیوں کی طرح قطرے ٹپکیں گے اور جو کافر بھی ان کی خوشبو سونگھے گا وہ مرے بغیر رہ نہ سکے گا اور ان کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام (دجال کو) طلب کریں گے ، اسے باب لد پر پائیں گے تو اسے قتل کردیں گے ، پھر عیسی بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ قوم آئے گی جسے اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا تھا، پس عیسی علیہ السلام ان کے چہروں کو صاف کریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے ۔ پس اسی دوران حضرت عیسی علیہ السلام پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائٰں گے کہ تحقیق میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ پس آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لئے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے نکل پڑیں گے ، ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبری پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائٰیں گے اور ان کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھا اور اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھ محصور ہوجائیں گے ، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لئے بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لئے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالی یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے ، پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی علامات اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی ۔پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے تو اللہ تعالی بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کر لے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے وہ انہیں پھینک دیں گے پھر اللہ تعالی بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی ۔ پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے ، پس ان دنوں ایسی برکت ہوگی کہ ایک انار کو ایک پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے میں سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی گائے قبیلہ کے لوگوں کے لئے کافی ہوجائے گی اور ایک دودھ دینے والی اونٹنی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی اور ایک دودھ دینے والی بکری پوری گھرانے کے لئے کفایت کرجائے گی ، اسی دوران اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے تک پہنچ جاءے گی ، پھر ہر مسلمان اور ہر مومن کی روح قبض کرلی جائے گی اور بد لوگ ہی باقی رہ جائیں گے ، جو گدھوں کی طرح کھلے بندوں جماع کریں گے ، پس انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔
Sahih Muslim Hadees # 7268
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْکِلَابِيَّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَکَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِکَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَکَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّی ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْکُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيکُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَکُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيکُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ کَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَکَهُ مِنْکُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْکَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ کَسَنَةٍ وَيَوْمٌ کَشَهْرٍ وَيَوْمٌ کَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ کَأَيَّامِکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِکَ الْيَوْمُ الَّذِي کَسَنَةٍ أَتَکْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ کَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَی الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا کَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي کُنُوزَکِ فَتَتْبَعُهُ کُنُوزُهَا کَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَکُ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا کَفَّيْهِ عَلَی أَجْنِحَةِ مَلَکَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ کَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِکَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّی يُدْرِکَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ کَذَلِکَ إِذْ أَوْحَی اللَّهُ إِلَی عِيسَی إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَی الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَی بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ کَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ حَتَّی يَکُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِکُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَی اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَکُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّی يَتْرُکَهَا کَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَکِ وَرُدِّي بَرَکَتَکِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْکُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَکُ فِي الرِّسْلِ حَتَّی أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَکْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَکْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَکْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَکُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَی شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ
ابوخیثمہ زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، یحیی بن جا رب طائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت نو اس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمعان سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے کبھی تحقیر کی (یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے پس جب ہم شام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بارے میں معلوم کرلیا تو فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنہ کو بڑا کر کے بیان کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے بارے میں دجال کے علاوہ دوسرے فتنوں کا زیادہ خوف کرتا ہوں اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوگیا تو تمہارے بجائے میں اس کا مقابلہ کروں گا اور اگر میری غیر موجودگی میں ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرنے والا ہوگا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہوگا بے شک دجال نوجوان گھنگریالے بالوں والا اور پھولی ہوئی آنکھ والا ہوگا گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے ساتھ تشبیہ دیتا ہوں پس تم میں سے جو کوئی اسے پالے تو چاہئے کہ اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے بے شک اس کا خروج شام اور عراق کے درمیان سے ہوگا پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب فساد برپا کرے گا اے اللہ کے بندو ثابت قدم رہنا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ دن جو سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ہمارے لئے ایک دن کی نمازیں پڑھنا کافی ہوں گیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم ایک سال کی نمازوں کا اندازہ کرلینا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی زمین میں چلنے کی تیزی کیا ہوگی آپ نے فرمایا اس بادل کی طرح جسے پیچھے سے ہوا دھکیل رہی ہو پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کو کھیں تنی ہوئی ہوں گی پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کر دیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہو جائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گے۔جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں، پھر وہ ایک کڑیل اور کامل الشباب آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ایک تیر کی مسافت پر رکھ دے گا، پھر وہ اس (مردہ) کو آواز دے گا تو وہ زندہ ہوکر چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ دجال کے اسی افعال کے دوران اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے جب وہ اپنے سر کو جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے اور جب اپنے سر کو اٹھائیں گے تو اس سے سفید موتیوں کی طرح قطرے ٹپکیں گے اور جو کافر بھی ان کی خوشبو سونگھے گا وہ مرے بغیر رہ نہ سکے گا اور ان کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام (دجال کو) طلب کریں گے ، اسے باب لد پر پائیں گے تو اسے قتل کردیں گے ، پھر عیسی بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ قوم آئے گی جسے اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا تھا، پس عیسی علیہ السلام ان کے چہروں کو صاف کریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے ۔ پس اسی دوران حضرت عیسی علیہ السلام پر اللہ رب العزت وحی نازل فرمائٰں گے کہ تحقیق میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں۔ پس آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لئے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے نکل پڑیں گے ، ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبری پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائٰیں گے اور ان کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود تھا اور اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھ محصور ہوجائیں گے ، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لئے بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لئے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالی یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے ، پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی علامات اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی ۔پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے تو اللہ تعالی بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کر لے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے وہ انہیں پھینک دیں گے پھر اللہ تعالی بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی ۔ پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے ، پس ان دنوں ایسی برکت ہوگی کہ ایک انار کو ایک پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے میں سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی گائے قبیلہ کے لوگوں کے لئے کافی ہوجائے گی اور ایک دودھ دینے والی اونٹنی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی اور ایک دودھ دینے والی بکری پوری گھرانے کے لئے کفایت کرجائے گی ، اسی دوران اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے تک پہنچ جاءے گی ، پھر ہر مسلمان اور ہر مومن کی روح قبض کرلی جائے گی اور بد لوگ ہی باقی رہ جائیں گے ، جو گدھوں کی طرح کھلے بندوں جماع کریں گے ، پس انہیں پر قیامت قائم ہوگی۔
Thursday, October 13, 2016
اذان دینے کا اجروثواب
اذان دینے کا اجروثواب
==============
مقبول احمد سلفی
دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف، سعودی عرب
بہت سے نمازی اذان دینے سے کتراتے ہیں،اس میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں جبکہ حدیث کی روشنی اذان دینے کی بڑی فضیلت وارد ہے ۔ چند فضائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اذان کی فضیلت جان سکیں اور اس نیکی میں بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(1)عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انیںا خبر دی :
أن أبا سعيدٍ الخدريَّ قال له : إني أراك تحبُّ الغنمَ والباديةَ ، فإذا كنتَ في غنمِكَ أو باديتِكَ ، فأذَّنتَ بالصلاةِ فارفعْ صوتَكَ بالنداءِ ،فإنَّه لا يَسْمَعُ مدى صوتِ المؤذنِ ، جنٌّ ولا إنسٌ ولا شيءٌ إلا شَهِدَ له يومَ القيامةِ .(صحيح البخاري:609)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔
اس حدیث کا آخری ٹکڑا ہے "قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" یعنی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
فائدہ : اس حدیث میں مؤذن کے لئے قیامت میں گواہی کا ذکر ہے ۔ قیامت میں آدمی ایک ایک نیکی کے لئے پریشان ہوگا ایسے میں یہ گواہی آدمی کے لئے نجات کا راستہ ہموار کرے گی ۔اس لئے مؤذن بلند آواز سے اذان دے تاکہ دور تک جن وانس اور ساری چیزوں کو سنائی دے اور وہ گواہی کے کام آسکے ۔
(2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
المؤذِّنُ يُغفرُ لَه مدَى صوتِه . ويستغفرُ لَه كلُّ رطبٍ ويابسٍ . وشاهدُ الصَّلاةِ يُكتبُ لَه خمسٌ وعشرونَ حسنةً ويُكفَّرُ له ما بينَهما(صحيح ابن ماجه:598)
ترجمہ: مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک وتر اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لئے پچیس (25) نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
فائدہ : اس روایت میں ذکر ہے کہ ہرخشک وتر چیز گواہی دے گی گویا اس میں جن وانس ، حیوانات ، نباتات ،جمادات سبھی شامل ہیں یہ بات بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت سے مزید واضح ہوگئی۔
(3)معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المُؤَذِّنون أطولُ الناسِ أعناقًا يومَ القيامةِ .(صحيح مسلم:387)
ترجمہ: مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی ۔
فائدہ : لمبی گردن کے کئی معانی ہیں ، کسی نے لمبی گردن کا مفہوم لیتے ہوئے کہااللہ کی رحمت کی طرف دیکھنے والا یعنی زیادہ اجر کا باعث۔ کسی نے اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے جب قیامت میں لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردن لمبی کردی جائے گی ۔ قاضی عیاض نے اعناق میں الف کو زیرکے ساتھ کہا ہے جس کا معنی جنت کی طرف جلدی جانے والا۔
(4)ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
لو يعلمُ الناسُ ما في النداءِ والصفِّ الأولِ ، ثم لم يجدُوا إلا أن يستهِموا عليه لاسْتهَموا عليه (صحيح البخاري:615)
ترجمہ: اگر لوگوں كو اذن اور پہلى صف كے اجروثواب كا علم ہو تو اور اگر انہيں اس كے ليے قرعہ اندازى بھى كرنا پڑے تو وہ قرعہ اندازى ضرور كريں۔
فائدہ : اس حدیث میں بھی اذان کے بے پناہ اجر کا ذکر ہے وہ اس طرح کہ اگر لوگوں کو اذان کا اجر معلوم ہوجائے اور اذان دینے کے لئے اپنا نام قرعہ اندازی سے نکالنا پڑے تو بھی ایسا کرنے میں پیچھے نہ ہٹیں۔
(5) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من أذَّنَ ثِنتَي عشرةَ سنةً ، وجبَتْ لَه الجنَّةُ ، وَكُتبَ لَه بتأذينِهِ في كلِّ يومٍ ستُّونَ حسَنةً ، ولِكُلِّ إقامةٍ ثلاثونَ حَسنةً(صحيح ابن ماجه: 600)
ترجمہ: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اس کے لئے ہر روزکی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں۔
فائدہ : یہ حدیث بالکل واضح ہے جو بارہ سال تک اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔
کام بہت سہل ہے اور انعام بہت بڑا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اذان ہی سے لوگوں کو نماز کی خبر ملتی ہے اور لوگ کام کاج چھوڑکر مسجد کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے جمعہ کے تعلق سے سورہ جمعہ میں کیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعہ: 9)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔
مزید برآں جو بارہ سال تک اذان دیتا رہے گویا اس سے بارہ سال کی نماز بھی کبھی نہیں چھوٹے گی وہ ہمیشہ تکبیراولی کے ساتھ نما زادا کرتا رہے گا بلکہ خود انہوں نے ہی اقامت کہی ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
مَن صلَّى للَّهِ أربعينَ يومًا في جماعةٍ يدرِكُ التَّكبيرةَ الأولَى كُتِبَ لَه براءتانِ : براءةٌ منَ النَّارِ ، وبراءةٌ منَ النِّفاقِ(صحيح الترمذي: 241)
ترجمہ: جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات۔
اذان دینے والوں کے لئے نبی ﷺ نے بطور خاص دعا بھی کی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الإمامُ ضامنٌ والمؤذنُ مؤتمنٌ اللهم أرشدِ الأئمةَ واغفرْ للمؤذنِين.(صحيح أبي داود:517)
ترجمہ: امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کو ( صحیح علم و عمل ) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے ۔
گویا مؤذن کو اذان کی برکت سے بہت ساری نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے ، نماز کے وقت سے پہلے مسجد میں حاضرہونا، مسجد کی صفائی وغیرہ کا اہتما م کرنا، اذان دے کر سنتوں کی ادائیگی پھر نماز کے لئے انتظارکرنا، نماز بعد بھی سب سے آخر میں جانا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظارکرنا، باجماعت نماز اداکرنا وغیرہ ۔ ان سب نیکوں کے لئے مؤذ ن کو گناہوں سے مغفرت مل جاتی ہے اور کیوں نہ ہو نبی ﷺ نے ان کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں بھی ان لوگوں میں بنا جن کے لئے جنت واجب کردی جاتی ہے ۔ اللھم آمین
☝اسے پڑھیں ، عمل کریں اور شیئر کریں تاکہ وہ بھی جان سکے اور عمل کرسکے ۔ جزاک اللہ خیرا
==============
مقبول احمد سلفی
دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف، سعودی عرب
بہت سے نمازی اذان دینے سے کتراتے ہیں،اس میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں جبکہ حدیث کی روشنی اذان دینے کی بڑی فضیلت وارد ہے ۔ چند فضائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اذان کی فضیلت جان سکیں اور اس نیکی میں بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(1)عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انیںا خبر دی :
أن أبا سعيدٍ الخدريَّ قال له : إني أراك تحبُّ الغنمَ والباديةَ ، فإذا كنتَ في غنمِكَ أو باديتِكَ ، فأذَّنتَ بالصلاةِ فارفعْ صوتَكَ بالنداءِ ،فإنَّه لا يَسْمَعُ مدى صوتِ المؤذنِ ، جنٌّ ولا إنسٌ ولا شيءٌ إلا شَهِدَ له يومَ القيامةِ .(صحيح البخاري:609)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔
اس حدیث کا آخری ٹکڑا ہے "قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" یعنی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
فائدہ : اس حدیث میں مؤذن کے لئے قیامت میں گواہی کا ذکر ہے ۔ قیامت میں آدمی ایک ایک نیکی کے لئے پریشان ہوگا ایسے میں یہ گواہی آدمی کے لئے نجات کا راستہ ہموار کرے گی ۔اس لئے مؤذن بلند آواز سے اذان دے تاکہ دور تک جن وانس اور ساری چیزوں کو سنائی دے اور وہ گواہی کے کام آسکے ۔
(2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
المؤذِّنُ يُغفرُ لَه مدَى صوتِه . ويستغفرُ لَه كلُّ رطبٍ ويابسٍ . وشاهدُ الصَّلاةِ يُكتبُ لَه خمسٌ وعشرونَ حسنةً ويُكفَّرُ له ما بينَهما(صحيح ابن ماجه:598)
ترجمہ: مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک وتر اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لئے پچیس (25) نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
فائدہ : اس روایت میں ذکر ہے کہ ہرخشک وتر چیز گواہی دے گی گویا اس میں جن وانس ، حیوانات ، نباتات ،جمادات سبھی شامل ہیں یہ بات بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت سے مزید واضح ہوگئی۔
(3)معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المُؤَذِّنون أطولُ الناسِ أعناقًا يومَ القيامةِ .(صحيح مسلم:387)
ترجمہ: مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی ۔
فائدہ : لمبی گردن کے کئی معانی ہیں ، کسی نے لمبی گردن کا مفہوم لیتے ہوئے کہااللہ کی رحمت کی طرف دیکھنے والا یعنی زیادہ اجر کا باعث۔ کسی نے اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے جب قیامت میں لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردن لمبی کردی جائے گی ۔ قاضی عیاض نے اعناق میں الف کو زیرکے ساتھ کہا ہے جس کا معنی جنت کی طرف جلدی جانے والا۔
(4)ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
لو يعلمُ الناسُ ما في النداءِ والصفِّ الأولِ ، ثم لم يجدُوا إلا أن يستهِموا عليه لاسْتهَموا عليه (صحيح البخاري:615)
ترجمہ: اگر لوگوں كو اذن اور پہلى صف كے اجروثواب كا علم ہو تو اور اگر انہيں اس كے ليے قرعہ اندازى بھى كرنا پڑے تو وہ قرعہ اندازى ضرور كريں۔
فائدہ : اس حدیث میں بھی اذان کے بے پناہ اجر کا ذکر ہے وہ اس طرح کہ اگر لوگوں کو اذان کا اجر معلوم ہوجائے اور اذان دینے کے لئے اپنا نام قرعہ اندازی سے نکالنا پڑے تو بھی ایسا کرنے میں پیچھے نہ ہٹیں۔
(5) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من أذَّنَ ثِنتَي عشرةَ سنةً ، وجبَتْ لَه الجنَّةُ ، وَكُتبَ لَه بتأذينِهِ في كلِّ يومٍ ستُّونَ حسَنةً ، ولِكُلِّ إقامةٍ ثلاثونَ حَسنةً(صحيح ابن ماجه: 600)
ترجمہ: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اس کے لئے ہر روزکی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں۔
فائدہ : یہ حدیث بالکل واضح ہے جو بارہ سال تک اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔
کام بہت سہل ہے اور انعام بہت بڑا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اذان ہی سے لوگوں کو نماز کی خبر ملتی ہے اور لوگ کام کاج چھوڑکر مسجد کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے جمعہ کے تعلق سے سورہ جمعہ میں کیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعہ: 9)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔
مزید برآں جو بارہ سال تک اذان دیتا رہے گویا اس سے بارہ سال کی نماز بھی کبھی نہیں چھوٹے گی وہ ہمیشہ تکبیراولی کے ساتھ نما زادا کرتا رہے گا بلکہ خود انہوں نے ہی اقامت کہی ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
مَن صلَّى للَّهِ أربعينَ يومًا في جماعةٍ يدرِكُ التَّكبيرةَ الأولَى كُتِبَ لَه براءتانِ : براءةٌ منَ النَّارِ ، وبراءةٌ منَ النِّفاقِ(صحيح الترمذي: 241)
ترجمہ: جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات۔
اذان دینے والوں کے لئے نبی ﷺ نے بطور خاص دعا بھی کی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الإمامُ ضامنٌ والمؤذنُ مؤتمنٌ اللهم أرشدِ الأئمةَ واغفرْ للمؤذنِين.(صحيح أبي داود:517)
ترجمہ: امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کو ( صحیح علم و عمل ) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے ۔
گویا مؤذن کو اذان کی برکت سے بہت ساری نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے ، نماز کے وقت سے پہلے مسجد میں حاضرہونا، مسجد کی صفائی وغیرہ کا اہتما م کرنا، اذان دے کر سنتوں کی ادائیگی پھر نماز کے لئے انتظارکرنا، نماز بعد بھی سب سے آخر میں جانا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظارکرنا، باجماعت نماز اداکرنا وغیرہ ۔ ان سب نیکوں کے لئے مؤذ ن کو گناہوں سے مغفرت مل جاتی ہے اور کیوں نہ ہو نبی ﷺ نے ان کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں بھی ان لوگوں میں بنا جن کے لئے جنت واجب کردی جاتی ہے ۔ اللھم آمین
☝اسے پڑھیں ، عمل کریں اور شیئر کریں تاکہ وہ بھی جان سکے اور عمل کرسکے ۔ جزاک اللہ خیرا
دسویں محرم الحرام کی رسومات کا شرعی حکم
دسویں محرم الحرام کی رسومات کا شرعی حکم
================
مقبول احمد سلفی
دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ۔طائف
یکم محرم الحرام کی ابتداء ہی سے بدعات وخرافات کی رسمیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ کچھ رسمیں کھانے پکانے سے متعلق ہیں تو کچھ رسمیں ماتم وعزاسے متعلق ۔ اور کچھ رسمیں شرک وبدعات سے متعلق۔
جیساکہ ہمیں معلوم ہے یہ مہینہ اشہرحرم میں سے ہے ۔اس لئے جہاں ایک طرف اس مہینے کی حرمت کو بچانا ہے وہیں اس مہینے کے افضل اعمال میں سے روزہ رکھنا ہے اس وجہ سے جس قدر ہوسکے روزہ رکھنا ہے ۔ کم از کم عاشوراء کا روزہ ۔ مگر افسوس صد افسوس بدعتی لوگوں نے شیعہ کی تقلید میں اس مہینے کو ایک طرف غم کا مہینہ قرار دے کر بدعات وخرافات کا ارتکاب کیا تو دوسری طرف سبیل حسین اور نذرنیاز کے نام پہ نوع بنوع کھانے کا اہتمام کیا۔ کجا حرمت محرم ،کجا صوم عاشوراء ؟ ایسے حالات میں ہمیں ان رسم ورواج کا جائزہ لینا ہے تاکہ اپنا ایمان وعمل سلامت رکھ سکیں۔
(1)مجالس عزا ومرثیہ : ایک سے دسویں محرم تک مجالس عزاداری قائم ہوتی ہیں جن میں ماتم کیا جاتا ہے خصوصا کربلاسے متعلق جھوٹی اور فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ اس پس منظر میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر درپردہ حملے کئے جاتے ہیں ۔جیسے شیعہ کھلم کھلا صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اسی طرح یہ چاہتے ہیں کہ ہماری طرح مسلمان بھی صحابی کو گالی دے کر اپنا ایمان ضائع کریں۔ بغیر ثبوت کے یزید کو سب وشتم کیا جاتاہے ۔یاد رہے ہم مسلمانوں کو اسلام نے ماتم سے منع کیا ہے جو ماتم کرے یا ماتم کی مجلس قائم کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ليس مِنَّا من ضربَ الخدودَ ، وشَقَّ الجيوبَ ، ودعا بدَعْوَى الجاهليَّةِ .(صحيح البخاري:1297)
ترجمہ: جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیا اور دور جاہیلت کی پکار لگائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اسی طرح شہادت حسین اور ماتم کے پس منظر میں جس طرح صحابی رسو ل امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کا جو دروازہ کھولاجاتا ہے ایسے لوگ نبی ﷺ کا یہ فرمان سن لیں ۔
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم :لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه۔(صحيح البخاري:3673،صحيح مسلم:2541)
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، کیونکہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔
یہاں تک کہ بغیر کسی قطعی ثبوت کے یزید کو گالی دینا بھی فسق وفجور ہے ۔ یزید ایک طرف صحابی رسول کا بیٹا ہے تو دوسری طرف ان کے لئے جنت کی بشارت ہے ۔ حدیث رسول ﷺ کی حدیث کی روشنی میں بھی اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یزید نواسہ رسول کو قتل کرہی نہیں سکتا کیونکہ نبی ﷺ ایسے شخص کو مغفور کہہ ہی نہیں سکتے جو قاتل ہو۔ اس پر میرا ایمان کامل ویقین واثق ہے ۔
ہمیں تو ایک عام مسلمان کی توہین سے بھی بچنا ہے ۔ نبی ﷺ کا حکم ہے ۔
كَسرُ عَظمِ الميِّتِ كَكَسرِهِ حيًّا(صحيح أبي داود: 3207(
ترجمہ : میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا۔
یہاں ہڈی توڑنے سے مراد میت کی توہین کرناہے جیساکہ طیبی نے کہا ہے ۔
یہ الگ مسئلہ ہے کہ کسی کی وفات پہ تین دن سوگ مناسکتے ہیں ۔ سوگ منانا تین دن جائز ہے مگر ماتم کرنا یعنی رونا، پیٹنا، گریبان چاک کرنا ، نوحہ کرنا کبھی بھی جائز نہیں ہے ۔
(2) ماتمی ہیئت وکیفیت: سیاہ لباس پہنا، غسل چھوڑدینا، زیورات اتاردینا،چولہے اوندھے کردینا،نوبیاہی عورتوں کا میکہ میں قیام کرنا وغیرہ سارے ماتمی اعمال ہیں ۔ اور میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ سوگ صرف تین دن جائز ، پھرکبھی اس میت كا دوسرے یا تیسرے سال سوگ نہیں منانا ہے۔اور ماتم کسی بھی قسم کی جائز نہیں ہے ۔ اور پھر سالہا سال ماتم منانا اسے سنت کا قائم مقام بناناہے ۔ ایسے لوگوں کو نبی ﷺکا یہ فرمان سناتاہوں ۔
من سنَّ في الإسلامِ سُنَّةً حسنةً ، فعُمِل بها بعده ، كُتِبَ له مثلُ أجرِ مَن عمل بها . ولا ينقصُ من أجورِهم شيءٌ . ومن سنَّ في الإسلامِ سُنَّةً سيئةً ، فعُمِل بها بعدَه ، كُتب عليه مثلُ وِزرِ من عمل بها ، ولا ينقصُ من أوزارِهم شيءٌ(صحيح مسلم:1017(
ترجمہ : جس کسی نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس پر بعد میں عمل ہونے لگا تو اس کے لئے بھی اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر لکھا جائے گااور کسی کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ اور جس کسی نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا اور بعد میں اس پر عمل کیا جانے لگا تواس کے لئے اس پر عمل کرنے والے کے برابر گناہ لکھا جائے گا اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ماتم کی ساری رسمیں شیعہ کی ایجاد ہیں ۔ 352 ہجری میں غالی شیعہ ابن بویہ نے دوکانیں بند کرنے ، ماتمی لباس لگانے ، چہرہ نوچنے، گریبان چاک کرنے ، عورتوں کو سیاہ لباس لگانے ، ماتم کرتے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی چھاتیاں پیٹتے نکلنے کا حکم دیا۔ شیعہ نے یہ حکم سنیوں پر بھی بالجبر نافذ کیا جو آج تک چلتا آرہاہے یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی شیعہ حکمرانوں کے دور میں رواج پاگیا۔
(3) قبروقبرستان کی رونق : محرم کی ابتداء ہی سے قبروں کی صفائی ، لپائی پتائی اور قبرستان کو بارونق بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ دس محرم کو قبریں منور اور قبرستان بارونق ہوجاتا ہے ۔ پھر مردوعورت ، جوان بوڑھے ، چھوٹے بڑے تمام ہجوم کے ساتھ قبروستان پہنچتے ہیں جہاں میلہ لگاہوتا ہے ۔ پھول ، مالا، اگربتی ، موم بتی کاروبار ایک طرف اور عورت ومرد کا اختلاط دوسری طرف ۔ پھر قبروں پہ نذرونیاز، پھول مالے اور اگربتی وموم بتی کی رسمیں انجام دینا ،قل وفاتحہ سے مردوں کو ثواب بخشنا، اور ان سے استغاثہ کرنا ۔
قبروں کی زیارت مسنون عمل ہے مگر قبروں کو میلہ ٹھیلہ کی جگہ بنانا، اس کو سجدہ کرنا، اس سے مراد مانگنا، اس کے لئے نذرونیازکرنا، وہاں نماز پڑھنا یہ سب شرکیہ وبدعیہ اعمال ہیں ۔ ان چیزوں سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے :
اللهم لا تَجْعَلْ قبري وثنًا يُعْبَدُ، اشتد غضبُ اللهِ على قومٍ اتخذوا قبورَ أنبيائِهم مساجدَ(تخريج مشكاة المصابيح للالبانی : 715، اسنادہ صحیح)
ترجمہ: یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
عورتوں کا وہاں اختلاط حرام ہے، قل وفاتحہ ، اگربتی وموم بتی کی رسم بدعت ہے اورقبروں کو لیپنا پوتنا،قبرستان کو بارونق بنانا اس بات کی علامت ہے کہ ایسا آدمی قبر کا پجاری اور آخرت سے مغفل ہے ورنہ جس سے عبرت لینی ہے اسے چمکانا نہیں ہے وہاں آنسو بہانا ہے اور آخرت کی یاد تازہ کرنی ہے۔
(4) امام حسین کے نام کی نذرونیاز اورسبیل : یہ مہینہ مکمل نذرونیاز کا ہی ہے ۔شروع دن سے خواتین گھروں میں نذرونیاز کا خوب اہتمام کرتی ہیں ۔کھچڑا، حلیم،بریانی ، مٹرپلاؤ،زردہ اور فرنی وغیرہ پکائے جاتے ہیں ۔اسے لوگوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے اور قبروں ودرگاہوں پر بطور نذر پیش کیا جاتا ہے خصوصاعلی ہجویری المعروف داتا گنج بخش،حضرت میاں میر،حضرت پیر مکی،حضرت مادھو لال حسین،حضرت خواجہ طاہر بندگی،حضرت عنایت حسین قادری،حضرت موج دریا اور دیگر درگاہوں پر۔ امام حسین کی نذرونیاز بھی بطور خاص پیش کی جاتی ہے ۔
غیراللہ کے نام کے چڑھاوے ، نذر، قربانی، ذبیحہ سب شرک کے قبیل سے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ (البقرة: 173)
ترجمہ : تم پر مردہ اور (بہاہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہروہ چیز جس پراللہ کے سوا دوسروں کا نام پکاراگیاہوحرام ہے ۔
اسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی سبیلیں لگائی جاتی ہے ۔ دلیل میں کبھی کہتے ہیں کہ ان پر پانی بند کیا گیاتھا تو کبھی کہتے ہیں :" جس شخص نے عاشوراء کے روز اپنے اہل و عیال (کے رزق کے معاملہ) پر فراخی وکشادگی کی، اللہ تعالیٰ سال بھر اس پر کشادگی فرماتے رہیں گے۔"
اولا پانی بند کرنے والی بات ہی غلط ہے ۔ اگرمان بھی لیا جائے تو دس محرم جو کہ عاشوراء کا دن ہے آج پانی کی سبیل نہیں لگنی چاہئے ۔ آل بیت اور محمد ﷺ سے محبت کرنے والو ں کو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہئے ۔ صحابہ سمیت نبی ﷺ کو شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور کرکے دانا پانی بند کیا گیا کیا ہم صحابہ اور نبی ﷺ کی یاد میں اپنے اوپر تین سال تک دانہ پانی بند کرتے ہیں ؟۔ پیٹ کے پجاری کبھی ایسا نہیں کرسکتے انہیں بہانہ بنابناکر اچھا اچھا کھانے کی لت پڑی ہے ۔ اس کام کے لئے جو حدیث پیش کی جاتی ہے موضوع ومن گھڑت ہے ۔ اس لئے اس کام سے ہمیں کلیۃ باز رہنا ہے ۔
(5) دوپر والے گھوڑوں کا جلوس: یہ گھوڑا جس کا نام ذوالجناحین ہوتا ہے شکلا ہندؤں کی مورتی سے ملتا ہے ۔ اسے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکالاجاتا ہے اور اس میں شرکت باعث ثواب سمجھاجاتاہے ۔ یہ منظر دیکھ کر ہندوقوم اور مسلم قوم کا فرق مٹ سا جاتاہے ۔اسلام میں مورتی کا تصور ہی نہیں ہے ، اس پر مستزاد اس کے جلوس میں شرکت باعث اجر سمجھنا یہ اللہ کی عبادت میں شامل کرنا ہے۔ اسی طرح سے غیراللہ کی عبادت کا دروازہ کھلتا ہے ۔ بے جان شئ کسی نفع ونقصان کا مالک نہیں مگر اسے اس قدر درجہ دینا اپنی دیگر عبادتوں کو ضائع کرنا ہے ۔ الحفظ والامان
(6) رسم تعزیہ : تعزیہ کی وہی ایجاد ہے جو اوپر ماتم کی ایجاد میں دو نمبر شق کے تحت مذکور ہے ۔ یعنی یہ شیعہ کی ایجاد ہے ۔ پھرواقعہ کربلا کو کافی رنگ وروغن دے کر بیان کیاگیا تاکہ اس کی ایک عجیب وغریب تاریخ شہادت بن سکے ۔ اس کے لئے مبالغہ آمیز جھوٹے قصے کہانیاں وضع کئے گئے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کربلا سے متعلق یہ سب عجیب وغریب قصے، جھوٹے افسانے، بناوٹی کہانیاں شیعہ حضرات کے توسط سے پھیلائے گئے ہیں جن میں ابومخنف لوط بن یحی،محمد بن سائب کلبی اور ہشام بن سائب کلبی وغیرہ شامل ہیں۔
تعزیہ جو کہ امام حسین کی قبر کی نقل ہے جسے کاغذوں ، بانس اور کمچیوں سے تیار کیا گیاہوتا ہے ۔ یہ ماتم کی حد وانتہاہے ۔ اس میں انسانی جسم کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ایسے اعمال وعقائد پائے جاتے ہیں جن سے ایمان دل سے نکل جاتا ہے ۔
٭ تعزیہ میں موجودقبر امام کو زندہ تصور کیا جاتا ہے اور انہیں عالم الغیب سمجھاجاتاہے ، ان کی تعظیم بجالائی جاتی ہے یہاں تک کہ انہیں مدد کے لئے بھی پکارا جاتا ہے ۔
٭ جب تعزیہ اٹھایا جاتا ہے تو چھوٹے بچے اس کے نیچے سے گذارے جاتے ہیں اس عقیدے سے کہ امام صاحب کی پناہ میں آجائیں گے۔
٭ جس طرح مزار پہ قبرپرست سجدہ کرتاہے ،قیام کرتاہے ، نذرمانتاہے، استغاثہ کرتاہےہوبہو وہی عقیدہ اور وہی عمل یہاں بھی انجام دیا جاتا ہے ۔
٭ تعزیہ کے جلوس میں شرکیہ مرثیہ ڈھول وطبلے کی آواز پر گائے جاتے ہیں ۔ اور اسلام کے نام پر شرمناک کرتب وکھیل کا مظاہرہ ہوتاہے ۔ بدن کو آگ وتلوار سے نقصان پہنچایاجاتاہے ۔
٭ اس جلوس میں مسلمان عورتوں کا ہجوم مردوں کے شانہ بشانہ ہوتا ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں نیم برہنہ ، بال کھولے دھمال ڈال رہی ہوتی ہیں ۔
٭ بڑے چھوٹے سب مل کر ایک ساتھ ناچتے گاتے اور حیاسوز حرکتیں کرتے ہیں ۔
ان کے علاوہ نہ جانے کیا کیا کام انجام دئے جاتے ہیں ؟ ، بھلا ان کاموں کا کربلا سے، شہادت سے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے کیا واسطہ ؟
ان کاموں کا واقعہ کربلا سے تو کیا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اکثر شرک میں داخل ہیں اور شرک کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا(النساء : 116)
ترجمہ : بے شک اللہ یہ گناہ ہرگز نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ اسلامی کا ایک دلخراش واقعہ ہے اس سے کسی کو انکار نہیں مگر لوگوں نے اس واقعہ کی وجہ سے اسلامی تاریخ کی ساری شہادتوں کے واقعات بھلادئے ۔ خلفاء اربعہ میں سے تین کی شہادت ہوئی کسی کا ماتم، تعزیہ اور غم نہیں منایا جاتا، نہ ہی تذکرہ کیا جاتا ہے صرف واقعہ کربلا کی کیوں اس قدر تشہیر کی جاتی ہے ؟ جب اس کی حقیقت جانیں گے تو پتہ چلے یہ سب شیعہ کی کارستانی ہے وہ کربلا کی آڑ میں اسلام کا چہرہ مسخ کررہا ہے ، اس بہانے مسلمانوں میں شرک وبدعات پھیلاتاجارہاہے ، صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے ، ایک مسلمان کو دوسرے کے خلاف ورغلایاجاتا ہے تاکہ مسلمان کی طاقت کبھی مجتمع نہ ہوسکے ۔ ان چیزوں کے بارے میں ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی کب ملا ؟
اللہ کے واسطے حرمت مہینے کا احترام کریں اور اس میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین
Saturday, October 8, 2016
🏼حنفیت کی اہل حدیث کے خلاف اس طرح کی گفتگو کہ اہل حدیث برصغیر تک محدود ایک فرق
👈🏼حنفیت کی اہل حدیث کے خلاف اس طرح کی گفتگو کہ اہل حدیث برصغیر تک محدود ایک فرقہ ہے
🎯اہل حدیث کا وجود کب سے ہے ؟
اس سوال کے جواب میں بہت سارے لوگ غلط رخ پر تحقیق کرنے لگتے ہیں ، اور نام ’’اہل حدیث‘‘ کے پیچھے پڑجاتے ہیں کہ یہ نام کب سے استعمال ہورہا ہے !!! سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی چیز کے وجودکی تاریخ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی چیز کی تاریخ اس کے نام کے ذریعہ معلوم کی جاتی ہے یا اس کی خوبیوں واوصاف اورمادے کے ذریعہ ؟ سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے وجود کی تاریخ معلوم کرنا ہو تو صر ف اس کے نام سے یہ چیز ہرگزمعلوم نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ہمیں اس کے اوصاف اورخوبیوں اورمادوں کو دیکھ کر ہی پتہ لگانا ہوگا کہ اس چیز کا وجود کب سے ہے؟ آئیے اسی بات کوہم چندمثالوں سے سمجھتے ہیں ۔ سرزمین کی مثال : سرزمین کی مثال لیجئے اگرکوئی پوچھے کہ دنیا میں سرزمین پاکستان کا وجود کب سے ہے ؟ توکیا اس کا جواب یہ ہوگا کہ تقسیم ہندکے بعد؟ کیا تقسیم ہند سے پہلے اس سرزمین کا وجود نہ تھا؟ یقینا اس سرزمین کا وجود تھا لیکن اس کانام پاکستان بعدمیں پڑا اوربعد میں یہ الگ نام پڑجانے سے یہ سرزمین نئی نہیں ہوجائے گی۔ شہرکی مثال: ہندوستان کا شہر ممبئی پوری دنیا میں مشہور ہے اگرکوئی سوال کرے کہ ہندوستان میں اس کا وجود کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا کہ سترہ اٹھارہ سال سے ؟ کیونکہ اس سے قبل اس کا نام بمبئی تھا ممبئی نہیں ، یقینا ممبئی یہ نیا نام ہے،تو کیا اس شہر کے نام میں تبدیلی آجانے اس شہر کے وجود کی تاریخ بدل جائے گی؟ ہرگز نہیں۔ اشخاص کی مثال: بہت سارے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام بدل دیتے ہیں ، یعنی عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ نیا نام رکھ لیتے ہیں ، تو کیا اس نئے نام کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش بھی بدل جائے گی؟ ایک نومسلم جس نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھ لیا اگرکسی سے سوال ہوکہ اس دنیا میں وہ کب سے ہے؟ توکیا وہ تاریخ بتلائی جائے گی جب اس نے عبداللہ نام رکھا یا وہ تاریخ جب وہ پیدا ہوا؟ مذہب کی مثال: اگوکوئی سوال کرے کہ کرسچن (Christian )مذہب اس دینا میں کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا ، کہ جب سے اس لفظ کا وجود ہواہے؟ یا یہ کو جب سے عیسی علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے؟ یقینا مذہب عیسائیت کا یہ نام بعد میں اختیار کیا گیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے قبل اس مذہب کا وجود نہ تھا۔ عود الی المقصود: مسلک کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی مسلک کے نئے پرانے کا فیصلہ اس کے نام سے ہرگزنہیں ہوگا بلکہ اس کے منہج ،عقائد اوراصولوں سے ہوگا،
اگرکوئی گروہ نئے منہج اوراصولوں کا پا پند ہوتو وہ بھلے اپنے لئے کوئی پرانہ نا م منتخب کرلے ایسا کرنے سے اس کا مسلک پرانا نہیں ہوجائے گا، اسی طرح اگرکوئی گروہ قدیم منہج اوراصولوں پرگامزن ہوتو گرچہ وہ اپنے لئے کوئی نیا نام چن لے اس سے اس کا مسلک نیا نہیں ہوجائے گا،اس لئے جب بھی یہ پتہ لگانا ہو کہ کون سامسلک کب سے ہے تو اس کے نام کے پیچھے پڑنے کے بجائے اس کے منہج اوراصول کا پتہ لگائیے کہ ان کا وجود کب سے ہے ،اگرمنہج اوراصول نیا ہے تو مسلک نیا ہے اوراگرمنہج واصول قدیم ہے تو مسلک بھی قدیم ہے۔ جہاں تک نام کا معاملہ ہے تویہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر صر ف اس پہلو سے گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہ نام درست ہے یا نہیں ، لیکن یہ چیزقدامت وحداثت کی دلیل کبھی نہیں بن سکتی۔ یعنی اگرنام نیا ہو لیکن عقائدواصول قدیم ہوں تو مسلک قدیم ہی ہوگا، اوراگر نام قدیم ہولیکن عقائدواصول نئے ہوں تو مسلک نیا ہی ہوگا، پرانا نام رکھ لینے سے نہ توکوئی جدید مسلک قدیم ہوجائے گا اورنا ہی نیا نام رکھ لینے سے کوئی قدیم مسلک جدید بن سکتاہے،بہرحال مسلک کے ناموں کا ان کے وجود کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔ اب اگر مسلک اہل حدیث کی تاریخ دیکھنی ہو اوریہ معلوم کرناہوکہ یہ مسلک کب سے ہے تو اس مسلک کے عقائد واصول دیکھیں ان کا منہج وطرزاستدلال دیکھیں ، ان کے دینی اعمال کی کیفیت دیکھیں ، ان کی نماز دیکھیں ، ان کا رزہ وحج دیکھیں ان کا ہر دینی عمل دیکھیں ۔ اس کے بعد پھر پتہ لگائیں کہ عہدنبوت میں ان کے عقائدواصول کا وجود تھا یا نہیں؟ عہدنبوت میں ان کے منہج وطرزاستدلال کا وجودتھا یا نہیں، ان کے دینی اعمال، عہدنبوی کے اعمال سے موافقت رکھتے ہیں یا نہیں ، اگرہاں اوربے شک ہاں تو یہ مسلک قدیم ہے ، اس کا وجود عہدنبوی سے ہے والحمدللہ۔ اسی کسوٹی پر ہرمسلک کی تاریخ معلوم کی جانی چاہئے، دیگرجنتے بھی مسالک ہیں خواہ ان کے نام نئے ہوں یاپرانے ،ان کے عقائد واصول اورمنہج دیکھیں گے توعہدنبوی میں ان کا ثبوت قطعانہیں ملے گا، بلکہ یہ خوبی صرف اورصرف مسلک اہل حدیث کی ہے کہ اس کا ہرعقیدہ واصول کا عہدنبوی میں واضح طورپر ملتاہے۔ الغرض یہ کہ مسلک اہل حدیث کوئی نیا مسلک نہیں ہے ، دنیا کا کوئی بھی شخص اسے نیا ثابت نہیں کرسکتا زیادہ سے زیادہ اس بات پرحجت کرسکتاہے کہ یہ نام کب سے چل رہاہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیاکہ اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہ نام عصرحاضر میں اختیا رکیا گیاہے (حالانکہ اس نام کی قدامت پر بے شمارشواہد موجودہیں ) توبھی اس مسلک کو نیا مسلک نہیں باورکرایاجاسکتا، یہ باورکرانے کے لئے ضروری ہوگا کہ اہل حدیث کے منہج اورصحابہ کے منہج میں اختلاف ثابت کردیا جائے، اوریہ ناممکن ہے۔ لہذا مسلک ا ہل حدیث کا وجود تب سے ہے جب سے اس دنیا میں حدیث (فرمان الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجودہے کیونکہ یہی اہل حدیث کا عقیدہ واصول ہے،
والحمدللہ۔
🎯اہل حدیث کا وجود کب سے ہے ؟
اس سوال کے جواب میں بہت سارے لوگ غلط رخ پر تحقیق کرنے لگتے ہیں ، اور نام ’’اہل حدیث‘‘ کے پیچھے پڑجاتے ہیں کہ یہ نام کب سے استعمال ہورہا ہے !!! سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی چیز کے وجودکی تاریخ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی چیز کی تاریخ اس کے نام کے ذریعہ معلوم کی جاتی ہے یا اس کی خوبیوں واوصاف اورمادے کے ذریعہ ؟ سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے وجود کی تاریخ معلوم کرنا ہو تو صر ف اس کے نام سے یہ چیز ہرگزمعلوم نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ہمیں اس کے اوصاف اورخوبیوں اورمادوں کو دیکھ کر ہی پتہ لگانا ہوگا کہ اس چیز کا وجود کب سے ہے؟ آئیے اسی بات کوہم چندمثالوں سے سمجھتے ہیں ۔ سرزمین کی مثال : سرزمین کی مثال لیجئے اگرکوئی پوچھے کہ دنیا میں سرزمین پاکستان کا وجود کب سے ہے ؟ توکیا اس کا جواب یہ ہوگا کہ تقسیم ہندکے بعد؟ کیا تقسیم ہند سے پہلے اس سرزمین کا وجود نہ تھا؟ یقینا اس سرزمین کا وجود تھا لیکن اس کانام پاکستان بعدمیں پڑا اوربعد میں یہ الگ نام پڑجانے سے یہ سرزمین نئی نہیں ہوجائے گی۔ شہرکی مثال: ہندوستان کا شہر ممبئی پوری دنیا میں مشہور ہے اگرکوئی سوال کرے کہ ہندوستان میں اس کا وجود کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا کہ سترہ اٹھارہ سال سے ؟ کیونکہ اس سے قبل اس کا نام بمبئی تھا ممبئی نہیں ، یقینا ممبئی یہ نیا نام ہے،تو کیا اس شہر کے نام میں تبدیلی آجانے اس شہر کے وجود کی تاریخ بدل جائے گی؟ ہرگز نہیں۔ اشخاص کی مثال: بہت سارے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام بدل دیتے ہیں ، یعنی عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ نیا نام رکھ لیتے ہیں ، تو کیا اس نئے نام کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش بھی بدل جائے گی؟ ایک نومسلم جس نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھ لیا اگرکسی سے سوال ہوکہ اس دنیا میں وہ کب سے ہے؟ توکیا وہ تاریخ بتلائی جائے گی جب اس نے عبداللہ نام رکھا یا وہ تاریخ جب وہ پیدا ہوا؟ مذہب کی مثال: اگوکوئی سوال کرے کہ کرسچن (Christian )مذہب اس دینا میں کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا ، کہ جب سے اس لفظ کا وجود ہواہے؟ یا یہ کو جب سے عیسی علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے؟ یقینا مذہب عیسائیت کا یہ نام بعد میں اختیار کیا گیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے قبل اس مذہب کا وجود نہ تھا۔ عود الی المقصود: مسلک کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی مسلک کے نئے پرانے کا فیصلہ اس کے نام سے ہرگزنہیں ہوگا بلکہ اس کے منہج ،عقائد اوراصولوں سے ہوگا،
اگرکوئی گروہ نئے منہج اوراصولوں کا پا پند ہوتو وہ بھلے اپنے لئے کوئی پرانہ نا م منتخب کرلے ایسا کرنے سے اس کا مسلک پرانا نہیں ہوجائے گا، اسی طرح اگرکوئی گروہ قدیم منہج اوراصولوں پرگامزن ہوتو گرچہ وہ اپنے لئے کوئی نیا نام چن لے اس سے اس کا مسلک نیا نہیں ہوجائے گا،اس لئے جب بھی یہ پتہ لگانا ہو کہ کون سامسلک کب سے ہے تو اس کے نام کے پیچھے پڑنے کے بجائے اس کے منہج اوراصول کا پتہ لگائیے کہ ان کا وجود کب سے ہے ،اگرمنہج اوراصول نیا ہے تو مسلک نیا ہے اوراگرمنہج واصول قدیم ہے تو مسلک بھی قدیم ہے۔ جہاں تک نام کا معاملہ ہے تویہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر صر ف اس پہلو سے گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہ نام درست ہے یا نہیں ، لیکن یہ چیزقدامت وحداثت کی دلیل کبھی نہیں بن سکتی۔ یعنی اگرنام نیا ہو لیکن عقائدواصول قدیم ہوں تو مسلک قدیم ہی ہوگا، اوراگر نام قدیم ہولیکن عقائدواصول نئے ہوں تو مسلک نیا ہی ہوگا، پرانا نام رکھ لینے سے نہ توکوئی جدید مسلک قدیم ہوجائے گا اورنا ہی نیا نام رکھ لینے سے کوئی قدیم مسلک جدید بن سکتاہے،بہرحال مسلک کے ناموں کا ان کے وجود کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔ اب اگر مسلک اہل حدیث کی تاریخ دیکھنی ہو اوریہ معلوم کرناہوکہ یہ مسلک کب سے ہے تو اس مسلک کے عقائد واصول دیکھیں ان کا منہج وطرزاستدلال دیکھیں ، ان کے دینی اعمال کی کیفیت دیکھیں ، ان کی نماز دیکھیں ، ان کا رزہ وحج دیکھیں ان کا ہر دینی عمل دیکھیں ۔ اس کے بعد پھر پتہ لگائیں کہ عہدنبوت میں ان کے عقائدواصول کا وجود تھا یا نہیں؟ عہدنبوت میں ان کے منہج وطرزاستدلال کا وجودتھا یا نہیں، ان کے دینی اعمال، عہدنبوی کے اعمال سے موافقت رکھتے ہیں یا نہیں ، اگرہاں اوربے شک ہاں تو یہ مسلک قدیم ہے ، اس کا وجود عہدنبوی سے ہے والحمدللہ۔ اسی کسوٹی پر ہرمسلک کی تاریخ معلوم کی جانی چاہئے، دیگرجنتے بھی مسالک ہیں خواہ ان کے نام نئے ہوں یاپرانے ،ان کے عقائد واصول اورمنہج دیکھیں گے توعہدنبوی میں ان کا ثبوت قطعانہیں ملے گا، بلکہ یہ خوبی صرف اورصرف مسلک اہل حدیث کی ہے کہ اس کا ہرعقیدہ واصول کا عہدنبوی میں واضح طورپر ملتاہے۔ الغرض یہ کہ مسلک اہل حدیث کوئی نیا مسلک نہیں ہے ، دنیا کا کوئی بھی شخص اسے نیا ثابت نہیں کرسکتا زیادہ سے زیادہ اس بات پرحجت کرسکتاہے کہ یہ نام کب سے چل رہاہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیاکہ اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہ نام عصرحاضر میں اختیا رکیا گیاہے (حالانکہ اس نام کی قدامت پر بے شمارشواہد موجودہیں ) توبھی اس مسلک کو نیا مسلک نہیں باورکرایاجاسکتا، یہ باورکرانے کے لئے ضروری ہوگا کہ اہل حدیث کے منہج اورصحابہ کے منہج میں اختلاف ثابت کردیا جائے، اوریہ ناممکن ہے۔ لہذا مسلک ا ہل حدیث کا وجود تب سے ہے جب سے اس دنیا میں حدیث (فرمان الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجودہے کیونکہ یہی اہل حدیث کا عقیدہ واصول ہے،
والحمدللہ۔
بریلوی عوام کے لئے لمحہ فکریة
بریلوی عوام کے لئے لمحہ فکریة
کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی تعزیہ داری، اسٹیل، پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور بازو تعزیئے پر چڑھانا، نیلے پیلے دھاگے بازو پر باندھنا، بچوں کو امام کا فقیر بنانا، دشمنانِ صحابہ کا دس یا گیارہ دن کالے، ہرے اور سرخ کپڑے پہننا، ماتم کی کیسٹیں بجانا اور شیعوں کی مجالس اور جلوس میں شامل ہونا اور شب عاشورہ کو خوب ڈھول بجاکر اس شب کے تقدس کو پامال کرنا یہ کام عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ تمام کام شریعت کی رو سے ناجائز اور گناہ ہیں مگر کچھ بریلوی عوام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔ یاد رکھئے وہ بریلوی ہیں اور انکےرہبر اور پیشوا امام البریلویة احمد رضا خان بریلی ہیں جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو ان ناجائز کاموں سے روکنے کا حکم دیا ہے اور اپنی کتابوں میں ان کاموں سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے،
⬅🌹 تعزیہ بنانا کیسا؟
امام احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)
⬅🌹 تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹محرم الحرام میں ناجائز رسومات
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں
(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
⬅🌹 محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے (احکام شریعت)
⬅🌹 عاشورہ کا میلہ
احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ
عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا
احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ
رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی تعزیہ داری، اسٹیل، پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور بازو تعزیئے پر چڑھانا، نیلے پیلے دھاگے بازو پر باندھنا، بچوں کو امام کا فقیر بنانا، دشمنانِ صحابہ کا دس یا گیارہ دن کالے، ہرے اور سرخ کپڑے پہننا، ماتم کی کیسٹیں بجانا اور شیعوں کی مجالس اور جلوس میں شامل ہونا اور شب عاشورہ کو خوب ڈھول بجاکر اس شب کے تقدس کو پامال کرنا یہ کام عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ تمام کام شریعت کی رو سے ناجائز اور گناہ ہیں مگر کچھ بریلوی عوام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔ یاد رکھئے وہ بریلوی ہیں اور انکےرہبر اور پیشوا امام البریلویة احمد رضا خان بریلی ہیں جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو ان ناجائز کاموں سے روکنے کا حکم دیا ہے اور اپنی کتابوں میں ان کاموں سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے،
⬅🌹 تعزیہ بنانا کیسا؟
امام احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)
⬅🌹 تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹محرم الحرام میں ناجائز رسومات
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں
(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
⬅🌹 محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں
احمد رضا خان بریلی لکھتے ہیں کہ
محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے (احکام شریعت)
⬅🌹 عاشورہ کا میلہ
احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ
عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
⬅🌹 دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا
احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ
رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ﻟﻔﻆ ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ
*اسلام علیکم*
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ …
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا- ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا خور سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔
ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ )
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...
1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ ) , 78
2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ , ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) 20
3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔
ﻟﻔﻆ " ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
" ﺷﺎﺀ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ "
" ﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "...
ﺗﻮ ﻟﻔﻆ *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔
1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70
2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99
3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69
4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
انگریزی میں یوں لکھ جا سکتا ھے..
*"In Sha Allah"*
صدقه جاریه کے طور پر اس معلومات کے پرچار کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ …
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا- ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا خور سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔
ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ )
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...
1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ ) , 78
2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ , ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) 20
3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔
ﻟﻔﻆ " ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
" ﺷﺎﺀ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ "
" ﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "...
ﺗﻮ ﻟﻔﻆ *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔
1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70
2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99
3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69
4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
انگریزی میں یوں لکھ جا سکتا ھے..
*"In Sha Allah"*
صدقه جاریه کے طور پر اس معلومات کے پرچار کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..
پھلدار درخت کو بیچنا
پھلدار درخت کو بیچنا
Sahih Bukhari Hadees 2246
حدثنا آدم ، حدثنا شعبة ، أخبرنا عمرو ، قال سمعت أبا البختري الطائي ، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم ، في النخل. قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل ، حتى يؤكل منه وحتى يوزن. فقال الرجل وأى شىء يوزن قال رجل إلى جانبه حتى يحرز. وقال معاذ: حدثنا شعبة ، عن عمرو: قال أبو البختري: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم ، مثله.
میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جا سکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
Sahih Bukhari Hadees 2246
حدثنا آدم ، حدثنا شعبة ، أخبرنا عمرو ، قال سمعت أبا البختري الطائي ، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن السلم ، في النخل. قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل ، حتى يؤكل منه وحتى يوزن. فقال الرجل وأى شىء يوزن قال رجل إلى جانبه حتى يحرز. وقال معاذ: حدثنا شعبة ، عن عمرو: قال أبو البختري: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما: نهى النبي صلى الله عليه وسلم ، مثله.
میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جا سکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
@@@@@@@@@@@@@@@
25 : سورة الفرقان 28
یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا ﴿۲۸﴾
ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
&&&&&&&&&&&&&&&&&&*&*
25 : سورة الفرقان 29
لَقَدۡ اَضَلَّنِیۡ عَنِ الذِّکۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِیۡ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا ﴿۲۹﴾
اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔
Tuesday, October 4, 2016
کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی؟
کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی؟
سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ ہم یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟ حدیث نبی ﷺ ہے :
عن ابی دردا عن النبی ﷺ قال:
"مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَة"
(سنن الترمذی ، بتحقیق احمد شاکر 4/327 ، رقم الحدیث 1931 والحدیث صحیح باتفاق العلماء)
"صحابی رسول ﷺ ابودرداءؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا ،جو اسے عیب دار کرتی ہے ،اللہ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردے گا"
اسی حوالے سے (یزید بن معاویہ ؓ )کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ
"اس حدیث میں اس باب کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا جائے بلکہ اس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے اس مقدس عمل کو جہنم سے نجات کا ذریعہ بتایا ہے ـ
کسی مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرنا ایک مستحب اور بے حد پسندیدہ کام ہے ـ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اگر ایسی شخصیات کی عزتوں کا دفاع کیا جائے جو صاحب فضیلت ہوں تو اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ـ مثلا اگر کسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور ان پر غلط اورجھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں تو ایسے صحابی رسول ﷺ کی عزت کا دفاع کرنا بہت بڑی عبادت اور بہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے ـ اسی طرح صحابہ کے بعد تابعین کی جماعت امتِ مسلمہ کی افضل ترین جماعت ہے ـ اگر اس جماعت کے کسی فرد کی عزت پر حملہ کیا جائے اور اس پر جھوٹے الزمات لگائے جائیں تو ان کادفاع کرنا بھی بہت بڑے ثواب کا کام اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے"
اب آتے ہیں ان الزامات یا سوالات کی طرف جو آپ اکثر کیے جاتے ہیں ـ پہلا کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت تھی یا نہیں ؟
صحیح البخاری کی پوری حدیث اس طرح ہے
وقال : وقد روى البخاري في صحيحه عن ابن عمر عن النبي انه قال ((اول جيش يغزو القسطنطينية مغفور له ))
"میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر (قسطنطینہ) پرحملہ کرے گا ـ وہ سب کے سب مغفور (بخشے ہوئے) ہوں گے ـ
(صحیح البخاری ـ کتاب الجہاد والسیر باب ما قبل فی قتال الروم رقم 2924)
یہ بشارت ہے کہ وہ لشکر اور اس میں شامل سب لوگ جنتی ہیں ـ اس کے امیر یزید بن معاویہ تھے
بخاری کی ایک اور حدیث ہے ـ
"محمود بن ربیع نے بیان کی کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ بیان کی جس میں ابوایوب النصاریؓ موجود تھے ـ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی ـ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے "
(صحیح البخاری ـ کتاب الجہاد ـ باب الصلاتہ النوافل جماعتہ رقم 1186)
گویا کہ یہ اعتراض ہی ختم ہوا کہ وہ جس لشکر کے بخشے جانے اور جنتی ہونے کی بشارت ہے ـ یہی وہ لشکر میں جس میں ابوایوب انصاریؓ فوت ہوئے اس میں واضح یزید بن معاویہ کا ذکر آیا ہے ــ لوگ دھوکہ دیتے ہیں ـ اور بخاری کی یہ دوسری حدیث پیش نہیں کرتے ـ
آپ دوسرا اعتراض کیا حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں یزید بن معاویہ شامل تھا ؟
اس حوالے سے جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں کہ یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں بلکہ کسی دوسرے یا تیسرے لشکر میں شامل تھا وہ صحیح نہیں َ ــ یا انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ـ
ابن حجر نے فتح الباری میں پوری امت کا اتفاق اور اجماع نقل کیا ہے کہ یزید بن معاویہ ہی امارات میں سب سے پہلے مدینہ قیصر قسطنطنیہ پر حملہ ہوا :
فانہ کان امیر ذلک الجیش بالاتفاق
"یزید اس پہلے لشکر کا امیر تھا ـ اس پر سب کا اتفاق ہے "
(فتح الباری ـ 6/103)
لہذا یہ اعتراض ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جس مسئلے پر امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ــ اس پر جھوٹی روایت کا سہارا لے کر نکیر کرنا درست نہیں َ
مزید امام مہلب کہتے ہیں کہ"یزید ہی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر حملہ کیا "(قباء الثریا ـ فتح الباری لابن حجر 51/102)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ وہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنیطنیہ پر حملہ کیا ـ جس کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے (منہاج السنہ ـ 544/4)
امام ذہبی نے کہا" " یزید کہ ایک نیکی یہ ہے کہ وہ قسطنطنیہ پر حملہ میں اس لشکر کا امیر تھا ـ ایوب النصاریؓ شامل تھا ـ (سیر علام النبلا للذہبی 36/4)
ابن کثیرنے کہا"یزید نے ہی سب سے پہلے قسطنطینہ کے شہر پر حملہ کیا تھا ـ یہ 49 یا 50 ہجری میں ہوا ـ اس میں شامل سب لوگ مغدور بخشے ہوئے ہیں ـ (البدایہ والنہایہ 8/229)
اس کے علاوہ بھی بہت سے دلائل ہیں ـ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے امیر یزید بن معاویہؓ ہی تھے ـ جس کی بخاری کی حدیث میں بشارت ہے ــ
تیسرا اعتراض ـ وہ شہر جس مدینہ قیصر کی بات ہے ـ وہ قسطنطنیہ نہیں ـ بلکہ حمص ہے اس کا جواب یہ ہے کہ:
حافظ ابن حجر کا یہ قول درست نہیں کہ وہ حمص نہیں ـ اس لئے کہ :
-آپ ﷺ نے قیصر کا نام لیا ـ اس اک شہر کا نہیں ـ بلکہ اس سے مراد ملک تھا ـ اس کا شہرکونسا تھا ـ یا نہیں ، یہ بحث نہی ـ ـ ابن حجر ہی ایک جگہ لکھتے ہیں
" حدیث میں سمندری غزوہ کو جیش مغفور کے غزوہ سے قبل بتایا گیا ہے ـ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ام حرام اس سمندری غزوہ میں موجود ہوں گے ـ اور حمص اس سمندری غزوہ سے پہلے فتح ہوچکا تھا ـ جس سمندری غزوہ میں ام حرام تھیں ـ (فتح الباری 10/6)
یہ دلیل ہے کہ حمص جب فتح ہوا وہ قیصر کا شہر نہیں تھا بلکہ اس کا شہر قسطنطنیہ بعد میں فتح ہوا ـ جس کے امیر یزید بن معاویہؓ تھے ـ
چوتھا اعتراض ـ بسر بن ابی ارطاتہ کا حملہ :
یہ روایت امام ابن جبیر الطبری نے ذکر کی ہے (تاریخ الطبری ـ 5/181)ـ اس کا راوی واقدی ہے ـ جو کذاب اور جھوٹا اور رافضی تھا ـ اس کی بات دلیل نہیں ـ وہاں روایت بیان کر کے واقدی کذاب ہے ـ امام شافعی کہتے ہی کہ واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں (الجرح والتعدیل ـ لابن ابی حاتم 2/20)
پانچواں انتہائی گرا ہوا اعتراض ـ دین کی نا سمجھی اور جنت بشارتوں کو کم عقل کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے کہ اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ ؟
یہ ایسا ہی اعتراض ہے کہ کوئی شخص خلفاء راشدین ابوبکروعمرفاروق و عثمان ، عشرہ مبشرہ کی بشارت پررد کرے ـ کیونکہ انہیں بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے ـ
اس مسئلے کو سمجھیں ـ
امام بخاری نے کہا ـ نبی اکرمﷺ نے فرمایا
"حج مبرو کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں ـ صحیح البخاری ـ 3/2 ــ1773)
امام بخاری لکھتےہیں
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
"جس نے فجر اور عصر پڑھیں ـ وہ جنت میں داخل ہوگا
(صحیح البخاری ـ 1/119ــ574)
اب ان روایات کو کوئی بنیاد بنا کر خلفاء راشدین اور عشرہ بشرہ کی بشارت جنت کا انکار کیا جا سکتا ہے ـ کیا اصول فقہ کا یہ اصول یہاں بھی لاگو ہوگا ــ
امام مسلم نے کہا:
ایک شخص حاطب رضی اللہ عنہ کا اایک غلام نے رسولﷺ سے فرمایا کہ حاطب جہنم میں داخل ہوگا ـ تو آپﷺ نے فرمایا تو نے غلط کہا کہ وہ بدر اور حدیبہ میں موجود تھا ـ "
صحیح مسلم ـ 2495
یعنی وہ بدر اور حدیبیہ میں موجود تھا ـ اس لئے وہ جنت میں داخل ہوگا ـ یہ بشارت ہے ـ بدراورحدیببیہ والے جنتی ہیں ـ
اصل میں اعتراض کرنے والوں کو بشارت کا فرق معلوم نہیں ـ بشارتیں دو قسم کی ہیں ـ
پہلی قسم : مخصوص اعمال پر بشارت دی گی ـ جو ان اعمال کو پورا کرے گا ـ اس کے تقاضوں کے عین مطابق وہ جنت میں جائے گا ـ جیسے حج کی یا نماز کی فضیلت ذکر کی گئی ہے
دوسری قسم :مخصوص افراد یا جماعت کے حوالے سے ہے ـ جن میں افراد کو متعین کیا گیا ہے ـ جیسے بدر، صلح حدیبیہ ـ خلفاء راشدین ـ عشرہ مبشرہ صحابہؓ یا قسطنطنیہ پر پہلے حملے کی بشارت ـ ان لوگوں کا جنتی ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ـ کیونکہ اللہ ان کے اعمال سے واقف ہے ـ اللہ کے علم میں نقص نہیں آسکتا ـ اگر کوئی انکار کرے تواس کا مطلب ہے کہ اللہ کو علم نہیں تھا ـ نعوذ باللہ ـ ایسا ہونا ممکن نہیں ـ لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے ـ
چھٹا اعتراض : یزید کی نیت نہیں تھی ـ جبرا لشکر میں شامل کیے گئے ـــ !!
اس حوالے سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ :
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔
ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی (بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)
یہ جھوٹی روایت ہے ــ
ـ اس میں ایک راوی ابومسعود ابن لقتات کی سیرت پر کوئی مضمون نہیں ملا ـ
یہ شخص مجہول ہے ـ
ایک شخص گم نام ہے ـ
اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں اس کی روایت نہیں لی جاسکتی ــ
لهذا یزید کے حوالےسے جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سب شیعہ رافضیوں کی کتب سے لیے گئے ـ یا جھوٹے اور من گھڑے روایات ہیں ـ جن کی تحقیق نہیں ـ ـ
بلاوجہ بغیر کسی تحقیق کے کسی پر الزمات لگا دینا ـ
ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ـ
ایسی صورت میں ہم دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث کی رو سے ایسا شخص کو اللہ قیامت والے دن آگ سے بچائے گا ـ
جیسا کہ شروع میں حدیث ذکر کردی گئی ہے ـ
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ اگر کوئی زبردستی یزید امیر المؤمنین کہے وہ یہ دعا پڑھے ـ
یا اللہ میرا حشر یزید بن معاویہؓ کے ساتھ کردے ــ
جاہل کی جہالت کا کوئی علاج نہیں ،،
کیا وہ اس بات کا پکا ثبوت دے سکتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اسے جنت میں لے جائیں گے ـ اور اس کا حشر حسینؓ کے ساتھ ہوگا ؟؟
جب وہ ایسا ثبوت نہیں دے سکتے ـ ہم سے کیوں طلب کرتے ہیں ـ یزید پر کوئی ایک جرم بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا ــ
اور وہ اس لشکر میں شامل تھے جو مٖغفور اور بخشا ہوا ہے ـ ـ
اگر قیامت والے دن یزید امام حسینؓ کے ساتھ ہوئے ـ
تو جو لوگ الزمات بغیر تحقیق کے لگاتے ہیں ـ ان کا حشر کس کے ساتھ ہوگا ــ ؟؟
اس کے علاوہ اور بھی جہالت کا ثبوت ہے کہ ساری زندگی کوئی بھی کام حسینؓ کے نانا محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق نہیں کریں گے ـ
لیکن پھر بھی خواہش ہے کہ ان کا حشر حسینؓ کے ساتھ ہو ــ
شاید عقل تیل لینی گئی ہے ـ
اللہ حق بات کہنے اور سمجھنے کی توفیق دے ــ
آمین یارب العالمین
(ابوعبداللہ ـ المکی)
مرتب واختصار :
ابوعبداللہ ـ المکی
حوالہ کتب ـ قسطنطنیہ پر پہلاحملہ امیر یزید کے بارے میں بشارت نبویﷺ
مولانا کفایت اللہ سنابلی ـ
سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ ہم یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟ حدیث نبی ﷺ ہے :
عن ابی دردا عن النبی ﷺ قال:
"مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَة"
(سنن الترمذی ، بتحقیق احمد شاکر 4/327 ، رقم الحدیث 1931 والحدیث صحیح باتفاق العلماء)
"صحابی رسول ﷺ ابودرداءؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا ،جو اسے عیب دار کرتی ہے ،اللہ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردے گا"
اسی حوالے سے (یزید بن معاویہ ؓ )کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ
"اس حدیث میں اس باب کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا جائے بلکہ اس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے اس مقدس عمل کو جہنم سے نجات کا ذریعہ بتایا ہے ـ
کسی مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرنا ایک مستحب اور بے حد پسندیدہ کام ہے ـ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اگر ایسی شخصیات کی عزتوں کا دفاع کیا جائے جو صاحب فضیلت ہوں تو اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ـ مثلا اگر کسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور ان پر غلط اورجھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں تو ایسے صحابی رسول ﷺ کی عزت کا دفاع کرنا بہت بڑی عبادت اور بہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے ـ اسی طرح صحابہ کے بعد تابعین کی جماعت امتِ مسلمہ کی افضل ترین جماعت ہے ـ اگر اس جماعت کے کسی فرد کی عزت پر حملہ کیا جائے اور اس پر جھوٹے الزمات لگائے جائیں تو ان کادفاع کرنا بھی بہت بڑے ثواب کا کام اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے"
اب آتے ہیں ان الزامات یا سوالات کی طرف جو آپ اکثر کیے جاتے ہیں ـ پہلا کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت تھی یا نہیں ؟
صحیح البخاری کی پوری حدیث اس طرح ہے
وقال : وقد روى البخاري في صحيحه عن ابن عمر عن النبي انه قال ((اول جيش يغزو القسطنطينية مغفور له ))
"میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر (قسطنطینہ) پرحملہ کرے گا ـ وہ سب کے سب مغفور (بخشے ہوئے) ہوں گے ـ
(صحیح البخاری ـ کتاب الجہاد والسیر باب ما قبل فی قتال الروم رقم 2924)
یہ بشارت ہے کہ وہ لشکر اور اس میں شامل سب لوگ جنتی ہیں ـ اس کے امیر یزید بن معاویہ تھے
بخاری کی ایک اور حدیث ہے ـ
"محمود بن ربیع نے بیان کی کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ بیان کی جس میں ابوایوب النصاریؓ موجود تھے ـ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی ـ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے "
(صحیح البخاری ـ کتاب الجہاد ـ باب الصلاتہ النوافل جماعتہ رقم 1186)
گویا کہ یہ اعتراض ہی ختم ہوا کہ وہ جس لشکر کے بخشے جانے اور جنتی ہونے کی بشارت ہے ـ یہی وہ لشکر میں جس میں ابوایوب انصاریؓ فوت ہوئے اس میں واضح یزید بن معاویہ کا ذکر آیا ہے ــ لوگ دھوکہ دیتے ہیں ـ اور بخاری کی یہ دوسری حدیث پیش نہیں کرتے ـ
آپ دوسرا اعتراض کیا حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں یزید بن معاویہ شامل تھا ؟
اس حوالے سے جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں کہ یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں بلکہ کسی دوسرے یا تیسرے لشکر میں شامل تھا وہ صحیح نہیں َ ــ یا انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ـ
ابن حجر نے فتح الباری میں پوری امت کا اتفاق اور اجماع نقل کیا ہے کہ یزید بن معاویہ ہی امارات میں سب سے پہلے مدینہ قیصر قسطنطنیہ پر حملہ ہوا :
فانہ کان امیر ذلک الجیش بالاتفاق
"یزید اس پہلے لشکر کا امیر تھا ـ اس پر سب کا اتفاق ہے "
(فتح الباری ـ 6/103)
لہذا یہ اعتراض ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جس مسئلے پر امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ــ اس پر جھوٹی روایت کا سہارا لے کر نکیر کرنا درست نہیں َ
مزید امام مہلب کہتے ہیں کہ"یزید ہی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر پر حملہ کیا "(قباء الثریا ـ فتح الباری لابن حجر 51/102)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ وہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنیطنیہ پر حملہ کیا ـ جس کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے (منہاج السنہ ـ 544/4)
امام ذہبی نے کہا" " یزید کہ ایک نیکی یہ ہے کہ وہ قسطنطنیہ پر حملہ میں اس لشکر کا امیر تھا ـ ایوب النصاریؓ شامل تھا ـ (سیر علام النبلا للذہبی 36/4)
ابن کثیرنے کہا"یزید نے ہی سب سے پہلے قسطنطینہ کے شہر پر حملہ کیا تھا ـ یہ 49 یا 50 ہجری میں ہوا ـ اس میں شامل سب لوگ مغدور بخشے ہوئے ہیں ـ (البدایہ والنہایہ 8/229)
اس کے علاوہ بھی بہت سے دلائل ہیں ـ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے امیر یزید بن معاویہؓ ہی تھے ـ جس کی بخاری کی حدیث میں بشارت ہے ــ
تیسرا اعتراض ـ وہ شہر جس مدینہ قیصر کی بات ہے ـ وہ قسطنطنیہ نہیں ـ بلکہ حمص ہے اس کا جواب یہ ہے کہ:
حافظ ابن حجر کا یہ قول درست نہیں کہ وہ حمص نہیں ـ اس لئے کہ :
-آپ ﷺ نے قیصر کا نام لیا ـ اس اک شہر کا نہیں ـ بلکہ اس سے مراد ملک تھا ـ اس کا شہرکونسا تھا ـ یا نہیں ، یہ بحث نہی ـ ـ ابن حجر ہی ایک جگہ لکھتے ہیں
" حدیث میں سمندری غزوہ کو جیش مغفور کے غزوہ سے قبل بتایا گیا ہے ـ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ام حرام اس سمندری غزوہ میں موجود ہوں گے ـ اور حمص اس سمندری غزوہ سے پہلے فتح ہوچکا تھا ـ جس سمندری غزوہ میں ام حرام تھیں ـ (فتح الباری 10/6)
یہ دلیل ہے کہ حمص جب فتح ہوا وہ قیصر کا شہر نہیں تھا بلکہ اس کا شہر قسطنطنیہ بعد میں فتح ہوا ـ جس کے امیر یزید بن معاویہؓ تھے ـ
چوتھا اعتراض ـ بسر بن ابی ارطاتہ کا حملہ :
یہ روایت امام ابن جبیر الطبری نے ذکر کی ہے (تاریخ الطبری ـ 5/181)ـ اس کا راوی واقدی ہے ـ جو کذاب اور جھوٹا اور رافضی تھا ـ اس کی بات دلیل نہیں ـ وہاں روایت بیان کر کے واقدی کذاب ہے ـ امام شافعی کہتے ہی کہ واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں (الجرح والتعدیل ـ لابن ابی حاتم 2/20)
پانچواں انتہائی گرا ہوا اعتراض ـ دین کی نا سمجھی اور جنت بشارتوں کو کم عقل کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے کہ اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ ؟
یہ ایسا ہی اعتراض ہے کہ کوئی شخص خلفاء راشدین ابوبکروعمرفاروق و عثمان ، عشرہ مبشرہ کی بشارت پررد کرے ـ کیونکہ انہیں بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے ـ
اس مسئلے کو سمجھیں ـ
امام بخاری نے کہا ـ نبی اکرمﷺ نے فرمایا
"حج مبرو کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں ـ صحیح البخاری ـ 3/2 ــ1773)
امام بخاری لکھتےہیں
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
"جس نے فجر اور عصر پڑھیں ـ وہ جنت میں داخل ہوگا
(صحیح البخاری ـ 1/119ــ574)
اب ان روایات کو کوئی بنیاد بنا کر خلفاء راشدین اور عشرہ بشرہ کی بشارت جنت کا انکار کیا جا سکتا ہے ـ کیا اصول فقہ کا یہ اصول یہاں بھی لاگو ہوگا ــ
امام مسلم نے کہا:
ایک شخص حاطب رضی اللہ عنہ کا اایک غلام نے رسولﷺ سے فرمایا کہ حاطب جہنم میں داخل ہوگا ـ تو آپﷺ نے فرمایا تو نے غلط کہا کہ وہ بدر اور حدیبہ میں موجود تھا ـ "
صحیح مسلم ـ 2495
یعنی وہ بدر اور حدیبیہ میں موجود تھا ـ اس لئے وہ جنت میں داخل ہوگا ـ یہ بشارت ہے ـ بدراورحدیببیہ والے جنتی ہیں ـ
اصل میں اعتراض کرنے والوں کو بشارت کا فرق معلوم نہیں ـ بشارتیں دو قسم کی ہیں ـ
پہلی قسم : مخصوص اعمال پر بشارت دی گی ـ جو ان اعمال کو پورا کرے گا ـ اس کے تقاضوں کے عین مطابق وہ جنت میں جائے گا ـ جیسے حج کی یا نماز کی فضیلت ذکر کی گئی ہے
دوسری قسم :مخصوص افراد یا جماعت کے حوالے سے ہے ـ جن میں افراد کو متعین کیا گیا ہے ـ جیسے بدر، صلح حدیبیہ ـ خلفاء راشدین ـ عشرہ مبشرہ صحابہؓ یا قسطنطنیہ پر پہلے حملے کی بشارت ـ ان لوگوں کا جنتی ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ـ کیونکہ اللہ ان کے اعمال سے واقف ہے ـ اللہ کے علم میں نقص نہیں آسکتا ـ اگر کوئی انکار کرے تواس کا مطلب ہے کہ اللہ کو علم نہیں تھا ـ نعوذ باللہ ـ ایسا ہونا ممکن نہیں ـ لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے ـ
چھٹا اعتراض : یزید کی نیت نہیں تھی ـ جبرا لشکر میں شامل کیے گئے ـــ !!
اس حوالے سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ :
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔
ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی (بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)
یہ جھوٹی روایت ہے ــ
ـ اس میں ایک راوی ابومسعود ابن لقتات کی سیرت پر کوئی مضمون نہیں ملا ـ
یہ شخص مجہول ہے ـ
ایک شخص گم نام ہے ـ
اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں اس کی روایت نہیں لی جاسکتی ــ
لهذا یزید کے حوالےسے جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سب شیعہ رافضیوں کی کتب سے لیے گئے ـ یا جھوٹے اور من گھڑے روایات ہیں ـ جن کی تحقیق نہیں ـ ـ
بلاوجہ بغیر کسی تحقیق کے کسی پر الزمات لگا دینا ـ
ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ـ
ایسی صورت میں ہم دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث کی رو سے ایسا شخص کو اللہ قیامت والے دن آگ سے بچائے گا ـ
جیسا کہ شروع میں حدیث ذکر کردی گئی ہے ـ
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ اگر کوئی زبردستی یزید امیر المؤمنین کہے وہ یہ دعا پڑھے ـ
یا اللہ میرا حشر یزید بن معاویہؓ کے ساتھ کردے ــ
جاہل کی جہالت کا کوئی علاج نہیں ،،
کیا وہ اس بات کا پکا ثبوت دے سکتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اسے جنت میں لے جائیں گے ـ اور اس کا حشر حسینؓ کے ساتھ ہوگا ؟؟
جب وہ ایسا ثبوت نہیں دے سکتے ـ ہم سے کیوں طلب کرتے ہیں ـ یزید پر کوئی ایک جرم بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا ــ
اور وہ اس لشکر میں شامل تھے جو مٖغفور اور بخشا ہوا ہے ـ ـ
اگر قیامت والے دن یزید امام حسینؓ کے ساتھ ہوئے ـ
تو جو لوگ الزمات بغیر تحقیق کے لگاتے ہیں ـ ان کا حشر کس کے ساتھ ہوگا ــ ؟؟
اس کے علاوہ اور بھی جہالت کا ثبوت ہے کہ ساری زندگی کوئی بھی کام حسینؓ کے نانا محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق نہیں کریں گے ـ
لیکن پھر بھی خواہش ہے کہ ان کا حشر حسینؓ کے ساتھ ہو ــ
شاید عقل تیل لینی گئی ہے ـ
اللہ حق بات کہنے اور سمجھنے کی توفیق دے ــ
آمین یارب العالمین
(ابوعبداللہ ـ المکی)
مرتب واختصار :
ابوعبداللہ ـ المکی
حوالہ کتب ـ قسطنطنیہ پر پہلاحملہ امیر یزید کے بارے میں بشارت نبویﷺ
مولانا کفایت اللہ سنابلی ـ
اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله» اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله» اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔
Sahih Bukhari Hadees # 1186
فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالك الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كنت أصلي لقومي ببني سالم ، وكان يحول بيني وبينهم واد إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه قبل مسجدهم ، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له إني أنكرت بصري ، وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه ، فوددت أنك تأتي فتصلي من بيتي مكانا أتخذه مصلى. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم سأفعل . فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتى قال أين تحب أن أصلي من بيتك . فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر وصففنا وراءه ، فصلى ركعتين ، ثم سلم وسلمنا حين سلم ، فحبسته على خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتى كثر الرجال في البيت. فقال رجل منهم ما فعل مالك لا أراه. فقال رجل منهم ذاك منافق لا يحب الله ورسوله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقل ذاك ألا تراه قال لا إله إلا الله. يبتغي بذلك وجه الله . فقال الله ورسوله أعلم. أما نحن فوالله لا نرى وده ولا حديثه إلا إلى المنافقين. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله. يبتغي بذلك وجه الله . قال محمود فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم ، فأنكرها على أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما قلت قط. فكبر ذلك على فجعلت لله على إن سلمني حتى أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالك ـ رضى الله عنه ـ إن وجدته حيا في مسجد قومه ، فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة ، ثم سرت حتى قدمت المدينة فأتيت بني سالم ، فإذا عتبان شيخ أعمى يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا ، ثم سألته عن ذلك الحديث فحدثنيه كما حدثنيه أول مرة.
جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہا تھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولا وہ تو منافق ہے۔ اسے اللہ اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ «لا إله إلا الله» پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ (اصل حال) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله» اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالیٰ کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تو میں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بنو سالم میں آیا۔ عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے، اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
Sahih Bukhari Hadees # 1186
فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالك الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كنت أصلي لقومي ببني سالم ، وكان يحول بيني وبينهم واد إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه قبل مسجدهم ، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له إني أنكرت بصري ، وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه ، فوددت أنك تأتي فتصلي من بيتي مكانا أتخذه مصلى. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم سأفعل . فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتى قال أين تحب أن أصلي من بيتك . فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر وصففنا وراءه ، فصلى ركعتين ، ثم سلم وسلمنا حين سلم ، فحبسته على خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتى كثر الرجال في البيت. فقال رجل منهم ما فعل مالك لا أراه. فقال رجل منهم ذاك منافق لا يحب الله ورسوله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقل ذاك ألا تراه قال لا إله إلا الله. يبتغي بذلك وجه الله . فقال الله ورسوله أعلم. أما نحن فوالله لا نرى وده ولا حديثه إلا إلى المنافقين. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله. يبتغي بذلك وجه الله . قال محمود فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم ، فأنكرها على أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما قلت قط. فكبر ذلك على فجعلت لله على إن سلمني حتى أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالك ـ رضى الله عنه ـ إن وجدته حيا في مسجد قومه ، فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة ، ثم سرت حتى قدمت المدينة فأتيت بني سالم ، فإذا عتبان شيخ أعمى يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا ، ثم سألته عن ذلك الحديث فحدثنيه كما حدثنيه أول مرة.
جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہا تھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولا وہ تو منافق ہے۔ اسے اللہ اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ «لا إله إلا الله» پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ (اصل حال) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله» اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالیٰ کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تو میں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بنو سالم میں آیا۔ عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے، اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
आइये देखते हे इन कबर परस्त का बातिल अकीदा
🍼जिस तरह शराब के बोतल मे दूध का लेबल लगानेसे शराब दूध नही बनता इसतरह कबर परस्त मुशरिक को सुन्नी कहने से सुन्नी मुसलमान नही बनता
👉आइये देखते हे इन कबर परस्त मुशरिक का बातिल अकीदा
📖कूरान औऱ 📚हदीस की रोशनी मे
👉सवाल :क्या आप मुरदे को सुना सकते
📖कुरान
अन-नम्ल (An-Naml):80 - तुम मुर्दों को नहीं सुना सकते और न बहरों को अपनी पुकार सुना सकते हो, जबकि वे पीठ देकर फिरे भी जा रहें हो।
👉सोचिए दोस्तो अगर आप बहेरे को नही सुना सकते तो मुरदे को केसे सुना सकते जबकि बहरे को अल्लाह ने सिर्फ एक नेमत छीन लिया या दिया ही नही तो आप उस मूर्दे को केसे सुना सकते हो जिसकी सबमें बड़ी नेमत उसकी रूह हे जिसे अल्लाहने छीन्ली उसकी जिस्म से
👉बाज लॉग कहते हे कब्रस्तान मे जाकर जो हम सलाम पेश करते हे तो मुरदे सुनते होंगे
📖कूरान
फातिर (Fatir):22 - और ना जिंदा और मुर्दा बराबर है। निश्चय ही अल्लाह जिसे चाहता है सुनाता है। तुम उन लोगों को नहीं सुना सकते, जो क़ब्रों में हो।
👉अल्लाह के लीये हर काम आसान हे अल्लाह हर चीज़ पर कादिर हे
📖कूरान
अल-आराफ़ (Al-'A`raf):194 - तुम अल्लाह को छोड़कर जिन्हें पुकारते हो वे तो तुम्हारे ही जैसे बन्दे है, पश पुकार लो उनको, अगर तुम सच्चे हो, तो उन्हें चाहिए कि वो तुम्हें जवाब दे!
👉अल्लाह से हटकर या उसके साथ जीन को पुकारते हे ,तो क्या वो किसी चीज़ को पैदा क्या हे या किसी चीज़ का मालिक हे जिस पर अल्लाह की कुदरत हे
📖कूरान
अन-नह्ल (An-Nahl):20"21 - और जिन्हें वे अल्लाह से हटकर पुकारते है वे किसी चीज़ को भी पैदा नहीं करते, बल्कि वे ( खुद ) पैदा किए जाते है
- मुरदे है, जिनमें रूह नहीं। उन्हें इल्म नहीं कि वो कब उठाए जाएँगे
📖कूरान
फातीर (Fatir 14)अगर सुनभीले तो फरयाद रसी नही करेंगे बलके कयामत के दीन तुम्हारे इस शिर्क का साफ साफ इनकार करदेंगे और पूरी ख़बर रखनेवाला अल्लाह की तरह तुम्हे कोई नही बताएगा
📖कूरान
फातिर (Fatir):13 - वह रात को दिन में दाखिल करता है और दिन को रात में दाखिल करता हैं। उसने सूर्य और चाँद को काम में लगा रखा है। प्रत्येक एक नियत समय पूरी करने के लिए चल रहा है। वही अल्लाह तुम्हारा रब है। उसी की बादशाही है। उससे हटकर जिनको तुम पुकारते हो वे एक तिनके के भी मालिक नहीं
👉ओर अल्लाह उनलोगों चेल्न्ज करता हे जो अल्लाह के सिवा या अल्लाह के साठ जिनको पुकारते हे
📖कूरान
अल -हज (Al- Haj)73 लोगो एक मिशाल बयान कि जारही हे ज़रा कान लगाकर सुनो अल्लाह के सिवा जीन जीन को तुम पुकारते हो वोह एक मक्खी भी तो पैदा नही करसकते गोया सारेही एक साथ जमा हो जाये बलकि अगर मक्खी उनसे कोई चीज़ लेभागे तो येह तो उस्सेभी उस्से छीन नही सकते पुकारने वालाभी लाचार ओर जिसको पुकार राहा हे वोभी लाचार
👉दरगाह मे जो न्याज रखते हे अगर मक्खी उसमें बैठजाये तो किया मक्खी को भगा सकते हे जीन के नाम पर जो न्याज रखते हे नही हरगिज़ नही
👉बातील फिरका कहते हे वली अंबिया और अल्लाह के नबी मरते नही
📖कूरान
जूमर ( zumar )30:ए नबी (ﷺ)आपको भी मरना हे ओर आपके पीछे जो आनेवाले हे उन्हेभी मरना हे
👉जब अल्लाह रब्बूल इज्जत ने नबी(ﷺ)को मरने की आयत नाजील की जब नबी (ﷺ)को मौत आसक्ति हे
फ़िर वो कौन हे जो मर नही सकते नबी (ﷺ)से अजीज और कोई नही और ना होगा
📖कूरान
अर-रहमान (Ar-Rahman):26,27 हर नफ्स( मख्लूक )जो भी इस (ज़मीन ) पर है, सब फनाह होने वाली है
- लेकिन तुम्हारे रब की जात हमेशा रहनेवाली है
👉हदीस
नबी (ﷺ) ने फरमया मेरी उम्मत के बदतरीन लोग वो होंगे जो कब्रस्तान को मस्जिद बनाकर उनकी इबादत करेंगे
📚मुसन अहमद हदीस न.3844
👉आज इस काम को बखूबी बातील फीर्का अंजाम देरहा हे
👉बेवक़ूफ़ हे वो लॉग जिंदा रब्बको छोड़कर मुरदे को पुकारते हे
📖कूरान
मोमीन(Momin)65 :वो जिंदा हे जिस के सिवा कोई माबूद नही पश तुम खालिश उसीकी इबादत करते हुये उसे पुकारो तमाम खूबियां अल्लाह ही के लिये है जो तमाम जहाँनौ रब्ब हे
👉हदीस
नबी (ﷺ)ने फरमाया जिसने दूवा मे गैरूल्लह को पुकारा वो जहन्नम मे जायेगा ओर जिसने नही पुकारा वो जन्नत मे जयेगा
📚सही बुखारी हदीस न.4497
☝🏼अल्लाह रब्बूल इज्जत से दूवा हे हमे हक बात कहेने सुनने से ज्यादा अमल करने की तोफीक दे और उम्मते मुसलमानो को शिर्क से पाक रखे
आमीन.........
👉आइये देखते हे इन कबर परस्त मुशरिक का बातिल अकीदा
📖कूरान औऱ 📚हदीस की रोशनी मे
👉सवाल :क्या आप मुरदे को सुना सकते
📖कुरान
अन-नम्ल (An-Naml):80 - तुम मुर्दों को नहीं सुना सकते और न बहरों को अपनी पुकार सुना सकते हो, जबकि वे पीठ देकर फिरे भी जा रहें हो।
👉सोचिए दोस्तो अगर आप बहेरे को नही सुना सकते तो मुरदे को केसे सुना सकते जबकि बहरे को अल्लाह ने सिर्फ एक नेमत छीन लिया या दिया ही नही तो आप उस मूर्दे को केसे सुना सकते हो जिसकी सबमें बड़ी नेमत उसकी रूह हे जिसे अल्लाहने छीन्ली उसकी जिस्म से
👉बाज लॉग कहते हे कब्रस्तान मे जाकर जो हम सलाम पेश करते हे तो मुरदे सुनते होंगे
📖कूरान
फातिर (Fatir):22 - और ना जिंदा और मुर्दा बराबर है। निश्चय ही अल्लाह जिसे चाहता है सुनाता है। तुम उन लोगों को नहीं सुना सकते, जो क़ब्रों में हो।
👉अल्लाह के लीये हर काम आसान हे अल्लाह हर चीज़ पर कादिर हे
📖कूरान
अल-आराफ़ (Al-'A`raf):194 - तुम अल्लाह को छोड़कर जिन्हें पुकारते हो वे तो तुम्हारे ही जैसे बन्दे है, पश पुकार लो उनको, अगर तुम सच्चे हो, तो उन्हें चाहिए कि वो तुम्हें जवाब दे!
👉अल्लाह से हटकर या उसके साथ जीन को पुकारते हे ,तो क्या वो किसी चीज़ को पैदा क्या हे या किसी चीज़ का मालिक हे जिस पर अल्लाह की कुदरत हे
📖कूरान
अन-नह्ल (An-Nahl):20"21 - और जिन्हें वे अल्लाह से हटकर पुकारते है वे किसी चीज़ को भी पैदा नहीं करते, बल्कि वे ( खुद ) पैदा किए जाते है
- मुरदे है, जिनमें रूह नहीं। उन्हें इल्म नहीं कि वो कब उठाए जाएँगे
📖कूरान
फातीर (Fatir 14)अगर सुनभीले तो फरयाद रसी नही करेंगे बलके कयामत के दीन तुम्हारे इस शिर्क का साफ साफ इनकार करदेंगे और पूरी ख़बर रखनेवाला अल्लाह की तरह तुम्हे कोई नही बताएगा
📖कूरान
फातिर (Fatir):13 - वह रात को दिन में दाखिल करता है और दिन को रात में दाखिल करता हैं। उसने सूर्य और चाँद को काम में लगा रखा है। प्रत्येक एक नियत समय पूरी करने के लिए चल रहा है। वही अल्लाह तुम्हारा रब है। उसी की बादशाही है। उससे हटकर जिनको तुम पुकारते हो वे एक तिनके के भी मालिक नहीं
👉ओर अल्लाह उनलोगों चेल्न्ज करता हे जो अल्लाह के सिवा या अल्लाह के साठ जिनको पुकारते हे
📖कूरान
अल -हज (Al- Haj)73 लोगो एक मिशाल बयान कि जारही हे ज़रा कान लगाकर सुनो अल्लाह के सिवा जीन जीन को तुम पुकारते हो वोह एक मक्खी भी तो पैदा नही करसकते गोया सारेही एक साथ जमा हो जाये बलकि अगर मक्खी उनसे कोई चीज़ लेभागे तो येह तो उस्सेभी उस्से छीन नही सकते पुकारने वालाभी लाचार ओर जिसको पुकार राहा हे वोभी लाचार
👉दरगाह मे जो न्याज रखते हे अगर मक्खी उसमें बैठजाये तो किया मक्खी को भगा सकते हे जीन के नाम पर जो न्याज रखते हे नही हरगिज़ नही
👉बातील फिरका कहते हे वली अंबिया और अल्लाह के नबी मरते नही
📖कूरान
जूमर ( zumar )30:ए नबी (ﷺ)आपको भी मरना हे ओर आपके पीछे जो आनेवाले हे उन्हेभी मरना हे
👉जब अल्लाह रब्बूल इज्जत ने नबी(ﷺ)को मरने की आयत नाजील की जब नबी (ﷺ)को मौत आसक्ति हे
फ़िर वो कौन हे जो मर नही सकते नबी (ﷺ)से अजीज और कोई नही और ना होगा
📖कूरान
अर-रहमान (Ar-Rahman):26,27 हर नफ्स( मख्लूक )जो भी इस (ज़मीन ) पर है, सब फनाह होने वाली है
- लेकिन तुम्हारे रब की जात हमेशा रहनेवाली है
👉हदीस
नबी (ﷺ) ने फरमया मेरी उम्मत के बदतरीन लोग वो होंगे जो कब्रस्तान को मस्जिद बनाकर उनकी इबादत करेंगे
📚मुसन अहमद हदीस न.3844
👉आज इस काम को बखूबी बातील फीर्का अंजाम देरहा हे
👉बेवक़ूफ़ हे वो लॉग जिंदा रब्बको छोड़कर मुरदे को पुकारते हे
📖कूरान
मोमीन(Momin)65 :वो जिंदा हे जिस के सिवा कोई माबूद नही पश तुम खालिश उसीकी इबादत करते हुये उसे पुकारो तमाम खूबियां अल्लाह ही के लिये है जो तमाम जहाँनौ रब्ब हे
👉हदीस
नबी (ﷺ)ने फरमाया जिसने दूवा मे गैरूल्लह को पुकारा वो जहन्नम मे जायेगा ओर जिसने नही पुकारा वो जन्नत मे जयेगा
📚सही बुखारी हदीस न.4497
☝🏼अल्लाह रब्बूल इज्जत से दूवा हे हमे हक बात कहेने सुनने से ज्यादा अमल करने की तोफीक दे और उम्मते मुसलमानो को शिर्क से पाक रखे
आमीन.........
Monday, October 3, 2016
چار امام چاروں برحق ( تقلید ) پر ایک نظر
چار امام چاروں برحق ( تقلید ) پر ایک نظر
قرآن کی روشنی میں
4 : سورة النساء 80
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
4 : سورة النساء 61
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا
ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے مُنہ پھیر کر رُکے جاتے ہیں
4 : سورة النساء 59
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔
4 : سورة النساء 65
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں
3 : سورة آل عمران 32
قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ
کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا
3 : سورة آل عمران 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
3 : سورة آل عمران 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ
2 : سورة البقرة 170
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں۔
آج کل جو لوگ چار امال کی تقلید کے داویدار ہیں کیا وہ ان آیات پر عمل کر رہے ہیں.؟؟؟؟
مطلوب احمد صدیقی
قرآن کی روشنی میں
4 : سورة النساء 80
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
4 : سورة النساء 61
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا
ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے مُنہ پھیر کر رُکے جاتے ہیں
4 : سورة النساء 59
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔
4 : سورة النساء 65
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں
3 : سورة آل عمران 32
قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ
کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا
3 : سورة آل عمران 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
3 : سورة آل عمران 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ
2 : سورة البقرة 170
اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں۔
آج کل جو لوگ چار امال کی تقلید کے داویدار ہیں کیا وہ ان آیات پر عمل کر رہے ہیں.؟؟؟؟
مطلوب احمد صدیقی
قرآن مجید کی}}} حکیمانہ مثالیں
☆بسم اللہ الرحمن الرحیم☆
.
{{{ قرآن مجید کی}}}
حکیمانہ مثالیں
.
ارشاد باری تعالی ہے👇🏿
.
مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًۭا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿41﴾
.
👈🏿ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جنہوں نے الله کے سوا حمایت بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے جس نے گھر بنایا اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے کاش وہ جانتے
.
(سورۃ عنکبوت،آیت 41)
.
نیز فرمان باری تعالی ہے👇🏿
.
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌۭ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخْلُقُوا۟ ذُبَابًۭا وَلَوِ ٱجْتَمَعُوا۟ لَهُۥ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ ٱلذُّبَابُ شَيْا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلْمَطْلُوبُ ﴿73﴾مَا قَدَرُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ ﴿74﴾
.
👈🏿ترجمہ: اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے جمع ہوجائیں
.
👈🏿اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے تو اسے مکھی سے چھڑا نہیں سکتے عابد اور معبود دونوں ہی عاجز ہیں انہوں نے الله کی کچھ بھی قدر نہ کی بے شک الله زوروالا غالب ہے
(سورۃ حج،آیت73-74)
.
وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ إِلَّا كَبَٰسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَٰلِغِهِۦ ۚ وَمَا دُعَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ إِلَّا فِى ضَلَٰلٍۢ ﴿14﴾
.
👈🏿ترجمہ: اوراس کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آتے مگر جیسا کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے کہ اس کے منہ میں آجائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک نہیں پہنچتا اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے
.
(سورۃ الرعد،آیت 14)
.
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا رَّجُلًۭا فِيهِ شُرَكَآءُ مُتَشَٰكِسُونَ وَرَجُلًۭا سَلَمًۭا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿29﴾
.
👈🏿ترجمہ: الله نے ایک مثال بیان کی ہے ایک غلام ہے جس میں کئی ضدی شریک ہیں اور ایک غلام سالم ایک ہی شخص کا ہے کیا دونوں کی حالت برابر ہے سب تعریف الله ہی کے لیے ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے
.
(سورۃ الزمر،آیت 29)
.
ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًۭا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌۭ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ ﴿28﴾
.
👈🏿ترجمہ: وہ تمہارے لیے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کیا جن کے تم مالک ہو وہ اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے شریک ہیں پھر اس میں تم برابر ہو
.
👈🏿تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو اس طرح ہم عقل والوں کے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں
.
(سورۃ الروم،آیت 28)
.
۞ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا عَبْدًۭا مَّمْلُوكًۭا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَمَن رَّزَقْنَٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًۭا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّۭا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُۥنَ ۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿75﴾
.
👈🏿ترجمہ: اللہ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے
.
👈🏿 اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں؟ (ہرگز نہیں) الحمدلله لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے
.
(سورۃالنحل،آیت 75)
.
توحید کے مسائل
ازمحمد اقبال کیلانی
Afaq ahmed:
اسلام امن کا پیغام
.
{{{ قرآن مجید کی}}}
حکیمانہ مثالیں
.
ارشاد باری تعالی ہے👇🏿
.
مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًۭا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿41﴾
.
👈🏿ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جنہوں نے الله کے سوا حمایت بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے جس نے گھر بنایا اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے کاش وہ جانتے
.
(سورۃ عنکبوت،آیت 41)
.
نیز فرمان باری تعالی ہے👇🏿
.
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌۭ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخْلُقُوا۟ ذُبَابًۭا وَلَوِ ٱجْتَمَعُوا۟ لَهُۥ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ ٱلذُّبَابُ شَيْا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلْمَطْلُوبُ ﴿73﴾مَا قَدَرُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ ﴿74﴾
.
👈🏿ترجمہ: اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے جمع ہوجائیں
.
👈🏿اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے تو اسے مکھی سے چھڑا نہیں سکتے عابد اور معبود دونوں ہی عاجز ہیں انہوں نے الله کی کچھ بھی قدر نہ کی بے شک الله زوروالا غالب ہے
(سورۃ حج،آیت73-74)
.
وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ إِلَّا كَبَٰسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَٰلِغِهِۦ ۚ وَمَا دُعَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ إِلَّا فِى ضَلَٰلٍۢ ﴿14﴾
.
👈🏿ترجمہ: اوراس کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آتے مگر جیسا کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے کہ اس کے منہ میں آجائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک نہیں پہنچتا اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے
.
(سورۃ الرعد،آیت 14)
.
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا رَّجُلًۭا فِيهِ شُرَكَآءُ مُتَشَٰكِسُونَ وَرَجُلًۭا سَلَمًۭا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿29﴾
.
👈🏿ترجمہ: الله نے ایک مثال بیان کی ہے ایک غلام ہے جس میں کئی ضدی شریک ہیں اور ایک غلام سالم ایک ہی شخص کا ہے کیا دونوں کی حالت برابر ہے سب تعریف الله ہی کے لیے ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے
.
(سورۃ الزمر،آیت 29)
.
ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًۭا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌۭ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ ﴿28﴾
.
👈🏿ترجمہ: وہ تمہارے لیے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کیا جن کے تم مالک ہو وہ اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے شریک ہیں پھر اس میں تم برابر ہو
.
👈🏿تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو اس طرح ہم عقل والوں کے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں
.
(سورۃ الروم،آیت 28)
.
۞ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا عَبْدًۭا مَّمْلُوكًۭا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَمَن رَّزَقْنَٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًۭا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّۭا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُۥنَ ۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿75﴾
.
👈🏿ترجمہ: اللہ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے
.
👈🏿 اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں؟ (ہرگز نہیں) الحمدلله لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے
.
(سورۃالنحل،آیت 75)
.
توحید کے مسائل
ازمحمد اقبال کیلانی
Afaq ahmed:
اسلام امن کا پیغام
💥: نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ ہی جہنمی ختم ہوں گے🔥
🔴♦🔴♦🔴♦🔴♦🔴♦🔴
💥: نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ ہی جہنمی ختم ہوں گے🔥
سوال: اللہ تعالی نے کفار اور بے دین لوگوں کو جہنم کی دھمکی دی اور فرمایا: {لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا} (وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے) تو کیا جہنم میں ان کو عذاب ہمیشہ جاری رہے گا ؟اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ اللہ کے عدل اور اسکی رحمت سے متصادم ہے؟ یا ان کا عذاب اتنی مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟
جواب
الحمد للہ:
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نہ فنا ہو گی اور نہ ہی ختم ، اور جہنم سے صرف توحید پرست گناہ گار لوگ ہی اللہ کے حکم سے باہر نکلیں گے ، جبکہ کافر اور بے دین لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
امام ابن حزم اپنی کتاب "مراتب الاجماع" میں کہتے ہیں :
"یقیناً جہنم بر حق ہے اور یہ ایسا عذاب کا ٹھکانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا ، اور جہنمی اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی فنا نہیں ہونگے"
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب "الفصل فی الملل والاھواء والنحل "میں کہا ہے کہ:
"امت کے تمام فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنت ، اور جنت کی نعمتیں، جہنم اور جہنم کا عذاب کبھی ختم نہ ہوں گے ، صرف جہم بن صفوان ، ابو ہذیل علاف اور کچھ رافضیوں نے اس بات کا انکار کیا ہے ، چنانچہ جہم بن صفوان کا کہنا ہے کہ :
" جنت اور جہنم ،جنتی اور جہنمی سب ختم ہو جائیں گے"
جبکہ ابو ہذیل کا کہنا ہے کہ:
" جنت ، جہنم اور ان میں رہنے والے تو فنا نہ ہوں گے مگر ان کی حرکات و سکنات ختم ہو جائیں گی اور جمادات کی طرح ان میں کوئی حرکت کی سکت نہ ہو گی اسی حالت میں زندگی کی لذتیں اٹھائیں گے یا عذاب انہیں عذاب ملے گا۔
رافضیوں کا کہنا ہے کہ:
"یقیناً جنتی اور جہنمی جب الله چاہے گا جنت اور جہنم سے ضرور نکلیں گے "
"الفصل " (4 /145) طبعہ دار الجیل
طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "عقیدہ طحاویہ " میں کہتے ہیں:
" جنت و جہنم اللہ کی مخلوق ہیں جو نہ کبھی ختم ہوں گی اور نہ ہی فنا ہونگی "
کتاب و سنت کے دلائل کا انبار اس عقیدے کے اثبات میں موجود ہیں ، چنانچہ ان دلائل میں سے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ}
"اور ان کیلئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے " [المائدة : 37]
اور اسی طرح فرمایا:
( لَا يُفَتَّر عَنْهُمْ وَهُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ)
ترجمہ: اور ان سے [عذاب ]کم نہیں ہوگا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے۔ [الزخرف :75]
ایک جگہ فرمایا:
( خَالِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا)
ترجمہ: وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔[البینۃ:8]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ)
ترجمہ: اور وہ اس جہنم میں سے نکالے نہیں جائیں گے۔[ الحجر :48]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ)
اور وہ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے ۔[البقرۃ :167]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ)
ترجمہ: اور اونٹ کے سوئی کے ناکے سے داخل ہو جانے تک وہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے۔(الاعراف /40)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی :
( لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ )
ترجمہ: اور ان پر [موت کا ]فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ، ہم ہر نا شکرے کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ [الفاطر :36]
اس کے علاوہ احادیث نبویہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین بھی اسی عقیدہ کی دلیل ہیں:
فرمانِ نبوی ہے:
( قیامت کے دن موت کو چتکبرے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کر کے کہا جائے گا: " اے جنتیو !کیا اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے :"جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے")
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :(پھر کہا جائے گا : "اے جہنمیو ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے : " جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے "
پھر اسے ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور ذبح کر دیا جائے گا ۔
پھر کہا جائے گا :" جنتیو ! جنت میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں موت کبھی نہیں آئے گی"
اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : " جہنمیو! جہنم میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں بھی موت کبھی نہیں آئے گی"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
( وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ)
ترجمہ: اور آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں کہ جب ہر معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا ، لیکن وہ حالت ِ غفلت میں ہیں ، اور اس بات کو نہیں مانتے) اسے مسلم (5087) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
صحیح اور صریح نص نے اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، کہ جہنمی ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ مریں گے اور نہ وہاں سے باہر نکل سکیں گے ، بالکل اسی طرح جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے ۔
عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابی العز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
" مشہور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے بھی "لا الہ الا اللہ " پڑھا ہے وہ جہنم سے ضرور نکلے گا۔
شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم سے باہر نکلیں گے، نیز ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم سے باہر آنے کا حکم صرف انہی کے ساتھ مختص ہے ، اگر کفار بھی جہنم سے نکل جائیں پھر تو کفار بھی گناہ گار موحدین کے ہم پلہ و مرتبہ ہونگے اور جہنم سے باہر نکلنے کا امتیاز صرف اہل ایمان کے پاس باقی نہ رہے گا" انتہی
" شرح الطحاویۃ " صفحہ: 430، طبعہ المکتب الاسلامی
چنانچہ اللہ تعالی کا جہنمیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
{لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا} [النبأ : 23 - 25]
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24]ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کے۔ [النبأ :23- 25]
قرطبی رحمہ ا للہ کے مطابق ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ:
"جہنمی جہنم میں اس وقت تک رہیں گے جب تک "احقاب" ہیں اور احقاب میں کبھی انقطاع نہیں آئے گا چنانچہ جب بھی ایک "حُقُب" [زمانہ ] گزر جائے گا تو دوسرا حقب آ جائے گا اور حقب –حا اور قاف کے پیش کے ساتھ - کا معنی ہے " زمانہ " تو اس کی جمع احقاب کا معنی ہوا "زمانے " اور "حِقبۃ "-حا کے نیچے زیر کے ساتھ - کا معنی ہے "سال" اور اس کی جمع "حِقب"-حا کے نیچے زیر- ہے ۔۔۔۔ اور "حُقْب"(حا پر پیش اور قاف پر جزم کے ساتھ )کا معنی "80 سال " کا عرصہ ہے، جبکہ ایک قول کے مطابق اس سے زیادہ عرصہ بھی کہا گیا ہے جیسے کہ وضاحت آگے آ رہی ہے اور اس کی جمع "احقاب" آتی ہے ، چنانچہ اس آیت کا معنی یہ ہوا کہ "وہ جہنم میں آخرت کے ایسے زمانے تک رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے "
چنانچہ لفظ "آخرت " آیت کے سیاق و سباق کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ؛ کیونکہ ان آیات میں کلام ہی آخرت کے بارے میں ہو رہی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے "ایام الآخرۃ " اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک غیر متناہی مدت تک دنوں کے بعد دن۔
البتہ آیت میں مذکور لفظ " أَحْقَابًا " تب معین وقت کا معنی دیتا ہے جب اسے معین کیا جائے، مثال کے طور پر کہا جائے "خمسۃ أحقاب" یا "عشرۃ احقاب" یعنی پانچ یا دس احقاب۔
نیز آیت میں " أَحْقَابًا " کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ " أَحْقَاب" ان کے ہاں لمبے سے لمبے عرصے پر بولا جاتا تھا ؛ چنانچہ اللہ تعالی نے انہی الفاظ کیساتھ ان سے کلام فرمایا جس کی طرف ان کا تصور جا سکتا تھا اور جسے وہ جانتے بھی تھے ۔
ویسے بھی یہ لفظ ہمیشگی سے کنایہ ہے ، تو معنی یہ ہوا کہ وہ اس میں ہمیشہ کیلئے رہیں گے۔
یہ بھی ایک موقف ہے کہ ایام کی بجائے احقاب کا لفظ اس لئے ذکر کیا تاکہ دلو ں میں زیادہ خوفناکی اور ہول پیدا ہو نیز وہاں پر سرمدی و ابدی ٹھکانے کا معنی مزید پختگی سے سامع کے ذہن میں نقش ہو، تاہم ایام اور احقاب کا معنی تقریباً قریب قریب ہی ہے ۔
یہ واضح رہے کہ جہنم میں سرمدی ٹھکانہ صرف مشرکوں کے لیے ہے ، تاہم اس آیت کو ان نافرمان موحد لوگوں پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے جو آگ میں سے ایک لمبی مدت کے بعد سزا پوری کرنے پر نکلیں گے ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ احقاب ان کے کھولتے پانی اور بہتی پیپ پینے کے وقت کا نام ہے، جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو ان کیلئے عذاب کی کوئی اور نئی قسم ہوگی اسی لئے فرمایا :
{لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا}
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24] ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی پیپ کے [النبأ : 23 - 25] "
قرطبی رحمہ اللہ کی تفسیر سے اقتباس مکمل ہوا۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان :
{فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ}
ترجمہ: بد بخت لوگوں کی آگ میں چیخ و پکار ہوگی[106] وہ آگ میں اس وقت تک رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، ما سوائے ان لوگوں کے جنہیں تیرا رب [کم مدت آگ میں رکھنا]چاہے، بیشک تیرا رب اپنے ارادوں کو کر دکھانے والا ہے۔[هود : 106 - 107]
قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں گیارہ اقوال ذکر کیے ہیں جو تمام کے تمام کافروں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا معنی بیان کرتے ہیں اور ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ :
" ان نافرمان مومن لوگوں کو استثنا حاصل ہے جو ایک مدت کے بعد جہنم سے نکلیں گے"
چنانچہ اس تفسیر کی بنا پر فرمانِ باری تعالی " فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا" میں کافر اور نافرمان مسلمان سب شامل ہونگے، اور پھر " خَالِدِينَ "سے "اِلَّا " حرف استثنا کے ساتھ نافرمانوں کو مستثنی کیا گیا ۔
اس کی تائید کیلئے صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (لوگ جہنم میں داخل ہونے کے بعد جب جل کر کوئلے کی طرح ہو جائیں گے تو انہیں جہنم سے نکالا جائے گا، اور پھر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، جنت میں ان کا لقب "جہنمی" ہوگا ) بخاری : (6896)
اور ان اقوال میں ایک یہ قول بھی ہے کہ یہاں "اِلَّا" حرف استثنا "سِوَی" کے معنی میں ہے جیسا کہ آپ عربی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں "مَا مَعِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ" [یعنی: میرے ساتھ زید کے سوا کوئی نہیں ]اور اسی طرح "وَلِيَ عَلَیْکَ أَلْفَا دِرَهَمٍ إِلَّا الْأَلْفَ الَّتِیْ لِيْ عَلَیْکَ" [یعنی: تمہارے ذمہ میرے ایک ہزار درہم کے سوا دو ہزار اور بھی درہم ہیں]چنانچہ آیت کا معنی یہ ہوا کہ : [وہ جہنم میں اس وقت تک رہیں گے]جب تک زمین و آسمان ہیں ، سوائے اتنی مدت کے جتنی تیرا رب چاہے گا۔
ہم نے تفسیر کی باقی صورتوں کو اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ، آپ ان کی طرف رجوع کیجئے بہت فائدہ ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ، حدیث اور اجماع اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جہنم اور اسکے مکیں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اور اس سے متصادم کوئی بھی صحیح واضح دلیل اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت یا صحابہ و تابعین کے آثار سے نہیں ملتی ہے ۔
چنانچہ اس کے ساتھ آپ کے سوال کے اس جز کا جواب پورا ہو گیا کہ :" ان کا عذاب ایک مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟"
بطور خلاصہ کہا جائے گا کہ : جن دلائل کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے ایسے دلائل ہیں جن سے اہل سنت کے عقیدے کی ہی تائید ہوتی ہے، اور اگر شرعی نصوص جہنم میں کفار کے جانے کے بعد اگلے کسی مرحلے کا ذکر نہیں کرتیں تو حقیقت میں یہ ہمارے بیان کردہ عقیدے کی ہی تائید ہے، کیونکہ ہم نے بتلایا ہے کہ "احقاب" سے مراد لا متناہی مدت ہے،[یعنی وہ اس مرحلے کے اختتام تک ہی نہیں پہنچے گے چہ جائیکہ کہ وہ اگلے مرحلے میں منتقل ہوں] اللہ ہمیں اور آپ کو ہمہ قسم کے عذاب سے محفوظ فرمائے ۔
مذکورہ عقیدہ اللہ کے عدل اور رحمت سے متصادم بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ اللہ تعالی کے عدل اور حکمت کا تقاضا ہے ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (36) وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ }
ترجمہ: اور کافروں کیلئے جہنم کی آگ ہے ان کیلئے موت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب میں کمی واقع کی جائے گی، ہر ناشکرے کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں [36] وہ اس میں چلاتے ہوئے کہیں گے: اے ہمارے رب ہمیں [اس عذاب سے] نکال دے ہم برے اعمال کی بجائے اب نیک اعمال کریں گے ، [ان سے کہا جائے گا] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کر نے ولا شخص نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا، اب عذاب چکھو، ظالموں کیلئے کوئی مدد گار نہیں ہے۔ [فاطر : 36 - 37]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (74) لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (75) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ (76) وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ (77) لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ }
ترجمہ: بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے [74] ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے [75] ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے [76] اور پکاریں گے : اے مالک ! تیرا رب ہم پر موت کا فیصلہ صادر کر دے، تو مالک کہے گا : بےشک تم اسی میں رہو گے [77]یقیناً ہم تمہارے پاس حق لائے، لیکن اکثر تم میں سے حق پسند نہیں کرتے تھے ۔ [الزخرف : 74 - 78]
اسی طرح فرمایا:
( أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ [34]مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ)
ترجمہ: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا بنا دیں گے [34] تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے [بے تکے] فیصلے کرتے ہو ! [القلم :34 -35]
اسی طرح فرمایا :
{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (21) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ}
ترجمہ: گناہوں کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا !یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں [21] اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حقیقی مصلحت کے تحت پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا [الجاثيہ : 21 - 22]
اسی طرح فرمایا:
(اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا اِنَّہٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ)
ترجمہ: تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا، یہ ان کے انکارِ حق کا بدلہ ہے۔[ یونس :4]
ان آیاتِ مبارکہ پر غور فکر کرنے والے کو یقین کامل ہو جائے گا کہ اللہ تعالی حکمت و رحمت اور علم والا ہے، وہ کبھی کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، کیونکہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
یہ اللہ تعالی کی شان ہے کہ:
( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُوْنَ)
ترجمہ: وہ اپنے کاموں میں کسی کو جوابدہ نہیں ہے باقی سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ [الانبیاء :23]
واللہ اعلم .
🔥💥🔥💥🔥💥🔥💥🔥💥🔥
💥: نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ ہی جہنمی ختم ہوں گے🔥
سوال: اللہ تعالی نے کفار اور بے دین لوگوں کو جہنم کی دھمکی دی اور فرمایا: {لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا} (وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے) تو کیا جہنم میں ان کو عذاب ہمیشہ جاری رہے گا ؟اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ اللہ کے عدل اور اسکی رحمت سے متصادم ہے؟ یا ان کا عذاب اتنی مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟
جواب
الحمد للہ:
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نہ فنا ہو گی اور نہ ہی ختم ، اور جہنم سے صرف توحید پرست گناہ گار لوگ ہی اللہ کے حکم سے باہر نکلیں گے ، جبکہ کافر اور بے دین لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
امام ابن حزم اپنی کتاب "مراتب الاجماع" میں کہتے ہیں :
"یقیناً جہنم بر حق ہے اور یہ ایسا عذاب کا ٹھکانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا ، اور جہنمی اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی فنا نہیں ہونگے"
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب "الفصل فی الملل والاھواء والنحل "میں کہا ہے کہ:
"امت کے تمام فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنت ، اور جنت کی نعمتیں، جہنم اور جہنم کا عذاب کبھی ختم نہ ہوں گے ، صرف جہم بن صفوان ، ابو ہذیل علاف اور کچھ رافضیوں نے اس بات کا انکار کیا ہے ، چنانچہ جہم بن صفوان کا کہنا ہے کہ :
" جنت اور جہنم ،جنتی اور جہنمی سب ختم ہو جائیں گے"
جبکہ ابو ہذیل کا کہنا ہے کہ:
" جنت ، جہنم اور ان میں رہنے والے تو فنا نہ ہوں گے مگر ان کی حرکات و سکنات ختم ہو جائیں گی اور جمادات کی طرح ان میں کوئی حرکت کی سکت نہ ہو گی اسی حالت میں زندگی کی لذتیں اٹھائیں گے یا عذاب انہیں عذاب ملے گا۔
رافضیوں کا کہنا ہے کہ:
"یقیناً جنتی اور جہنمی جب الله چاہے گا جنت اور جہنم سے ضرور نکلیں گے "
"الفصل " (4 /145) طبعہ دار الجیل
طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "عقیدہ طحاویہ " میں کہتے ہیں:
" جنت و جہنم اللہ کی مخلوق ہیں جو نہ کبھی ختم ہوں گی اور نہ ہی فنا ہونگی "
کتاب و سنت کے دلائل کا انبار اس عقیدے کے اثبات میں موجود ہیں ، چنانچہ ان دلائل میں سے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ}
"اور ان کیلئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے " [المائدة : 37]
اور اسی طرح فرمایا:
( لَا يُفَتَّر عَنْهُمْ وَهُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ)
ترجمہ: اور ان سے [عذاب ]کم نہیں ہوگا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے۔ [الزخرف :75]
ایک جگہ فرمایا:
( خَالِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا)
ترجمہ: وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔[البینۃ:8]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ)
ترجمہ: اور وہ اس جہنم میں سے نکالے نہیں جائیں گے۔[ الحجر :48]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ)
اور وہ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے ۔[البقرۃ :167]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ)
ترجمہ: اور اونٹ کے سوئی کے ناکے سے داخل ہو جانے تک وہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے۔(الاعراف /40)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی :
( لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ )
ترجمہ: اور ان پر [موت کا ]فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ، ہم ہر نا شکرے کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ [الفاطر :36]
اس کے علاوہ احادیث نبویہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین بھی اسی عقیدہ کی دلیل ہیں:
فرمانِ نبوی ہے:
( قیامت کے دن موت کو چتکبرے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کر کے کہا جائے گا: " اے جنتیو !کیا اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے :"جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے")
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :(پھر کہا جائے گا : "اے جہنمیو ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے : " جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے "
پھر اسے ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور ذبح کر دیا جائے گا ۔
پھر کہا جائے گا :" جنتیو ! جنت میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں موت کبھی نہیں آئے گی"
اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : " جہنمیو! جہنم میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں بھی موت کبھی نہیں آئے گی"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
( وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ)
ترجمہ: اور آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں کہ جب ہر معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا ، لیکن وہ حالت ِ غفلت میں ہیں ، اور اس بات کو نہیں مانتے) اسے مسلم (5087) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
صحیح اور صریح نص نے اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، کہ جہنمی ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ مریں گے اور نہ وہاں سے باہر نکل سکیں گے ، بالکل اسی طرح جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے ۔
عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابی العز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
" مشہور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے بھی "لا الہ الا اللہ " پڑھا ہے وہ جہنم سے ضرور نکلے گا۔
شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم سے باہر نکلیں گے، نیز ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم سے باہر آنے کا حکم صرف انہی کے ساتھ مختص ہے ، اگر کفار بھی جہنم سے نکل جائیں پھر تو کفار بھی گناہ گار موحدین کے ہم پلہ و مرتبہ ہونگے اور جہنم سے باہر نکلنے کا امتیاز صرف اہل ایمان کے پاس باقی نہ رہے گا" انتہی
" شرح الطحاویۃ " صفحہ: 430، طبعہ المکتب الاسلامی
چنانچہ اللہ تعالی کا جہنمیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
{لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا} [النبأ : 23 - 25]
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24]ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کے۔ [النبأ :23- 25]
قرطبی رحمہ ا للہ کے مطابق ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ:
"جہنمی جہنم میں اس وقت تک رہیں گے جب تک "احقاب" ہیں اور احقاب میں کبھی انقطاع نہیں آئے گا چنانچہ جب بھی ایک "حُقُب" [زمانہ ] گزر جائے گا تو دوسرا حقب آ جائے گا اور حقب –حا اور قاف کے پیش کے ساتھ - کا معنی ہے " زمانہ " تو اس کی جمع احقاب کا معنی ہوا "زمانے " اور "حِقبۃ "-حا کے نیچے زیر کے ساتھ - کا معنی ہے "سال" اور اس کی جمع "حِقب"-حا کے نیچے زیر- ہے ۔۔۔۔ اور "حُقْب"(حا پر پیش اور قاف پر جزم کے ساتھ )کا معنی "80 سال " کا عرصہ ہے، جبکہ ایک قول کے مطابق اس سے زیادہ عرصہ بھی کہا گیا ہے جیسے کہ وضاحت آگے آ رہی ہے اور اس کی جمع "احقاب" آتی ہے ، چنانچہ اس آیت کا معنی یہ ہوا کہ "وہ جہنم میں آخرت کے ایسے زمانے تک رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے "
چنانچہ لفظ "آخرت " آیت کے سیاق و سباق کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ؛ کیونکہ ان آیات میں کلام ہی آخرت کے بارے میں ہو رہی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے "ایام الآخرۃ " اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک غیر متناہی مدت تک دنوں کے بعد دن۔
البتہ آیت میں مذکور لفظ " أَحْقَابًا " تب معین وقت کا معنی دیتا ہے جب اسے معین کیا جائے، مثال کے طور پر کہا جائے "خمسۃ أحقاب" یا "عشرۃ احقاب" یعنی پانچ یا دس احقاب۔
نیز آیت میں " أَحْقَابًا " کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ " أَحْقَاب" ان کے ہاں لمبے سے لمبے عرصے پر بولا جاتا تھا ؛ چنانچہ اللہ تعالی نے انہی الفاظ کیساتھ ان سے کلام فرمایا جس کی طرف ان کا تصور جا سکتا تھا اور جسے وہ جانتے بھی تھے ۔
ویسے بھی یہ لفظ ہمیشگی سے کنایہ ہے ، تو معنی یہ ہوا کہ وہ اس میں ہمیشہ کیلئے رہیں گے۔
یہ بھی ایک موقف ہے کہ ایام کی بجائے احقاب کا لفظ اس لئے ذکر کیا تاکہ دلو ں میں زیادہ خوفناکی اور ہول پیدا ہو نیز وہاں پر سرمدی و ابدی ٹھکانے کا معنی مزید پختگی سے سامع کے ذہن میں نقش ہو، تاہم ایام اور احقاب کا معنی تقریباً قریب قریب ہی ہے ۔
یہ واضح رہے کہ جہنم میں سرمدی ٹھکانہ صرف مشرکوں کے لیے ہے ، تاہم اس آیت کو ان نافرمان موحد لوگوں پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے جو آگ میں سے ایک لمبی مدت کے بعد سزا پوری کرنے پر نکلیں گے ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ احقاب ان کے کھولتے پانی اور بہتی پیپ پینے کے وقت کا نام ہے، جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو ان کیلئے عذاب کی کوئی اور نئی قسم ہوگی اسی لئے فرمایا :
{لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا}
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24] ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی پیپ کے [النبأ : 23 - 25] "
قرطبی رحمہ اللہ کی تفسیر سے اقتباس مکمل ہوا۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان :
{فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ}
ترجمہ: بد بخت لوگوں کی آگ میں چیخ و پکار ہوگی[106] وہ آگ میں اس وقت تک رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، ما سوائے ان لوگوں کے جنہیں تیرا رب [کم مدت آگ میں رکھنا]چاہے، بیشک تیرا رب اپنے ارادوں کو کر دکھانے والا ہے۔[هود : 106 - 107]
قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں گیارہ اقوال ذکر کیے ہیں جو تمام کے تمام کافروں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا معنی بیان کرتے ہیں اور ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ :
" ان نافرمان مومن لوگوں کو استثنا حاصل ہے جو ایک مدت کے بعد جہنم سے نکلیں گے"
چنانچہ اس تفسیر کی بنا پر فرمانِ باری تعالی " فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا" میں کافر اور نافرمان مسلمان سب شامل ہونگے، اور پھر " خَالِدِينَ "سے "اِلَّا " حرف استثنا کے ساتھ نافرمانوں کو مستثنی کیا گیا ۔
اس کی تائید کیلئے صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (لوگ جہنم میں داخل ہونے کے بعد جب جل کر کوئلے کی طرح ہو جائیں گے تو انہیں جہنم سے نکالا جائے گا، اور پھر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، جنت میں ان کا لقب "جہنمی" ہوگا ) بخاری : (6896)
اور ان اقوال میں ایک یہ قول بھی ہے کہ یہاں "اِلَّا" حرف استثنا "سِوَی" کے معنی میں ہے جیسا کہ آپ عربی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں "مَا مَعِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ" [یعنی: میرے ساتھ زید کے سوا کوئی نہیں ]اور اسی طرح "وَلِيَ عَلَیْکَ أَلْفَا دِرَهَمٍ إِلَّا الْأَلْفَ الَّتِیْ لِيْ عَلَیْکَ" [یعنی: تمہارے ذمہ میرے ایک ہزار درہم کے سوا دو ہزار اور بھی درہم ہیں]چنانچہ آیت کا معنی یہ ہوا کہ : [وہ جہنم میں اس وقت تک رہیں گے]جب تک زمین و آسمان ہیں ، سوائے اتنی مدت کے جتنی تیرا رب چاہے گا۔
ہم نے تفسیر کی باقی صورتوں کو اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ، آپ ان کی طرف رجوع کیجئے بہت فائدہ ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ، حدیث اور اجماع اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جہنم اور اسکے مکیں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اور اس سے متصادم کوئی بھی صحیح واضح دلیل اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت یا صحابہ و تابعین کے آثار سے نہیں ملتی ہے ۔
چنانچہ اس کے ساتھ آپ کے سوال کے اس جز کا جواب پورا ہو گیا کہ :" ان کا عذاب ایک مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟"
بطور خلاصہ کہا جائے گا کہ : جن دلائل کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے ایسے دلائل ہیں جن سے اہل سنت کے عقیدے کی ہی تائید ہوتی ہے، اور اگر شرعی نصوص جہنم میں کفار کے جانے کے بعد اگلے کسی مرحلے کا ذکر نہیں کرتیں تو حقیقت میں یہ ہمارے بیان کردہ عقیدے کی ہی تائید ہے، کیونکہ ہم نے بتلایا ہے کہ "احقاب" سے مراد لا متناہی مدت ہے،[یعنی وہ اس مرحلے کے اختتام تک ہی نہیں پہنچے گے چہ جائیکہ کہ وہ اگلے مرحلے میں منتقل ہوں] اللہ ہمیں اور آپ کو ہمہ قسم کے عذاب سے محفوظ فرمائے ۔
مذکورہ عقیدہ اللہ کے عدل اور رحمت سے متصادم بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ اللہ تعالی کے عدل اور حکمت کا تقاضا ہے ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (36) وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ }
ترجمہ: اور کافروں کیلئے جہنم کی آگ ہے ان کیلئے موت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب میں کمی واقع کی جائے گی، ہر ناشکرے کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں [36] وہ اس میں چلاتے ہوئے کہیں گے: اے ہمارے رب ہمیں [اس عذاب سے] نکال دے ہم برے اعمال کی بجائے اب نیک اعمال کریں گے ، [ان سے کہا جائے گا] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کر نے ولا شخص نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا، اب عذاب چکھو، ظالموں کیلئے کوئی مدد گار نہیں ہے۔ [فاطر : 36 - 37]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (74) لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (75) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ (76) وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ (77) لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ }
ترجمہ: بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے [74] ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے [75] ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے [76] اور پکاریں گے : اے مالک ! تیرا رب ہم پر موت کا فیصلہ صادر کر دے، تو مالک کہے گا : بےشک تم اسی میں رہو گے [77]یقیناً ہم تمہارے پاس حق لائے، لیکن اکثر تم میں سے حق پسند نہیں کرتے تھے ۔ [الزخرف : 74 - 78]
اسی طرح فرمایا:
( أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ [34]مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ)
ترجمہ: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا بنا دیں گے [34] تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے [بے تکے] فیصلے کرتے ہو ! [القلم :34 -35]
اسی طرح فرمایا :
{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (21) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ}
ترجمہ: گناہوں کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا !یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں [21] اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حقیقی مصلحت کے تحت پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا [الجاثيہ : 21 - 22]
اسی طرح فرمایا:
(اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا اِنَّہٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ)
ترجمہ: تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا، یہ ان کے انکارِ حق کا بدلہ ہے۔[ یونس :4]
ان آیاتِ مبارکہ پر غور فکر کرنے والے کو یقین کامل ہو جائے گا کہ اللہ تعالی حکمت و رحمت اور علم والا ہے، وہ کبھی کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، کیونکہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
یہ اللہ تعالی کی شان ہے کہ:
( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُوْنَ)
ترجمہ: وہ اپنے کاموں میں کسی کو جوابدہ نہیں ہے باقی سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ [الانبیاء :23]
واللہ اعلم .
🔥💥🔥💥🔥💥🔥💥🔥💥🔥
Subscribe to:
Posts (Atom)