حج تمتع قرآن میں
2 : سورة البقرة 196
وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۹۶﴾٪
حج اور عُمرے کو اللہ تعالٰی کے لئے پورا کرو ، ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میّسر حج اسے کر ڈالو اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے پس جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میّسر ہو اسے کر ڈالے جسے طاقت ہی نہ ہو تو وہ تین روزے تو حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی میں یہ پورے دس ہوگئے یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔
Tafseer ibne kaseer
حج اور عمرہ کے مسائل اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج وعمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے فللہ الحمد والمنۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا تمام کرنے کامقصد یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو تمہارا سفر صرف حج وعمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آگیا کہ آؤ حج وعمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج وعمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے، حضرت عمر فرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لئے کہ قرآن شریف میں ہے آیت (اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ) 2۔ البقرۃ:197) حج کے مہینے مقرر ہیں قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لئے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سن ٦ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں، دوسرا ذوالقعدہ سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سن ٨ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سن ١٠ہجری میں حج کے ساتھ ، ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا، ہاں آپ نے ام ہانی رضی اللہ عنہما نے آپ کے ساتھ حج کے لئے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیک سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہ کے لیے ہی مخصوص ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج وعمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے حضرت عبداللہ کی قرأت یہ ہے آیت ( واتموا الحج والعمرۃ الی البیت) عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہو گیا ، حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت ابن عباس کی قرأت بھی یہی تھی، حضرت علقمہ بھی یہی فرماتے ہیں ابراہیم سے مروی ہے حدیث (واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت ) ، حضرت شعبی کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے، بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ، ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہو گیا ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں، ایک روایت میں اس کا نام یعلی بن امیہ آیا ہے دوسری روایت میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اگر تم گھیر لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سن ٦ ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورۃ فتح اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چنانچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سر منڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجھکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ باہر آئے ، اور اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر سر منڈاوانے والوں کے لیے یہی دعا کی، تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کر دی، سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے واللہ اعلم۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہو جائے تو اس کے لئے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے، حضرت ابن عباس تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لئے ہی بتاتے ہیں ، ابن عمر، طاؤس ، زہری اور زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا لنگڑا لولا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا وہ اگلے سال حج کر لے راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے ابن عباس اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے، حضرت ابن مسعود، ابن زبیر ، علقمہ سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر ، مجاہد، نخعی، عطا اور مقاتل بن حیان سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہو جانا اور لنگڑا لولا ہو جانا بھی ایسا ہی عذر ہے، حضرت سفیان ثوری ہر مصیبت وایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ نے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کر لو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہو گی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا ناجائز ہے ، امام شافعی بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بیہقی فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا فالحمد للہ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے، حضرت علی فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے، ابن عباس فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں ۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے، ابن عباس سے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہوگا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں، گائے اور اونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں، بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہو جائیں ، حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری حضرت عروہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے، جمہور کے اس قول کی کہ بکری کافی ہے کہ یہ دلیل ہے کہ قرآن نے میسر آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہییں جیسے حبر البحر ترجمان قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی۔ پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، اس کا عطف آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ) 2۔ البقرۃ:196) پر ہے، آیت (فان احصرتم) پر نہیں امام ابن جریر سے یہاں سہو ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کر دیں، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج وعمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہولے اگر وہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو، بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سب تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ تو احرام میں ہی ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہو جائے میں احرام نہیں اتار سکتا ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دے دے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں کوفے کی مسجد میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہوگی میں خیال بھی نہیں کرسکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو میں نے کہا حضور! میں میں تو مفلس آدمی ہوں آپ نے فرمایا جاؤ اپنا سر منڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع (تقریبا سوا سیر سوا چھٹانک) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا ، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہوگئی تھیں، ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سر منڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کر دی، ایک اور حدیث میں ہے (نسک) یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق (پیمانہ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کر دینا ہے، حضرت علی، محمد بن کعب، علقمہ، ابراہیم، مجاہد ، عطا، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ او کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کر لے، حضرت مجاہد، عکرمہ، عطاء ، طاؤس، حسن، حمید، اعرج، ابراہیم نخعی اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کر لے روزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے ، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کر لے، پروردگار رحمن ورحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لئے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ افضلیت پر عمل کرانا تھا اس لئے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں فالحمد للہ سعید بن جبیر سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کر دیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے، حضرت حسن فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لئے کہ مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے ، طاؤس فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے، ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حج کو نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حضرت حسین تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے ایک مرتبہ حضرت علی نے پوچھا کیا حال ہے؟ جناب حسین نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کر دیا، تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لئے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لئے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمتع والا شخص بھی قربانی کرے ، خواہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو، اصل تمتع یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تمتع ان دونوں قسموں میں شامل ہے ، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں بعض راوی تو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حج تمتع کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے، پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تمتع کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنی درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کر سکتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تمتع والی تھیں (ابن مردویہ) اس سے ثابت ہوا کہ تمتع بھی مشروع ہے ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمتع کی آیت بھی قرآن میں نازل ہو چکی ہے اور ہم نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے، حضرت عمر سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج وعمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ) 2۔ البقرۃ:196) لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج وعمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃ مروی ہے رضی اللہ عنہ۔ پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کرسکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہو جائیں گے، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں، علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحج کے دنوں میں رکھ لے حضرت طاؤس مجاہد وغیرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں ، حضرت شعبی وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایک یوم الترویہ کا اور یک عرفہ کا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی وہی ہے۔ اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقروعید کے بعد کے تین دن آجائیں تو حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے (بخاری) امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت عکرمہ ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر سے بھی شامل ہے، حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔ پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد اور عطا یہی کہتے ہیں، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں ، بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے پھر حج کی تہلیل کی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے (بخاری) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں ۔ پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لئے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے آیت (ولا طائر یطیر بجناحیہ) نہ کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہو اور جگہ ہے آیت ( وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ) 39۔ العنکبوت:48) تو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھنا نہیں، اور جگہ ہے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ دیا اور دس اور اس کے ساتھ پورا کیا اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا، اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا، پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لئے ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام وکمال کرنے کا حکم ہے اور کاملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کر سکتے حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں ، بلکہ آپ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مکہ والو تم تمتع نہیں کر سکتے باہر والوں کے لئے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا ، حضرت طاؤس کی تفسیر بھی یہی ہے، لیکن حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں، ان کے لئے بھی تمتع کرنا جائز نہیں ، مکحول بھی یہی فرماتے ہیں، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے، زہری فرماتے ہی مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اس کے قریب وہ تو تمتع کر سکتا ہے اور لوگ نہیں کر سکتے، حضرت عطاء دو دن بھی فرماتے ہیں، امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لئے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لئے یہی حکم ہے اس لئے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر، اور ان سب کے لئے حج میں تمتع کرنا جائز ہے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام میں بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے۔
Wednesday, September 14, 2016
Saturday, September 10, 2016
تمام انبیاء (علیہ السلام ) پر اور کتابو پر ایمان رکھنے کی دلیل
تمام انبیاء (علیہ السلام ) پر اور کتابو پر ایمان رکھنے کی دلیل
2 : سورة البقرة 136
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾
اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز پر ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام )اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام )دیئے گئے۔ ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔
اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب! اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جو کچھ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اس پر تو وہ تفصیل وار ایمان لائیں اور جو آپ سے پہلے انبیاء پر اترا، اس پر بھی اجمالاً ایمان لائیں ۔ ان اگلے انبیاء کرام میں سے بعض کے نام بھی لے دئے اور باقی نبیوں کا مجمل ذکر کر دیا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کسی نبی کے درمیان تفریق نہ کریں کہ ایک کو مانیں اور دوسرے سے انکار کر جائیں جو عادت اوروں کی تھی کہ وہ انبیاء میں تفریق کرتے تھے، کسی کو مانتے تھے، کسی سے انکاری تھے، یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں کو نہیں مانتے تھی۔ ان سب کو فتویٰ ملا کہ آیت (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا) 4۔ النسآء:151) یہ لوگ بالیقین کافر ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اہل کتاب توراۃ کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور عربی میں تفسیر کر کے اہل اسلام کو سناتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی سچائی یا تکذیب نہ کرو ۔ کہ دیا کہ اللہ پر اور اس کی نازل ہوئی کتابوں پر ہمارا ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں میں پہلی رکعت میں یہ آیت (اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا) 2۔ البقرۃ:136) پوری آیت اور دوسری رکعت میں آیت (اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ) 3۔ آل عمران:52) پڑھا کرتے تھے اسباط حضرت یعقوب کے بیٹوں کو کہتے ہیں، جو بارہ تھے، جن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے، بنی اسماعیل کو قبائل کہتے تھے، اور بنی اسرائیل کو اسباط کہتے تھے۔ زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ یہ حضرت یعقوب کے پوتے تھے جو ان کے بارہ لڑکوں کی اولاد تھی۔ بخاری میں ہے کہ مراد قبائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان میں بھی نبی ہوئے تھے جن پر وحی نازل ہوئی تھی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا آیت ( اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ) 5۔ المائدہ:20) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے۔ اور جگہ ہے آیت (وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا) 7۔ الاعراف:160) ہم نے ان کے بارہ گروہ کر دئے۔ سبط کہتے ہیں درخت کو یعنی یہ مثل درخت کے ہیں، جس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کل انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں سوائے دس کے نوح، ہود، صالح، شعیب، ابراہیم لوط، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، محمد علیہم الصلوۃ والسلام۔ سبط کہتے ہیں اس جماعت اور قبیلہ کو جن کا مورث اعلیٰ اوپر جا کر ایک ہو ۔ ابن ابی خاتم میں ہے ہمیں توراۃ و انجیل پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن عمل کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی ہے۔
2 : سورة البقرة 136
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾
اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز پر ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام )اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام )دیئے گئے۔ ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔
اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب! اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جو کچھ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اس پر تو وہ تفصیل وار ایمان لائیں اور جو آپ سے پہلے انبیاء پر اترا، اس پر بھی اجمالاً ایمان لائیں ۔ ان اگلے انبیاء کرام میں سے بعض کے نام بھی لے دئے اور باقی نبیوں کا مجمل ذکر کر دیا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کسی نبی کے درمیان تفریق نہ کریں کہ ایک کو مانیں اور دوسرے سے انکار کر جائیں جو عادت اوروں کی تھی کہ وہ انبیاء میں تفریق کرتے تھے، کسی کو مانتے تھے، کسی سے انکاری تھے، یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں کو نہیں مانتے تھی۔ ان سب کو فتویٰ ملا کہ آیت (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا) 4۔ النسآء:151) یہ لوگ بالیقین کافر ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اہل کتاب توراۃ کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور عربی میں تفسیر کر کے اہل اسلام کو سناتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی سچائی یا تکذیب نہ کرو ۔ کہ دیا کہ اللہ پر اور اس کی نازل ہوئی کتابوں پر ہمارا ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں میں پہلی رکعت میں یہ آیت (اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا) 2۔ البقرۃ:136) پوری آیت اور دوسری رکعت میں آیت (اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ) 3۔ آل عمران:52) پڑھا کرتے تھے اسباط حضرت یعقوب کے بیٹوں کو کہتے ہیں، جو بارہ تھے، جن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے، بنی اسماعیل کو قبائل کہتے تھے، اور بنی اسرائیل کو اسباط کہتے تھے۔ زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ یہ حضرت یعقوب کے پوتے تھے جو ان کے بارہ لڑکوں کی اولاد تھی۔ بخاری میں ہے کہ مراد قبائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان میں بھی نبی ہوئے تھے جن پر وحی نازل ہوئی تھی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا آیت ( اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ) 5۔ المائدہ:20) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے۔ اور جگہ ہے آیت (وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا) 7۔ الاعراف:160) ہم نے ان کے بارہ گروہ کر دئے۔ سبط کہتے ہیں درخت کو یعنی یہ مثل درخت کے ہیں، جس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کل انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں سوائے دس کے نوح، ہود، صالح، شعیب، ابراہیم لوط، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، محمد علیہم الصلوۃ والسلام۔ سبط کہتے ہیں اس جماعت اور قبیلہ کو جن کا مورث اعلیٰ اوپر جا کر ایک ہو ۔ ابن ابی خاتم میں ہے ہمیں توراۃ و انجیل پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن عمل کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی ہے۔
Thursday, September 8, 2016
حج سے پہلے دعوت پہ دعوت کرنا
حج سے پہلے دعوت پہ دعوت کرنا
===============
آج کل اگر کوئی حج پہ آتا ہے اس کے تعلق سے اس وقت سماج ومعاشرہ میں کافی رسم ورواج اور بدعات وخرافات انجام دئے جاتے ہیں ۔ حج پہ آنے والے کو بہت سارے لوگ الگ الگ دن متعین کرکے اپنے گھربلاکر دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ،حاجی کی نظر میں وقار بناتے ہیں اور دوران سفر حج دعامیں یاد رکھنے کی گذارش کرتے ہیں ۔مستقبل میں حاجی کہے جانے والے بھی اکثر پورے گاؤں کو دعوت دیتے ہیں جس سے ان کے حج کا شہرہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر پھیل جاتاہے ۔
اگر ہم نبی ﷺ کا اور صحابہ کرام کا حج دیکھیں تو اس قسم کی روایات کا کہیں اتہ پتہ نہیں چلتا۔ یہ نوایجاد خرافات میں سے ہے بلکہ یہ کہہ لیں اس قسم کی دعوت سے ریا کا ظہور ممکن ہے جس کی وجہ سے حج مقبول ہونے کی بجائے ، غیرمقبول ومردود ہوجائے گا۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ کل قیامت میں عالم کو ، شہید کو، قاری کو اور خرچ کرنے والے کو جہنم میں صرف اس لئے پھینک دیا جائے گا کہ انہوں نے شہرت کے لئے عمل کیاتھا۔ اس لئے خدارا اپنے عمل کو اکارت ہونے سے بچائیں اور جس راستے سے بھی عمل میں ریا کا امکان نظر آئے اس راستے کو بند کردیں ۔ سفر کے وقت ملناجلنا کوئی حرج کی بات نہیں مگر پرتکلف باری باری گاؤں کے سبھی افراد کا دعوت کرنا حج جیسے اہم فریضے کے لئے نامناسب عمل ہے ۔ نیز گاؤں میں جس نے حاجی صاحب کی دعوت نہیں وہ حاجی صاحب اور دوسروں کی نظر میں معیوب اور دعوت کرنے والا معتبرومحترم بن جاتاہے ۔ گویا اس عمل سےدعوت نہ کرسکنے والے غریب ولاچار لوگوں کی توہین بھی ہوتی ہے۔
اگر کسی کو اللہ نے ضرورت سے زیادہ پیسہ دیا ہے تو وہ بھوکوں کو کھلائے ، اس پیسے کو غریب ومسکین میں صدقہ کرے اور دین اسلام کی سربلندی میں صرف کرے ۔
اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطافرمائے ۔ آمین
آپ کا خیرخواہ
مقبول احمد سلفی
===============
آج کل اگر کوئی حج پہ آتا ہے اس کے تعلق سے اس وقت سماج ومعاشرہ میں کافی رسم ورواج اور بدعات وخرافات انجام دئے جاتے ہیں ۔ حج پہ آنے والے کو بہت سارے لوگ الگ الگ دن متعین کرکے اپنے گھربلاکر دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ،حاجی کی نظر میں وقار بناتے ہیں اور دوران سفر حج دعامیں یاد رکھنے کی گذارش کرتے ہیں ۔مستقبل میں حاجی کہے جانے والے بھی اکثر پورے گاؤں کو دعوت دیتے ہیں جس سے ان کے حج کا شہرہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر پھیل جاتاہے ۔
اگر ہم نبی ﷺ کا اور صحابہ کرام کا حج دیکھیں تو اس قسم کی روایات کا کہیں اتہ پتہ نہیں چلتا۔ یہ نوایجاد خرافات میں سے ہے بلکہ یہ کہہ لیں اس قسم کی دعوت سے ریا کا ظہور ممکن ہے جس کی وجہ سے حج مقبول ہونے کی بجائے ، غیرمقبول ومردود ہوجائے گا۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ کل قیامت میں عالم کو ، شہید کو، قاری کو اور خرچ کرنے والے کو جہنم میں صرف اس لئے پھینک دیا جائے گا کہ انہوں نے شہرت کے لئے عمل کیاتھا۔ اس لئے خدارا اپنے عمل کو اکارت ہونے سے بچائیں اور جس راستے سے بھی عمل میں ریا کا امکان نظر آئے اس راستے کو بند کردیں ۔ سفر کے وقت ملناجلنا کوئی حرج کی بات نہیں مگر پرتکلف باری باری گاؤں کے سبھی افراد کا دعوت کرنا حج جیسے اہم فریضے کے لئے نامناسب عمل ہے ۔ نیز گاؤں میں جس نے حاجی صاحب کی دعوت نہیں وہ حاجی صاحب اور دوسروں کی نظر میں معیوب اور دعوت کرنے والا معتبرومحترم بن جاتاہے ۔ گویا اس عمل سےدعوت نہ کرسکنے والے غریب ولاچار لوگوں کی توہین بھی ہوتی ہے۔
اگر کسی کو اللہ نے ضرورت سے زیادہ پیسہ دیا ہے تو وہ بھوکوں کو کھلائے ، اس پیسے کو غریب ومسکین میں صدقہ کرے اور دین اسلام کی سربلندی میں صرف کرے ۔
اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطافرمائے ۔ آمین
آپ کا خیرخواہ
مقبول احمد سلفی
ان شاء الله
🌹نہا یت اهم مسئلہ🌹
بهت سے لوگ
✅ ان شاء الله✅
کے جملے کو اسطرح لکھتے ہیں،
❎ انشاء الله❎
جوکہ معنی کے اعتبار سے غلط ہے اس میسیج کے بعد امیدے کامل ہے که دوست واحباب اس فاش غلطی سے اجتناب کریں گے،
لفظ "انشاء" کا مطلب ہے
"تخلیق کیا گیا"
( پیدا کیا گیا)،
لیکن اگر لفظ "انشاءالله" کا مطلب دیکھا جائے تو وه یه ھے که
"الله کو تخلیق کیا گیا"
( نعوذبا الله)
تو اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ لفظ "انشاء" کو لفظ "الله" کے ساتھ لکھنا بالکل غلط ہے،
🌴 اسکے لئے قرآن کی کچھ آیات ہیں جن میں لفظ "انشاء" تنہا استعمال ہوا ہے،
👈١. وَهوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ⚪ (المومن، آیت٧٨)
👈٢. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّه یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیر⚪
(العنکبوت، آیت٢٠)
👈٣. إِنَّا أَنْشَأْنَاهنَّ إِنْشَاء⚪ ً(الواقعہ،آیت٣٥)
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ "انشاء" کے ساتھ کہیں "الله" نہیں لکھا گیا کیونکہ یہ لفظ الگ معنی رکھتا ہے،
لفظ "ان شاءالله" جسکا مطلب ہے" اگر الله نے چاہا"
لفظ "ان" کا معنی ہے "اگر"
لفظ "شاء" کا معنی ہے "چاہا"
لفظ "الله" کا مطلب "الله نے"
تو لفظ "ان شاءاللہ" ھی درست ہے جیساکہ آیات میں بھی واضح ہے،
👈١. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّه لَمُہْتَدُونَ⚪
(البقرہ،آیت٧٠)
👈٢. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّه آَمِنِین⚪َ
(یوسف،آیت٩٩)
👈٣. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا⚪
(الکہف، آیت٦٩)
👈4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه مِنَ الصَّالِحِین⚪َ
(القصاص،آیت٢٧)
📢ان آیات سے ثابت ہے که لفظ "ان شاءالله" کا مطلب ہے "اگر الله نے چاہا" تو ایسے لکھنا بالکل درست ہے،
💎اسکی مزید وضاحت کے لئے کچھ احادیث بھی ہیں جن سے ثابت ہے کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ اکرام بھی
"ان شاءالله" لکھتے آئے ہیں،
👈١. فَقَالَ لَه رَسُولُ اللَّه صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ الله 📕(صحیح بخاری،٤٠٧)
👈٢. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّه أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
📕 (صحیح مسلم،٢٩٥)
👈٣. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّه.
📕(سنن ابی داؤد،٤٢١)
👈٤. أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّه فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ. 📕(ترمذی،١٤٥١)
🌴عرب ممالک میں یہ لفظ درست لکھا جاتا ہے،
لیکن عجم ممالک جہاں عربی نہیں بولی جاتی جن میں پاکستان،ھندستان اور بنگلہ دیش وغیرہ شامل ھیں ان ممالک کے مسلمان کم علمی میں
❎"انشاءالله" ❎
لکھتے ہیں جوکہ مکمل طور پر غلط ہے،
اور اکثر ہم مشرقی مسلمان اپنے مسیجز اور چیٹ میں "انشاءالله"
لکھ دیتے ہیں،
📢تو اوپر کی ساری وضاحت سے ثابت ہوا که
✔"ان شاءالله" ✔
صحیح لفظ ہے، آئندہ ایسے ھی لکھئے اور الله (عزوجل) ہماری خطائیں معاف فرمائے "بےشک الله (عزوجل) ہی بخشش فرمانے والا ہے......دعاوؑ ں میں یاد ۔رکھیں۔۔۔۔۔۔۔
بهت سے لوگ
✅ ان شاء الله✅
کے جملے کو اسطرح لکھتے ہیں،
❎ انشاء الله❎
جوکہ معنی کے اعتبار سے غلط ہے اس میسیج کے بعد امیدے کامل ہے که دوست واحباب اس فاش غلطی سے اجتناب کریں گے،
لفظ "انشاء" کا مطلب ہے
"تخلیق کیا گیا"
( پیدا کیا گیا)،
لیکن اگر لفظ "انشاءالله" کا مطلب دیکھا جائے تو وه یه ھے که
"الله کو تخلیق کیا گیا"
( نعوذبا الله)
تو اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ لفظ "انشاء" کو لفظ "الله" کے ساتھ لکھنا بالکل غلط ہے،
🌴 اسکے لئے قرآن کی کچھ آیات ہیں جن میں لفظ "انشاء" تنہا استعمال ہوا ہے،
👈١. وَهوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ⚪ (المومن، آیت٧٨)
👈٢. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّه یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیر⚪
(العنکبوت، آیت٢٠)
👈٣. إِنَّا أَنْشَأْنَاهنَّ إِنْشَاء⚪ ً(الواقعہ،آیت٣٥)
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ "انشاء" کے ساتھ کہیں "الله" نہیں لکھا گیا کیونکہ یہ لفظ الگ معنی رکھتا ہے،
لفظ "ان شاءالله" جسکا مطلب ہے" اگر الله نے چاہا"
لفظ "ان" کا معنی ہے "اگر"
لفظ "شاء" کا معنی ہے "چاہا"
لفظ "الله" کا مطلب "الله نے"
تو لفظ "ان شاءاللہ" ھی درست ہے جیساکہ آیات میں بھی واضح ہے،
👈١. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّه لَمُہْتَدُونَ⚪
(البقرہ،آیت٧٠)
👈٢. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّه آَمِنِین⚪َ
(یوسف،آیت٩٩)
👈٣. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا⚪
(الکہف، آیت٦٩)
👈4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه مِنَ الصَّالِحِین⚪َ
(القصاص،آیت٢٧)
📢ان آیات سے ثابت ہے که لفظ "ان شاءالله" کا مطلب ہے "اگر الله نے چاہا" تو ایسے لکھنا بالکل درست ہے،
💎اسکی مزید وضاحت کے لئے کچھ احادیث بھی ہیں جن سے ثابت ہے کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ اکرام بھی
"ان شاءالله" لکھتے آئے ہیں،
👈١. فَقَالَ لَه رَسُولُ اللَّه صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ الله 📕(صحیح بخاری،٤٠٧)
👈٢. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّه أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
📕 (صحیح مسلم،٢٩٥)
👈٣. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّه.
📕(سنن ابی داؤد،٤٢١)
👈٤. أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّه فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ. 📕(ترمذی،١٤٥١)
🌴عرب ممالک میں یہ لفظ درست لکھا جاتا ہے،
لیکن عجم ممالک جہاں عربی نہیں بولی جاتی جن میں پاکستان،ھندستان اور بنگلہ دیش وغیرہ شامل ھیں ان ممالک کے مسلمان کم علمی میں
❎"انشاءالله" ❎
لکھتے ہیں جوکہ مکمل طور پر غلط ہے،
اور اکثر ہم مشرقی مسلمان اپنے مسیجز اور چیٹ میں "انشاءالله"
لکھ دیتے ہیں،
📢تو اوپر کی ساری وضاحت سے ثابت ہوا که
✔"ان شاءالله" ✔
صحیح لفظ ہے، آئندہ ایسے ھی لکھئے اور الله (عزوجل) ہماری خطائیں معاف فرمائے "بےشک الله (عزوجل) ہی بخشش فرمانے والا ہے......دعاوؑ ں میں یاد ۔رکھیں۔۔۔۔۔۔۔
اگر عید جمعہ کے دِن ہو عید کی نماز پڑہنے کے بعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے ***
*** اگر عید جمعہ کے دِن ہو عید کی نماز پڑہنے کے بعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے ***
::::: دلائل ::::: (١) ::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قَد اجتَمَعَ فی یَومِکُم ہذا عِیدَانِ فَمَن شَاء َ اَجزَاَہُ مِن الجُمُعَۃِ وَاِنَّا مُجَمِّعُونَ ::: تُم لوگوں کے آج کے دِن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں تو جو چاہے (عید کی نماز کے ذریعے ) جمعہ کو چھوڑے لیکن ہم دونوں نمازیں پڑہیں گے ))))) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٩ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
:::::دلیل ::::: (٢) ::::: اِیاس بن ابی رملۃ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' میں معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہما کے پاس تھا ، اُنہوں نے زید بن الاَرقم رضی اللہ عنہُ سے پوچھا ::: کیا تُم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دِن میں دو عیدیں دیکھی ہیں؟ (یعنی جمعہ کے دِن عید الفِطر یا عید الاَضحی )
زید رضی اللہ عنہُ نے کہا ::: جی ہاں :::
معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کِیا تھا ؟ ::: زید رضی اللہ عنہُ نے کہا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑہی اور پھر جمعہ کی نماز میں رُخصت ( نہ پڑہنے کی اجازت) دیتے ہوئے فرمایا ((((( مَن شَاءَ اَن یُصَلِّی فَلیُصَلِّ::: جو (جمعہ کی نماز) پڑہنا چاہے وہ پڑھ لے ( یعنی جو نہ چاہے وہ نہ پڑہے))))) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٦ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، سنن ابن ماجہ ، حدیث ١٣١٠ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ/ باب١٦٦، اِمام علی بن المدینی نے صحیح قرار دِیا ، بحوالہ ''' التلخیص الحبیر ''' اور اِمام الالبانی نے بھی صحیح قرار دِیا ،
:::::دلیل ::::: (٣) ::::: ایک دفعہ عید جمعہ کے دِن ہو گئی تو علی رضی اللہ عنہُ نے فرمایا ((((( مَن اَرادَ اَن یُجَمِّعَ فَلیُجَمِّع ، ومَن اَرادَ اَن یَجلِسَ فَلیَجلِس::: جو دونوں نمازیں پڑہنا چاہے تو پڑہے اور جو بیٹھنا چاہے تو بیٹھے))))) اِمام سفیان الثوری نے کہا اِس کا مطلب ہے کہ ''' جو( جمعہ نہ پڑھنا چاہے اور) اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے تو بیٹھے''' مصنف عبدالرزاق ،حدیث ٥٧٣١ / کتاب صلاۃ العیدین /باب ١٨ اجتماع العیدین ، مُصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث ٥٨٣٩ / کتاب الصلوات /باب ٤٣٣ فی العِیدانِ یَجتَمِعانِ یَجزِیءُ اِحدُھما مِن الآخر ، حدیث صحیح ہے ۔
:::::دلیل :::: (٤) ::::: عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور میں عید جمعہ کے دِن ہوئی تو اُنہوں نے صرف عید کی نماز اور جمعہ کی نماز کو جمع کر لیا اور جمعہ کی نماز نہیں پڑہی بلکہ عید کی نماز پڑہنے کے بعد (عصرکے وقت ) عصرکی نماز پڑہی ::::: سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٨ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
*** عید کی مُبارک باد ***
صحابہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو عید کی مُبارک باد کے طور پر کہا کرتے تھے :::
::: تَقَبَّلَ اللَّہ ُ مِنَّا و مِنکُم :::اللہ ہم سے اور تُم سے( ہمارے نیک عمل ) قُبُول فرمائے :::
’’’ ماہ شوال اور ہم ‘‘‘ کے مضامین میں اِس موضوع پر تفصیلی بات کر چکا ہوں
عید الاضحی ( قربانی والی عید) کے کچھ مسائل قربانی والے مضامین میں بیان کر چکا ہوں الحمد للہ ،۔
ان مضامین کو """ یہاں """ اور """ یہاں """ سے نازل کیا جا سکتا ہے ،
اور آن لائن مطالعہ کے لیے دیکھیے """ قُربانی کے اہم مسائل """
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق سننے سمجھنے قُبُول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
قربانی سے متعلقہ مضامین کو ان شاء اللہ اس فورمز میں بھی ارسال کر دیا جائے گا ،
والسلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ۔ طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تنهائی میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے نام
تنهائی میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے نام .......
**********
رونگٹے کھڑے کر دینے والی حدیث:
ثوبان رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا..
تو ثوبان رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا :-
اے اللہ کے رسول، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے، ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوں جائیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی) بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اِسلام ) میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو (یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے) لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ الله ﷻ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو اُنہیں اِستعمال کریں گے
سُنن ابن ماجہ /حدیث/4386 کتاب الزُھد /باب29، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا...
یا رب ہمیں پلک جھپکنے کی مقدار کے مطابق بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کر
آمین یا رب العالمین
**********
رونگٹے کھڑے کر دینے والی حدیث:
ثوبان رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا..
تو ثوبان رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا :-
اے اللہ کے رسول، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے، ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوں جائیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی) بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اِسلام ) میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو (یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے) لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ الله ﷻ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو اُنہیں اِستعمال کریں گے
سُنن ابن ماجہ /حدیث/4386 کتاب الزُھد /باب29، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا...
یا رب ہمیں پلک جھپکنے کی مقدار کے مطابق بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کر
آمین یا رب العالمین
مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ
مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ
======================
مقبول احمد سلفی
اس میں سب کا اتفاق ہے کہ زندہ پیدا ہوکر مرنے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ، اسی طرح اس بچے کی بھی نماز ادا کی جائے گی جس نے پیدائش کے وقت آواز نکالی ہو۔
اختلاف اس میں ہے کہ جو بچہ مرا ہوا پیدا ہوا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟
اختلافی پہلو سے بچتے ہوئے موضوع کا نچوڑ پیش کرتا ہوں ۔
اگر بچہ روح پھونکنے کے بعد یعنی چار ماہ کے بعد پیدا ہو تواسے غسل دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے قبر میں دفن بھی کیا جائے گا چاہے مرا ہوا پیدا ہو۔
دلیل :
والسقط يصلى عليه ، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة (رواه أبو داوود صححه الألباني في صحيح الجامع/3525) .
ترجمہ : ساقط شدہ (یعنی نامکمل حمل گر جانے والے بچے)كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور اس كے والدين كے ليے مغفرت و رحمت كى دعا كى جائيگى ۔
لیکن جوحمل ( بچہ ) چار ماہ سے پہلے گر جائے تو اسے نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی بلکہ اسے کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا کیونکہ اس میں روح ہی نہیں ۔
دلیل :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ(سنن الترمذی و ابن ماجہ)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
وجہ استدلال : چونکہ چار ماہ سے قبل بچے میں روح ہی نہیں ہوتی تو پھر زندگی کے آثار کہاں سے پائے جائیں گے ، اس لئے چار ماہ سے پہلے گرنے والے بچے کی نماز جنازہ نہیں ۔
چند علماء کا موقف:
(1)عبد اللہ كہتے ہيں كہ ميرے والد سے مولود كے متعلق دريافت كيا گيا كہ اس كى نماز جنازہ كب ادا كى جائيگى ؟
تو ان كا جواب تھا:اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى۔
كہا گيا: اگر وہ چيخ و پكار نہ بھى كرے تو پھر بھى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟
انہوں نے جواب ديا: جى ہاں۔
(مسائل امام احمد التى رواھا ابنھا عبد اللہ 2 / 482 ،مسئلہ نمبر : 673 ).
(2)شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں جب بچہ روح پھونکنے کے بعد ماں کے پیٹ سے مردہ پیدا ہو اسے غسل وکفن دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، دفن کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔(دائمی کمیٹی فتوی نمبر: 4884)
(3)شیخ صالح فوزان بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں ماں کے پیٹ سے حمل اگر چار مہینے یا اس سے زیادہ پہ ساقط ہو تو اسے غسل دیا جائے گا ، اسے کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کیونکہ اس میں روح پھونکی جاچکی ہے ۔ (فقہ العبادات)
واللہ اعلم
======================
مقبول احمد سلفی
اس میں سب کا اتفاق ہے کہ زندہ پیدا ہوکر مرنے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ، اسی طرح اس بچے کی بھی نماز ادا کی جائے گی جس نے پیدائش کے وقت آواز نکالی ہو۔
اختلاف اس میں ہے کہ جو بچہ مرا ہوا پیدا ہوا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟
اختلافی پہلو سے بچتے ہوئے موضوع کا نچوڑ پیش کرتا ہوں ۔
اگر بچہ روح پھونکنے کے بعد یعنی چار ماہ کے بعد پیدا ہو تواسے غسل دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے قبر میں دفن بھی کیا جائے گا چاہے مرا ہوا پیدا ہو۔
دلیل :
والسقط يصلى عليه ، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة (رواه أبو داوود صححه الألباني في صحيح الجامع/3525) .
ترجمہ : ساقط شدہ (یعنی نامکمل حمل گر جانے والے بچے)كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور اس كے والدين كے ليے مغفرت و رحمت كى دعا كى جائيگى ۔
لیکن جوحمل ( بچہ ) چار ماہ سے پہلے گر جائے تو اسے نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی بلکہ اسے کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا کیونکہ اس میں روح ہی نہیں ۔
دلیل :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ(سنن الترمذی و ابن ماجہ)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
وجہ استدلال : چونکہ چار ماہ سے قبل بچے میں روح ہی نہیں ہوتی تو پھر زندگی کے آثار کہاں سے پائے جائیں گے ، اس لئے چار ماہ سے پہلے گرنے والے بچے کی نماز جنازہ نہیں ۔
چند علماء کا موقف:
(1)عبد اللہ كہتے ہيں كہ ميرے والد سے مولود كے متعلق دريافت كيا گيا كہ اس كى نماز جنازہ كب ادا كى جائيگى ؟
تو ان كا جواب تھا:اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى۔
كہا گيا: اگر وہ چيخ و پكار نہ بھى كرے تو پھر بھى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟
انہوں نے جواب ديا: جى ہاں۔
(مسائل امام احمد التى رواھا ابنھا عبد اللہ 2 / 482 ،مسئلہ نمبر : 673 ).
(2)شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں جب بچہ روح پھونکنے کے بعد ماں کے پیٹ سے مردہ پیدا ہو اسے غسل وکفن دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، دفن کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔(دائمی کمیٹی فتوی نمبر: 4884)
(3)شیخ صالح فوزان بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں ماں کے پیٹ سے حمل اگر چار مہینے یا اس سے زیادہ پہ ساقط ہو تو اسے غسل دیا جائے گا ، اسے کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کیونکہ اس میں روح پھونکی جاچکی ہے ۔ (فقہ العبادات)
واللہ اعلم
کیا ہر شخص قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے
کیا ہر شخص قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟ نھیں۔
تو پھر تقلید کرو ( ایک شبہ اور اسکا جواب)
کچھ لوگ تقلید کو ضروری قرار دینے کے لئے عوام کے ذھن میں ایک وسوسہ یہ بھی ڈالتے ھیں کہ کیا ہر شخص قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
نھیں رکھتا ، جب ہر شخص خود سے قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت نھیں رکھتا تو اُسے کسی ایک امام کی تقلید کرنی ھی چاھئے۔
ہم کہتے ھیں بیشک ہر عام آدمی قران و حدیث خود سے نھیں پڑھ سکتا، لیکن یہ بتاؤ جناب کیا ھر شخص ائمہ کی کتب پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟ جس امام کی تقلید کو آپ ضروری قرار دے رھے ھو کیا اُس کی فقہ کی طرف منسوب کتابوں کو پڑھنے کی ہر عام آدمی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
جواب : نھیں ۔۔
تو پھر وہ ائمہ کی کتب پڑھے بغیر تقلید کیسے کر لیتا ھے ؟؟؟
علماء سے پوچھ کر ۔
تو بھیا علماء سے پوچھ کر وہ اتباع کیوں نھیں کر سکتا ؟؟؟
آخر وہ علماء سے یہی کیوں پوچھے کہ " حنفی فقہ کے مطابق یہ مسئلہ کیسا ھے "
وہ یہ کیوں نھیں پوچھ سکتا کہ حدیث رسول کے مطابق یہ مسئلہ کیسا ھے ؟
اور مولوی اسے حنفی فقہ کے مطابق ھی کیوں مسئلہ بتائے ؟ اگر حنفی قول کے خلاف زیادہ صحیح دلیل موجود ھو تو وہ فقہ حنفی کے خلاف مسئلہ کیوں نھیں بتا سکتا ؟؟؟
اسی لئے ہم کہتے ھیں کہ یہ محض ایک وسوسہ ھیکہ کیا ہر شخص قران حدیث پڑھ سکتا ھے۔۔حقیقت یہ ھیکہ وہ جس طرح علماء سے پوچھ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتا ھے اُسی طرح علماء سے پوچھ کر حدیث رسول کی بھی اتباع کر سکتا ھے۔
فقہ کے بھی ہم منکر نھیں ، فقہ کا اقرار ھے،فقہ کا احترام ھے ،لیکن وہ فقہ جو قران و حدیث کے مطابق ھو۔ وہ فقہ نھیں کہ جس کے بیشتر مسائل قران و صحیح حدیث سے ٹکراتے ھوں
تو پھر تقلید کرو ( ایک شبہ اور اسکا جواب)
کچھ لوگ تقلید کو ضروری قرار دینے کے لئے عوام کے ذھن میں ایک وسوسہ یہ بھی ڈالتے ھیں کہ کیا ہر شخص قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
نھیں رکھتا ، جب ہر شخص خود سے قران و حدیث پڑھنے کی صلاحیت نھیں رکھتا تو اُسے کسی ایک امام کی تقلید کرنی ھی چاھئے۔
ہم کہتے ھیں بیشک ہر عام آدمی قران و حدیث خود سے نھیں پڑھ سکتا، لیکن یہ بتاؤ جناب کیا ھر شخص ائمہ کی کتب پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟ جس امام کی تقلید کو آپ ضروری قرار دے رھے ھو کیا اُس کی فقہ کی طرف منسوب کتابوں کو پڑھنے کی ہر عام آدمی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
جواب : نھیں ۔۔
تو پھر وہ ائمہ کی کتب پڑھے بغیر تقلید کیسے کر لیتا ھے ؟؟؟
علماء سے پوچھ کر ۔
تو بھیا علماء سے پوچھ کر وہ اتباع کیوں نھیں کر سکتا ؟؟؟
آخر وہ علماء سے یہی کیوں پوچھے کہ " حنفی فقہ کے مطابق یہ مسئلہ کیسا ھے "
وہ یہ کیوں نھیں پوچھ سکتا کہ حدیث رسول کے مطابق یہ مسئلہ کیسا ھے ؟
اور مولوی اسے حنفی فقہ کے مطابق ھی کیوں مسئلہ بتائے ؟ اگر حنفی قول کے خلاف زیادہ صحیح دلیل موجود ھو تو وہ فقہ حنفی کے خلاف مسئلہ کیوں نھیں بتا سکتا ؟؟؟
اسی لئے ہم کہتے ھیں کہ یہ محض ایک وسوسہ ھیکہ کیا ہر شخص قران حدیث پڑھ سکتا ھے۔۔حقیقت یہ ھیکہ وہ جس طرح علماء سے پوچھ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتا ھے اُسی طرح علماء سے پوچھ کر حدیث رسول کی بھی اتباع کر سکتا ھے۔
فقہ کے بھی ہم منکر نھیں ، فقہ کا اقرار ھے،فقہ کا احترام ھے ،لیکن وہ فقہ جو قران و حدیث کے مطابق ھو۔ وہ فقہ نھیں کہ جس کے بیشتر مسائل قران و صحیح حدیث سے ٹکراتے ھوں
Subscribe to:
Posts (Atom)